تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ النجم - تعارف
تعارف
ا۔ سورة کا عمود اور سابق سے تعلق یہ سورة سابق سورة الطور کی توام سورة ہے۔ مرکزی مضمون دونوں کا ایک ہی ہے۔ یعنی جزا اور سزا کا اثبات۔ بس یہ فرق ہے کہ سابق سورة میں عذاب کے پہلو کو نمایاں فرمایا ہے اور اس میں اس شفاعت باطل کی تردید ہے جس میں مشرکین عرب مبتلا تھے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ پچھلی سورتوں میں ہم واضح کرچکے ہیں، یہ ہے کہ اس عقیدہ باطل کے باقی رہتے ہوئے مشرکین کے لیے بڑے سے بڑے عذاب کی دھمکی بھی بالکل بےاثر تھی۔ قرآن نے اسی وجہ سے قیامت اور توحید دونوں کا ذکر ہمیشہ ساتھ ساتھ کیا ہے تاکہ مشرکین کے لیے کوئی راہ فرار باقی نہ رہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ پچھلی سورة میں بھی ہے، اس سورة میں اس اشارہ کی پوری وضاحت ہوگئی ہے۔ گویا ان دونوں سورتوں کا مشترک مضمون یہ ہے کہ منکرین و مکذبین کے لیے اللہ کا عذاب لازمی ہے، اپنے جن معبودوں کی شفاعت پر یہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں اول تو ان کی کوئی حقیقت نہیں، محض فرضی نام ہیں جو انہوں نے رکھ چھوڑے ہیں اور اگر کچھ حقیقت ہے تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ لوگوں کے ساتھ کامل علم اور کامل عدل پر مبنی ہوگا۔ اس بات کا وہاں کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی کی شفاعت اس کے علم میں کوئی اضافہ کرسکے، یا اس کے فیصلہ کو تبدیل کر کے یا باطل کو حق بنا سکے۔ عمود اور مضمون کے علاوہ سابق سورة کے خاتمہ اور اس سورة کے آغاز پر بھی ایک نظر ڈالیے تو دونوں میں بڑی واضح مناسبت نظر آئے گی۔ سورة طور کی آخری آیت ( ومن الیل فسبحہ وادبادالنجوم) ہے اور اس سورة کی پہلی آیت (والنجم اذا ھوی) ہے، گویا سابق سورة کی آخری اور اس سورة کی پہلی آیت نے دونوں میں ایک نہایت خوبصورت حلقہ اتصال کی شکل پیدا کردی ہے، اس قسم کا اتصال اکثر مقامات میں موجود ہے۔ بعض جگہ لفظی، بعض جگہ معنوی اور بعض مقامات میں لفظی اور معنوی دونوں قسم کا اس قسم کی بعض چیزوں کی طرف ہم نے پچھلی سورتوں میں اشارے کیے ہیں۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ (١۔ ٨) اس امر کا بیان کہ یہ قرآن جو تم کو سنایا جا رہا ہے یہ تمہارے کاہنوں اور نجومیوں کے قسم کا کوئی کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب ترین اور معتمد ترین فرشتہ کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر پر وحی فرمایا ہے۔ اس میں کسی ضلالت یا غوایت کا کوئی شائبہ نہیں ہے، بلکہ اس کی ہر بات مبنی پر حقیقت اوائل ہے۔ اس مغالطہ میں نہ رہو کہ وحی اور جبرئیل ( علیہ السلام) سے متعلق پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جو مشاہدات و تجربات تمہارے ساتھ پیش کر رے ہو وہ کسی خیال آرائی یا فریب نظر پر مبنی ہیں۔ یہ سر تا سر حقیقت ہیں۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مشاہدات تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں۔ ان مشاہدات کے باب میں ان سے لڑنے کے بجائے تمہاری سلامتی ان کی دعوت پر ایمان لانے میں ہے۔ (١٩۔ ٢٨) مشرکین کو یہ تنبیہ کہ تمہارے یہ خیالی اصنام، جن کے بل پر تم قرآن کے انداز سے بےپروا ہو، بالکل بےحقیقت ہیں، نہ اللہ نے ان کے حق میں کوئی دلیل اتاری اور نہ تمہاری عقل و فطرت ہی کے اندر ان کے لیے کوئی جگہ ہے۔ یہ محض فرضی نام ہیں جو تم نے اپنے جی سے رکھ چھوڑے ہیں۔ حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور مفروضات حقیقت کے مقابل میں کچھ کام آنے والے نہیں بنیں گے، بالخصوص جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تمام کردینے کے لیے تمہارے پاس اس کی نہایت واضح ہدایت بھی آچکی ہے۔ یاد رکھو کہ تم نے جھوٹی آرزوئوں کے جو خیالی محل تعمیر کر رکھے ہیں یہ بالکل بےبنیاد ہیں۔ انسان کو سابقہ اپنی تمنائوں سے نہیں بلکہ حقائق سے پیش آئے گا تو حقائق کے مواجد کے لیے تیاری کرو۔ دنیا اور آخرت کے سارے معاملات صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ ان میں کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ آسمانوں میں بیشمار فرشتے ہیں لیکن ان کی سفارش ذرا بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہوگی۔ اللہ ہی جس کو چاہے گا اور جس کے لیے چاہے گا سفارش کی اجازت دے گا۔ آخرت کی مسئولیت اور قانون مکافات سے گریز کے لیے تم نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بنا کر ان کی شفاعت کی جو آڑ کی ہے یہ محض تمہاری خیالی پناہ گاہ ہے، یہ چیز ذرا بھی کام آنے والی نہیں ہے۔ (٢٩۔ ٣٢) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ ان سرگشتگان دنیا کو، جو اللہ کی یاددہانی سے اعراض کر رہے ہیں۔ ان کے حال پر چھوڑو۔ ان کے علم کی رسائی بس یہیں تک ہے۔ آخرت سے ان کی آنکھیں بند ہیں۔ اللہ نیکوں اور بدوں دونوں سے اچھی طرح باخبر ہے، وہ ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے کے رہے گا۔ آسمانوں اور زمین کا بلا شرکت غیرے مالک اللہ ہی ہے، کسی کی مجال نہیں کہ بروں کو اس کی پکڑ سے بچا سکے یا نیکوں کو ان کی نیکی کے صلہ سے محروم کرسکے۔ خدا کے ہاں اچھے صلہ کا حق دار ہر مدعی نہیں ہوگا بلکہ وہی ہوں گے جو بڑے گناہوں اور کھیل بےحیائیوں سے اجتناب کرتے رہے۔ یہ لوگ بیشک اس کی رحمت کے حق دار ہوں گے، اگر کبھی ان کے پائوں کسی برائی پر پڑگئے تو اللہ کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے۔ وہ ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے گا، رہے وہ بر خود غلط جنہوں نے اپنے حسب و نسب اور اپنے خیالی معبودوں کی سفارش کے بل پر اپنے لیے خدا کے ہاں اونچے اونچے مراتب محفوظ کر رکھے ہیں، وہ اپنی پاک دامنی کی حکایت زیادہ نہ بڑھائیں۔ اللہ ان کی پیدائش کے تمام مراحل اور ان کے سارے اعمال سے اچھی طرح واقف ہے۔ (٣٣، ٥٥) ایک تحقیر آمیز اشارہ ان لوگوں کی طرف جو اللہ کی راہ میں کچھ دینے دلانے یا کسی قربانی کا حوصلہ تو ذرا بھی رکھتے لیکن اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر نبیوں کے نام لیوا اور ان کی ذریت میں ہیں اس وجہ سے خدا کی جنت کے پیدائشی حق دار ہیں۔ ان کو ان جلیل القدر نبیوں کی تعلیمات اور ان کی عظیم قربانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ مرتبے ان کے گھر بیٹھے بٹھائے محض نسب و خاندان کی بناء پر نہیں مل گئے بلکہ ان کی ان بےمثال قربانیوں کی بناء پر ملے جو انہوں نے اللہ کی راہ میں پیش کیں۔ اللہ کے ہاں ہر ایک کا اپنا عمل تو لاجائے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ عمل تو کسی نے کیا اور اس کا صلہ کسی اور کو ملے۔ اسی ضمن میں یہ حقیقت بھی نہایت زور وار الفاظ میں واضح فرما دی گئی ہے کہ رنج و راحت، موت و زندگی، بیٹا اور بیٹی، دولت و ثروت سب خدا ہی کے اختیار میں ہے، اس وجہ سے ہر حال میں خدا ہی سے وابستہ رہنا چاہیے۔ جو قومیں دنیا میں پھنس کر خدا سے بےپرواہ ہوجاتی ہیں وہ اپنی تمام دولت و شوکت کے باوجود اس طرح کے انجام سے دو چار ہوتی ہیں جس طرح کے انجام سے عاد وثمود اور ماضی کی دوسری قومیں دو چار ہوئیں۔ ان قوموں کے آثار تمہارے گرد و پیش میں موجود ہیں، ان کو دیکھو اور ان سے عبرت حاصل کرو۔ (٥٦، ٦٢) خاتمہ سورة جس میں تمہید کے مضمون یعنی قرآن کی عظمت کی یاددہانی ہے کہ یہ کاہنوں اور نجومیوں کے قسم کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ اسی طرح کا ایک نذیر ہے جس طرح کے نذیر اس سے پہلے آ چکے ہیں۔ اب تمہارے فیصلہ کی گھڑی سر پر آچکی ہے اور یہ تم کو اسی سے بر وقت تنبیہ رکنے کو نازل ہوا ہے، اگر تم متنبہ نہ ہوئے تو یاد رکھو کہ خدا کی پکڑ سے تم کو کوئی بھی بچانے والا نہیں بنے گا۔ یہ جس حقیقت سے آگاہ ہے اس پر تعجب نہ کرو، بلکہ اپنی اصلاح کرو۔ تم اس پر ہنستے ہو حالانکہ یہ ہنسنے کی چیز نہیں بلکہ تمہارے لیے یہ رونے کی چیز ہے، اپنے غفلت کے بستر لپیٹو اور اپنے رب کے آگے سجدہ اور اس کی بندگی کرو۔
Top