Aasan Quran - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کا بوجھ اٹھا لیا۔ (52) حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم، بڑا نادان ہے۔ (53)
52: یہاں ”امانت“ کا مطلب ہے : ”اپنی آزاد مرضی سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی ذمہ داری لینا“۔ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے تکوینی احکام تو وہ ہیں جنہیں ماننے پر تمام مخلوقات مجبور ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کر ہی نہیں سکتیں، مثلاً موت اور زندگی کا فیصلہ وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف مخلوقات کو یہ پیشکش فرمائی کہ بعض احکام کے معاملے میں انہیں یہ اختیار دیا جائے گا کہ اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ کا حکم مان کر اس پر عمل کریں، اور اگر چاہیں تو حکم پر عمل نہ کریں۔ پہلی صورت میں ان کو جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں گی، اور دوسری صورت میں انہیں دوزخ کا عذاب دیا جائے گا۔ جب یہ پیشکش آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو کی گئی تو وہ یہ ذمہ داری اٹھانے سے ڈر گئے، اور انہوں نے ایسی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں دوزخ کے عذاب کا خطرہ ہو۔ لیکن جب انسان کو یہ پیشکش کی گئی تو اس نے یہ ذمہ داری اٹھالی۔ آسمان، زمین اور پہاڑ اگرچہ دیکھنے میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے ان میں شعور نہیں ہے، لیکن قرآن کریم کی کئی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی نہ کسی درجے میں شعور موجود ہے، جیسا کہ سورة بنی اسرائیل آیت 44 میں گذرا ہے اس لیے ان مخلوقات کو یہ پیشکش حقیقی معنی میں ہوئی ہو، اور انہوں نے انکار کیا ہو تو اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ امانت کی پیشکش اور اس سے انکار مجازی معنی میں ہو، یعنی اس امانت کے اٹھانے کی صلاحیت نہ ہونے کو انکار سے تعبیر فرمایا گیا ہو، اس موقع پر سورة اعراف کی آیت : 172 اور اس پر ہمارا تشریحی حاشیہ بھی ملاحظہ فرما لیا جائے۔ 53: یہ جملہ ان لوگوں کے لیے فرمایا گیا ہے جنہوں نے امانت کا یہ بوجھ اٹھانے کے بعد اس کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کی، یعنی کافر اور منافق لوگ۔ چنانچہ اگلی آیت میں انہی کا انجام بیان ہوا ہے۔
Top