Aasan Quran - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور انہی (منافقین) میں وہ لوگ بھی ہیں جو نبی کو دکھ پہنچاتے ہیں اور (ان کے بارے میں) یہ کہتے ہیں کہ : وہ تو سراپا کان ہیں۔ (55) کہہ دو کہ : وہ کان ہیں اس چیز کے لیے جو تمہارے لیے بھلائی ہے۔ (56) وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنوں کی بات کا یقین کرتے ہیں، اور تم میں سے جو (ظاہری طور پر) ایمان لے آئے ہیں، ان کے لیے وہ رحمت (کا معاملہ کرنے والے) ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاتے ہیں ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب تیار ہے۔
55: یہ عربی زبان کے ایک محاورے کا لفظی ترجمہ ہے۔ عربی محاورے میں جب کوئی شخص ہر ایک کی بات سن کر اس پر یقین کرلیتا ہو، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو ”نرا کان ہے“ یا ”سراپا کان ہے“۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو میں کہا جاتا ہے کہ ”وہ کچے کانوں کا ہے“۔ منافقین نے آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ گستاخانہ جملہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بولا تھا، اور مقصد یہ تھا کہ اگر کبھی ہماری سازش آنحضرت صلی اللہ علیہ پر کھل بھی گئی تو ہم باتیں بنا کر آپ کو راضی کرلیں گے۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی بات کا یقین کرلیتے ہیں۔ 56: منافقین کے مذکورہ بالا جملے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ سب سے پہلے کان لگا کر جو بات سنتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو درحقیقت تم سب لوگوں کی بھلائی کے لیے نازل ہوتی ہے۔ دوسرے وہ سچے مومنوں کی بات سن کر اس پر واقعی یقین کرلیتے ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ تیسرے وہ ان منافقوں کی بات بھی سنتے ہیں جو ظاہری طور پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان سے دھوکا کھا جاتے ہیں، بلکہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفقت اور رحمت کا پیکر بنایا ہے، اس کی وجہ سے حتی الامکان وہ ہر ایک سے رحمت کا معاملہ فرماتے ہیں، چنانچہ منافقین کی باتوں کی تردید کے بجائے آپ خاموش رہتے ہیں۔
Top