Aasan Quran - Al-Anbiyaa : 33
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَ : پیدا کیا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن وَالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند كُلٌّ : سب فِيْ فَلَكٍ : دائرہ (مدار) میں يَّسْبَحُوْنَ : تیر رہے ہیں
اور وہی (اللہ) ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند پیدا کیے، سب کسی نہ کسی مدار میں تیر رہے ہیں۔ (17)
17: قرآن کریم میں اصل لفظ ”فلک“ ہے جو عربی زبان میں گول دائرے کو کہتے ہیں۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اس وقت فلکیات میں یہ بطلیموسی نظریہ دنیا پر چھایا ہوا تھا کہ چاند سورج اور دوسرے سیارے آسمانوں میں جڑے ہوئے ہیں، اور آسمان کی گردش کے ساتھ وہ سیارے بھی گردش کرتے ہیں۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو الفاظ اختیار فرمائے، وہ اس بطلیموسی نظریے پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتے، اس کے بجائے اس آیت کے مطابق ہر سیارے کا اپنا مدار ہے جس میں وہ ”تیر رہا ہے“۔ تیرنے کا لفظ بطور خاص قابل توجہ ہے، جو خلا میں تیرنے پر زیادہ صادق آتا ہے۔ سائنس اس حقیقت تک بھی بہت بعد میں پہنچی ہے کہ سیارے خلا میں تیر رہے ہیں۔
Top