بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Aasan Quran - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن (1) (اے پیغمبر) قسم ہے قلم کی، اور اس چیز کی جو وہ لکھ رہے ہیں۔ (2)
1: یہاں حرف نون انہی حروف مقطعات میں سے ہے جو مختلف قرآنی سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، اور جن کے بارے میں سورة بقرہ کے شروع میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ان کے ٹھیک ٹھیک معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔ 2: مکہ مکرمہ کے کافر لوگ آنحضرت ﷺ کو (معاذ اللہ) دیوانہ کہا کرتے تھے۔ اگلی آیت میں ان کی تردید فرمائی گئی ہے، اور اس سے پہلے اس آیت میں اس تردید پر یہ قسم کھائی گئی ہے۔ اس کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے فرمایا ہے کہ قلم سے مراد تقدیر کا قلم ہے اور ”وہ“ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی قسم ہے تقدیر کے قلم کی، اور تقدیر کے ان فیصلوں کی جو فرشتے لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ دیوانے نہیں ہیں۔ یعنی آنحضرت ﷺ کا پیغمبر ہونا اور مکہ مکرمہ میں مبعوث ہونا تقدیر میں پہلے سے لکھا جا چکا تھا، اس لیے آپ اگر اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیا والوں تک پہنچا رہے ہیں تو اس میں نہ کوئی غیر معقول بات ہے، اور نہ اس پر کسی کو حیرت ہونی چاہیے۔ دوسرے بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ قلم سے مراد عام قلم ہے، اور جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں سے مراد عام لوگوں کا لکھنا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قلم سے لکھنا جاننے والے بھی وہ اعلیٰ مضامین لکھنے سے عاجز ہیں جو آنحضرت ﷺ قرآن کریم کے ذریعے لوگوں تک پہنچا رہے ہیں، حالانکہ آپ امی ہیں، اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ ایک امی کی زبان مبارک پر ایسا اونچے درجے کا کلام جاری ہونا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آرہی ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو دیوانگی کا طعنہ دینا خود دیوانگی ہے۔
Top