Aasan Quran - Al-Baqara : 129
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠   ۧ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَابْعَثْ : اور بھیج فِيهِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِنْهُمْ : ان میں سے يَتْلُوْ : وہ پڑھے عَلَيْهِمْ : ان پر آيَاتِکَ : تیری آیتیں وَ : اور يُعَلِّمُهُمُ : انہیں تعلیم دے الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْحِكْمَةَ : حکمت وَيُزَكِّيهِمْ : اور انہیں پاک کرے اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو الْعَزِيزُ : غالب الْحَكِيمُ : حکمت والا
اور ہمارے پروردگار ! ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے۔ (84) بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل۔
84: دل سے نکلی ہوئی اس دعا کی تاثیر کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں منتقل نہیں کی جاسکتی چنانچہ ترجمہ صرف اس کا مفہوم ہی ادا کرسکتا ہے یہاں اس دعا کو نقل کرنے کا مقصد ایک تو یہ دکھانا ہے کہ انبیاء اپنے بڑے بڑے کارنامے پر بھی مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ عجز ونیاز کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے کارنامے کا تذکرہ کرنے کے بجائے اپنی ان کوتاہیوں پر توبہ کرتے ہیں جو اس کام کی ادائیگی میں ان سے سرزد ہونے کا امکان ہو دوسرے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہوتا ہے لہذا وہ اس پر مخلوق سے تعریف کرانے کی فکر کے بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا مانگتے ہیں۔ تیسرے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری حضرت ابراہیم ؑ کی دعا میں شامل تھی اور اس طرح خود حضرت ابراہیم ؑ نے یہ تجویز دی تھی کہ آپ بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہوں نہ کہ بنی اسرائیل میں سے۔ اس دعا میں حضرت ابراہیم ؑ کی زبان سے حضور نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے بنیادی مقاصد بھی بیان فرمادیئے ہیں ان مقاصد کو قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے اور ان کی تشریح انشاء اللہ آگے اسی سورت کی آیت 151 میں آئے گی۔
Top