Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار ! جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت) سے پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما
قول باری ہے (واخضض لھما جناح الذل من الرحمۃ اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے بھک کر رہو) اس کی تفسیر میں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ جس چیز کے وہ خواہشمند ہوں ان سے وہ چیز نہ روکو۔ “ ہشام نے حسن بصری سے نقل کیا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ والدین کے ساتھ نیکی کا کیا مفہوم ہے۔ حسن نے جواب میں فرمایا۔” جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ان کے لئے خرچ کر ڈالو اور ان کے حکموں کی فرمانبرداری کرو بشرطیکہ کوئی حکم خدا کی نافرمانی کو مستلزم نہ ہو۔ “ عمرو بن عثما ن نے واصل بن سانب سے آیت زیر بحث کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ” اپنا ہاتھ بھی ان کے سامنے نہ جھاڑو۔ “ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ جس شخص نے تیز نظروں سے اپنے والدین کو دیکھا اس نے ان کے ساتھ کوئی نیکی نہیں کی۔ “ ابوالہیاج سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سعید بن المسیب سے (قولاً کریماً ) کا مفہوم دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا :” ایک عاجز غلام کا طرز تکلم جو وہ اپنے درشت خو اور سخت مزاج آقا کے سامنے اختیار کرے۔ “ عبداللہ ! الرصافی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے عطاء نے آیت زیر بحث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا۔” اپنے ماں باپ پر کبھی ہاتھ نہ اٹھائو اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے کبھی تیز نظروں سے ان کی طرف نہ گھورو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ) مجاز پر مبنی ہے اس لئے کہ ذلت یعنی نرمی کے پر نہیں ہوتے اور نہ ہی اسے اس وصف سے متصف کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تذلل یعنی عاجزی اور تواضع میں مبالغہ مراد ہے جسے ایک بیٹے کو والدین کے لئے اختیار کرنا چاہیے ۔ رات کی کیفیت بیان کرتے ہوئے امرئو القیس نے کہا ہے : فقلت لہ لما تمطی بصلبہ واردف اعجازاً وناء بکلکل جب رات نے اپنی پشت بچھا دی، اپنی سرینیں پھیلا دیں اور اپنا سینہ دراز کردیا تو میں نے اس سے کہا۔ حالانکہ رات کی نہ پشت ہوتی ہے نہ سرینیں اور نہ ہی سینہ اس لئے یہ انداز بیان مجاز پر مبنی ہے دراصل شاعر یہاں رات کی یکسانیت اور اس کی طوالت بیان کرنا چاہتا ہے۔ والدین کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرنی چاہیے قول باری ہے (وقل رب ارحمھما کما ریبا صغیراً اور دعا کیا کرو کہ ” پروردگار ! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے شفقت و رحمت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا “ ) آی ت میں والدین کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا مانگنے کا حکم ہے بشرطیکہ دونوں مسلمان ہوں اس لئے کہ ایک مقام پر قول باری ہے۔ (ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی نبی اور اہل ایمان کے لئے یہ زیبا نہیں کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں) اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ والدین کے لئے دعا کا حکم مومن والدین کے ساتھ مخصوص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم کو توحید کے حکم ساتھ مقرون کر کے گویا والدین کے حقوق کو اور مئوکد بنادیا ہے چناچہ ارشاد ہے (وقضی ربک الاتعبدوالا ایاہ و بالوالدین احساناً ) پھر ان کے ساتھ حسن سلوک کی کیفیت بیان فرمائی کہ قول و فعل کے ذریعہ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا جائے اور عاجزی اور تواضع کے ساتھ ان سے گفتگو کی جائے اور ان سے بیزاری اور اکتاہٹ کے اظہار سے منع کیا گیا چناچہ ارشاد ہوا (ولا تقل لھما اف) نیز ان پر سختی کرنے اور انہیں جھڑکنے سے بھی روکا گیا ۔ فرمایا (ولا تنھرھما) بیٹے کو ان کے ساتھ نرم گفتگو کرنے اور ان کے حکموں کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا بشرطیکہ ان کا کوئی حکم خدا کی نافرمانی کو مستلزم نہ ہوتا ہو۔ اس کے بعد پھر یہ حکم دیا گیا کہ ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد ان کے لئے دعا مانگی جائے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے باپ کے حق پر ماں کے حق کو فائق قرار دیا ہے۔ ابوزرعہ بن عمرو بن جویر نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا۔” اللہ کے رسول ﷺ ! میرے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر کون مستحق ہے۔ “ آپ نے فرمایا تمہاری ماں۔ “ اس نے عرض کیا۔” پھر کون “ آپ نے جواب دیا ” تمہاری ماں “ اس نے پھر عرض کیا پھر کون ؟ “ آپ ؐ نے جواب دیا ” تمہاری ماں “ جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ یہی سوال کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا ” تمہارا باپ۔ “
Top