Aasan Quran - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور ہم نے لوط کو بھیجا (40) جب اس نے اپنی قوم سے کہا : کیا تم اس بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہاں کے کسی شخص نے نہیں کی ؟
40: حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے، جو اپنے مقدس چچا کی طرح عراق میں پیدا ہوئے تھے، اور جب انہوں نے وہاں سے ہجرت کی تو حضرت لوط ؑ بھی ان کے ساتھ وطن سے نکل آئے، بعد میں حضرت ابراہیم ؑ فلسطین کے علاقے میں آباد ہوئے، اور حضرت لوط ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اردن کے شہرسدوم (sodom) میں پیغمبر بناکر بھیجا، سدوم ایک مرکزی شہر تھا اور اس کے مضافات میں عمورہ وغیرہ کئی بستیاں آباد تھیں، کفر وشرک کے علاوہ ان بستیوں کی شرمناک بدعملی یہ تھی کہ وہ ہم جنسی (homosexuality) کی لعنت میں گرفتار تھے جس کا ارتکاب قرآن کریم کی تصریح کے مطابق ان سے پہلے دنیا کے کسی فرد نے نہیں کیا تھا، حضرت لوط ؑ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچائے اور عذاب سے بھی ڈرایا، لیکن جب یہ لوگ اپنی خباثت سے باز نہ آئے تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی اور ان تمام بستیوں کو الٹ دیا گیا، آج بحر میت (dead sea) کے نام سے جو سمندر ہے، کہتے ہیں کہ یہ بستیاں یا تو اس میں ڈوب گئی ہیں یا اس کے آس پاس تھیں جن کا نشان واضح نہیں رہا، حضرت لوط ؑ کا اس قوم کے ساتھ نسبی تعلق نہیں تھا پھر بھی اس آیت میں اسے حضرت لوط ؑ کی قوم کہا گیا ہے کیونکہ یہ وہ امت تھی جس کی طرف ان کو بھیجا گیا تھا . ان کے واقعے سب سے زیادہ تفصیل سورة ہود (69:11 تا 83) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورة حجر (52:15 تا 84) ، سورة شعراء (160:26 تا 174) اور سورة عنکبوت (26:29 تا 35) میں بھی ان کے واقعے کی کچھ تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ نیز سورة ذاریات (24:51 تا 37) اور سورة تحریم (10:66) میں بھی ان کے مختصر حوالے آئے ہیں۔
Top