تعارف
ا ۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق
یہ سورة ، سابق سورة ق … کی مثنیٰ ہے۔ سورة ق کی تفسیر میں آپ نے دیکھا کہ ان لوگوں کو جواب دیا گیا ہے جو قرآن کے اس دعوے کو بعید از امکان قرار دیتے تھے کہ لوگ مرنے کے بعد از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ اس سورة میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر قرآن کے انداز عذاب کو بھی ثابت کیا گیا ہے اور جزاء و سزا کو بھی۔ سورة کا عمود اس کی تمہید ہی میں ان الفاظ سے واضح فرما دیا گیا ہے۔ انما توعدون لصادق وان الدین لواقع (بےشک جو وعید تم کو سنائی جا رہی ہے وہ بالکل سچی ہے اور جزاء و سزا لازماً واقع ہو کے رہے گی۔ )
خطاب قریش کے مکذبین ہی سے ہے اور استدلال کی بنیاد تمام تر آفاق وانفس کے دلائل پر ہے۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سورة میں بھی اسی طرح تسلی دی گی ہے جس طرح سابق سورة میں دی گئی ہے۔
ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ
(14-1) ہوائوں کے عجائب تصرفات اور سرما کے دھاریوں والے بادلوں کے حوالہ سے ان غفلت کے ماتوں کو انذار جو قرآن کی وعید عذاب اور اس کے وعدہ جزاء و سزا کا مذاق اڑاتے اور بانداز استہزاء مطالبہ کر رہے تھے کہ جس جزاء و سزا کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے وہ کہاں ہے، اس کو لایا کیوں نہیں جاتا ! ا نلوگوں کو تنبیہ کہ پیغمبر کی تکذیب کی صورت میں جس عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے وہ بھی ای کیح قیقت ہے۔ اور جس روز جزاء و سزا سے آگاہ کیا جا رہا ہے وہ بھی ایک امر واقعی ہے۔ ان میں شک وہی لوگ کر رہے ہیں جن کی عقلیں الٹ گئی ہیں۔ اس دن کے لئے جلدی مچانے والے عنقریب اس کا مزا چکھیں گے۔ اس دن ان سے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ ددن جس کے لئے تم جلدی مچائے ہوئے تھے !
( 19-15) ان خدا ترسوں کے صلہ کا بیان جو غفلت کی سرمستویں میں کھوئے رہنے کے بجائے نماز استغفار اور انفاق کے ذریعہ سے اس دن کے لئے برابر تیاریوں میں سرگرم رہے۔
(23-20) جزاء و سزا کی جو نشانیاں زمین و آسمان اور آفاق وانفس میں موجود ہیں ان کی طرف اشارہ اور آخر میں اصل دعوے کا بقیہ قسم اعادہ کہ جس طرح لوگوں کے لئے ایک لفظ کا بول دینا نہایت آسان ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے لئے اس دنیا کو اس کے فنا ہوجانے کے بعد از سر نو زندہ کردینا نہایت آسان ہے۔
(37-24) ٖ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور قوم لوط کے واقعہ کی طرف اشارہ کہ جو فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ایک ذی علم فرزند کی بشارت لے کر آئے وہی فرشتے قوم لوط کے لئے عذاب کا تازیانہ لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فنا کردیا جنہوں نے حضرت لوط کی تکذیب کی اور ان لوگوں کو نجات بخشی جو ان پر ایمان لائے۔ یہ اس بات کی تاریخی شہادت ہے کہ اس کائنات کا خالق جزا اور سزا دینے والا ہے اور اس کے اس قانون مکافات کی ایک نشانی قوم لوط کی سر زمین میں موجود ہے جس سے وہ لوگ عبرت حاصل کرسکتے ہیں جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔
(46-38) فرعون، عادہ ثمور اور قوم نوح کے واقعات کی طرف ایک اجمالی اشارہ کہ ان قوموں نے بھی مکافات عمل کے قانون سے بےپروا ہو کر زندگی گزاری اور اپنے رسولوں کے انذار کی کوئی پروا نہ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت قاہرہ سے سب کو تباہ کردیا۔ اس کے لئے اس کو کوئی اہتمام نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کی ہوائوں اور اس کے بادلوں نے ہی ان سب کا ستھرائو کر کے رکھ دیا۔
(60-47) خاتمہ سورة جس میں پوری سورة کا مضمون سمیٹ دیا گیا ہے کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور جس نے ہر چیز جوڑے جوڑے پیدا کی ہے اس کے لئے دنیا کو از سر نو پیدا کردینا ذرا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ جزاء و سزا شدنی ہے اور سب کی پیشی خدا ہی کے آگے ہونی ہے تو خدا ہی کی طرف بھاگو۔ اس کے سوا کسی اور سے لو نہ لگائو۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسللی دی گئی ہے کہ تم سے پہلے جتنے بھی رسول آئے سب ہی کے ساتھ ان کی قوموں نے یہی سلوک کیا جو تمہاری قوم تمہارے ساتھ کر رہی ہے۔ تو ان سرکشوں کو ان کے حال پر چھوڑو۔ صرف ان لوگوں کو یاد دہانی کرو جو یاد دہانی سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہ اطمینان رکھو کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ نہ دوسروں کی رزق رسانی کی ذمہ داری ان پر ڈالی ہے اور نہ میں اس بات کا حاجتمند ہوں کہ لوگ مجھے کھلائیں۔ میں خود سب کا روزی رساں اور بڑی قوت و طاقت رکھنے والا ہوں۔ میرے جو بندے میری بندگی کا حق ادا کرنے کے لئے سب سے بےنیاز ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے ان کی کفالت اور نصرت کے لئے میں کافی ہوں۔ دوسرے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ رہے یہ ظالم لوگ تو اس دنیا میں سے ان کا جو حصہ مقدر ہے وہ پائیں گے۔ ان کے جلدی مچانے کے سبب سے اللہ تعالیٰ ان کو اس مہلت سے محروم نہیں کرے گا جو اتمام حجت کے لئے ضروری ہے، لیکن بالآخر ان کو اسی دن سے سابقہ پیش آنا ہے جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے۔