تعارف
ا ۔ سورة کا عمود اور سابق سورة سے تعلق
یہ سورة سابق سورة کی مثنٰی ہے۔ سورة ضحیٰ کے بعد یہ بغیر کسی تمہید کے اس طرح شروع ہوگئی ہے گویا سابق سورة میں جو مضمون الم یحدک یتیماً فاوی (الضحی 6:93) اور اس کے بعد آیات میں بیان ہوا ہے اسی کی اس میں تکمیل کردی گئی ہے۔ بس اتنا فرق نظر آتا ہے کہ سابق سورة میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن الطاف و عنایات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کا ذریعہ بنایا ہے ان کا تعلق بعثت سے قبل یا ابتدائے بعثت کے دور سے ہے اور اس میں جن افضال و احسانات کا حوالہ دیا ہے وہ اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب آپ کی دعوت کا چرچا مکہ سے نکل کر عرب کے دوسرے گوشوں میں بھی پہنچ چکا ہے۔
سابق سورة میں آپ کو یہ بشارت دی گئی کہ دعوت کے پہلو سے آپ کا مستقبل آپ کے ماضی اور حاضر سے بہت بہتر ہوگا، آپ اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہیں وہ قانون قدرت کے مطابق آپ کی تربیت کے لئے ہیں وہ جلد دور ہوجائیں گی۔ اس سورة میں اس بشارت کی صداقت کے چند نمایاں شواہد کا حوالہ دے کر تاکید کے ساتھ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں آپ کو جو دشواری بھی پیش آئے گی اس کے پہلو بہ پہلو فیروز مندی بھی ہوگی بشرطیکہ آپ عزم و جزم کے ساتھ اس سے عہدہ برآ ہونے کا حوصلہ کریں۔
ب ۔ سورة کے مطالب کا تجزیہ
سورة کے مطالب کی ترتیب میں کسی قسم کا الجھائو نہیں ہے اس دور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس ذہنی پریشانی سے دوچار ہے اس کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرح صدر کی جس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے پہلے اس کا حوالہ ہے اس کے بعد آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ جس طرح آپ نے اب تک دیکھا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی نمودار ہوئی ہے اسی طرح آئندہ بھی آپ کی دعوت کے مراحل طے ہوں گے اور کسی مرحلے میں بھی یہ کام رکنے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد تکمیل دعوت کی منزل کی طرف اشارہ اور اس مرحلہ کی کامرانیوں کے حصول کی تدبیر بتائی گئی ہے۔