Aasan Quran - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
ابراہیم نے کہا : نہیں، بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے، اب انہی بتوں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہوں۔ (26)
26: یہ درحقیقت ان کے عقیدے پر ایک طنز تھا، وہ لوگ چونکہ بتوں کو بڑے اختیارات کا مالک سمجھتے تھے، اور بڑا بت بنانے کا مقصد یہی تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے خداؤں کے لیے سردار کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس طنز سے حضرت ابراہیم ؑ کا مقصد یہ تھا کہ جب تم اس بڑے بت کو بتوں کا سردار سمجھتے ہو اور سردار اپنے ماتحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے، اس لیے اگر کسی اور شخص نے چھوٹے بتوں کو توڑا ہوتا تو تمہارے اعتقاد کے مطابق یہ سردار اسے ایسا کرنے نہ دیتا، لہذا یہ احتمال تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اور شخص بتوں کی یہ گت بنائے، اور ان کا یہ سردار چپ چاپ دیکھتا رہے، اب تمہارے اعتقاد کے مطابق ایک ہی احتمال رہ جاتا ہے کہ خود یہ سردار ہی ان سے ناراض ہوگیا ہو، اور اسی نے ان کو توڑ پھوڑ ڈالا ہو۔ چونکہ یہ واضح طور پر ایک طنز تھا، اس لیے اس میں غلط بیان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ چھوٹے بت بھی ان کے عقیدے کے مطابق چھوٹے ہونے کے باوجود خدا ہی تھے، اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ ان میں اتنی طاقت تو ہونی چاہیے کہ جو واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا ہے، کم از کم وہ تمہیں بتاسکیں، اس لیے انہی سے پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا قصہ ہوا تھا۔
Top