Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا
قول باری ہے (وکل انسان الزمناہ طائرۃ فی عنقہ ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے) ایک قول کے مطابق طائر سے مراد ایک انسان کے اپنے عمال خیر و شر میں جس طرح عربوں کا دستور تھا کہ اگر پرندہ دائیں جانب سے آ جاتا تو اسے بربرکت سمجھتے اور نیک شگون قرار دیتے جبکہ بائیں جانب سے آنے والے پرندے کو نحوست قرار دیتے اور اس سے بدشگونی لیتے۔ اس بناء پر طائر کو خیر و شر کے لئے اسم قرار دیا گیا اور ان دونوں کے ذکر کی بجائے صرف پرندے کے ذکر پر اکتفا کیا گیا اس لئے کہ یہ لفظ دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں اس طرح آویزاں ہے جس طرح طوق اس کے گلے میں آویزاں ہا ہے اور کبھی اس سے الگ نہیں ہوتا دراصل یہ طرز بیان کسی کو نصیحت کرنے خدا کے عذاب سے ڈرانے صلاح کی دعوت دینے اور گناہ روکنے کے لئے انتہائی بلیغ ہے۔
Top