Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 213
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
كَانَ : تھے النَّاسُ : لوگ اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک فَبَعَثَ : پھر بھیجے اللّٰهُ : اللہ النَّبِيّٖنَ : نبی مُبَشِّرِيْنَ : خوشخبری دینے والے وَ : اور مُنْذِرِيْنَ : ڈرانے والے وَاَنْزَلَ : اور نازل کی مَعَهُمُ : ان کے ساتھ الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : برحق لِيَحْكُمَ : تاکہ فیصلہ کرے بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ فِيْمَا : جس میں اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جنہیں اُوْتُوْهُ : دی گئی مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَا : جو۔ جب جَآءَتْهُمُ : آئے ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان ( آپس کی) فَهَدَى : پس ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لِمَا : لیے۔ جو اخْتَلَفُوْا : جو انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں مِنَ : سے (پر) الْحَقِّ : سچ بِاِذْنِهٖ : اپنے اذن سے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف راستہ صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
تھے سب لوگ ایک دین پر پھر بھیجے اللہ نے پیغمبر خوش خبری سنانے والے اور ڈرانے والے اور اتاری ان کے ساتھ کتاب سچی کہ فیصلہ کرے لوگوں میں جس بات میں وہ جھگڑا کریں، اور نہیں جھگڑا ڈالا کتاب میں مگر انہی لوگوں نے جن کو کتاب ملی تھی اس کے بعد کہ انکو پہنچ چکے صاف حکم آپس کی ضد سے پھر اب ہدایت کی اللہ نے ایمان والوں کو اس سچی بات کی جس میں وہ جھگڑا کررہے تھے اپنے حکم سے اور اللہ بتلاتا ہے جس کو چاہے سیدھا راستہ
ربط آیات
اوپر دین حق سے اختلاف کرنے کی علت حب دنیا کو بتایا ہے آگے اسی مضمون کی تائید فرماتے ہیں کہ مدت سے یہی قصہ چلا آرہا ہے کہ ہم دلائل واضحہ دین حق پر قائم کرتے ہیں اور طالبان دنیا اپنی دنیوی اغراض کے سبب اس سے خلاف کرتے رہے۔
خلاصہ تفسیر
(ایک زمانہ میں) سب آدمی ایک ہی طریق پر تھے (کیونکہ اول دنیا میں حضرت آدم ؑ مع اپنی بی بی کے تشریف لائے اور جو اولاد ہوتی گئی ان کو دین حق کی تعلیم فرماتے رہے اور وہ ان کی تعلیم پر عمل کرتے رہے ایک مدت اسی حالت میں گذر گئی پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا حتی ٰکہ ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی) پھر (اس اختلاف کے رفع کرنے کو) اللہ تعالیٰ نے (مختلف) پیغمبروں کو بھیجا جو کہ (حق ماننے والوں کو) خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور (نہ ماننے والوں کو عذاب سے) ڈراتے تھے اور ان (پیغمبروں کی مجموعی جماعت) کے ساتھ (آسمانی) کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں (اور ان پیغمبروں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل فرمانا) اس غرض سے (تھا) کہ اللہ تعالیٰ (ان رسل وکتب کے ذریعہ سے اختلاف کرنے والے) لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ (مذہبی) میں فیصلہ فرمادیں (کیونکہ رسل وکتب امر واقعی کا اظہار کردیتے ہیں اور امر واقعی کے متعین ہونے سے ظاہر ہے کہ غیر واقعی کا غلط ہوجانا معلوم ہوجاتا ہے اور یہی فیصلہ ہے اور ان پیغمبروں کے ساتھ کتاب اللہ آنے سے چاہئے تھا کہ اس کتاب کو قبول کرتے اور اس پر مدار کار رکھ کر اپنے سب اختلافات مٹا دیتے مگر بعضوں نے خود اس کتاب ہی کو نہ مانا اور خود اسی میں اختلاف کرنا شروع کردیا) اور اس کتاب میں (یہ) اختلاف اور کسی نے نہیں کیا مگر صرف ان لوگوں نے جن کو (اولا) وہ کتاب ملی تھی (یعنی اہل علم واہل فہم نے کہ اول مخاطب وہی لوگ ہوتے ہیں دوسرے عوام ان کے ساتھ لگ لیا کرتے ہیں اور اختلاف بھی کیسے وقت کیا) بعد اس کے کہ ان کے پاس دلائل واضحہ پہنچ چکے تھے (یعنی ان کے ذہن نشین ہوچکے تھے اور اختلاف کیا کس وجہ سے صرف) باہمی ضدا ضدی کی وجہ سے (اور اصلی وجہ ضدا ضدی کی حب دنیا ہوتی ہے حب مال ہو یا حب جاہ پس مدار علت مخالفت حق کا وہی حب دنیا ٹھری اور یہی مضمون تھا سابق میں) پھر (یہ اختلاف کفار کا کبھی اہل ایمان کو مضر نہیں ہوا بلکہ) اللہ تعالیٰ نے (ہمیشہ) ایمان والوں کو وہ امر حق جس میں (مختلفین) اختلاف کیا کرتے تھے بفضلہ تعالیٰ (رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے کی بدولت) بتلا دیا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اسی کو راہ راست بتلا دیتے ہیں۔

معارف و مسائل
اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان ایک ہی مذہب وملت اور عقیدہ و خیال پر تھے جو ملت اور دین فطرت تھی پھر ان میں مزاج و مذاق اور رائے وفکر کے اختلاف سے بہت سے مختلف خیالات و عقائد پیدا ہوگئے جن میں یہ امتیاز کرنا دشوار تھا کہ ان میں حق کونسا ہے اور باطل کونسا حق کو واضح کرنے اور صحیح راہ حق بتلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے اور ان پر کتابیں اور وحی نازل فرمائی انبیاء (علیہم السلام) کی جدوجہد اور تبلیغ و اصلاح کے بعد انسان دو گروہوں میں منقسم ہوگئے ایک وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات کو قبول کیا اور انبیاء (علیہم السلام) کے متبع ہوگئے جن کو مومن کہا جاتا ہے دوسرے وہ جنہوں نے آسمانی ہدایات اور انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا ان کی بات نہ مانی یہ لوگ کافر کہلاتے ہیں اس آیت کے پہلے جملہ میں ارشاد ہے وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ لفظ امۃ عربی لغت کے اعتبار سے ہر ایسی جماعت کو کہا جاتا ہے جس میں کسی وجہ سے رابطہ و اتحاد اور وحدت قائم ہو خواہ یہ وحدت نظریات و عقائد کی ہو یا ایک زمانہ میں یا کسی ایک خطہ ملک میں جمع ہونے کے یا کسی دوسرے علاقہ یعنی نسب، زبان، رنگ وغیرہ کی، مفہوم اس جملہ کا یہ ہے کہ کسی زمانہ میں تمام انسان باہم متفق ومتحد ایک جماعت تھے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں۔
اول یہ کہ اس جگہ وحدت سے کس قسم کی وحدت مراد ہے دوسرے یہ کہ وحدت کس زمانہ میں تھی امر اول کا فیصلہ تو اسی آیت کے آخری جملہ نے کردیا جس میں اس وحدت کے بعد اختلاف واقع ہونے کا اور مختلف راہوں میں حق متعین کرنے کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی ہے کیونکہ یہ اختلاف جس میں فیصلہ کرنے کے لئے انبیاء ؑ اور آسمانی کتابیں بھیجی گئی ہیں ظاہر ہے کہ وہ نسب یا زبان یا رنگ یا وطن اور زمانہ کا اختلاف نہ تھا بلکہ نظریات اور عقائد و خیالات کا اختلاف تھا اسی کے مقابلہ سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں وحدت سے بھی وحدت فکر و خیال اور وحدت عقیدہ ومسلک مراد ہے۔
تو اب مفہوم آیت کا یہ ہوگیا کہ ایک زمانہ ایسا تھا جب کہ تمام افراد انسانی صرف ایک ہی عقیدہ و خیال اور ایک ہی مذہب ومسلک رکھتے تھے وہ عقیدہ ومسلک کیا تھا اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ سب عقیدہ توحید و ایمان پر متفق تھے دوسرے یہ کہ سب کفر وضلال پر متحد تھے مگر جمہور مفسرین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ مراد عقائد صحیحہ توحید و ایمان پر سب کا متحد ہونا سورة یونس میں بھی اسی مضمون کی ایک آیت آئی ہے،
وَمَا كَان النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْ آ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَھُمْ فِيْمَا فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ (19: 10) یعنی سب آدمی ایک ہی امت تھے پھر آپس میں اختلاف پڑگیا اور اگر اللہ تعالیٰ کا یہ ازلی فیصلہ نہ ہوتا (کہ اس عالم دنیا میں حق و باطل کھرا کھوٹا سچ اور جھوٹ ملے جلے چلیں گے تو قدرت الہیہ ان سب جھگڑوں کا ایسا فیصلہ کردیتی کہ حق سے اختلاف کرنے والوں کا نام ہی نہ رہتا۔
اور سورة انبیاء میں فرمایا
اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ (92: 21) یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے سب میری ہی عبادت کرتے رہو۔
اسی طرح سورة مؤ منون میں فرمایا
وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ (52: 23) یعنی یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں اس لئے مجھ سے ہی ڈرتے رہو،
ان تمام آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ وحدت سے عقیدہ ومسلک کی وحدت اور دین حق توحید ایمان میں سب کا متحد ہونا مراد ہے،
اب یہ دیکھنا ہے کہ دین حق اسلام و ایمان پر تمام انسانوں کا اتفاق و اتحاد کسی زمانہ کا واقعہ ہے یہ وحدت کہاں تک قائم رہی ؟ مفسرین صحابہ کرام ؓ اجمعین میں سے حضرت ابی بن کعب اور ابن زید نے فرمایا کہ یہ واقعہ عالم ازل کا ہے جب تمام انسانوں کی ارواح کو پیدا کرکے ان سے سوال کیا گیا تھا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں اور سب نے بلا استثناء یہ جواب دیا تھا کہ بیشک آپ ہمارے رب اور پروردگار ہیں اس وقت تمام افراد انسانی ایک ہی عقیدہ حق پر قائم تھے جس کا نام ایمان واسلام ہے (قرطبی)
اور حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ یہ وحدت عقیدہ کا اس وقت کا ہے جب کہ آدم ؑ مع اپنی زوجہ محترمہ کے دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ہوئی اور پھیلتی گئی وہ سب کے سب حضرت آدم ؑ کے دین اور انہی کی تعلیم و تلقین کے تابع توحید کے قائل تھے اور سب کے سب باستثناء قابیل وغیرہ متبع شریعت و فرمانبردار تھے،
مسند بزار میں حضرت ابن عباس کے اس قول کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ وحدت عقیدہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت ادریس ؑ تک قائم رہی اس وقت تک سب کے سب مسلم اور توحید کے معتقد تھے اور آدم ؑ اور ادریس ؑ کے درمیان زمانہ دس قرن ہے بظاہر قرن سے ایک صدی مراد ہے تو کل زمانہ ایک ہزار سال کا ہوگیا، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ وحدت عقیدہ کا زمانہ وہ ہے جب کہ نوح ؑ کی بدعاء سے دنیا میں طوفان آیا اور بجز ان لوگوں کے جو نوح ؑ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوگئے تھے باقی ساری دنیا غرق ہوگئی تھی طوفان ختم ہونے کے بعد جتنے آدمی اس دنیا میں رہے وہ سب مسلمان موحد اور دین حق کے پیرو تھے۔
اور درحقیقت ان تینوں اقوال میں کوئی اختلاف نہیں یہ تینوں زمانے ایسے ہی تھے جن میں سارے انسان ملت واحدہ اور امت واحدہ بنے ہوئے دین حق پر قائم تھے،
آیت کے دوسرے جملہ میں ارشاد ہے، فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِـيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشی سناتے تھے اور ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ میں فیصلہ فرمادیں،
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اوپر کے جملہ میں تمام انسانوں کا امت واحدہ اور ملت واحدہ ہونا بیان کیا تھا اور اس جملہ میں اسی پر تفریع کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ہم نے انبیاء اور کتابیں بھیجی تاکہ اختلاف کا فیصلہ کیا جائے ان دونوں جملوں میں بظاہر جوڑ نہیں معلوم ہوتا کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کے بھیجنے کی علت لوگوں کا اختلاف ہے اور اختلاف اس وقت تھا نہیں مگر جواب بالکل واضح ہے کہ مراد آیت مذکورہ کہ یہ ہے کہ ابتداء عالم میں تمام انسان ایک ہی عقیدہ حق کے قائل اور پابند تھے پھر رفتہ رفتہ اختلافات پیدا ہوگئے اختلافات پیدا ہونے کے بعد انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔
اب ایک بات رہ جاتی ہے کہ اوپر صرف امت واحدہ ہونے کا ذکر کیا گیا اختلاف پیدا ہونے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا، جو لوگ قرآن کریم کے اسلوب حکیم پر کچھ نظر رکھتے ہیں ان کے لئے اس کا جواب مشکل نہیں کہ قرآن کریم احوال ماضیہ کے بیان میں قصہ کہانی یا تاریخ کی کتابوں کے سارے قصہ کو کہیں نقل نہیں کرتا بلکہ درمیان سے وہ حصہ حذف کردیتا ہے جو اس سیاق کلام سے خود بخود سمجھا جاسکے جیسے حضرت یوسف ؑ کے قصہ میں جو قیدی رہا ہو کر آیا اور خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے یوسف ؑ کے پاس بھیج دو تو قرآن میں اس قیدی کی تجویز نقل کرکے بعد بات یہاں سے شروع ہوتی ہے يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ اس کا ذکر نہیں کیا کہ بادشاہ نے اس کی تجویز کو پسند کیا اور اس کو جیل خانہ میں حضرت یوسف ؑ کے پاس بھیجا وہ وہاں پہنچ کر ان سے مخاطب ہوا کیونکہ پچھلے اور اگلے جملوں کے ملانے سے یہ ساری باتیں خود بخود سمجھ میں آجاتی ہیں،
اسی طرح اس آیت میں وحدت ملت کے بعد اختلاف واقع ہونے کا تدکزہ اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اختلافات کا وقوع تو ساری دنیا جانتی ہے ہر وقت مشاہدہ میں آتا ہے ضرورت اس امر کے اظہار کی تھی کہ ان اختلافات کثیرہ سے پہلے ایک زمانہ ایسا بھی گذر چکا ہے جس میں سارے انسان ایک ہی مذہب وملت اور ایک ہی دین حق کے پیرو تھے اس کو بیان فرمایا پھر جو اختلاف دنیا میں پھیلے ہوئے اور سب مشاہدہ میں آرہے ہیں ان کے وقوع کا بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی، ہاں یہ بتلایا گیا کہ ان اختلافات میں راہ حق کی ہدایت اور رہنمائی کا سامان حق تعالیٰ نے کیا فرمایا اس کے متعلق ارشاد ہوا فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ یعنی حق تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا جو دین حق کا اتباع کرنے والوں کو دائمی آرام و راحت کی خوش خبری اور اس سے اعراض کرنے والوں کو عذاب جہنم کی وعید سنادیں اور ان کے ساتھ اپنی وحی اور کتابیں بھیجی جو مختلف عقائد و خیالات میں سے صحیح اور حق کو واضح کرکے بتلادیں اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) ورسل اور آسمانی کتابوں کے کھلے ہوئے فیصلوں کے بعد بھی یہ دنیا دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی کچھ لوگوں نے ان ہدایات واضحہ کو قبول نہ کیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ قبول نہ کرنے والے اول وہی لوگ ہوئے جن کے پاس یہ انبیاء (علیہم السلام) اور آیات الہیہ بھیجی گئی تھیں یعنی اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ آسمانی کتابوں میں کوئی اشتباہ یا التباس کی گنجائش نہ تھی کہ ان کی سمجھ میں نہ آئے یا غلط فہمی کا شکار ہوجائیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ جاننے بوجھنے کے باوجود ان لوگوں نے محض ضد اور ہٹ دھرمی سے انکار کیا۔
اور دوسرا گروہ وہ ہوا جن کو اللہ تعالیٰ نے راہ ہدایت پر لگادیا اور جس نے انبیاء ورسل اور آسمانی کتابوں کے فیصلے ٹھنڈے دل سے تسلیم کئے انھیں دونوں گروہوں کا بیان قرآن کریم نے سورة تغابن میں اس طرح فرمایا ہے، خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (2: 64) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے کچھ کافر ومنکر ہوگئے کچھ مومن ومسلم۔
خلاصہ مضمون آیت کان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً کا یہ ہے کہ پہلے دنیا کے سب انسان دین حق پر قائم تھے پھر اختلاف طبائع سے اغراض میں اختلاف ہونا شروع ہوا ایک عرصہ کے بعد اعمال و عقائد میں اختلاف کی نوبت آگئی یہاں تک کہ حق و باطل میں التباس ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) اور اپنی کتابیں راہ حق کی ہدایت کرنے کے لئے اور اسی دین حق پر دوبارہ قائم ہوجانے کے لئے بھیجی جس پر سب انسان پہلے قائم تھے لیکن ان سب ہدایات واضحہ اور آیات بینات کے ہوتے ہوئے کچھ لوگوں نے مانا اور کچھ لوگوں نے ضد اور عناد سے انکار و انحراف کی راہ اختیار کرلی۔
مسائل
مسئلہاس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت سے انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں دنیا میں بھیجیں یہ سب اس واسطے تھیں کہ یہ لوگ جو دین حق کی ملت واحدہ کو چھوڑ کر مختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں پھر ان کو اسی ملت واحدہ پر قائم کردیں انبیاء (علیہم السلام) کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا کہ جب لوگ اس راہ حق سے بچلے تو ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا اور کتاب اتاری کہ اس کے موافق چلیں پھر کبھی بہکے تو دوسرا نبی اور کتاب اللہ تعالیٰ نے اسی راہ حق پر قائم کرنے کے لئے بھیج دیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے تندرستی ایک ہے اور بیماریاں بیشمار جب ایک مرض پیدا ہوا تو اس کے موافق دوا اور پرہیز مقرر فرمایا جب دوسرا مرض پیدا ہوا تو دوسری دوا اور پرہیز اس کے موافق بتلایا اب آخر میں ایسا جامع نسخہ تجویز فرمایا جو ساری بیماریوں سے بچانے میں اس وقت تک کے لئے کامیاب ثابت ہو جب تک اس عالم کو باقی رکھنا منظور ہو یہ مکمل اور جامع نسخہ ایک جامع اصول علاج سب پچھلے نسخوں کے قائم مقام اور آئندہ سے بےنیاز کرنے والا ہو اور وہ نسخہ جامع اسلام ہے جس کے لئے خاتم الانبیاء ﷺ اور قرآن بھیجے گئے اور پچھلی کتابوں میں تحریف ہو کر جو پچھلے انبیاء کی تعلیمات ضائع اور گم ہوجانے کا سلسلہ اوپر سے چلا آیا تھا جس کے سبب نئے نبی اور نئی کتاب کی ضرورت پیش آتی تھی اس کا یہ انتظام فرما دیا گیا کہ قرآن کریم کے تحریف سے محفوظ رہنے کا ذمہ خود حق تعالیٰ نے لے لیا اور قرآن کریم کی تعلیمات کو قیامت تک ان کی اصلی صورت میں قائم اور باقی رکھنے کے لئے اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام میں تاقیامت ایک ایسی جماعت قائم رکھنے کا وعدہ فرما لیا جو ہمیشہ دین حق پر قائم رہ کر کتاب وسنت کی صحیح تعلیم مسلمانوں میں شائع کرتی رہے گی کسی کی مخالفت و عداوت ان پر اثر انداز نہ ہوگی اس لئے اس کے بعد دروازہ نبوت اور وحی کا بند ہوجانا ناگزیر امر تھا آخر ختم نبوت کا اعلان کردیا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی مختلف کتابیں آنے سے کوئی اس دھوکہ میں نہ پڑجائے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتابیں لوگوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرنے اور افتراق پیدا کرنے کے لئے نازل کی گئی ہیں بلکہ منشاء ان سب انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کا یہ ہے کہ جس طرح پہلے سارے انسان ایک ہی دین حق کے پیرو ہو کر ملت واحدہ تھے اسی طرح پھر اسی دین حق پر سب جمع ہوجائیں۔
مسئلہدوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مذہب کی بناء پر قومیت کی تقسیم مسلم وغیرمسلم کا دو قومی نظریہ عین منشاء قرآنی کے مطابق ہے آیت فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤ ْمِنٌ (2: 64) اس پر شاہد ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ اسلام میں اس دو قومی نظرئیے کی اصل بنیاد درحقیقت صحیح متحدہ قومیت پیدا کرنے پر ہے جو ابتداء آفرینش میں قائم تھی جس کی بنیاد وطنیت پر نہ تھی بلکہ عقیدہ حق اور دین حق کی پیروی پر تھی ارشاد قرآنی کان النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً نے بتلایا کہ ابتداء عالم میں اعتقاد صحیح اور دین حق کی پیروی کے اعتبار سے ایک صحیح اور حقیقی وحدت قومی قائم تھی بعد میں لوگوں نے اختلافات پیدا کئے انبیاء نے لوگوں کو اسی اصلی وحدت کی طرف بلایا جنہوں نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ اس متحدہ قومیت سے کٹ گئے اور جداگانہ قوم قرار دئیے گئے۔
مسئلہتیسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ ازل سے سنت اللہ یہی جاری ہے کہ برے لوگ ہر نبی مبعوث کے خلاف اور ہر کتاب الہی سے اختلاف کو پسند کرتے رہے اور ان کے مقابلہ و مخالفت میں پورا زور خرچ کرنے کے لئے آمادہ رہے ہیں تو اب اہل ایمان کو ان کی بدسلوکی اور فساد سے تنگدل نہ ہونا چاہئے جس طرح کفار نے اپنے بڑوں کا طریقہ کفر وعناد اور انبیاء کی مخالفت کا اختیار کیا اسی طرح مؤمنین صالحین کو چاہئے کہ وہ اپنے بزرگوں کا یعنی انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ اختیار کریں کہ ان لوگوں کی ایذاؤں اور مخالفتوں پر صبر کریں اور حکمت وموعظت اور نرمی کے ساتھ ان کو دین حق کی طرف بلاتے رہیں اور شاید اسی مناسبت سے اگلی آیت میں مسلمانوں کو مصائب وآفات پر تحمل اور صبر کی تلقین کی گئی ہے۔
Top