Aasan Quran - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
(اے پیغمبر) اللہ نے تمہیں معاف کردیا ہے، (38) (مگر) تم نے ان کو (جہاد میں شریک نہ ہونے کی) اجازت اس سے پہلے ہی کیوں دے دی کہ تم پر یہ بات کھل جاتی کہ کون ہیں جنہوں نے سچ بولا ہے اور تم جھوٹوں کو بھی اچھی طرح جان لیتے۔
38: در اصل تنبیہ تو یہ کرنی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علی ہو سلم نے منافقین کو جہاد سے الگ رہنے کی اجازت کیوں دی ؟ لیکن یہ محبت بھرا انداز ملاحظہ فرمائیے کہ تنبیہ کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔ کیونکہ اگر پہلے تنبیہ کی جاتی اور معافی کا اعلان بعد میں آتا تو اس درمیانی وقت میں آپ پر نہ جانے کیا کیفیت گذر جاتی۔ بہرحال ! مطلب یہ ہے کہ ان منافقین کو جہاد میں جانا تو تھا ہی نہیں۔ اور جیسا کہ آگے آیت 47 میں فرمایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ لشکر میں شامل ہو کر فساد مچائیں، لیکن اگر آپ انہیں جہاد سے الگ رہنے کی اجازت نہ دیتے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی کہ یہ نافرمان لوگ ہیں۔ بحالت موجودہ جبکہ یہ لوگ اجازت لے چکے ہیں۔ ایک طرف تو یہ مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم تو باقاعدہ اجازت لے کر مدینہ منورہ میں رہے، اور دوسری طرف اپنے لوگوں سے شیخی بگھاریں گے کہ دیکھوں ہم نے مسلمانوں کو کیسا دھوکا دیا۔
Top