تعارف
تدبر قرآن۔۔۔ ٦٤۔۔۔۔ التغابن۔۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ ا۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق
سابق سورة ۔۔ المنافقون۔۔ اس تنبیہ پر ختم ہوئی ہے کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر اللہ کی اد اور اس کے حقوق سے غافل نہ ہونا بلکہ جو رزق و فضل اس نے بخشا ہے اس میں آخرت کے لیے کمائی کرلو۔ ورنہ جب موت کی گھڑی آجائے گی تو غفلت کرنے والے حسرت سے کہیں گے کہ کاش اللہ تعالیٰ ان کو تھوڑی سی مہلت دیتا تو وہ اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کر کے کچھ نیکی کی کمائی کرلیتے لیکن ان کی یہ حسرت، حسرت ہی رہے گی۔ گزرا ہوا وقت پھر واپس نہیں آتا۔ اس سورة میں اسی مضمون کو عمود کی حیثیت سے لیا ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ اس دنیا کی زندگی ہی کل زندگی نہیں ہے بلکہ اصل زندگی آخرت کی ہے جو شدنی ہے اور یہ فیصلہ وہیں ہونا ہے کہ اس دنیا میں آ کر کون ہارا اور کون جیتا تو جو آخرت کی فوز عظیم حاصل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ و رسول کی رضا جوئی کی راہ میں ہر قربانی کے لیے تیار رہے اور اس معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت اور کسی ناصح کی نصیحت کی پرواہ نہ کرے۔ بسا اوقات آدمی کے بیوی بچے اس راہ میں مزاحم ہوتے ہیں اور ان کی محبت بہتوں کو پست حوصلہ کردیتی ہے۔ جو شخص اپنے ایمان کو سلامت رکھنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس راہ میں رکاوٹ بننے والے بیوی بچوں کو بھی اپنے لیے فتنہ سمجھے اور ان سے بچ کے رہے۔ اگرچہ ان کے ساتھ غفور و در گزر کا معاملہ رکھے۔
الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت
ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٤) اللہ نے انسان کو اس دنیا میں بےغایت وبے مقصد نہیں پیدا کیا ہے۔ انسان کی تخلیق میں قدرت کا جو اہتمام نمایاں ہے وہ خود اس بات پر شاہد ہے کہ اس کے لیے جزاء اور سزا کا ایک دن مقرر ہے اور اللہ جو سارے جہان کا خالق ومالک ہے وہ ہر ایک کے ہر قول و فعل سے اچھی طرح واقف ہے وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔
(٥۔ ٧) تاریخ سے اس بات کی شہادت کہ جن قوموں نے رسولوں کے انداز قیامت کی تکذیب کی اور ان کے نہایت واضح دلائل اس غرور کی بناء پر رد کر دے کہ کسی بشر کو رسول ماننا انہوں نے اپنی توہین خیال کیا، ان کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا۔ وہ اس دنیا میں بھی کیفر کردار کو پہنچیں اور آخرت میں بھی ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (٨۔ ١٠) اللہ اور رسول اور قرآن پر ایمان لانے کی دعوت اور اس دن کے لیے تیار رہنے کی ہدایت جو ہار جیت کے فیصلہ کا اصلی دن ہوگا۔ جس دن ایمان اور عمل صالح والوں کو اللہ تعالیٰ جنت کی فوز عظیم سے سرفراز فرمائے گا اور جنہوں نے کفر اور تکذیب کا ارتکاب کیا ہوگا ان کو ہمیشہ کے لیے دوزخ کے عذاب میں جھونک دے گا۔
(١١۔ ١٣) دنیا میں جو مصیبتیں بھی پیش آتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے پیش آتی ہیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان سے ڈر کر اللہ اور رسول کی اطاعت سے منہ موڑ لیں۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ رکھیں کہ وہ ان کی مدد فرمائے گا۔ اگر مصائب سے مرعوب ہو کر اللہ و رسول سے اعراض کریں گے تو اس کا خمیازہ وہ بھگتیں گے۔ رسول کا کام پہنچا دینا تھا۔ وہ اس نے کردیا اب ذمہ داری لوگوں کی اپنی ہے۔
(١٤۔ ١٥) مسلمانوں کو یہ تنبیہ کہ آدمی کے بیوی بچے بسا اوقات اس کے لیے فتنہ بن جاتے ہیں۔ ان کی محبت میں پھنس کر وہ دین کے تقاضے پورے کرنے کا حوصلہ کھو بیٹھتا ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہر شخص اس امر پر نگاہ رکھے کہ ان کی محبت یا ان کی خواہشیں دین کی راہ میں اسکے لیے زنجیر پاز بننے پائیں اگرچہ انکے ساتھ معاملہ عفو و در گزر ہی کا رکھے۔
(١٦۔ ١٨) ۔ اللہ و رسول کی تا حد مقدور اطاعت کی دعوت اور دین کی راہ میں فراخ دلانہ انفاق کی ترغیب ان لوگوں کو ابدی فوز و فلاح کی بشارت جو اپنے آپ کو حرص و نجالت کی بیماری سے محفوظ رکھیں گے۔ جو لوگ اللہ کو قرض دیں گے، اللہ ان کو دیئے ہوئے قرض کو قدردانی کے ساتھ قبول کرے گا۔ اس کو مضاعف کر کے ان کو لوٹائے گا۔ ان کی مغفرت فرمائے گا۔ وہ غائب و حاضر سب کا جاننے والا ہے۔ وہ کسی کی نیکی سے بیخبر نہیں ہے اگرچہ وہ کتنی ہی پوشیدہ طور پر کی جائے۔