Ahkam-ul-Quran - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
قول باری ہے وانی خفت الموالی من ورائی مجھے اپنے پیھچے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے ) مجاہد، قتادہ، ابو صالح اور سدی سے مروی ہے کہ الموالی عصبہ کو کہتے ہیں جو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بنو اعمام تھے۔ آپ کو دین کے بارے میں ان کی برائیوں کا خوف تھا اس لئے کہ وہ بنی اسرائیل کے بدترین لوگ تھے۔ نبوت کی میراث قول باری ہے (فھب لی من لدنک ولیا یرثنی ویرث من آل یعقوب ۔ تو مجھے اپنے فضل خاص سے ایک ورث عطا کر دے جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے) آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ ایک بیٹا عطا ہوجائے جو میری موت کے بعد دین کے امور کی نگہداشت کرے اور اس پر عمل پیرا رہے۔ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ میرے چچا زاد بھائی کہیں دین کو بدل نہ ڈالیں۔ قتادہ نے حسن بصری سے قول باری (یرثنی و یرث من ال یعقوب) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد حضرت زکریا (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کا علم ہے۔ خصیف نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) ہے اولاد تھے، آپ کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے ایک بچے کا سوال کیا اور فرمایا کہ یہ بچہ میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے۔ یعنی اسے نبوت ملے۔ ابوصالح سے بھی اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہ ذکر کیا کہ وہ بچہ مال کا وارث بنے گا اور آل یعقوب سے اسے نبوت کی میراث ملے گی۔ اس طرح حضرت ابن عباس نے نبوت پر میراث کے لفظ کے اطلاق کو درست قرار دیا ۔ اسی طرح یہ جائز ہے کہ قول باری (یرثنی) سے یہ مراد لی جائے کہ ” وہ میرے علم کا وارث بنے۔ “ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یور ثوا دینا لا ولا درھما وانما ورثوا العلم ۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء نے اپنی میراث میں دنیار و درہم نہیں چھوڑے انہوں نے اپنی میراث میں صرف علم چھوڑا ہے ) اسی طرح آپ کا ارشاد ہے (کونوا علی مشاعرکم … یعنی بعرفات … فانکم علی ارث من ارث ابراہیم۔ مناسک حج ادا کرنے کے مقامات پر پہنچو، یعنی عرفات میں، اس لئے کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) کی میراث کے امین ہو۔ ) زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا۔” میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (لا نورث ماترکناصدقۃ، ہم کسی کو اپنی میراث کا وارث نہیں بناتے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا) زہری نے مالک بن اوس بن احدثان سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے چند صحابہ کرام کو جن میں حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف حضرت زبیر اور حضرت طلحہ تھے، یہ فرمایا : میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دے کر جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، پوچھتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا :” ہم کسی کو وارث نہیں بناتے ، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں گے وہ صدقہ ہوگا۔ “ ان حضرات نے حضرت عمر کے سوال کا جواب اثبات میں دای۔ صحابہ کی اس جماعت کی روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انبیاء (علیہم السلام) کسی کو مال کا وارث نہیں بناتے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے قول یرثنی (میرا وارث بنے) سے مال کی وراثت مراد نہیں لی ہے۔ اللہ کے ایک نبی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اس بارے میں پریشا ن ہوں کہ ان کی موت کے بعد ان کا مال کس طرح حق دار تک پہنچے گا۔ بلکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو حقیقی پریشانی یہ تھی کہ ان کے بنو اعمام ان کی موت کے بعد کہیں ان کے علوم اور ان کی کتاب پر قبضہ نہ جمالیں اور پھر ان میں تحریف و تبدیل کے ذریعے مال کمانا شروع کردیں اور اس طرح ان کے لائے ہوئے دین کو بگاڑ کر رکھ دیں اور لوگوں کو صحیح دین تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجائیں۔ نذر عہد قدیم میں قول باری ہے (انی نذرت للرحمن صوماً فلن اکلم الیوم انسیاً میں ن ے رحمان کے لئے روزے کی نذر مانی ہے اس لئے آج میں کسی سے نہ بولوں گی) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ترک کلام اور سکوت اختیار کرلینا اس زمانے میں عبادت میں شمار ہوتا تھا۔ اگر یہ بات اس طرح نہ ہوتی تو حضرت مریم (علیہ السلام) ترک کلام کی نذر نہ مانتیں اور نذر ماننے کے بعد اس پر عمل پیرا نہ ہوتیں۔ معمر نے قتادہ سے قول باری (انی نذرت للرحمٰن صوماً ) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ بعض قرأت میں ” صوما “ کی بجائے ” صمتاً “ ہے۔ صوم سے حضرت مریم کی مرادصمت یعنی خاموشی اور ترک کلام تھی۔ اس پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے جو قرآن کے الفاظ میں اس طرح بیان ہوا ہے (فلن اکلم الیوم انسیاً ) یہ حکم اب حضور ﷺ سے اس روایت کی بنا پر منسوخ ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے دن بھر رات تک خاموش رہنے سے منع فرمایا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اس زمانے میں جو شخص روزہ رکھتا وہ لوگوں سے گفتگو نہ کرتا تاہم حضرت مریم کو اپنے بارے میں اطلاع دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو تین دنوں تک کلام کرنے سے روک رکھا تھا اور اسی چیز کو ان کے لئے ان کے بچے کی پیدائش کے قوت کی نشانی قرار دیا تھا۔ اس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کو کسی مرضی یا گونگے پن کے بغیر ہی بات کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
Top