Ahkam-ul-Quran - An-Nahl : 14
وَ هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جو۔ جس سَخَّرَ : مسخر کیا الْبَحْرَ : دریا لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھؤ مِنْهُ : اس سے لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تم نکالو مِنْهُ : اس سے حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا : تم وہ پہنتے ہو وَتَرَى : اور تم دیکھتے ہو الْفُلْكَ : کشتی مَوَاخِرَ : پانی چیرنے والی فِيْهِ : اس میں وَلِتَبْتَغُوْا : اور تاکہ تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ۔ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں اور اس لئے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ (اسکا) شکر کرو۔
زیور کے بارے میں حکم قول باری ہے (وتستخرجوا منہ حلیۃ تلبسونھا۔ اور تاکہ اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو) امام ابو یوسف اور امام محمد اس آیت سے اس مسئلے میں استدلال کرتے ہیں جس میں ایک شخص نے زیور نہ پہننے کی قسم کھائی ہو اور پھر وہ موتی پہن لے تو حانث ہوجائے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر سے نکلنے والے موتی کو زیور کے نام سے موسوم کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ شخص حانث نہیں ہوگا اس لئے کہ قسموں کو ان معافی پر محمول کیا جاتا ہے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہوتے ہیں۔ عرف میں صرف موتی کو زیور کے نام سے موسوم کرنا موجود نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ موتی فروخت کرنے والا زیورات فروخت کرنے والا نہیں کہلائے گا۔ رہ گئی آیت تو اس میں یہ بھی ارشاد ہے (لتاکلوا منہ لحما طربا تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کر کھائو) جبکہ اس مسئلے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کہ اگر کسی نے گوشت نہ کھانے کی قسم کھائی ہو اور پھر مچھلی کھالے تو حانث نہیں ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو بھی تروتازہ گوشت کا نام دیا ہے۔
Top