Aasan Quran - Hud : 82
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم جَعَلْنَا : ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کا اوپر (بلند) سَافِلَهَا : اس کا نیچا (پست) وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهَا : اس پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ سِجِّيْلٍ : کنکر (سنگریزہ) مَّنْضُوْدٍ : تہہ بہ تہہ
پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس زمین کے اوپر والے حصے کو نیچے والے حصے میں تبدیل کردیا، (48) اور ان پر پکی مٹی کے تہہ بر تہہ پتھر برسائے۔
48: روایات میں ہے کہ یہ کل چار بستیاں تھیں جن میں یہ بد قماش لوگ بستے تھے، اس ساری بستیوں کو فرشتوں نے جوں کا توں اوپر اٹھا کر زمین پر اوندھا پٹخ دیا، اور ان کا نام ونشان مٹ گیا، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ بحر میت (dead sea) جسے بحر مردار بھی کہا جاتا ہے ان بستیوں کے الٹنے سے پیدا ہوا ہے، ورنہ کسی بڑے سمندر سے اس کا رابطہ نہیں ہے، اس کے علاوہ جس مقام پر یہ بستیاں واقع تھیں یعنی بحر مردار کے آس پاس کا علاقہ، اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ پورے کرہ زمین کا سب سے نچلا حصہ ہے، یعنی زمین کا کوئی اور حصہ سطح سمندر سے اتنا نیچا نہیں ہے جتنا نیچا یہ ہے، قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ ہم نے اس زمین کے اوپر والے حصے کو نیچے والے حصے میں تبدیل کردیا، کچھ بعید نہیں کہ ان الفاظ میں اس جغرافیائی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہو اور ان کی انتہائی نچلی حرکتوں کو یہ محسوس شکل دے دی گئی ہو۔
Top