Aasan Quran - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جو شخص یہ سمجھتا تھا کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس (پیغمبر) کی مدد نہیں کرے گا تو وہ آسمان تک ایک رسی تان کر رابطہ کاٹ ڈالے، پھر دیکھے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس کی جھنجلاہٹ دور کرسکتی ہے ؟ (10)
10: رسی تان کر رابطہ کاٹ ڈالنے کے ایک معنی تو عربی محاورے کے مطابق پھانسی دے کر گلا گھونٹنے کے ہوتے ہیں۔ اگر یہاں یہ معنی لیے جائیں، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہیں، تو اس صورت میں آسمان سے مراد اوپر کی سمت یعنی چھت ہوگی، اور آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا شخص جس کا خیال یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کو کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں ہوگی، اس کا یہ خیال نہ پورا ہوا ہے، نہ ہوگا۔ اس پر اگر اسے غصہ اور جھنجھلاہٹ ہے تو وہ چھت کی طرف ایک رسی تان کر اپنے آپ کو پھانسی دے، اور اپنا گلا گھونٹ لے۔ اور آسمان تک رسی تان کر رابطہ کاٹ لینے کی ایک دوسری تشریح حضرت جابر بن زید سے منقول ہے، اور وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کو جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں، ان کا سر چشمہ وہ وحی ہے جو آپ پر آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اب اگر کسی شخص کو ان کامیابیوں پر غم و غصہ ہے، اور وہ ان کامیابیوں کا راستہ روکنا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی رسی تان کر آسمان تک جائے، اور وہاں سے آنحضرت ﷺ کا وہ رابطہ کاٹ دے جس کے ذریعے آپ پر وحی آرہی ہے، اور کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی کے بس میں نہیں ہے، اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کو مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا (روح المعانی)
Top