Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو شخص دنیا (کی آسودگی) کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں، پھر اس کے لئے جہنم کو (ٹھکانا) مقرر کر رکھا ہے، جس میں وہ نفرین سن کر اور (درگاہ خدا سے) راندہ ہو کر داخل ہوگا
خد ا اپنی مرضی سے جتنا چاہے طالبان دنیا کو نوازتا ہے قول باری ہے (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید جو عاجلہ کا خواہشمند ہو اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں) عاجلہ سے مراد دنیا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (کلا بل تحبون العاجلۃ وتذرون الاخرۃ) ہرگز ایسا نہیں، اصل یہ ہے کہ تم دنیا سے تو محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو) اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ جس شخص کی ساری تگ و دو دنیا کی طلب تک محدود ہو اور اس کے دل میں آخرت کی نہ کوئی فکر ہو اور نہ چاہت اسے یہیں جتنا وہ چاہے مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سے دینے کو دو باتوں کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ ایک پر یہ قول دلالت کرتا ہے (عجلنا لہ فیھا ھا نشآء) اسی بنا پر دی جانے والی چیز میں (ما نساء) کے ذریعے استثناء کردیا جو اس چیز کی مقدار، اس کی جنس اور اس کے دوام یا انقطاع کو متضمن ہے پھر اس پر ایک اور استثنا داخل کرتی ہوئے فرمایا (لمن نرید) یعنی حصول دنیا کی کوششیں کرنے والے تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا نہیں دیتا بلکہ ان میں سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے، اسی لئے درج بالا قول کے ذریعے دنیا پانے والوں کے اندر بھی استثناء کردیا ۔ اس طرح طالبان دنیا کو دنیا دینے کے سلسلے میں دو استثنائوں کا ذکر فرمایا تاکہ دنیا کے طلبگار اس بھروسے پر نہ بیٹھے رہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں ضرور بالضرور دنیا مل کر ہی رہے گی۔ پھر فرمایا (ومن ادادا الآخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مرمن فاولئک کان سعیھم مشکوراً اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کوئی استثناء نہیں کیا۔ درست طریقے سے سعی کرنے کے بعد طالبان آخرت کی جزاء کے لئے کسی اسثناء نہیں کیا۔ درست طریقے سے سعی کرنے کے بعد طالبان آخرت کی جزاء کے لئے کسی استثناء کی ضرورت نہیں رہی تاہم آخرت کی سعی کے لئے یہ شرط ضرور لگا دی گئی کہ سعی کرنے والا مومن ہو اور اس کے پیش نظر آخرت کا ثواب ہو۔ جنت میں داخلہ تین باتوں سے مشروط ہے محمد بن عجلان کا قول ہے کہ جس شخص کے اندر تین باتیں نہیں ہوں گی وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا اول درست نیت، دوم سچا ایمان اور سوم صحیح عمل۔ “ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں کہاں سے اخذ کی ہیں۔ انہوں نے جواب میں فرمایا، اللہ کی کتاب سے، ارشاد ربانی ہے (ومن ارادا الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن) اللہ تعالیٰ نے ثواب کے استحقاق کے سلسلے میں آخرت کے لئے سعی کو چند اوصاف کے ساتھ معلق کردیا اور مقصود کے اندر کسی چیز کا استثناء نہیں کیا دوسری طرف طلب دنیا کو کسی وصف کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اسے مطلق رہنے دیا لیکن دنیا میں سے حاصل ہونے والی چیز اور دنیا حاصل کرنے والوں کے سلسلے میں دو استثنائوں کا ذکر فرمایا۔
Top