Aasan Quran - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد برپا نہ کرو، (31) اور اس کی عبادت اس طرح کرو کہ دل میں خوف بھی ہو او امید بھی۔ (32) یقینا اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے۔
32: زمین پر اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو بھیجا تو شروع میں نافرمانی کا کوئی تصور نہیں تھا اور اس طرح زمین کی اصلاح ہوچکی تھی، جن جن لوگوں نے بعد میں نافرمانی کے بیج بوئے انہوں نے زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد مچایا۔ 33: یہاں دعاء کا صیغہ اکثر مفسرین کے نزدیک عیادت کے لیے آیا ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ عبادت سے کیا ہے۔ اور سچی عبادت کی شان اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ عبادت کرنے والے کے دل میں اپنی عبادت پر ناز ہونے کے بجائے یہ خوف ہونا چاہیے کہ نہ جانے میں عبادت کرنے والے کے دل میں اپنی عبادت پر ناز ہونے کے بجائے یہ خوف ہونا چاہیے کہ نہ جانے میں عبادت کا حق ادا کرسکا یا نہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کی مستحق ہے یا نہیں۔ دوسری طرف اسے اپنی عبادت کی کوتاہیوں سے مایوسی کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید بھی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اسے قبول فرما ہی لے گا۔ یعنی اپنی کوتاہی کا خوف اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بنیاد پر امید، دونوں چیزوں کا امتزاج ہے جو کسی عبادت میں سچائی پیدا کرتا ہے۔
Top