Aasan Quran - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے گھروں سے اکڑتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے تھے، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روک رہے تھے۔ (32) اور اللہ نے لوگوں کے سارے اعمال کو (اپنے علم کے) احاطے میں لیا ہوا ہے۔ (33)
32:: اس سے مراد کفار قریش کا وہ لشکر ہے جو جنگ بدر کے موقع پر بڑا اکڑتا اور اتراتا اور اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکلا تھا، سبق یہ دینا ہے کہ جنگی طاقت کتنی بھی ہو اس پر بھروسہ کرکے تکبر میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ؛ بلکہ بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر رکھنا چاہیے۔ 33: مطلب غالباً یہ ہے کہ بعض مرتبہ ایک شخص بظاہر اخلاص سے کام کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس کی نیت دکھاوے کی ہوتی ہے، یا اس کے بر عکس بعض مرتبہ کسی شخص کا انداز بظاہر دکھاوے کا ہوتا ہے (جیسے دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے کبھی طاقت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے) لیکن وہ اخلاص کے ساتھ بھروسہ اللہ ہی پر کرتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کو تمام اعمال کی اصل حقیقت کا پورا علم ہے، اس لیے وہ ان کی جزاء یا سزا کا فیصلہ اپنے اسی علم محیط کی بنیاد پر فرمائے گا محض ظاہری حالت کی بنیاد پر نہیں (تفسیر کبیر) واللہ سبحانہ اعلم۔
Top