Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 11
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو (فواحش) پر مامور کردیا، تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے، پھر اس پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوگیا اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا
راہنمائوں کی اکثریت فاسق ہوجائے تو عذاب الٰہی آتا ہے قول باری (واذا اردنا ان نھلک قریۃ امرنا متردیھا فصسقوا فیھا جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں ، سعید کا قول ہے کہ انہیں طاعت کا حکم ملتا ہے لیکن وہ نافرمانیوں پر اتر آتے ہیں عبداللہ سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی قبیلہ کے افراد کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے تو ہم کہتے کہ اب اس کی شامت آنے والی ہے حسن، ابن سیرین اور ابو العالیہ نیز عکرمہ اور مجاہد سے (امرنا) بمنی اکثرناً (ہم نے تعداد بڑھا دی) مروی ہے۔ اس تفسیر کی بنا پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بستی والوں کی نافرمانیوں سے پہلے انہیں ہلاک کرنے کا ارادہ الٰہی وجود میں آ جاتا ہے۔ اس لئے کہ کسی بستی کو ہلاک کرنا دراصل اللہ کی طرف سے دی جانے والی سزا کی ایک صورت ہوتی ہے اور نافرمانی نہ کرنے والوں کو ہلاک کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (جداراً یرید ان ینقض ایک دیوار جو گراہی چاہتی تھی ، اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ گرنے کا ارادہ وجود میں آگیا تھا بلکہ مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ یہ جلد ہی گر جانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خوش حالی لوگوں کا خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ یہی لوگ سرداران قوم ہوتے ہیں اور باقی ماندہ لوگ ان کے پیروکاروں کا درجہ رکھتے ہیں جس طرح فرعنہ مصر میں سے ہر فرعون اپنی قوم کا سردار ہوتا اور قوم اس کی پیروکار ہوتی یا جس طرح حضور ﷺ نے قیصر روم کو دعوت نامہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا (العلم والا فعلیک اثم الاریسین) اسلام لے آئو ورنہ تم پر تمام کاشتکاروں کا گناہ لازم آئے گا ) اسی طرح آپ نے کسریٰ کو نامہ تحریر فرمایا (فان لم تسلم فعلیک اثم الا کارین۔ اگر تم اسلام نہ لائے تو تمام کسانوں کا گناہ تمہارے سر ہوگا)
Top