Ahkam-ul-Quran - Maryam : 92
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ
وَمَا : جبکہ نہیں يَنْۢبَغِيْ : شایان لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے اَنْ يَّتَّخِذَ : کہ وہ بنائے وَلَدًا : بیٹا
اور خدا کو شایاں نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے
بیٹا باپ کا غلام نہیں ہوتا کہ جیسے چاہے غلام کی طرح اس پر تصرف کرے قول باری ہے (وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً ان کل من فی السموت و الارض الا اتی الرحمٰن عبداً ۔ رحمٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ والد کی اپنے ولد پر ملکیت باقی نہیں رہتی کہ اس کی وجہ سے وہ اس کا غلام بنا رہے اور وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ مالک ہوتے ہی وہ اس پر آزاد ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور غلام میں فرق رکھا ہے اور عبودیت یعنی غلام ہونے کے اثبات کے ساتھ نبوت یعنی بیٹے ہونے کی نسبت کی نفی کردی ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (لا یجزی ولد والدہ الا ان یجدہ مملوکا فیشتر یہ فیعتقہ بالشری کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسانات کا بدلہ چکا نہیں سکتا الا یہ کہ وہ اسے کسی کا غلام پائے اور اس سے خرید کر اس کے ساتھ ہی اسے آزاد کر دے ) یہ روایت آپ کے اس ارشاد کی طرح ہے (الناس غادیان فبائع نفسہ فموبقھا و مشتر نفسہ فمعتقھا ۔ تمام لوگ جب صبح نکلتے ہیں تو ان کے دو گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتا ہے جو اپنی جان فروخت کر کے اسے ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جو اپنی جان خرید کر کے اسے آزاد کردیتا ہے) یہاں آپ کی یہ مراد نہیں ہے کہ خریداری کے بعد اپنی جان کو آزاد کرنے کی ابتدا کرتا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خریداری کے ساتھ ہی وہ اسے آزاد کردیتا ہے۔ اس طرح آپ کے قول (فیشتریہ فیعتقہ ) کا مفہوم بھی یہی ہے۔ آپ کا یہ قول اس قول کے ہم معنی ہے کہ ” فیشتر یہ فیمل کہ “ (وہ اسے خرید لیتا اور اس کا مالک بن جاتا ہے) اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ خریداری کے بعد نئے سرے سے کوئی اور ملکیت حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ مفہوم ہے کہ خریداری کے ساتھ ہی وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ نفس خریداری کے ساتھ ہی وہ اس پر آزاد ہوجاتا ہے اس امر پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ آزاد آدمی کا بیٹا جو اس کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے آزاد ہوتا ہے ۔ اسے نئے سرے سے آزاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو اپنے بیٹے کو خرید لیتا ہے۔ اگر ایسا باپ اپنے بیٹے کو نئے سرے سے آزاد کرنے کا محتاج ہوتا تو اسے اپنی لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کی آزادی کے سلسلے میں بھی ضرورت پیش آتی کیونکہ اس کی لونڈی جو اس کے بیٹے کی ماں ہے اس کی ملکیت میں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا اصل کے اعتبار سے آزاد تھا اس لئے باپ کو اسے نئے سرے سے آزاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن خریدا ہوا بیٹا غلام تھا اس لئے وہ نفس خریداری کی بنا پر آزاد نہیں ہوگا جب تک وہ اسے نئے سرے سے آزاد نہیں کرے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس جہت سے دونوں بیٹوں میں اختلاف ہمارے دعوے کے حق میں اس استدلال کے لئے مانع نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ بیٹے پر باپ کی ملکیت باقی نہیں رہتی۔ بلکہ مالک ہوتے ہی اس پر اس کا آزاد ہوجانا واجب ہوجاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر بیٹے پر اس کی ملکیت کا باقی رہ جانا جائز ہوتا تو پھر لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کا غلام رہ جانا بھی اس وقت تک واجب ہوتا جب تک وہ اسے آزاد نہ کردیتا۔ لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے اور خرید شدہ بیٹے میں اس جہت سے فرق ہے کہ پہلا بیٹا اصل کے اعتبار سے آزاد ہوتا ہے اور دوسرا بیٹا اس پر آزاد ہوجاتا ہے اور اس کی ولاء باپ کے لئے ثابت ہوتی ہے، اس فرق کی وجہ صرف یہ ہے کہ خریدشدہ بیٹا کسی اور کی ملکیت میں تھا اس لئے اس کے سوا اور کوئی چارئہ کار نہیں تھا کہ خریدنے کے ساتھ ہی باپ کی جانب سے اسے آزادی حاصل ہوجاتی تاکہ اس کی ملکیت کا استقرار ہوجاتا اس لئے کہ فروخت کنندہ کی ملکیت میں اس پر آزادی کا وقوع پذیر ہونا جائز نہیں تھا کیونکہ اگر فروخت کنندہ کی ملکیت میں آزادی وقوع پذیر ہوجاتی تو اس صورت میں بیع باطل ہوجاتی۔ اس لئے کہ یہ بیع آزادی ملنے کے بعد ہوتی اور ظاہر ہے کہ ایک آزاد شخص کو فروخت کرد ینا جائز نہیں ہوتا۔ اس طرح بیع کی حلات میں آزادی کا وقوع پذیر ہونا بھی درست نہیں تھا اس لئے کہ آزادی کا حاصل ہوجانا اس حالت میں بیع کی صحت کے لئے مانع بن جاتا جس حالت میں اسے آزادی حاصل ہوئی تھی اس لئے ضرور یہو گیا کہ اسے دوسری ملکیت یعنی باپ کی ملکیت کے اندر آزادی حاصل ہو۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ ملکیت نہ ہونے کی حالت میں آزادی وقوع پذیر ہوجائے اس لئے کہ اس سے یہ لازم آئے گا کہ ملکیت کے اندر نہ ہونے کی حالت میں اسے آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ اسے دوسری ملکیت کے اندر آزادی حاصل ہو۔ رہ گیا وہ بیٹا جو اس کی ملکیت کے اندر اس کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہوا ہو تو اگر ہم اس پر اس کے باپ کی ملکیت کا اثبات کردیں تو اس ملکیت کی حالت میں ہی آزادی کا مستحق وار پائے گا اس لئے اس پر اس کی ملکیت کا اثبات جائز نہیں ہوگا جبکہ بیٹے کے اندر وہ بات موجود ہو جو باپ کی ملکیت کی منافی ہے اور وہ ہے اس حالت میں آزادی کا استحقاق اس بنا پر وہ اصل کے اعتبار سے آزاد قرار دیا جائے گا اور اس پر باپ کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی۔ اور اگر ابتداً اس پر اس کی ملکیت کا ثبوت ہوجاتا تو وہ اس حالت میں آزادی کا مستحق ہوجاتا جس حالت میں باپ اس کے اثبات کا ارادہ کرتا کیونکہ اس چیز کو واجب کرنے والا سبب موجود تھا اور وہ یہ تھا کہ باپ کے لئے بیٹے کی ماں کی ملکیت ثابت تھی اور ایسی ملکیت کا اثبات درست نہیں ہوتا جو وجود میں آنے کی حالت ہی میں منتقی ہوجائے۔ دونوں بیٹوں کے درمیان اس جہت سے اختلاف اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ دونوں حالتوں میں بیٹے پر اس کی ملکیت بیٹے کی آزادی اور اس کی حریت کی موجب بن جائے۔
Top