Aasan Quran - Al-Anfaal : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو، اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں۔ (19)
19: مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے کفر اور شرک کی وجہ سے مستحق تو اسی بات کے تھے کہ ان پر عذاب نازل کیا جائے، لیکن دو وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل نہیں فرمایا، ایک وجہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ ان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں موجود ہیں اور آپ کے ہوتے ہوئے عذاب نازل نہیں ہوسکتا، کیونکہ نبی کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتا، جب نبی بستی سے نکل جاتے ہیں تب عذاب آتا ہے، اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ کو رحمۃ اللعلمین بناکر بھیجا گیا ہے اس لئے آپ کی برکت سے عذاب عام اس امت پر نہیں آئے گا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں بہت سے مسلمان استغفار کرتے رہتے ہیں ان کے استغفار کی برکت سے عذاب رکا ہوا ہے اور بعض مفسرین نے اس کی یہ تشریح بھی کی ہے کہ خود مشرکین مکہ بھی اپنے طواف کے دوران کثرت سے غفرانک کہتے رہتے تھے جو استغفار ہی کی ایک قسم ہے اگرچہ کفر وشرک کے ساتھ استغفار آخرت کے عذاب کو دور کرنے کے لئے تو کافی نہیں تھا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کافروں کی نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اس لئے ان کے استغفار کا اثر یہ ہے کہ ان پر دنیا میں کوئی اس طرح کا عذاب عام نازل نہیں ہوا جیسا عاد وثمود وغیرہ پر آیا تھا۔
Top