Ahkam-ul-Quran - Ibrahim : 25
تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ
تُؤْتِيْٓ : وہ دیتا ہے اُكُلَهَا : اپنا پھل كُلَّ حِيْنٍ : ہر وقت بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهَا : اپنا رب وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : وہ غور وفکر کریں
اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا (اور میوے دیتا) ہو اور خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔
حین سے مراد قول باری ہے (توتی اکلھا کل حین باذن ربھا۔ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہا ہے) ابو ظبیان نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” صبح اور شام ! سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس شجرۂ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے جو ہر چھ ماہ بعد پھل دیتا ہے۔ مجاہد، عامر اور عکرمہ سے بھی یہی مروی ہے۔ اسی طرح الحکم اور حماد سے بھی ان کا یہی قول منقول ہے۔ عکرمہ سے ایک روایت میں ان کا یہ قول مروی ہے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ آیت میں وارد لفظ ’ حسین ‘ سے مراد دو مہینے ہیں جو کھجور اتارنے سے لے کر نئے شگوفے نکلنے تک کی مدت ہے۔ سعید بن المسیب سے یہ بھی مروی ہے کہ کھجور کے درخت میں پھل صرف دو ماہ تک رہتا ہے۔ سعید سے ایک اور روایت کے مطابق آیت میں لفظ ’ حین ‘ سے چھ ماہ کا عرصہ مراد ہے۔ القاسم بن عبد اللہ نے ابو حازم سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ جب آپ سے لفظ ’ حین ‘ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی (توتی اکلھا کل حسین) اور فرمایا ” چھ ماہ “ پھر یہ آیت تلاوت کی (لیسجننہ حتی حین۔ اسے ایک مدت کے لئے قید کردیں) اور فرمایا : ” تیرہ سال “ پھر یہ آیت تلاوت کی (ولتعلمن نباہ بعد حین “ اور تمہیں ضرور اس کی خبر ایک مدت کے بعد مل جائے گی) اور فرمایا ” قیامت کا دن، ہشام بن حسان نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے کہا : ان فعلت کذا وکذا الی حین فغلا مہ حسو “ اگر میں نے فلاں فلاں کام فلاں مدت تک کر لئے تو میرا غلام آزاد) وہ شخص حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس آ کر مسئلہ پوچھنے لگا۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا میں نے جواب میں کہا۔ ” حین یعنی مدت کی ایک قسم وہ ہے جس کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ قول باری ہے (وان ادری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الی حین۔ اور میں خبر نہیں رکھتا شاید کہ وہ تمہارے لئے امتحان ہی ہو اور ایک (خاص) وقت تک کے لئے فائدہ اٹھانا) اس لئے یہ شخص کھجور اتارنے کے وقت سے لے کر شگوفہ نکلنے تک فقرے میں ذکر کردہ کاموں سے باز رہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میرا یہ جواب حضرت عمر بن عبد العزیز کو بہت پسند آیا۔ عبد الرزاق نے معمر سے اور انہوں نے حسن سے قول باری (توتلی اکلھا کل حین) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” چھ یا سات ماہ کے مابین “۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ’ حین ‘ کے لفظ کا اطلاق وقت مبہم پر ہوتا ہے لیکن اس سے ایک مقرر وقت مراد لینا بھی درست ہے۔ قول باری ہے (فسبحن اللہ حین تمسون وحین تصبحون۔ اللہ کی تسبیح ہے جب تم شام کرو اور جب صبح کرو) پھر فرمایا (وحین تظھرون۔ اور جب تم دوپہر کرو) یہاں یہ لفظ نماز فجر، ظہر اور مغرب کے اوقات پر محمول ہے اگرچہ اس میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے بھی ہے۔ یہاں لفظ ’ حین ‘ سے ان اوقات میں فرض نمازوں کی ادائیگی مراد ہے اس لئے یہاں یہ لفظ ان نمازوں کے اوقات کے لئے اسم بن گیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس سے لفظ ’ حین ‘ کی تفسیر میں ” صبح اور شام “ کی جو روایت منقول ہے اس میں آپ کا ذہن اس قول باری کی طرف گیا ہے (حین تمسون وحین تصبحون) بعض دفعہ ’ حین ‘ کے لفظ کا اطلاق کر کے اس سے کم سے کم وقت مراد لیا جاتا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (وسوف یعلمون حین یدون العذاب۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے) یہاں یہ لفظ دیکھنے کے وقت پر محمول ہے۔ دیکھ لینے کا وقت انتہائی مختصر ہوتا ہے اس میں کوئی امتداد نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ اس لفظ کا اطلاق کر کے چالیس سال کی مدت مراد ہوتی ہے اس لئے کہ قول باری (ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا۔ بیشک انسان پر زمانہ میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہیں تھا) کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے چالیس سال مراد ہے۔ آیت زیر بحث کی تفسیر کے سلسلے میں ہم نے سلف سے ایک سال، چھ ماہ، تیرہ سال اور دو ماہ کے جو اقوال نقل کئے ہیں ان سب کا احتمال موجود ہے، جب بات اس طرح ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ ’ حین ‘ ایک ایسا اسم ہے جس کا اطلاق متکم کے حسب منشا وقت مبہم پر، کم سے کم وقت پر اور مقررہ مدت پر ہوتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ قسم کھا بیٹھے کہ وہ فلاں شخص سے گفتگو نہیں کرے گا، اس کی مدت اس نے اسی لفظ ’ حین ‘ سے مقرر کی ہو تو اس صورت میں اس قسم کو چھ ماہ کی مدت پر محمول کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بات تو واضح ہے کہ قسم کھانے والے نے یہ لفظ کہہ کر کم سے کم وقت مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ عام حالات میں لوگ کم سے کم مدت کے قلیل وقت کے لئے قسم نہیں کھاتے، نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ قسم کھانے والے نے اس سے چالیس برس کی مدت مراد نہیں لی ہے اس لئے کہ جو شخص چالیس برس کی مدت کے لئے ایک قسم کھائے گا وہ گویا ہمیشہ کے لئے قسم کھائے گا اور اس میں وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ پھر قول باری (ترتی اکلھا کل حین باذن ربھا) کی تفسیر میں مدت کے بارے میں سلف کے مابین اختلاف رائے پایا گیا جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں تو اس میں کم سے کم وقت چھ ماہ کا عرصہ ہوگا اس لئے کہ کھجور کی فصل کی کٹائی سے لے کر نئے شگوفے نکلنے کے وقت تک کی مدت چھ ماہ ہوتی ہے۔ ایک سال کی مدت کے اعتبار سے چھ ماہ کی مدت کا اعتبار اولیٰ ہے اس لئے کہ پھل لگے رہنے کی مدت ایک سال تک نہیں پھیلتی بلکہ یہ مدت منقطع ہوجاتی ہے یہاں تک کہ اس میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ لیکن اگر ہم چھ ماہ کی مدت کا اعتبار کریں گے تو یہ ظاہر لفظ کے موافق ہوگا یعنی کھجور کا درخت چھ ماہ پھل دیتا ہے اور چھ ماہ پھل کے بغیر رہتا ہے۔ جن حضرات نے آیت کی تفسیر میں دو ماہ کا اعتبار کیا ہے ان کا یہ اعتبار کوئی معنی نہیں رکھتا سا لئے کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کھجور کی فصل کی کٹائی سے لے کر نئے شگوفے نکلنے تک کی مدت دو ماہ سے زائد ہوتی ہے، اگر ان حضرات نے درخت پر پھل کا دو ماہ تک باقی رہنے کا اعتبار کیا ہے تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ شگوفے نکلنے کے وقت سے کھجور اتارنے کے وقت تک کا عرصہ بھی دو ماہ سے زائد ہوتا ہے۔ جب ایک سال نیز چھ ماہ کی مدتوں کا ان وجوہات کی بنا پر اعتبار باطل ہوگیا جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ چھ ماہ کی مدت کا اعتبار ہی اولیٰ ہے۔
Top