تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ يس - تعارف
تعارف
سورة یس ١۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق سورة یس اور گروپ کی پچھلی دونوں سورتوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پچھلی سورتوں میں توحید امعاد اور رسالت کے جو مطالب زیر بحث آئے ہیں انہی پر اس میں بھی بحث ہوئی ہے۔ البتہ تفصیل و اجمال اور نہج استدلال کے اعتبار سے فرق ہے۔ پچھلی سورة بعض مطالب اس میں تاریخی اور فطری دلائل سے اچھی طرح محکم و مدلل کردیے گئے۔ اس کا آغاز اثباتِ رسالت کے اسی مضمون سے ہوا ہے جس پر سابق سورة تمام ہوئی ہے۔ اور فلسفہ دین کے نقطہ نظر سے غور کیجئے تو یہ حقیقت بھی واضح طور پر نظر آئے گی کہ اس کی بنیاد بھی، پچھلی سورتوں کی طرح، شکر اور اس کے مقتضیات ہی پر ہے۔ آگے ہم سورة کے مطالب کا تجزیہ پیش کرتے ہیں جس سے اس کا عمود اور نظام انشاء اللہ اچھی طرح واضح ہوجائے گا۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ (١۔ ١٢) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات اور آپ کو تسلی کہ یہ پر حکمت قرآن خود اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ یہ قرآن، خدائے عزیز و رحیم کی طرف سے، ان لوگوں پر ایک عظیم احسان ہے جو اب تک خدا کی تعلیم و ہدایت سے بالکل محروم ضلالت میں بھٹک رہے تھے۔ یہ محض ان کی بدقسمتی ہے کہ استکبار کے سبب سے یہ اس کو جھٹلا رہے ہیں۔ ان کی پچھلی روایات اور ان کی مستقبل کی آرزوئیں ان کے لئے حجاب بنی ہوئی ہیں اس وہ سے نہ یہ ماضی سے کوئی سبق لے رہے ہیں اور نہ مستقل کا کچھ دھیان کر رہے ہیں۔ آپ ایسے بےفکروں کے لئے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ جو خدا سے ڈریں اور نصیھت کو سنیں ان کو مغفرت اور اجرِ عظیم کی بشارت دیجئے۔ جو یہیں سنتے ان کا معاملہ ہمارے حوالے کیجئے۔ ان کا اگلہ پچھلا سب ہمارے رجسڑ میں درج ہے۔ ہم ان سے نمٹ لیں گے۔ (١٣۔ ٣٢) قریش کی عبرت کے لئے ایک بستی کی مثال جس کے باشندوں کے انداز کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو رسول بھیجئے جب انہوں نے ان کی نہیں سنی تو اللہ نے ایک تیسرے بندے کو ان رسولوں کی تائید کے لئے اٹھایا۔ لیکن انہوں نے اس کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔ ان کی تنبیہ کے لئے اس دوران میں جو نشانیاں ظاہر ہوئیں لوگوں نے ان کو ان رسولوں کی نحوست قرار دیا اور اس جرم میں ان کو سنگسار کردینے کی دھمکی دی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے اس بستی کو ہلاک کردیا۔ (٣٣۔ ٤٤) اس کائنات میں خدا کی قدرت، حکمت، پروردگاری اور رحمت کو جو نشانیاں ہیں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ اور اس امر کا بیان کہ یہ ساری نشانیاں اللہ تعالیٰ کے شکر کو واجب کرتی ہیں جس کا لازمی تقاضا توحید ہے اور ساتھ ہی یہ حشر و نشر اور جزاء و سزا کو مستلزم ہیں۔ (٤٥۔ ٥٠) اس امر کیا بیان کہ جب لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کی راہ میں انفاق کی دعوت دی جاتی ہے تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جن کو خدا نے اپنے فضل سے محروم رکھا ہم اپنا مال ان پر کیوں خرچ کریں ! انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کو جب عذاب لانا ہوگا تو اس کے لئے اسے کوئی تیاری نہیں کرنی پڑے گی بلکہ وہ چشم زدن میں آجائے گا جس کے بعد کسی کو لب ہلانے کی فرصت نصیب نہیں ہوگی۔ (٥١۔ ٦٥) قیامت کی تصویر اور اس دن ایمان لانے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کا جو حال ہوگا اس کی تفصیل۔ (٦٦۔ ٦٨) عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ تنبیہ کہ سمع و بصر کی جو صلاحیتیں خدا نے بخشی ہیں ان سے فائدہ اٹھائو اور اپنی عقل سے کام لو۔ اگر ان صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھایا یا تو خدا ان کو مسخ بھی کرسکتا ہے اور یہ کام خد ا کے لئے ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ (٦٩۔ ٨٣) خاتمہ سورة جس میں ابتدائے سورة کے مضمون کو ایک نئے اسلوب سے لیا ہے۔ توحید اور قیامت کی بعض نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ تمہارا کام زندوں کو جگانا ہے۔ جو لوگ اخلاقی اعتبار سے مردہ ہوچکے ہیں ان پر تمہارا کلام کارگر نہیں ہوسکتا۔
Top