Aasan Quran - Al-Ahzaab : 29
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ : تم چاہتی ہو اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ : اور آخرت کا گھر فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ اَعَدَّ : تیار کیا ہے لِلْمُحْسِنٰتِ : نیکی کرنے والوں کے لیے مِنْكُنَّ : تم میں سے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور عالم آخرت کی طلبگار ہو تو یقین جانو اللہ نے تم میں سے نیک خواتین کے لیے شاندار انعام تیار کر رکھا ہے۔ (23)
23: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات یوں تو ہر قسم کے سرد و گرم حالات میں بڑی استقامت سے آپ کا ساتھ دیتی آئی تھیں، لیکن جنگ احزاب اور جنگ بنو قریظہ میں فتوحات کے بعد مسلمانوں کو کچھ مالی خوش حالی حاصل ہوئی تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس تنگی ترشی میں وہ اب تک گذارہ کرتی رہی ہیں، اب اس میں کچھ تبدیلی آنی چاہیے، چنانچہ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس خیال کا ذکر بھی کردیا، اور یہ مثال بھی دی کہ قیصر و کسری کی بیگمات بڑی سج دھج کے ساتھ رہتی ہیں، ان کی خدمت کے لیے کنیزیں موجود ہیں، اب جبکہ مسلمانوں میں خوشحالی آچکی ہے، ہمارے نفقے میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ ازواج مطہرات کے دل میں مالی وسعت کی خواہش پیدا ہونا کوئی گناہ کی بات نہ تھی، لیکن اول تو پیغمبر اعظم ﷺ کی ازواج ہونے کی حیثیت سے یہ مطالبہ ان کے شایان شان نہیں سمجھا گیا۔ دوسرے شاید بادشاہوں کی بیگمات کی مثال دینے سے آنحضرت ﷺ کو تکلیف پہنچی کہ وہ اپنے آپ کو ان بیگمات پر قیاس کر رہی ہیں۔ اس لے قرآن کریم کی ان آیات نے آنحضرت ﷺ کو ہدایت دی کہ آپ ازواج مطہرات سے یہ بات اچھی طرح صاف کرلیں کہ اگر پیغمبر کے ساتھ رہنا ہے تو اپنے سوچنے کا یہ انداز بدلنا ہوگا، دوسری عورتوں کی طرح ان کا مطمح نظر دنیا کی سج دھج نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور اس کے نتیجے میں آخرت کی بھلائی ہونی چاہیے۔ اور ساتھ ہی ان پر یہ بات بھی واضح کردی گئی کہ اگر وہ دنیا کی زیب وزینت کو پسند کریں گی تو پیغمبر اعظم ﷺ کی طرف سے ان کو کھلا اختیار ہے کہ وہ آپ سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اس صورت میں بھی آنحضرت ﷺ انہیں کسی تلخی کے ساتھ نہیں، بلکہ سنت کے مطابق جوڑوں وغیرہ کے تحفے دے کر خوش اسلوبی سے رخصت فرمائیں گے۔ چنانچہ ان آیات کے احکام کے مطابق آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات کو یہ پیشکش فرمائی اور تمام ازواج نے اس کے جواب میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہنے ہی کو پسند کیا، خواہ اس کے لیے کیسی تنگی ترشی برداشت کرنی پڑے۔
Top