Aasan Quran - Al-Baqara : 104
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يَا اَيُّهَا الَّذِیْنَ : اے وہ لوگو جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقُوْلُوْا : نہ کہو رَاعِنَا : راعنا وَقُوْلُوْا : اور کہو انْظُرْنَا : انظرنا وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَلِلْکَافِرِیْنَ ۔ عَذَابٌ : اور کافروں کے لیے۔ عذاب اَلِیْمٌ : دردناک
ایمان والو ! (رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوکر) راعنا نہ کہا کرو، اور انظرنا کہہ دیا کرو۔ (70) اور سنا کرو۔ اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
70: مدینہ میں رہنے والے بعض یہودیوں کی ایک شرارت یہ تھی کہ وہ جب حضور اکرم ﷺ سے ملتے تو آپ سے کہتے تھے“ راعنا ”عربی میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری رعایت فرمائیے، اس لحاظ سے یہ لفظ ٹھیک تھا اور اس میں گستاخی کے کوئی معنی نہیں تھے لیکن عبرانی زبان میں جو یہودیوں کی مذہبی زبان تھی اس سے ملتا جلتا ایک لفظ بد دعا اور گالی کے طور پر استعمال ہوتا تھا نیز اگر اسی لفظ میں عین کو ذرا کھینچ کر بولا جائے تو وہ راعینا بن جاتا ہے، جس کے معنی ہیں“ ہمارے چرواہے ”غرض یہودیوں کی اصل نیت لفظ کو خراب معنی میں استعمال کرنے کی تھی ؛ لیکن چونکہ عربی میں بظاہر اس کا مطلب ٹھیک تھا اس لئے بعض مخلص مسلمانوں نے بھی یہ لفظ بولنا شروع کردیا، یہودی اس بات سے بڑے خوش ہوتے اور اندر اندر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اس لئے اس آیت نے مسلمانوں کو اس شرارت پر متنبہ بھی کردیا، آئندہ اس لفظ کے استعمال پر پابندی بھی لگادی اور یہ سبق بھی دے دیا کہ ایسے الفاظ کا استعمال مناسب نہیں ہے جن میں کسی غلط مفہوم کا احتمال ہو یا ان سے کوئی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہو، نیز اگلی آیت میں اس سارے عناد کی اصل وجہ بھی بتادی کہ درحقیقت ان کو یہ حسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نعمت آنحضرت ﷺ کو کیوں عطا فرمادی ہے۔
Top