Aasan Quran - At-Tawba : 84
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مرجائے، تو تم اس پر کبھی نماز (جنازہ) مت پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا (69) یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا، اور اس حالت میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔
69: اس آیت کا شان نزول صحیح بخاری وغیرہ میں یہ منقول ہے کہ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا، لیکن اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ ؓ سچے اور پکے مسلمان تھے، اگرچہ عبداللہ بن ابی کی منافقت کئی مواقع پر ظاہر ہوچکی تھی، لیکن چونکہ وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا تھا، اس لئے ظاہری طور پر اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا تھا، چنانچہ جب اس کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ نے جو سچے مسلمان تھے، آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ آپ اسکی نماز جنازہ پڑھائیں، آنحضرت ﷺ چونکہ اپنی امت کے ہر فرد کے لئے بڑے مہربان تھے، اس لئے آپ نے یہ درخواست منظور فرمالی اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے، حضرت عمر ؓ نے آپ سے قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیا جو پیچھے گزرچکی ہے کہ تم ان کے لئے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لئے ستر مرتبہ استغفار کروگے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا (آیت نمبر : 80) لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میں چاہوں تو استغفار کروں، اس لئے میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرلوں گا، چنانچہ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھادی، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا پھر آپ نے کسی بھی منافق کی نماز نہیں پڑھائی۔
Top