Aasan Quran - At-Tawba : 103
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
خُذْ : لے لیں آپ مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : ان کے مال (جمع) صَدَقَةً : زکوۃ تُطَهِّرُھُمْ : تم پاک کردو وَتُزَكِّيْهِمْ : اور صاف کردو بِهَا : اس سے وَصَلِّ : اور دعا کرو عَلَيْهِمْ : ان پر اِنَّ : بیشک صَلٰوتَكَ : آپ کی دعا سَكَنٌ : سکون لَّھُمْ : ان کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اے پیغمبر) ان لوگوں کے اعمال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعث برکت بنو گے، (79) اور ان کے لیے دعا کرو۔ یقینا تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔
79: یہی حضرات جنہوں نے توبہ کے طو رپر اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ لیا تھا، جب ان کی توبہ قبول ہوئی اور انہیں آزاد کیا گیا تو انہوں نے شکرانے کے طور پر اپنا مال صدقے میں دینے کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے شروع میں فرمایا کہ مجھے تم سے کوئی مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ ان سے صدقہ قبول فرمالیں، آیت میں صدقے کی دو خاصیتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ انسان کو گناہوں اور برے اخلاق سے پاک ہونے میں مدد دیتا ہے، اور دوسرے یہ کہ اس سے انسان کی نیکیوں میں برکت اور ترقی ہوتی ہے، یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اگرچہ یہ آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی ؛ لیکن چونکہ الفاظ عام ہیں اس لئے امت کے فقہاء کا اجماع ہے کہ اسی آیت کی رو سے اسلامی ریاست کے ہر سربراہ کو اپنے عوام سے زکوٰۃ وصول کرنے اور اسے صحیح مصارف پر خرچ کرنے کا حق حاصل ہے، اسی وجہ سے حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت کے زمانے میں جن لوگوں نے آپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ان سے آپ نے جہاد کیا۔
Top