Ahkam-ul-Quran - Ar-Ra'd : 8
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ١ؕ وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے مَا تَحْمِلُ : جو پیٹ میں رکھتی ہے كُلُّ اُنْثٰى : ہر مادہ وَمَا : اور جو تَغِيْضُ : سکڑتا ہے الْاَرْحَامُ : رحم (جمع) وَمَا : اور جو تَزْدَادُ : بڑھتا ہے وَكُلُّ : اور ہر شَيْءٍ : چیز عِنْدَهٗ : اس کے نزدیک بِمِقْدَارٍ : ایک اندازہ سے
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔
تغیض الارحام کی تشریح قول باری ہے (وما لغیض للرحام وما تزداد۔ اور جو کچھ عورتوں کے رحم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے (اس سے بھی باخبر رہتا ہے) حضرت ابن عباس ؓ اور ضحاک کا قول ہے کہ مدت حمل یعنی 9 ماہ کے عرصے میں جو کمی ہوتی ہے اور اس مدت میں جو اضافہ ہوتا ہے اس لئے کہ بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو کر زندہ رہتا ہے اور دو سال کے بعد پیدا ہو کر بھی زندہ رہتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اسقاط کی وجہ سے جو حمل ناتمام پیدا ہوتا ہے اور حمل کی مدت بڑھ جانے کی بناء پر جو بچہ پوری ساخت کا پیدا ہوتا ہے “ فراء کا قول ہے کہ غیض نقصان اور کم ہوجانے کو کہتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عرب کیل وگ غاضت المیاہ اس وقت کہتے ہیں جب پانی کی سطح نیچی ہوجاتی ہے۔ عکرمہ کے قول کے مطابق (وما تغیض) کے معنی ” اذا غاضت “ کے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رحم کے خون میں ایک دن کے اندر جو کمی ہوجاتی ہے حمل کے اندر اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ غیض سے وہ خون مراد ہے جو حاملہ عورت حمل کے دوران دیکھتی ہے۔ یہ دراصل رحم میں موجود حمل کی ساخت میں کمی کا باعث ہوتا ہے اور بیشی سے مراد وہ مدت ہے جو نو ماہ سے بڑھ جائے اس سے کمی کی تلافی ہوتی ہے۔ اس لئے آیت میں یہی اضافہ مراد ہے۔ اسماعیل بن اسحاق کا خیال ہے کہ اگر آیت کی تفسیر مجاہد اور عکرمہ سے مروی قول کے مطابق کی جائے تو گویا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو بھی حیض آتا ہے اس لئے کہ رحم سے جو خون بھی نکلتا ہے وہ یا تو حیض کا خون ہوتا ہے یا نفاس کا۔ رہ گیا استحاضہ کا خون تو وہ ایک رگ سے نکلتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل کا یہ قول ایک بےمعنی سی بات ہے۔ اس لئے کہ رحم سے نکلنے والا خون کبھی حیض و نفاس کا خون ہوتا ہے اور کبھی ان دونوں کے سوا ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ استحاضہ کا خون ایک رگ سے نکلنے والا خون ہوتا ہے اس بات کے لئے مانع نہیں ہے کہ رحم سے نکلنے والا بعض خون کبھی استحاضہ کا خون ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ کا ارشاد ہے (انما ھو عرق انقطعاوداء عرض یا تو یہ کوئی رگ ہے جو منقطع ہوگئی ہے یا کوئی بیماری ہے جو لاحق ہوگئی ہے) آپ نے یہ بتایا کہ استحاضہ کا خون کبھی کسی عارضہ کے لاحق ہوجانے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس وقت یہ کسی رگ سے خارج نہیں ہوتا۔ نیز اس بات کی راہ میں کون سی چیز حائل ہے کہ رگ کا خون رحم کے راستے خارج ہوجائے۔ اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ کوئی رگ منقطع ہوجائے اور اس سے خون بہہ کر رحم میں پہنچ جائے اور پھر وہاں سے خارج ہوجائے اس صورت میں نہ تو وہ حیض کا خون کہلائے گا اور نہ نفاس کا۔ اسماعیل بن اسحاق نے مزید کہا کہ یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا مگر صرف اس بنا پر کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی اطلاع دی گئی ہے، اس لئے کہ یہ غیب کی حکایت ہے :“ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس موقع پر اسماعیل یہ بھول گئے کہ ان کا یہ کلیہ اس امر کا موجب ہے کہ ” یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حاملہ عورت کو حیض آتا ہے مگر صرف اس بنا پر کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس کی اطلاع دی گئی ہے “۔ اس لئے کہ اسماعیل کے قاعدے اور کلیے کے مطابق یہ غیب کی حکایت ہے بلکہ اس سے حاملہ عورت کے حیض کی نفی کرنے والوں کے لئے جو گنجائش پیدا ہوجاتی ہے وہ اس کے اثبات کے قائلین کے لئے نہیں پیدا ہوتی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم تھا کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آ رہا تھا کہ اچانک اس نے خون دیکھ لیا۔ اب اختلاف پیدا ہوگیا کہ آیا یہ حیض تھا یا حیض نہیں تھا۔ حیض کا اثبات دراصل احکام کا اثبات ہوگا لیکن اسے کسی شرعی دلیل کے بغیر حیض ثابت کرنا جائز نہیں ہے، اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ حاملہ عورت عدم حیض کی حالت پر برقرار رہے حتیٰ کہ توقیف یعنی شرعی دلیل یا اتفاق امت کی بنا پر اس خون کا حیض ہونا ثابت ہوجائے۔ اس لئے کہ خارج ہونے والے خون کو حیض کا خون ثابت کر کے گویا ایک ایسے حکم کا اثبات ہوجائے گا جس کا علم صرف توقیف کے ذریعے ہوسکتا ہے نیز ہمارا یہ کہنا کہ حیض ہے دراصل رحم سے خارج ہونے والے خون کی خصوصیت اور اس کا حکم بیان کرنا ہے۔ اب خون کی کیفیت کبھی یہ ہوتی ہے کہ وہ یکساں حالت میں رحم سے خارج ہوتا رہتا ہے۔ اگر عورت یہ خون ماہواری کے ایام میں دیکھتی ہے تو اس پر حیض کا حکم عائد کردیا جاتا ہے اور اگر غیر ایام ماہواری میں دیکھتی ہے تو اس پر استحاضہ کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ نفاس کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے جب حیض اس سے زائد اور کوئی امر نہیں ہوتا کہ خاص اوقات میں جاری ہونے والے خون کے لئے کچھ احکام کا اثبات ہوجاتا ہے، اور حیض صرف جاری ہونے والے خون سے عبارت نہیں ہوتا بلکہ اس میں اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا حکم بھی اس میں داخل ہوتا ہے اب خون نکلنے پر حکم کے اثبات کا علم صرف توقیف یعنی شرعی دلیل کے ذریعے ہوسکتا ہے اس لئے حاملہ کے رحم سے نکلنے والے خون کے لئے اس حکم کا ثابت قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سلسلے میں نہ تو توقیف یعنی کوئی شرعی رہنمائی اور دلیل وارد ہوئی ہے اور نہ ہی اس پر امت کا اتفاق ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے اپنے گزشتہ قول پر یہ کہہ کر مزید اضافہ کیا ہے کہ ” یہ بات ان لوگوں پر لازم نہیں آتی جو یہ کہتے ہیں کہ حاملہ کو حیض آتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (ویسئلو منک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ پوچھتے ہیں حیض کا کیا حکم ہے کہو، وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو) جب اس آیت میں النساء کا لفظ آگیا تو اس سلسلے میں عموم کالزوم ہوگیا اس لئے کہ خون جب عورت کے فرج سے خارج ہوگا تو اسے کہنا اولیٰ ہوگا الایہ کہ اس کے سوا خون کے کسی اور قسم مثلاً نفاس وغیرہ کا علم ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ویسئلونک عن المحیض) میں حیض کی صفت کا اس طور پر بیان نہیں کہ اس کے ذریعے حیض دوسری چیز یعنی نفاس وغیرہ سے ممتاز ہوجائے۔ قول باری (قل ھو اذی) کے ذریعہ صرف ان امور کی خبر دی گئی ہے جن کا حیض سے تعلق ہے مثلاً ترک صلوٰۃ اور ترکیب صوم نیز ہمبستری سے اجتناب وغیرہ۔ اسی طرح اس فقرے کے ذریعے حیض کے خون کی نجاست اور اس سے اجتناب کے لزوم کی خبر دی گئی ہے۔ اس میں کوئی دلالت نہیں ہے کہ حیض کا خون حمل کی حالت میں موجود ہوتا ہے یا موجود نہیں ہوتا۔ اسماعیل کا یہ کہنا ایک بےمعنی سی بات ہے کہ جب آیت میں النساء کا لفظ آگیا تو اس سلسلے میں عموم کالزوم ہوگیا۔ “ اس لئے کہ قول باری ہے (فاعتزلوا النساء فی المحیض) قول باری (فی المحیض) میں یہ بیان نہیں ہے کہ حیض کیا ہے ؟ بلکہ اس کا بیان ہے کہ جب حیض کا ثبوت ہوجائے تو عورتوں سے الگ رہنا واجب ہے۔ اختلاف تو اس میں ہے کہ حمل کی حالت میں نکلنے والا خون آیا حیض ہے یا کچھ اور۔ اب فریق مخالف کا قول خود اس کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسماعیل کا یہ قول کہ ” حمل کے دوران فرج سے نکلنے والے خون کو حیض قرار دینا اولیٰ ہے “ محض ایک دعویٰ ہے جس کی پشت پر کوئی بربان اور دلیل نہیں ہے۔ اسماعیل کے مدمقابل کے لئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ ” خون جب عورت کے فرج سے خارج ہو تو اسے غیر حیض قرار دینا اولیٰ ہوگا حتیٰ کہ دلیل قائم ہوجائے کہ یہ حیض ہے اس لئے کہ ایسے خون کا بھی وجود ہے جو فرج سے نکلتا ہے لیکن حیض نہیں ہوتا۔ اس لئے پوری بحث سے صرف ایسے دعاوی کا ہی حصول ہوا جو ایک دوسرے پر مبنی ہیں اور اس لئے یہ تمام دعاوی پشت پناہ بننے والی کسی دلیل کی محتاج ہیں۔ مطر الوراق نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حاملہ عورت اگر خون دیکھے تو وہ نماز نہیں چھوڑے گی۔ حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ” ہمارے نزدیک حضرت عائشہ ؓ سے اس روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ کہا کرتی تھیں کہ حاملہ عورت جب خون دیکھے تو نماز پڑھنا چھوڑ دے اور پاک ہونے کے بعد نماز پڑھے۔ “ اس قول میں یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اس سے وہ حاملہ عورت مراد لی ہو جس کے بطن میں دو بچے ہوں اور ایک بچہ پیدا ہوچکا ہو تو سا صورت میں پہلے بچے کی پیدائش کے ساتھ نفاس کی ابتدا ہوجائے گی اور جب تک پاک نہیں ہوگی نماز نہیں پڑھے گی جیسا کہ اس بارے میں امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کا قول ہے۔ اس توجیہ کی اس لئے ضرورت پیش آئی تاکہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی دونوں روایتیں درست رہ جائیں اور ایک کی دوسری کے ساتھ تعارض لازم نہ آئے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا اگر وہ خون دیکھے تو وہ استحاضہ کا خون ہوگا۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک حاملہ عورت کو بھی حیض آسکتا ہے۔ ہمارے مسلک کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضور ﷺ سے غزوہٗ اوطاس میں گرفتار ہونے والی قیدی عورتوں کے بارے میں مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (لاتوطا حامل حتیٰ تضع ولا حائل حتی تستبری بحیضہ “۔ حاملہ سے جب تک وضع حمل نہ ہو ہمبستری نہ کی جائے اور غیر حاملہ سے جب تک ایک حیض کے ذریعہ استبراء رحم نہ ہو صحبت نہ کی جائے) استبراء رحم کی حمل سے برأت معلوم کرنے کو کہتے ہیں۔ جب شارع (علیہ السلام) نے حیض کے وجود کو رحم کی برأت کی نشانی قرار دیا تو پھر حمل کے وجود کے ساتھ حیض کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اس لئے کہ اگر حمل کے وجود کے ساتھ حیض کا بھی وجود ہوتا تو پھر حیض برأت رحم کی نشانی قرار نہ پاتا۔ اس پر حضور ﷺ کا طلاق سنت کے متعلق یہ قول بھی دلالت کرتا ہے (فلیطلقھا طاھرا من غیر جماع اوحاملا قد استیان حملھا۔ پھر شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو طہر کی حالت میں طلاق دے جس میں ہمبستری نہ ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو) اگر حاملہ عورت کو حیض آتا تو حضور ﷺ اس کے ساتھ ہمبستری اور اس کی طلاق کے درمیان ایک حیض کے ذریعہ فصل کردیتے جس طرح غیر حاملہ عورت کی صورت میں آپ نے حکم دیا ہے حضور ﷺ نے حاملہ عورت کو جماع کے بعد ایک حیض کے ذریعے جماع و طلاق کے درمیان فصل کئے بغیر طلاق دینے کی اباحت کردی جو اس بات کی دلیل ہے کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا۔
Top