Aasan Quran - Al-Qasas : 25
فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ١٘ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا١ؕ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَ١ۙ قَالَ لَا تَخَفْ١۫ٙ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَجَآءَتْهُ : پھر اس کے پاس آئی اِحْدٰىهُمَا : ان دونوں میں سے ایک تَمْشِيْ : چلتی ہوئی عَلَي اسْتِحْيَآءٍ : شرم سے قَالَتْ : وہ بولی اِنَّ : بیشک اَبِيْ : میرا والد يَدْعُوْكَ : تجھے بلاتا ہے لِيَجْزِيَكَ : تاکہ تجھے دے وہ اَجْرَ : صلہ مَا سَقَيْتَ : جو تونے پانی پلایا لَنَا : ہمارے لیے فَلَمَّا : پس جب جَآءَهٗ : اس کے پاس گیا وَقَصَّ : اور بیان کیا عَلَيْهِ : اس سے الْقَصَصَ : احوال قَالَ : اس نے کہا لَا تَخَفْ : ڈرو نہیں نَجَوْتَ : تم بچ آئے مِنَ : سے الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کی قوم
تھوڑی دیر بعد ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کے پاس شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی، (15) کہنے لگی : میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں، تاکہ آپ کو اس بات کا انعام دیں کہ آپ نے ہماری خاطر جانوروں کو پانی پلایا ہے، (16) چنانچہ جب وہ عورتوں کے والد کے پاس پہنچے اور ان کو ساری سرگزشت سنائی، تو انہوں نے کہا : کوئی اندیشہ نہ کرو، تم ظالم لوگوں سے بچ آئے ہو۔
15: معلوم ہوا کہ اگرچہ اس وقت پردے کے باقاعدہ احکام نہیں تھے جو قرآن کریم نے عطا فرمائے، لیکن خواتین شرم و حیا کے لباس میں رہتی تھیں، اور مردوں سے معاملات کرتے وقت شرم و حیاء کو پوری طرح ملحوظ رکھتی تھیں، چنانچہ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور سعید بن منصور نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ خاتون جب آئیں تو انہوں نے اپنی قمیص کی آستیں اپنے چہرے پر رکھی ہوئی تھی۔ 16: اگرچہ کسی نیکی کا انعام وصول کرنے کے لیے جانا حضرت موسیٰ ؑ کی غیرت اور شرافت کے خلاف تھا، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ آپ کی طرف سے جو بھلائی بھی آئے گی، میں اس کا محتاج ہوں، اور اس خاتون کی دعوت سے ایک راستہ ایسا پیدا ہوا تھا کہ اس بستی میں کسی برزرگ سے جان پہچان ہوجائے اور دوسری طرف ان کے اپنی بیٹی کو بھیجنے سے ان کی شرافت اور بزرگی ظاہر ہو رہی تھی، اس لیے حضرت موسیٰ ؑ نے اس وقت یہ خیال فرمایا کہ اس دعوت کو رد کرنا نا شکری اور اس عبدیت کے خلاف ہوگا جس کے ساتھ دعا مانگی گئی تھی، اور ہوسکتا ہے کہ ان بزرگ سے کوئی مفید مشورہ مل جائے۔ چنانچہ دعوت کو قبول کر کے ان کے پاس چلے گئے، لیکن ابن عساکر کی ایک روایت میں حضرت ابو حازم سے یہ تفصیل منزول ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ ل وہاں پہنچے تو حضرت شعیب ؑ نے کھانا پیش کیا، حضرت موسیٰ ؑ نے کہا : میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ حضرت شعیب ؑ نے پوچھا : کیوں ؟ کیا آپ کو بھوک نہیں ہے ؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا بھوک تو ہے لیکن مجھے انیدشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اس عمل کا معاوضہ نہ بن جائے کہ میں نے بکریوں کو پانی پلا دیا تھا، اور ہم ایسے لوگ ہیں کہ جو کام آخرت کی خاطر کریں، اس کے معاوضے میں کوئی پوری زمین سونے سے بھر کر بھی دیدے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ حضرت شعیب ؑ نے جواب دیا کہ : اللہ کی قسم، ایسا نہیں ہے، لیکن میری اور میرے آباء و اجداد کی یہ عادت رہی ہے کہ ہم مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ ان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ (روح المعانی، حوالہ بالا)۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون نے جو کہا تھا کہ میرے والد آپ کو اس لیے بلا رہے ہیں کہ آپ کو آپ کی نیکی کا انعام دیں گے، یہ انہوں نے اپنے خیال کے مطابق کہہ دیا تھا، حضرت شعیب ؑ نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہوں گے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔
Top