تدبرِ قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
سورۃ الغاشية - تعارف
تعارف
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔ ا۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق یہ سورة سابق سورة الاعلیٰ کی مثنیٰ ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ جس طرح سابق سورة میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اسی طرح اس میں بھی آپ کو تسلی دی گئی ہے۔ البتہ انداز خطاب، طریق استدلال اور تفصیل و اجمال کے پہلو سے دونوں میں فرق ہے۔ اس میں پہلے وہ فرق و اختلاف واضح فرمایا گیا ہے جو قیامت کے دن نیکیوں اور بدوں، نا عاقبت اندیشوں اور عاقبت بینوں کے نتائج اعمال اور ان کی زندگیوں میں رونما ہوگا اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس کا رونما ہونا اس کائنات کے خالق کی صفات قدرت، ربوبیت اور رحمت کا بدیہی تقاضا ہے۔ پھر آخر میں اس مضمون تسلی کی وضاحت فرما دی گئی ہے جو سابق سورة کی آیت ( فذکر ان نفعت الذکری) (الاعلی : ٨٧، ٩) میں اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ آپ کی ذمہ داری لوگوں تک صرف حق پہنچا دینے کی ہے۔ یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگ اس کو لازماً قبول بھی کرلیں جو ہٹ دھرم اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں ان کے درپے ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کیجئے۔ وہ ان سے نمنٹے کے لیے کافی ہے۔ ب۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ سورة کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے : (١۔ ٦) جو لوگ قیامت سے بےفکر ہو کر زندگی گزار رہے ہیں، قیامت کے دن ان کو جس صورت حال سے سابقہ پیش آنے والا ہے، اس کا بیان۔ (٧۔ ١٦) جو لوگ قیامت سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاریں گے ان کو اس دن جو ابدی شادمانی وفائز المرامی حاصل ہوگی اس کی تصویر۔ (١٧، ٢٠) آفاق کی بعض نمایاں نشانیوں کی طرف اشارہ جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات کا خالق بڑی عظیم قدرت و حکمت والا، نہایت ہی مہربان، نہایت ہی کریم و بندہ نوازا ہے۔ اس کی اس قدرت، حکمت، رحمت اور ربوبیت کا بدیہی تقاضا ہے کہ وہ ایک روز عدل لائے جس میں نیکیوں کو ان کی نیکیوں کا صلہ اور بدوں کو ان کی بدیوں کی سزا دے گا۔ اگر اس کے بغیر یہ دنیا یوں ہی چلتی رہے یا یوں ہی ایک دن تمام ہوجائے تو اس سے نہ صرف ان تمام صفات کی نفی ہوجاتی ہے بلکہ العیاذ باللہ یہ بات نکلتی ہے کہ اس نے ایک بالکل اندھیر نگری بنائی ہے اور اس کے نزدیک خیر و شر اور نیکی و بدی دونوں یکساں ہیں۔ (٢١۔ ٢٦ ) ۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تلقین کہ آپ جس چیز سے لوگوں کو ڈرا رہے ہیں وہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ اس کی نشانیاں بالکل واضح ہیں۔ ہٹ دھرموں کی روش سے آپ بد دل اور مایوس نہ ہوں۔ آپ کا فرض صرف لوگوں تک حق کو پہنچا دینا ہے، لوگوں کے کفر و ایمان کے باپ میں آپ مسئول نہیں ہیں۔ جو آپ کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوال کیجئے۔ بالآخر ان کی واپسی خدا ہی کی طرف ہوتی ہے اور وہ ان کا حساب کر کے رہے گا۔
Top