Aasan Quran - Aal-i-Imraan : 99
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُهَدَآءُ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ تَصُدُّوْنَ : کیوں روکتے ہو عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ مَنْ : جو اٰمَنَ : ایمان لائے تَبْغُوْنَھَا : تم ڈھونڈتے ہو اس کے عِوَجًا : کجی وَّاَنْتُمْ : اور تم خود شُهَدَآءُ : گواہ (جمع) وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! اللہ کے راستے میں ٹیڑھ پیدا کرنے کی کوشش کر کے ایک مومن کے لیے اس میں کیوں رکاوٹ ڈالتے ہو جبکہ تم خود حقیقت حال کے گواہ ہو ؟ (35) جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
تشریح : یہاں سے 108 تک کی آیات ایک خاص واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، مدینہ منورہ میں دو قبیلے اوس و خزرج کے نام سے آباد تھے، اسلام سے پہلے ان کے درمیان سخت دشمنی تھی اور دونوں میں وقتاً فوقتاً جنگیں ہوتی رہتی تھیں جو بعض اوقات سالہا سال جاری رہتی تھیں، جب ان قبیلوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اسلام کی برکت سے ان کی یہ دشمنی ختم ہوگئی اور اسلام کے دامن میں آکر وہ شیر وشکر ہو کر رہنے لگے، بعض یہودیوں کو ان کا یہ اتحاد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، ایک مرتبہ دونوں قبیلوں کے لوگ ایک مجلس میں جمع تھے، ایک یہودی شماس بن قیس نے ان کے پیار محبت کا یہ منظر دیکھا تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے یہ ترکیب کی کہ ایک شخص سے کہا کہ اس مجلس میں وہ اشعار سنادو جو زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج کے شاعروں نے ایک لمبی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف کہے تھے، اس شخص نے وہ اشعار سنانے شروع کردئے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان اشعار سے پرانی باتیں تازہ ہوگئیں، شروع میں دونوں قبیلوں کے لوگوں میں زبانی تکرار ہوئی پھر بات بڑھ گئی اور آپس میں نئے سرے سے جنگ کی تاریخ اور وقت مقرر ہونے لگا، آنحضرت ﷺ کو علم ہوا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ یہ سب شیطانی حرکت تھی، بالآخر آپ کے سمجھانے سے یہ فتنہ ختم ہوا، ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تو یہودیوں سے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ اول تو تم کو خود ایمان لانا چاہیے اور اگر خود اس سعادت سے محروم ہو تو کم از کم ان لوگوں کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالو جو ایمان لاچکے ہیں، اس کے بعد بڑے مؤثر انداز میں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے اور آخر میں باہمی جھگڑوں سے بچنے کا علاج یہ بتایا ہے کہ اپنے آپ کو دین کی تبلیغ و دعوت میں مصروف کرلو تو اس سے اشاعت اسلام کے علاوہ یکجہتی بھی پیدا ہوگی۔
Top