تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ فاطر - تعارف
تعارف
١۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق یہ سورة سابق سورة ۔ سورة سبا۔ کی توام سورة ہے اس وجہ سے دونوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس کا بھی اسل مضمون توحید ہی ہے۔ اس کا آغاز خدا کی حمت کے اثبات اور فرشتوں کی الوہیت کے تصور کے ابطال سے ہوا ہے۔ پھر توحید ہی کے تحت رسالت و معاد سے متعلق وہ باتیں بیان ہوئی ہیں جو مقصد انذار کے پہلو سے ضروری اور سورة کے مزاج اور اس کے زمانہ نزول سے مناسب رکھنے والی ہیں۔ پچھلی سورة میں، یاد ہوگا، جنوں اور ملائکہ کی الوہیت کے تصور کا ابطال فرمایا ہے۔ اس سورة میں ملائکہ کی الوہیت کے تصور کی تردیدنسبتہً زیادہ واضح الفاظ میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین عرب کے مزعومہ معبودوں میں سب سے زیادہ اہمیت فرشتوں ہی کو حاصل تھی۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ (١۔ ٣) شکر کا حقیقی سزاوار اللہ ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسی نے فرشتوں کو بھی وجود بخشا ہے اور ان کو، اپنی حکمت کے مطابق، جن صلاحیتوں اور قوتوں سے چا ہے بہرہ مند کیا ہے۔ ان کو بذات خود کوئی اختیار و اقتدار حاصل نہیں ہے۔ تمام رزو و فضل خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ بخشنا چاہے تو کوئی اس کی بخشش کر روک نہیں سکتا اور روکنا چاہے تو کوئی اس سے دلوا نہیں سکتا۔ پس عبادت کا اصلی حقدار وہی ہے۔ اس کے سوا دوسروں کی پوجا محض جہالت و حماقت ہے۔ (٤۔ ٨) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ اگر تمہاری قوم کے لوگ تمہاری تکذیب کر رہے ہیں تو اپنی پیشرو قوموں کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں اور وہ لازماً اسی انجام سے دور چار ہوں گے جس سے وہ دو چار ہوئیں۔ ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں کھبا دیے گئے ہیں اور یہ اللہ کے قانون کی زد میں آچکے ہیں تو ان کے غم میں اپنے کو گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوال کرو۔ قریش کو انداز کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز سے تم کو ڈرا رہا ہے وہ ایک امر شدنی ہے تو اپنی موجودہ دنیوی کامیابیوں سے کسی دھوکے میں نہ رہو اور شیطان کے پھندوں میں نہ پھنسو، وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے تو اپنے دشمن کو دشمن ہی سمجھو۔ بڑا ہی نادان ہے وہ جو اپنے دشمن کو دوست بنا بیٹھے۔ (٩۔ ١٠) حشرو نشر کی ایک واضح دلیل کی طرف اشارہ اور یہ تنبیہ کہ جو حشر کے دن خدا کے ہاں تقریب کا طالب ہو وہ جھوٹے سہاروں پر زندگی نہ گزارے۔ اس دن فرضٰ دیویوں دیوتائوں کے بل پر کسی کو تقریب حاصل نہیں ہوگا۔ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز کلمہ طیبہ۔ کلمہ توحید۔ ہے اور اس کلمہ طیبہ کو بلندی عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے۔ جس کو آخرت کی عزت مطلوب ہو وہ ایمان و عمل صالح کی راہ اختیار کرے۔ اس سے ہٹ کر جو راہیں نکالی گئی ہیں وہ سب فریبِ نفس کی راہیں ہیں اور ان کا انجام ابدی تباہی ہے۔ (١١۔ ١٨) مال و اولاد اور رزق و فضل خدا کا عطیہ ہیں۔ عمر کی زیادتی و کمی خدا کے اختیار میں ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی کسی دوسرے کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس کائنات کے اضداد میں جو توافق ہے وہ اس بات کی کھلی ہوئی شہادت ہے کہ اس میں ایک ہی خدائے قادر وقیوم کی ارادہ کارفرما ہے۔ اس کے سوا جن کو معبود بنایا گیا ہے نہ ان کو کوئی اختیار حاصل ہے اور نہ وہ قیامت کے روز کسی کے کچھ کام آنے والے بنیں گے۔ لوگوں کو یہ تنبیہ کہ تمہیں اصل حقیقت سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ اگر تم نے اس کی قدرنہ کی تو اپنا ہی بگاڑو گے خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ خدا تمہارا محتاج نہیں ہے کہ بلکہ تمہی خدا کے محتاج ہو۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ تمہاری دعوت انہی لوگوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے جن کے اندر زندگی کی کچھ رق ہے جو بالکل مردی ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ ان کے لئے جو انجام مقدر ہوچکا ہے وہ اسی سے دوچار ہوں گے۔ (١٩۔ ٢٨) ایمان لانے اور نہ لانے والوں کی تفصیل اور اس کائنات میں جو اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے اس کی حکمت کی طرف اشارہ کہ جس طرح اس میں اللہ نے نورد ظلمت کو پیدا کیا ہے اور ان دونوں کی خلقت حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اسی طرح ایمان و کفر کا یہ تصادم بھی خدا کی حکمت پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ سب ایمان سے بہرہ مند ہوجائیں گے۔ ایمان صرف وہی لائیں گے جن کے اندر علم و معرفت کی روشنی اور اس کی قدر ہے۔ (٢٩۔ ٣٨) ان علمائے اہل کتاب کی تحسین و حوصلہ افزائی جو تمام بگاڑ اور فساد کے باوجود اللہ کی کتاب پر قائم ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کہ جس طرح ان کو تورات پر قائم رہنے کی سعادت حاصل ہوئی اسی طرح قرآن پر بھی ایمان لانے کی ان کو سعادت حاصل ہوگی اس لئے کہ یہ انہی پیشن گوئیوں کا مصداق ہے جو اس کی بابت تورات اور دوسرے صحیفوں میں وارد ہوئی ہے۔ تورات کے بعد اس قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے امیوں پر عظیم احسان فرمایا ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس نے ان کو دنیا کی امامت بخشی ہے بشرطیکہ وہ اس کی قدر کریں۔ پھر فرمایا کہ اگرچہ ان میں ناقدرے اور ناشکرے بھی ہیں لیکن ساتھ ہی ان میں معقولیت پسند اور نیکی کی راہوں میں سبقت کرنے والے بھی ہیں۔ اس طرح کے لوگ اس پر ایمان لائیں گے رہے وہ لوگ جو اس نعمت کی ناقدری کریں گے تو وہ اس انجام سے دو چار ہوں گے جو اس طرح کے لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں مقدر ہے۔ (٣٩۔ ٤١) قریش کو تہدید و وعید کہ تم دنیا میں پہلی قوم نہیں ہو بلکہ پچھلی قوموں کے جانشین ہو اس وجہ سے خدا نے جس میزانِ عدل سے ان کو تولا کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس سے تم کو نہ تولے۔ خدا کے ہاں الگ الگ ترازو اور الگ الگ باٹ نہیں ہے بلکہ سب کے لئے ایک ہی میزن ہے۔ تمہاری سرکشی کے باوجود خدا جو ڈھیل تمہیں دے رہا ہے اس کو اپنی کامیابی نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے خسارہ میں اضافہ ہے۔ خدا حلیم و غفور ہے اس وجہ سے تمہیں مہلت دے رہا ہے لیکن جب وہ پکڑے گا تو تمہارے یہ فرضی دیوی دیوتا تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ آسمان و زمین خدا کے تھامے تھمے ہوئے ہیں تمہارے ان دیوتائوں نے ان کو نہیں تھام رکھا ہے۔ (٤٢۔ ٤٥) قریش کو یہ یاددہانی کہ رسول کی بعثت سے پہلے تو تم اس ولولہ کا اظہار کرتے تھے کہ اگر تمہارے اندر کسی رسول کی بعثت ہوئی تو تم دنیا کی سب سے زیادہ ہدایت یافتہ قوم بنو گے لیکن جب رسول آیاتو رات دن اس کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہو اور خدا کے اسی قہر کو دعوت دے رہے ہو جو رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر ہمیشہ نازل ہوا۔ یاد رکھو کہ اگر خدا کسی قوم کو فوراً پکڑنا چاہے تو کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا لیکن اس نے ہر قوم کے فیصلہ کے لئے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے۔ مطالب کے اس تجزیہ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی اس سورة کا اندرونی نظام اور سابق سورة سے اس کا تعلق بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ اب اللہ کا نام لے کر ہم سورة کی تفسیر شروع کرتے ہیں۔ وبید اللہ ولتوفیق وھو الھادی الی الصواب۔
Top