Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا
: اور انہوں نے پیروی کی
مَا تَتْلُوْ
: جو پڑھتے تھے
الشَّيَاطِیْنُ
: شیاطین
عَلٰى
: میں
مُلْكِ
: بادشاہت
سُلَيْمَانَ
: سلیمان
وَمَا کَفَرَ
: اور کفرنہ کیا
سُلَيْمَانُ
: سلیمان
وَلَٰكِنَّ
: لیکن
الشَّيَاطِیْنَ
: شیاطین
کَفَرُوْا
: کفر کیا
يُعَلِّمُوْنَ
: وہ سکھاتے
النَّاسَ السِّحْرَ
: لوگ جادو
وَمَا
: اور جو
أُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
عَلَى
: پر
الْمَلَکَيْنِ
: دوفرشتے
بِبَابِلَ
: بابل میں
هَارُوْتَ
: ہاروت
وَ مَارُوْتَ
: اور ماروت
وَمَا يُعَلِّمَانِ
: اور وہ نہ سکھاتے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
حَتَّی
: یہاں تک
يَقُوْلَا
: وہ کہہ دیتے
اِنَّمَا نَحْنُ
: ہم صرف
فِتْنَةٌ
: آزمائش
فَلَا
: پس نہ کر
تَكْفُر
: تو کفر
فَيَتَعَلَّمُوْنَ
: سو وہ سیکھتے
مِنْهُمَا
: ان دونوں سے
مَا
: جس سے
يُفَرِّقُوْنَ
: جدائی ڈالتے
بِهٖ
: اس سے
بَيْنَ
: درمیان
الْمَرْءِ
: خاوند
وَ
: اور
زَوْجِهٖ
: اس کی بیوی
وَمَا هُمْ
: اور وہ نہیں
بِضَارِّیْنَ بِهٖ
: نقصان پہنچانے والے اس سے
مِنْ اَحَدٍ
: کسی کو
اِلَّا
: مگر
بِاِذْنِ اللہِ
: اللہ کے حکم سے
وَيَتَعَلَّمُوْنَ
: اور وہ سیکھتے ہیں
مَا يَضُرُّهُمْ
: جو انہیں نقصان پہنچائے
وَلَا يَنْفَعُهُمْ
: اور انہیں نفع نہ دے
وَلَقَدْ
: اور وہ
عَلِمُوْا
: جان چکے
لَمَنِ
: جس نے
اشْتَرَاهُ
: یہ خریدا
مَا
: نہیں
لَهُ
: اس کے لئے
فِي الْاٰخِرَةِ
: آخرت میں
مِنْ خَلَاقٍ
: کوئی حصہ
وَلَبِئْسَ
: اور البتہ برا
مَا
: جو
شَرَوْا
: انہوں نے بیچ دیا
بِهٖ
: اس سے
اَنْفُسَهُمْ
: اپنے آپ کو
لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
: کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہد سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور ان باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے) جو شہر بابل میں دو فرشتوں (یعنی) ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں۔ اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمائش ہیں تم کفر میں نہ پڑو۔ غرض لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ اور خدا کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو ان کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (یعنی سحر اور منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیج ڈالا وہ بری تھی، کاش وہ (اس بات کو) جانتے
ساحر کا حکم قول باری ہے : واتبعوا ماتتلوا الشیطین علی ملک سلمین، وما کفر سلیمن ولکن الشیطین کفروا ( اور ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا۔ کفر کے مرتکب تو شیاطین تھے) تا آخر آیت ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہاں سحر، یعنی جادو کی حققیت پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کیونکہ بہت سے اہل علم کی نظروں سے بھی یہ بات پوشیدہ ہے، عوام الناس کا تو پوچھنا ہی کیا، اس کے بعد ہم معانی اور احکام کے سلسلے میں مذکورہ بالا آیت کے مقتضاد کو سامنے رکھ کر جادو کا حکم بیان کریں گے۔ اہل لغت کے قول کے مطابق سحر ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بہت لطیف ہو اور جس کا سبب نظروں س ے مخفی ہو، عربی زبان میں حرف سین کے زبر کے ساتھ لفظ سحر کا اطلاق غذا پر ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں خفا ہوتا ہے اور غذا کی نالیاں بہت باریک ہوتی ہیں۔ بعید کا شعر ہے۔ ارانا موضعین لا مرغیب ونسحر بالطعام والشراب (میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کسی غیبی امر کے لئے رکھا گیا ہے اور طعام و شراب کے ذریعے ہمیں غذا مہیا کی جا رہی ہے۔ ) اس شعر کی تشریح دو طرح سے کی گئی ہے۔ ایک کا مفہوم تو وہی ہے جس کا ذکر ترجمے میں کردیا گیا ہے۔ دوسری کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں اس طرح بہلایا اور دھوکے میں رکھا جا رہا ہے جس طرح سحر زدہ اور فریب خوردہ شخص کو رکھا جاتا ہے۔ بہرحال اس شعر کا مفہوم جو بھی ہو اس کے معنی خفا کے ہوں گے۔ ایک اور شاعر نے کہا ہے : فان تسئلینا فیم نحن فاننا عصا فیرمن ھذا ار نام المسحر (اے محبوبہ ! اگر تو ہم سے پوچھے کہ ہم کس حال میں ہیں، تو سن، ہم غذا خور انسانوں سے تعلق رکھنے والی چڑیا ہیں) اس شعر میں بھی معنی کے اعتبار سے پہلے شعر کی طرح دو احتمال ہیں۔ علاوہ ازیں یہ احتمال بھی ہے کہ شاعر نے لفظ (المسحر) سے دو سحر، یعنی پھیپھڑے والا مراد لیا ہو۔ سحر پھیپھڑے نیز حلقوم سے متصل جگہ کو کہتے ہیں۔ یہ بات بھی خفاء کی طرف راجع ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے۔ “ حضور ﷺ نے میرے پھیپھڑے اور حلقوم کے درمیان وفات پائی۔ قول باری : انما انت من المسحرین کا مفہوم ہے کہ ” تمہارا تعلق تو اس مخلوق سے ہے جو کھاتی اور پیتی ہے “ اس مفہوم پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے : وما انت الا بشر مثلنا تم تو ہمارے ہی جیسے بشر ہو۔ نیز : مالھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق (اس رسول کو کیا ہوگیا کہ کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے) یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ بھی ہماری طرح پھیپھڑے والا ہے۔ “ چناچہ یہ اور ان جیسے مقامات کے لئے سحر کے لفظ کا اطلاق اس بنا پر ہوتا ہے کہ جسم کے یہ حصے بہت ہی لطیف اور کمزور ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انسانی جسم کا قوم اور ٹھہرائو ان ہی اعضاء پر ہے اس لئے جو بھی اس صفت کا حام لہو گا وہ ضعیف اور سہارے کا محتاج ہوگا۔ لغت میں سحر کے یہی معنی ہیں۔ پھر اس لفظ کو ہر ایسی بات کا مفہوم ادا کرنے کے لئے منتقل کردیا گیا جس کا سبب مخفی ہو اور اس کا تخیل اس کی حقیقت سے ہٹ کر کیا گیا ہو اور اس کی حیثیث ملمع کاری اور خدا ع یعنی فریب وہی جیسی ہو۔ جب اس لفظ کا اطلاق کسی قید کے بغیر ہو تو اس کے فاعل کے ذم، یعنی مذمت کا مفہوم ادا ہوتا ہے اسے مقید صورت میں قابل ستائش کا موں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے۔” بعض بیان جادو جیسے اثر کا حامل ہوتا ہے۔ “ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے ابراہیم الحرانی نے ، ان سے سلمیان بن حرب نے ۔ ان سے حماد بن زید نے محمد بن الزبیر سے کہ حضور ﷺ کی خدمت میں زبرقان بن بدر، عمرو بن الاہتم اور قیس بن عاصم حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے عمرو سے فرمایا :” مجھے زبرقان کے بارے میں بتلائو۔ “ انہوں نے جواب دیا : زبرقان کی مجلس میں اس کی بات مانی جاتی ہے۔ بحث و تمحیص میں وہ بڑا زبردست ہے اور اپنے ماوراء کا محافظ ہے۔ “ یہ بات زبرقان تک پہنچی تو اس نے کہا : ” خدا کی قسم، اسے معلوم ہے کہ میں اس سے افضل ہوں۔ “ یہ سن کر عمرو نے کہا : اس کی سرشت میں درشتی ہے، اس کا حوض تنگ ہے۔ اس کا باپ احمق ہے اور اس کا ماموں کمینہ ہے، اللہ کے رسول لیں اپنے دونوں بیانات میں سچا ہوں، اس نے جب مجھے رضای کردیا تو میں نے اپنی معلومات کے مطابق اس کی اچھی باتیں بیان کردیں اور جب مجھے ناراض کردیا تو میں نے اس کی وہ تمام بری باتیں کہہ سنائیں جو مجھے معلوم تھیں۔ “ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا :” بعض بیان جادو جیسے اثر کا حامل ہوتا ہے۔ “ ابراہیم الحرانی نے روایت بیان کی کہ ان سے مصعب بن عبداللہ نے، ان سے مالک بن انس نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے سنا کہ دو شخص آئے اور پھر ان میں سے ایک نے خطبہ دیا اور لوگ اس کا خطبہ سن کر بہت متاثر ہوئے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا :” بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ “ ا سی طرح محمد بن بکر نے روایت بیان کی کہ ان سے ابو دائود نے، ان سے محمد بن یحییٰ بن فارس نے، ان سے سعید بن محمد نے، ان سے ابوتمیلہ نے، ان سے ابو جعفر النحوی عبداللہ بن ثابت نے، ان سے ضحر بن عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے، اور انہوں نے اپنے والد حضرت بریدہ سے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضور ﷺ کو فرمایت ہوئے سنا تھا کہ بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ بعض علم میں جہالت ، بعض شعر میں حکمت اور بعض قول عیال ہوتا ہے۔ “ صعصعہ بن صوحان نے کہا کہ ” اللہ کے نبی ﷺ نے سچ فرمایا۔ “ حضور ﷺ کے ارشاد :” بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص پر کسی کا حق واجب الادا ہوتا ہے۔ لکین وہ اپنے دلائل حقدار سے بڑھ کر مئوثر انداز میں پیش کرکے سننے والوں کو اپنے بیان سے مسحور کردیتا ہے اور اس کے نتیجے میں حق دار کا حق ہتھیا لیتا ہے۔ دوسرے فقرے :” بعض علم میں جہالت ہوتی ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ علم کا دعویدار کوئی شخص ایک چیز کے متعلق یہ ظاہر کرت ا ہے کہ اسے اس کا علم ہے، حالانکہ وہ اس کے بارے میں جاہل ہوتا ہے۔ تیسرے فقرے :” بعض شعر میں حکمت ہوتی ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اشیاء ایسی امثال و فصائح پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کے ارشاد :” بعض قول عیال ہوتا ہے۔ “ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کسی ایسے شخص سے گفتگو کرے جس سے اس گفتگو کا کوئی تعلق نہ ہو اور نہ ہی اسے اس کا ارادہ ہو۔ حضور ﷺ نے بعض انداز بیان کو جادو قرار دیا اس لئے کہ جادو بیان شخص کو قلات ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایک مبنی پر بحق بات کو جس میں خفا کا پہلو ہو اپنی جادو بیانی سے واضح کر کے اس سے خفا کا پردہ ہٹا دے۔ یہی وہ جائز سحر بیانی تھی جس پر حضور ﷺ نے عمرو بن الاہستم کو برقرار رنے دیا اور اس سے ناراض نہیں ہوئے۔ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس آ کر بڑے بلیغ انداز میں گفتگو کی جسے سن کر انہوں نے فرمایا :” بخدا یہی حلال سحر ہے۔ “ یہ اگر چاہے تو اپنی جادو بیانی سے ایک مبنی پر باطل بات کو حق کی صورت دے کر سامعین کو فریب دے جائے۔ اگر سحر کا نفطہ علی الاطلاق مذکورہ ہو تیہ ہر ایسی بات کے لئے اسم ہوگا جس میں ملمع کاری کی گئی ہو اور جو مبنی برباطل ہو اور اس میں کوئی حقیقت نہ ہو اور نہ ہی اسے ثبات حاصل ہو۔ ارشاد باری ہے : سحروا عین الناس (انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا) یعنی فرعن کے جادوگروں نے لوگوں کے سامنے ایسی فنکاری کا مظاہرہ کیا کہ انہیں ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپوں کی طرح دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اگٓے ارشاد ہوا : یخیل الیہ من سحرھم انھا تسعی (ان کے جادو کے زور سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یہ رسیاں اور لاٹھیاں دوڑتی نظر آنے لگیں) یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ ناظرین نے جس کیفیت کو مذکورہ رسیوں اور لاٹھیوں کی حرکت سمجھا تھا وہ حقیقت میں حرکت نہ تھی، بلکہ ان کے تخیل کی کار فرمائی تھی۔ ایک قول کے مطابق مذکورہ لاٹھیاں اندر سے کھوکھلی تھیں اور ان میں پارہ بھر دیا گیا تھا۔ اسی طرح رسیاں چمڑے کی بنی ہوئی تھیں اور ان میں پارہ بھرا ہوا تھا۔ مقابلے سے پہلے جادوگروں نے ان رسیوں اور لاٹھیوں کے ڈالنے کی جگہوں کے نیچے نالیاں بنا ک ران میں انگارے رکھ دیئے تھے پھر جب مذکورہ رسیاں اور لاٹھیاں ان پر پھینکی گئیں تو پارہ گرم ہوگیا اور اس نے انہیں متحرک کردیا، کیونکہ پارہ کی خاصیت ہے کہ گرم ہو کر حرکت کرنا شروع کردیتا ہے۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ جادگروں کا کارنامہ محض فن کاری تھی اور حقیقت سے اس کا دور کا تعلق نہیں تھا۔ عرب ملمع شدہ زیورات کو مسحور کا نام دیتے ہیں اس لئے کہ ایسے زیورات دیکھنے والوں کی نظروں میں چکا چوند پیدا کر کے انہیں مسحور کردیتے ہیں۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ حق بات کی وضاحت کے لئے جادو بیانی تو حلال ہے لکین جس جادو بیانی سے باطل کو حق کی صورت میں پیش کرنے اور اس پر ملع کاری کا قصد کیا جائے اور ناظرین و سامعین کو دھوکا دیا جائے وہ قابل مذمت ہے۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ سحر کا موضع اگر ملمع کا ری اور اخفا ہے تو پھر مبنی برحق بات کی وضاحت کرنے والی اور اس کا پتہ بتانے والی صورت کو سحر کا نام دینا کس طرح جائز ہوگا جبکہ جادو بیان شخص اپنی جادو بیانی سے مخفی بات کو ظاہر کردیتا ہے اور اس کے ذریعے ظاہر بات کے اخفاء کا نیز اسے غیر حقیقی صورت میں ظاہر کرنے کا قصد نہیں کرتا ! اس کا جواب یہ ہے کہ اسے سحر کا نام اس حیثیت سے دیا جاتا ہے کہ سامع کا اغلب ظن یہ ہوتا ہے کہ اگر اس پر معنی کا درود ناپسندیدہ اور غیر واضح الفاظ کے ذریعے ہوگا تو اس کی طرف سے اسے قبولیت حاصل نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ اس کی طرف دھیان دے گا لیکن اگر وہ مذکورہ معنی کو پسندیدہ اور شیریں عبارت کے تحت سنے گا جس میں کوئی فساد اور اوپر اپن نہ ہو اسے پیش کرنے والا اسے اپنے حسن بیان اور عمدہ انداز سے پیش کرے جس سے ایک غبی اور حسن بیان سے عاری شخص عاجز ہو تو وہ اس کی طرف دھیان دے گا اور اسے سن کر قبول بھی کرے گا اس بنا پر متکلم کی طرف سے اس قسم کے حسن بیان کے ذریعے سا معین کے دلوں کو پانی طرف مائل کرنے کا نام جادو رکھا گیا جس طرح جادوگر اپنی ملمع کاری کے ذریعے حاضرین کے دلوں کو پانی فنکاری کی طرف مائل کرلیتا ہے۔ اسی جہت سے بیان کا سحر کا نام دیا گیا ہے۔ اس جہت سے اسے سحر کا نام نہیں دیا جاتا جس کا گمان معترض نے کیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انداز بیان کو جادو کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ جادو بیانی کی قدرت رکھنے والا شخص بعض دفعہ اپنے زور بیان سے ایک حسین چیز کو قبیح اور ایک قبیح کو حسین بنا دیتا ہے۔ اس بنا پر اسے جادو کا نام دیا گیا ہے جس طرح ایک ملمع کی ہوئی نیز غیر حقیقی بات کو سحر کہا جاتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سحر کے اسم کا انداز بیان پر اطلاق مجازاً ہوتا ہے حقیقتہً نہیں ہوتا اس کی حقیقت تو وہ ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کردیا ہے۔ اس بنا پر اطلاق کے وقت یہ اسم ہر اس ملع کی ہوئی بات کو شامل ہوتا ہے جس سے دھوکا دہی اور تلبیس مقصود ہوتی ہے، نیز ایسی بات کا اظہار مطلوب ہوتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو اور نہ اسے کوئی ثبات حاصل ہو۔ ہم نے گزشتہ سطور میں لغت کے اعتبار سے سحر کے لفظ کی اصلیت اور اطلاق و تقیید کی صورتوں میں اس کا حکم بیان کردیا ہے۔ اب ہم اس کا متعارف معنی، نیز وہ اقسام باین کریں گے جن پر یہ اسم مشتمل ہے اور اس کے ساتھ سحر کو اپنانے والے گروہوں میں سے ہر گروہ کے مقاصد اور اغراض کا بھی ذکر کریں گے۔ ہم اللہ کی توفیق سے کہتے ہیں کہ سحر کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو اہل بابل کا سحر تھا جن کا ذکر اللہ سبحانہ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے : یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت (وہ لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے اور وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھی) اہل باطل صائبین تھے اور یہ سات ستاروں کی پرستش کرتے اور انہیں اپنا الہ قرار دیتے اور یہ عقیدہ رکھتے کہ کائنات میں پیش آنے والے تمام واقعات ان ستاروں کے افعال و حرکات کے نتائج ہیں۔ یہ لوگ آج کل فرق معطلہ کہلاتے ہیں۔ یہ صانع واحد اللہ کے قائل نہیں ہیں جس نے اپنی قدرت سے ستاروں اور جرام عالم کو پیدا کیا ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جن کی طرف اللہ کے اپنے خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کا مقابلہ ایسے دلائل سے کیا جن کے ذریعے آپ ان پر غالب آئے اور ایسی حجت قائم کردی جس کا توڑ ان کے لئے ممکن نہیں ہوا۔ انہوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو آپ کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی کا ذریعہ بنایا۔ اس کے بعد اللہ نے آپ کو شام کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا۔ ایک روایت کے مطابق اہل یا جل اور عرقا و شام اور مصر کے باشندے شہنشاہ بیورا سپ کی رعایا تھے جسے عرب کے لوگ ضحاک کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ دنیا رند کے علاقہ کے بادشاہ فریدوں نے ضحاک کی سلطنت کے لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکایا۔ خفیہ طور پر ان سے خط و کتابت کر کے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور طویل جنگوں کے بعد ضحاک کی سلطنت اس سے چھین لی اور اسے قید کردیا۔ جاہل عوام، خصوصاً عورتیں خیال کرتی ہیں کہ فریدوں نے بیورا سپ کو دنیاوند کے ایک اونچے پہاڑ پر قید کردیا تھا اور وہ وہاں ابھی تک مقید اور زندہ ہے، نیز یہ کہ جادوگر اس کے پاس وہاں جاتے اور اس سے جادو سیکھتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ بیوراسپ جلد ہی قید سے نکل کر پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرلے گا۔ نیز بیوراسپ ہی وہ دجال ہے جس کی خبر حضور ﷺ نے دی ہے اور ہمیں اس کے متعلق تحذیر فرمائی ہے۔ میرے خیال میں ان لوگوں نے یہ باتیں مجوسیوں سے اخذ کی ہیں۔ فریدوں کے غلبے کے بعد بابل کی مملکت ایرانیوں کے ہاتھ آ گئی۔ پھ را ن کے بعض حکمران بابل کے علاقے میں منتقل ہوگئے اور اسے اپنا وطن بنا لای۔ یہ لوگ ستارہ پرست نہیں تھے، بلکہ موحد تھے، اور اللہ کی ذات کا اقرار کرتے تھے، تاہم اس کے ساتھ یہ لوگ عناصر اربعہ یعنی آگ، پانی مٹی اور ہوا کو بڑی اہمیت دیتے تھے کیونکہ ان عناصر سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور جانداروں کی زندگی کا سہارا بھی یہی عناصر ہیں۔ ان لوگوں نے مجوسیت شہنشاہ گشتاسب کے زمانے میں اختیار کی جب زردشت نے گشتاسب کو مجوسیت کی دعوت دی اور اس نے یہ مذہب قبول کرلیا، تاہم اس نے چند شرائط اور باتوں کے ساتھ یہ مذہب قبول کیا۔ یہاں ان شرائط کا ذکر طوالت کا باعث ہوگا، ہماری غرض تو صرف یہ بتانا ہے کہ بابل کے جادوگروں کا طریق کار کیا تھا۔ جب اس ملک پر ایرانیوں کا قبضہ ہوگیا تو انہوں نے جادوگروں کو قتل کرنے اور ان کا نام و نشان مٹا دینے کا فیصلہ کیا اور مجوسیت کا عقیدہ اختیار کرلیا اور ان کا دین یہی رہا حتی کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ اہل بابل پر ایرانیوں کے غلبے سے پہلے ان کے علوم، شعبدہ بازیوں، مکاریوں اور ستاروں کے متعلق امور و احکام پر مشتمل تھے، یہ لوگ ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں ان لوگوں نے سات ستاروں کے ناموں پر بنایا تھا۔ انہوں نے ہر ستارے کا ایک ہیکل تعمیر کیا تھا جس میں اس ستارے کا بت رکھا ہوا تھا۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق خیر یا شر کی طلب میں مخصوص ستارے اور اس کے ہیکل کا تقرب حاصل کرتے اور اسے رضای کرنے کے لئے مخصوص افعال سر انجام دیتے تھے، مثلاً جو شخص خیر اور صلاح کا طلبگار ہوتا وہ مشتری ستارے کے ہیکل میں رکھے ہوئے بت کے پاس جا کر دھونی رماتا، گنڈے بناتا اور منتر پڑھ کر ان پر پھونکتا اور جو شخص اپنے مخالف کے لئے جنگ، تباہ کاری، موت اور شرو فساد کا طالب ہوتا وہ زحل ستارے کے ہیکل میں رکھے ہوئے بت کے پاس جا کر مخصوص طریقے سے پوجا پاٹ کرتا۔ جو شخص بجلی گرنے، آگ لگنے اور طاعون کی بیماری پھیلنے کا طلبگار ہوتا وہ مریخ ستارے کے ہیکل میں رکھے ہوئے بت کے پاس جا کر جانوروں کے خون کا نذرانہ پیش کرتا۔ پوجا پاٹ اور جھاڑ پھونک کی یہ تمام رسمیں نبطی زبان میں ادا کی جاتیں، اسی کے ذریعے مذکورہ کواکب کی تعظیم و تکریم کا اظہار ہوتا اور پھر ان سے مرادیں مانگی جاتیں جو خیر و شر، محبت و عداوت اور آبادی و بربادی پر مشتمل ہوتیں، اور پھر مذکورہ بت ان کی یہ مرادیں پوری کردیتے، جانوروں کا چڑھاوا چڑھا کر اور جھاڑ پھونک کر کے نیز گنڈے اور منتروں کی رسمیں بجا لا کر وہ یہ سمجھتے کہ اب وہ دوسروں کو ہاتھ لگائے بغیر ان پر برے یا بھلے اثرات پید اکر سکتے ہیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس مقصد کے لئے انہوں نے بت کے سامنے جو نذرانے پی شکئے ہیں بس وہی کافی ہیں۔ ان کا ایک عام جادو گر اس زعم میں مبتلا ہوتا کہ وہ انسان کو گدھا یا کتا بنا سکتا ہے اور پھر جب چاہے اسے اس کی اصل صورت میں واپس لاسکتا ہے ۔ کسی جادوگر کا دعویٰ یہ ہتا کہ وہ انڈے یا جھاڑو دیا مٹکے پر سوار ہو کر ہوا میں عراق سے ہندوستان یا جس سر زمین تک چاہے پرواز کرسکتا ہے اور اسی رات واپس آسکتا ہے۔ عوام الناس اس بنا پر ان تمام باتوں پر یقین رکھتے تھے کہ وہ کواکب پرستی میں مبتلا تھے۔ جس کام میں بھی کواکب کی تعظیم کا پہلو ہوتا اسے وہ بطور عقیدہ قبول کرلیتے اور ان کی اس ضعیف الاعتقادی سے فائدہ اٹھا کر جادوگر مختلف جیلوں اور شعبدہ بازیوں کے ذریعے ان کے ذہنوں میں جادو کے مئوثر ہونے کا تصور پختہ کردیتے اور انہیں بتاتے کہ جادو کے ذریعے صرف وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا اور اثرات پید اکر سکتا ہے جو ان کے اقوال کی صحت پر پختہ یقین رکھتا ہو اور ان کے دعوئوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ان کے بادشاہوں کو جادوگروں کے اس طر ز عمل پر کوئی اعتراض نہ ہوتا، بلکہ ان کے ہاں ان جادوگروں کو سب سے اونچا مرتبہ حاصل ہوتا کیونکہ عوام الناس کے دلوں میں ان کی تعظیم اور ان کا اجلال ہوتا۔ اس زمانے میں بادشاہ خود ان تمام باتوں پر یقین رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ بادشاہتیں ختم ہوگئیں۔ فرعون کے زمانے میں جادوگری سیکھنے، شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرنے اور استھانوں پر نذرانے کے طور پر پیش کئے جانے والے جانوروں کو جلا ڈالنے میں لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور دیگر معجزات دے کر فرعون کی طرف مبعوث کیا تھا جنہیں دیکھ کر تمام جادوگر یہ جان گئے تھے کہ ان کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اللہ کے سوا کسی کو ان کی قدرت حاصل نہیں ہے۔ جب یہ بادشاہتیں ختم ہوگئیں اور ایسے افرا کو بادشاہتیں ملیں جو توحید کے قائل تھے اور جادوگروں کو قتل کر کے اللہ کا تقرب حاصل کرتے تھے تو یہ جادوگر زیر زمین چلے گئے اور اپنے خفیہ ٹھکانوں میں بیٹھ کر جاہل عوام کو اپنے پاس بلانے اور انہیں گمراہ کرنے لگے جیسا کہ آج کل بھی بہت سے لوگ کالے علم کے دعوے دار ہیں اور عورتوں اور ناپختہ ذہن افراد کو اپنے دام تزویر میں پھنسا لیتے ہیں۔ یہ جادوگر جن لوگوں کا کام بنا دیتے انہیں اپنے عقیدے کی تصدیق اور اس کی صحت کا اعتراف کرنے کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ان عقائد کی تصدیق کرنے والا کئی وجوہ سے کافر ہوجاتا ہے۔ ایک وجہ تو یہ کہ وہ کواکب کی تعظیم اور انہیں الہ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ کواکب نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتے ہیں، تیسری وجہ یہ اعتقاد کہ جادوگر بھی ابنیاء (علیہم السلام) کے لائے ہوئے معجزات جیسے معجزات دکھا سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے بابل میں ان لوگوں کی طرف دو فرشتے بھیجے جو ان کے سامنے جادوگروں کے دعوئوں کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے، ان کا بطلان کرتے اور ان کی ملع سازی نیز فن کاری کا پول کھولتے اور انہیں جادوگروں کے جھاڑ پھونک اور ان کے منتروں اور گنڈوں کے مہمل ہونے سے آگاہ کرتے اور بتاتے کہ یہ سرا سر شرک اور کفر ہے، وہ لوگوں کو جادو گروں کے ان حیلوں اور شعبدوں سے بھی آگاہ کرتے جن کے ذریعے وہ عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے تھے۔ قرآن کے الفاظ ہیں : انما نحن فتنۃ فلا تکفر (دیکھو، ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔ ) یہ تھی سحر بابل کی اصلیت، وہ لوگ جادوگری اور شعبدہ بازی کے وہ تمام طریقے استعمال کرتے تھے جن کا ہم ذیل میں تذکرہ کریں گے۔ وہ ان طریقوں پر فن کاری کا لبادہ چڑھا کر عوام الناس کے سامنے پیش کرتے اور انہیں ستاروں کا معتقد بنا دیتے۔ ان کی جادوگری کی بہت سی اقسام ایسی تھیں جن میں زیادہ تر تخیل کی کار فرمائی تھی جن کا ظاہر ان کے حقائق کے خلاف ہوتا۔ بعض صورتیں تو ایسی تھیں جن سے لوگ عرف اور عادت کے تحت واقف تھے اور بعض ایسی تھیں جن میں خفاء اور باریکی ہوتی اور ان کی حقیقت اور باطنی معنی سیصرف وہی لوگ واقف ہوتے ہیں جو ان کی معرفت حاصل کرلیتے۔ اس لئے کہ ہر علم لازمی طور پر ایسے امور پر مشتمل ہوتا ہے جن میں بعض جلی اور ظاہر ہوتے ہیں اور بعض خفی اور غامض جلی اور ظاہر امر کو تو عقل رکھنے والا جو شخص بھی دیکھتا یا سنتا ہے سمجھ جاتا ہے، لیکن خفی اور غامض معاملے کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس کا اہل ہو، اس کی معرفت کے در پے ہو اور سا کے متعلق بحث و تمحیص کی تکلیف برداشت کرے۔ مثلاً کشتی میں سوار انسان دریا میں کشتی کی روانی کے دوران کنارے پر واقع درختوں اور عمارتوں کو اپنے ساتھ رواں تصور کتر ا ہے (فی زمانہ ریل گاڑی اور کار میں سوار انسان کا تخیل بھی کچھ اسی طرح کا وہتا ہے۔ مترجم) اسی طرح آسمان پر شمالی رخ میں واقع چاند گزرنے والے بادل کی نسبت سے جنوبی رخ میں چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ نیز اگر لٹو کے سرے پر کوئی سیاہ نشان ہو اور پھر یہ لٹو گھومنے لگے تو مذکورہ نشان اس لٹو کو چاروں طرف سے گھیر لینے والے طوق کی طرح نظر آئے گا۔ یہی بات چکی میں بھی نظر آتی ہے، بشرطیکہ چکی تیز رفتاری سے چل رہی ہو۔ ایک اور مثال پیالی میں موجو دپانی کے اندر پڑا ہوا انگور کا دانہ جسامت میں شفتا لو اور آلو بخارے کے دانے جیسا نظر آتا ہے۔ اگر کسی لکڑی کے سرے پر اگنارہ ہو اور پھر سا کو کوئی گھمائے تو مذکورہ انگارہ اس لکڑی کو چاروں طرف سے گھیر لینے والے طلاق کی طرح نظر آئے گا۔ کہر کے اندر ایک کوتاہ قد شخص ایک بڑے ہیولے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور زمین سے اٹھنے والے بخارات سورج کی ٹکیہ کو طلوع کے وقت بہت بڑے آگ کے گولے کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں، لیکن جب سورج کی ٹکیہ ان بخارات سے اوپر اٹھ جاتی ہے، تو اس کی جسامت چھوٹی نظر آتی ہے ۔ اگر آپ انگوٹھی کو اپنی آنکھوں کے قریب لے جائیں تو اس کا حلقہ کنگن کے حلقے کی طرح بڑا نظر آئے گا۔ ملاح کا چپوپانی میں چلنے کے دوران میں ٹوٹا ہوا یا مڑا وہا نظر آتا ہے۔ غرض یہ کہ اس کے نظائر بہت زیادہ ہیں اور ان کا تعلق ان اشیاء سے ہے جو ہماری قوت متخیلہ کے اندر اپنے حقائق سے ہٹ کر ظاہر ہوتے ہیں۔ عوام الناس ایسی اشیاء کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن بعض اشیا لطیف ہونے کی بنا پر صرف ان لوگوں کے علم میں آتی ہیں جو انہیں جانتا چاہتے ہوں اور انہیں غور اور توجہ سے دیکھیں، مثلاً سحارہ (ایک قسم کے کھلونے) سے نکلنے والی دھاری کبھی سرخ نظر آتی ہے، کبھی زرد اور کبھی سایہ۔ ایک لطیف اور دقیق صورت وہ ہے جس کا تماشا شعبدہ باز لوگوں ک اکثر دکھاتے رہتے ہیں۔ اور ان کی قوت متخیلہ اسے اس کی حقیقت سے ہٹ کر دیکھتی ہے۔ مثلاً شعبدہ باز لوگوں کو دکھاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں ایک چڑیا ہے جسے وہ ذبح کردیتا ہے، پھر یوں نظر آتا ہے کہ گویا وہ چڑیا اس کے ہاتھ سے اڑ گئی ہے۔ یہ سارا کمال شعبدہ باز کے ہاتھ کی صفائی کا ہوتا ہے۔ اڑ جانے والی چڑیا ذبح شدہ چڑیا کے علاوہ ہوتی ہے۔ اس کے پاس دو چڑیاں ہوتی ہیں، وہ ایک کو چھپائے رکھتا ہے اور دوسری کو ظاہر کرتا ہے اور پھر اپنے ہاتھ کی صفائی سے ذبح شدہ کو چھپا کر زندہ چڑیا اڑا دیتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ شعبدہ بازیہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے ایک انسان کو ذبح کردیا ہے یا اس نے اپنے پاس رکھی ہوئی تلوار نگل لی ہے ۔ وہ اسے اپنے پیٹ میں داخل کرلیتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اسی قسم کا تماشا پتلیاں نچانے والے بھی دکھاتے ہیں۔ پیتل یا کسی اور دھات کی بنی ہوئی یہ پتلیاں تماشہ دکھانے والے کی انگلیوں کے اشارے پر حرکت کرتی ہیں۔ یوں نظر آت ا ہے کہ وہ گھڑ سوار ایک دوسرے سے بوسہ پیکار ہیں۔ پھ رایک سوار دوسرے کو قتل کردیتا ہے اور اپنا کرتب دکھا کر چلا جاتا ہے یا مثلاً پیتل کا بنا ہوا ایک گھڑ سوار اپنے ہاتھ میں بگل لئے ہوئے ہے اور جب دن کی ایک گھڑی گزر جاتی ہے تو وہ بگل بجاتا ہے۔ مئورخ کلبی نے ذکر کیا ہے کہ فوج کا ایک سپاہی شکار کی غضر سے شام کے نواحی علاقے میں چلا گیا، اس کے ساتھ ایک شکاری کتا اور غلام تھا، اسے ایک لومڑی نظر آئی اور اس نے اپنا کتا اس پر چھوڑ دیا۔ لومڑی ٹیلے میں بنے ہوئے ایک سوراخ میں داخل ہوگئی اور کتا بھی اس کے پیچھے سوراخ کے اندر چلا گیا، لیکن وہاں سے باہر نہیں آیا۔ یہ دیکھ کر شکاری نے اپنے غلام کو سوراخ میں داخل ہونے کے لئے کہا اور خود انتظار کرتا رہا۔ لیکن غلام باہر نہیں آیا۔ اس پر وہ خود اس سوراخ میں داخل ہونے کی تیاری کرنے لگا۔ اتنے میں ایک شخص اس کے پاس سے گزرا۔ شکاری نے اسے تمام واقعہ سنا دیا۔ اس نے شکاری کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر سوراخ میں داخل ہوگیا۔ دونوں ایک طویل سرنگ پر جا پہنچے اور اس میں چلتے ہوئے ایک کوٹھڑی کے قریب آ گئے جس میں اترنے کے لئے دوزینے تھے۔ وہ شخص شکاری کو لے کر پہلے زینے پر جا کھڑا وہا۔ اس نے شکاری کو دکھایا کہ اس کا کتا، غلام اور لومڑی تنیوں مردہ پڑے ہیں اور کوٹھڑی کے درمیان ایک شخص برہنہ تلوار ہاتھ میں لئے کھڑا ہے۔ اس نے شکاری کو مسلح شخص کے بارے میں بتایا کہ اگر سو آدمی بھی کوٹھری میں داخل ہوں تو یہ شخص ان سب کو قتل کر دے۔ شکاری کے استفسار پر رہبر نے اسے یہ بھی بتایا کہ عمارت کی تعمیر اس ڈھنگ سے کی گئی ہے کہ جب کوئی شخص دوسرے زینے پر قدم رکھ کر کوٹھڑی میں اترنا چاہے تو مسلح شخص جو درحقیقت ایک مشینی یعنی مصنوعی انسان ہے آگے بڑھ کر اسے تلوار مار دے گا۔ اس لئے تمہیں ہرگز کوٹھری میں اترنا نہیں چاہیے۔ اس پر شکاری نے اس سے پوچھا کہ اب کیا تدبیر کرنی چاہیے ؟ تو اس نے کہا کہ ” تمہیں اس مسلح مشینی انسان کے پیچھے سے سرنگ کھودنی چاہیے جس کے ذریعے تم اس کے پاس ہپنچ جائو جب تم اس کے پاس دوسری طرف سے جائو گے تو اس مشینی انسان میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوگی۔ “ چناچہ شکاری نے کچھ مزدور اور کاریگر حاصل کئے اور انہوں نے ٹیلے کے پیچھچے سے ایک سرگن نکال دی اور اس کے ذریعے شکاری مسلح شخص تک پہنچ گیا۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ یہ پیتل کا بنا ہوا ایک ڈھانچہ ہے جسے ہتھیار پہنا کر ہاتھ میں ایک تلوار دے دی گئی ہے ، شکاری نے اس مشینی انسان کو اکھاڑ دیا۔ اسے کوٹھڑی میں ایک دروازہ نظر آیا۔ جسے کھولنے پر ایک قبر نظر آئی۔ یہ کسی بادشاہ کی قبر تھی اور اس میں تابوت کے اندر بادشاہ کی لاش محفوظ تھی۔ اسی طرح کی بہت سی اور بھی مثالیں ہیں۔ نیز وہ مجسمے ہیں جو اہل روم اور اہل ہند بناتے تھے۔ یہ مجسمہ سازی اس قدر کمال کی ہوتی ہے کہ دیکھنے والا اصل انسان اور اس کے مجسمے کے درمیان فرق نہیں کرسکتا جس شخص کو پہلے سے معلوم نہ ہو کہ یہ مجسمہ ہے اسے اس کے اصلی انسان ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا۔ مجسمہ ساز ایک انسان کا ہنستا ہوا یا روتا ہوا مجسمہ بنا سکتا ہے، بلکہ وہ شرمندگی، سرور اور شماتت کی ہنسی کے اندر بھی فرق رکھتا ہے۔ ان کے اندر دراصل تخیلی امور کی لطافت، باریکی اور ان کے مخفی پہلوئوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے شعبدہ بازی کے جن پہلوئوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس کے پہلو ہیں۔ فرعون کے جادوگروں کی جادوگری اسی قسم کی تھی جن کا ذکر ہم نے لاٹھیوں اور رسیوں کے سلسلے میں ان جادوگروں کے اختیار کردہ حیلوں اور تدبیروں کے سلسلے میں کیا ہے۔ زمانہ قدیم کے اہل بابل کے مذاہب اور ان کی جادوگری نیز شعبدہ بازی کے بارے میں جو کچھ ہم نے سابقہ اوراق میں بیان کیا ہے ان میں سے بعض باتیں تو ہم نے ان لوگوں سے سنی ہیں جو ان کی معلومات رکھتے ہیں اور بعض باتیں ہم نے کتابوں میں پڑھی ہیں اور ان کا کچھ حصہ ہم نے نبطی زبان سے عربی زبان میں منتقل کردیا ہے۔ ان میں سے ایک ان جادوگروں کی جادوگری، اس کی اصناف اور طریقوں کے بارے میں ہے۔ یہ تمام باتیں اس ایک اصول پر مبنی ہیں جن کا ذکر ہم نے پچھلی سطور میں کیا ہے یعنی کواکب کے لئے نذرانے پیش کرنا، ان کی عظمت ظاہر کرنا اور دیگر خرافات جادو کی ایک اور قسم بھی ہے جسے لوگ جنات اور شیاطین کی گفتگو کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنتا اور شیاطین جھاڑ پھونک اور گنڈوں کے ذریعے ان کے تابع ہوجاتے ہیں۔ اور وہ ان سے جو کام لینا چاہیں لے لیتے ہیں۔ جنات سے کام لینے سے پہلے انہیں چندامور سر انجام دین اہوتا ہے اور ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ اس مقصد کے لئے تیار کرتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے کاہنوں کا معاملہ بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا تھا۔ حلاج کی اکثر خرق عادات باتیں بھی اسی قسم کے منتروں پر مبنی تھیں۔ اگر زیر نظر کتاب تفصیلات کی متحمل ہوتی تو ہم یہ باتیں تفصیل سے بیان کردیتے جن کی روشنی میں حلاج اور اسی قسم کے دیگر افراد کی بہت سی خرق عادت باتوں کی حقیقت سے لوگ واقف ہوجاتے۔ منت پڑھنے والوں اور گنڈے کرنے والوں کا کاروبار عوام الناس کے لئے ایک بڑ فتنے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ لوگ عوام الناس کے سامنے یہ ظاہر کرتے کہ جنات ان کی اطاعت ان منتروں کی وجہ سے کرتے ہیں جو اللہ کے نام پر مشتمل ہیں۔ اور پھر ان جنات کے ذریعے وہ ہر سوال کا جواب حاصل کر لیت ییہں اور جس شخص کے پیچھے چاہیں ان جنات کو لگا دیتے ہیں۔ عوام الناس ان کی یہ باتیں سچ سمجھ لیتے ہیں کیونکہ وہ ان کے اس دعوے سے دھوکا کھا جاتے ہیں کہ جنتا ان کی اطاعت اللہ کے ان ناموں کی بنا پر کرتے ہیں جن کی بنا پر وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اطاعت کرتے تھے۔ ان دھوکے کے بازوں کا دعویٰ یہ بھی ہوتا ہے کہ جنات انہیں مخفی باتوں کی خبر دیتے اور ہونے والی چوریوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خلیفہ المعتضد باللہ اپنے جاہ و جلال اپنی زود فہمی اور عقل و دانش کے باوجود ایسے لوگوں کے پھندے میں پھنس گیا تھا اور ان کے ہاتھوں دھوکا کھا گیا تھا۔ اس کا ذکر مورخین نے کیا ہے۔ وہ یہ کہ المعتضد باللہ جس محل کے اندر اپنی بیگمات اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا وہاں ایک شخص ہاتھ میں تلوار لئے مختلف اوقات میں نمودار ہوتا تھا۔ اس کی آمد زیادہ تر ظہر کے وقت ہوتی تھی۔ جب اس شخص کی تلاش ہوتی تو وہ غائب ہوجاتا اور قابو میں نہ آتا۔ خلیفہ نے خود اپنی آنکھوں سے اسے کئی بار دیکھا تھا۔ چناچہ وہ بڑا پریشان ہوا اور اسی پریشانی میں اس نے جادو ٹونے کرنے والوں کو بلوا لیا۔ یہ لوگ آ گئے اور اپنے ساتھ بہت سے مردوں اور عورتوں کو بھی لے آئے اور کہا کہ ان میں کچھ دیوانے ہیں اور کچھ صحیح الدماغ خلیفہ نے ان میں سے ایک شخص کو منت رپڑھ کر عمل شروع کرنے کا حکم دیا۔ اس نے اپنے ایک آدمی پر جس کے متعلق اس کا کہنا تھا کہ وہ صحیح الدماغ ہے عمل کرنا شروع کیا، چناچہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص پاگل ہوگیا۔ ان لوگوں نے خلیفہ سے کہا کہ یہ شخص اس کام میں بڑا ماہر ہے۔ ایک صحیح الدماغ شخص کو مخبوط الحواس بنانے میں جنات پوری طرح اس کی تابعداری کرتے ہیں حالانکہ اس کے عمل کا یہ اثر صرف اس کے ساتھ اس گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا کہ وہ جب اس پر عمل کرے تو وہ اپنے حواس کھو کر دیوانہ بن جائے۔ اس نے اپنی یہی کاریگری خلیفہ پر بھی چلا دی ، خلیفہ کو یہ بات بہت بری لگی۔ اس کی طبیعت میں نفرت پیدا ہوگئی، تاہم اس نے ان لوگوں سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا جو اس کے محل میں تھا۔ ان لوگوں نے اس کے متعلق بہت سی خرق عادات باتوں کا ذکر کیا جو اس کے دل کو لگیں، لیکن اصل مقصد کے سلسلے میں کوئی بات معلوم نہ ہوسکی۔ خلیفہ نے انہیں واپس جانے کا حکم دیا۔ اور ان میں سے ہر ایک کو پانچ پانچ سو درہم دیئے۔ دوسری طرف اس نے ہر ممکن حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں، اور محل کی چار دیواری کو اس طرح مضبوط کرنے کا حکم جاری کیا کہ کس یکے لئے اسے پھاندکر احاطے میں آنا ممکن نہ رہے۔ اس چار دیواری کے اوپر برج بھی بنا دیئے گئے تاکہ چور کمندوں کے ذریعے احاطے میں اترنے کی تدبیر نہ کرسکیں۔ اس کے بعد مذکورہ شخص کبھی کبھار نمودار ہوتا۔ چار دیواری پر بنے ہوئے یہ برج میں نے بھی قصر ثریا کی چار دیواری پر دیکھے تھے۔ یہ قصر المعتضد نے بنوایا تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست سے جو خلیفہ کا حاجب رہ چکا تھا مذکورہ شخص کے متعلق دریافت کیا کہ آیا اسے اس بارے میں کچھ علم ہے ؟ اس نے جواب میں کہا کہ مذکورہ شخص کی حقیقت المقتدر باللہ کے زمانے میں واضح ہوگئی تھی درحقیقت مذکورہ شخص ایک سفید فام خادمہ تھا، اس کا نام یقق تھا اور اسے حرم سرا کی ایک لونڈی سے عشق تھا۔ اس نے اس لونڈی سے ملنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ مختلف رنگ کی داڑھیاں تیار کی تھیں۔ جب وہ ان میں سے کوئی داڑھی لگا لیتا تو دیکھنے والے کو اس کی اصلی داڑھی ہونے میں کوئی شک نہ ہوتا۔ وہ داڑھی لگا کر اپنے ہاتھ میں تلوار یا کوئی اور ہتھیار لے کر محل کے اندر ایسی جگہ نمودار ہوجاتا جہاں اسے المعتضد باللہ دیکھ سکتا۔ جب اس کا پیچھا کیا جاتا تو وہ محل کے باغ میں واقع درختوں یا محل کی گزرگاہوں یا غلام گردشوں میں چلا جاتا اور پیچھا کرنے والوں کی نظروں سے غائب ہوجاتا تو اپنی مصنوعی داڑھی اتار کر چھپا لیتا۔ ہتھیار اس کے ہاتھ میں بحالہ باقی رہتا اور اب وہ پیچھا کرنے والے خادموں میں سے ایک نظر آتا کسی کو اس پر شک نہ گزرتا، بلکہ دوسرے خادم اس سے پوچھتے کہ آیا اس نے محل کے اس حصے میں کسی کو دیکھا ہے ؟ وہ اس کا جواب نفی میں دیتا۔ جب مذکورہ شخص کے نمودار ہونے کی شخص مذکورہ اپنی محبوبہ سے دوچار باتیں کرلیتا۔ اس کا مقصد صرف اس لونڈی کو دیکھ لینا اور اس سے باتیں کرلینا ہوتا۔ اس کا یہ سلسلہ المقتدر باللہ کے زمانے تک جاری رہا۔ پھر وہ طرطوس شہر چلا گیا اور مرتے تک وہیں مقیم رہا۔ اس کی موت کے بعد مذکورہ لونڈی نے اس کے متعلق تمام باتیں بتادیں اور اس طرح اس کی حید گری کا لوگوں کو علم ہوگیا۔ ذرا غور کیجیے ایک خادم نے خفیہ طور پر ایسی حیلہ گری کی کہ کسی کو اس بات کا علم نہ ہوسکا باوجودیکہ خلیفہ المعتضد باللہ نے اس معاملے کی طرف پوری توجہ دی۔ حالانکہ حیلہ گری اور شعبدہ بازی اس کا پیش ہنہ ھا، پھر ایسے لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہوسکتا ہے جنہوں نے حیلہ گری کو اپنا پیشہ اپنا ذریعہ معاش بنا رکھا ہو۔ جادو کی ایک قسم اور بھی ہے اور وہ ہے لوگوں کے درمیان خفیہ طریقوں سے فساد پیدا کرنا اور انہیں آپس میں لڑانا کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے خاوند اور اس کی بیوی کو آپس میں لڑانا چاہا تو وہ پہلے بیوی کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ تمہارے شوہر پر جادو کردیا گیا ہے اور اب تم سے اسے چھین لیا جائے گا، تاہم تمہاری خاطر میں اس پر جادو چلائوں گی حتی کہ وہ تمہارے سوا کسی اور کو نہ دیکھے گا اور نہ ہی اسے چاہے گا لیکن تمہیں اس مقصد کے لئے استرے کے ذریعے اس کے حلق سے تین بال اس وقت اتارنے ہوں گے جب وہ سو رہا ہو۔ تم یہ بال مجھے دے دینا اور اس کے بعد میرے جادو کا عمل مکمل ہوجائے گا۔” نادان بیوی اس عورت کی باتوں میں آ گئی۔ اس کے بعد وہ عورت شوہر کے پاس گئی اور اس سے کہا : تمہارے بیوی نے کسی اور سے مراسم پیدا کر لئے ہیں۔ مجھے اس کی باتوں سے جب اس منصوبے کا پتہ چلا تو تمہارے جان کے بارے میں خطرہ پیدا ہوگیا ۔ اس لئے تم میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے چوکس رہو اور دھوکے میں نہ آئو کیونکہ اس نے استرے سے تمہارا گلا کاٹنے کا پروگرام بنایا ہے۔ شوہر نے عورت کی باتیں سن کر ان پر یقین کرلیا اور اس رات جھوٹ موٹھ آنکھیں بند کر کے لیٹا رہا۔ بیوی نے جب یہ سمجھ لیا کہ وہ سو گیا ہے تو استرا لے کر حلق سے بال اتارنے کے لئے اس پر جھکی۔ شوہر نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور بیوی کو تیز استرے کے ساتھ اپنے اوپر جھکی ہوئی دیکھ کر اسے یقین ہوگیا کہ وہ اسے قتل کر ناچاہتی تھی۔ چناچہ اس نے اسی استرے سے اپنی بیوی کا گلا کاٹ دیا اور پھ رقصاص میں خود بھی قتل ہوگیا۔ جادو کی ایک اور صورت بھی ہے وہ یہ کہ جادوگر بعض حیلوں سے ایک شخص کو ایسی دوائیاں کھلا دیتا ہے جو اس کے ذہن کو کند اور اس کی عقل کو ناکامہ بنا دیتی ہیں خاص قسم کی دھونی دے کر بھی اس پر یہ اثر پیدا کردیتا ہے۔ اور پھر و ہ اپنے اس معمول سے ایسے کام کراتا ہے کہ اگر اس کی عقل ٹھکانے ہوتی تو وہ ہرگز یہ کام نہ کرتا جب اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سحر زدہ ہے۔ یہاں ہم ایک ایسی حقیقت بیان کریں گے جس سے واضح ہوجائے گا کہ شعبدہ بازوں کی یہ تمام کارگزاریاں بےحقیقت ہیں اور محض جعلسازی اور چالبازی پر مبنی ہیں ۔ وہ یہ کہ اگر جادو اور منتروں کے ذریعے عملیات کرنے والے نفع و نقصان پہنچانے کے ان طریقوں پر قدرت رکھتے جن کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، نیز ان کے لئے ہوا میں اڑنا ، غیب کی باتیں بتانا، دور دراز کے ممالک کی خبر لانا، اسرار سے پردے ہٹانا ، چوریاں معلوم کرلینا اور لوگوں کو ان طریقوں کے سوا جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، دیگر طریقوں سے نقصان پہنچانا ممکن ہوتا تو یہ لوگ حکومتیں الٹا دینے، زمین میں مدفون خزانوں کو نکال لینے اور بادشاہوں کو قتل کر کے ان کی سلطنتوں پر قبضہ کرلینے پر قادر ہوتے اور ایسا کرنے میں انہیں کسی وقت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اور نہ ہی انہیں کوئی نقصان پہنچتا بلکہ وہ جسے چاہتے نقصان پہنچا دیتے۔ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت نہ اٹھاتے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے، بلکہ ان کی حلات دوسرے لوگوں کے مقابلے میں پتلی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں سیب ڑھ کر لالچی اور حیلہ گر ہوتے ہیں۔ اپنی تمام فنکاری کے باوجود ان پر دوسروں کی بہ نسبت بدحالی زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ انہیں کسی چیز کی قدرت حاصل نہیں ہوتی اور ان کے تمام دعوے باطل اور جھوٹے ہیں۔ بس جاہل عوام ان جادوگروں اور منتر سازوں کے دعوئوں کی تصدیق اور ان کو تسلیم نہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں من گھڑت اور جعلی حدیثیں بھی روایت کرتے اور ان کی صحت پر یقین کامل رکھتے ہیں۔ مثلاً ان کی روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق ایک عورت حضرت عائشہ ؓ کے پاس آ کر کہنے لگی کہ وہ جادوگرنی ہے اور پوچھا کہ اس کے لئے توبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہے ؟ حضرت عائشہ نے اس سے سوال کیا کہ وہ جادوگرنی کس طرح بنی ؟ اس نے جواب میں کہا کہ :” میں جادو کا علم سیکھنے کے لئے بابل کے اس مقام پر گئی تھی جہاں ہاروت اور ماروت رہتے تھے، ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ :” اللہ کی لونڈی، دنیا کے فائدے کے بدلے آخرت کا عذاب نہ لے۔ “ لیکن میں نے ان کی یہ بات قبول نہ کی۔ اس پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ” راکھ کے فلاں ڈھیر پر جا کر پیشاب کر دو ۔ “ یہ سن کر میں راکھ کے ڈھیر کے پاس چلی گئی ، لیکن میں نے اپنے دل میں سوچ لیا کہ میں پیشاب نہیں کروں گی، اور واپس آ کر میں نے ان سے کہا کہ میں نے پیشاب کردیا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا دیکھا ؟ میں نے جواب میں کہا کہ کچھ نہیں دیکھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ دراصل تم نے پیشا ہی نہیں کیا اس لئے جائو اور جا کر راکھ پر پیشاب کرو۔ چناچہ میں نے وہاں جا کر پیشاب کیا تو کیا دیکھتی ہوں کہ میری فرج سے ایک مسلح سوار برآمد ہو کر آسمان کی طرف چلا گیا۔ میں نے واپس آ کر انہیں یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ” یہ تمہارا ایمان تھا جو تم سے جدا ہوگیا اور اب تمہیں جادوگری اچھی طرح آ گئی ہے۔ “ میں نے ان سے پوچھا کہ ” وہ کیسے ؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ جب تم کسی چیز کا تصور اپنے دل میں بٹھا لو گی تو وہ چیز موجود ہوجائے گی، چناچہ میں نے گندم کے ایک دانے کا تصور کیا تو دیکھا کہ یہ دانہ میرے پاس موجود ہے، میں نے دانے سے کہا ” آگ آئو ؟ “ اور فوراً ہی اس دانے سے ایک خوشہ نکل آیا، میں نے کہا :” آٹے کی صورت میں پس کر روٹی بن جائو ! “ اور دانہ ان مرحلوں سے گزر کر روٹی بن گیا ۔ “ اس کے بعد میں اپنے دل میں جس چیز کا تصور کرتی ہوں وہ چیز موجود ہوجاتی ہے۔ “ یہ سن کر حضرت عائشہ نے اس سے فرمایا کہ تمہارے لئے توبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاہل قصہ گو اور جعلی راویان حدیث عوام الناس کے سامنے اس قسم کی من گھڑت کہانیاں بیان کرتے ہیں اور وہ انہیں حدیث سمجھ کر آگے بیان کرتے ہیں اور اس طرح یہ کہانیاں لوگوں میں عام ہوجاتی ہیں۔ ابن ہبیرہ کی جادوگرنی کا واقعہ سن لیجیے کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی گورنری کے زمانے میں ایک جادوگرنی کو پکڑ لیا جس نے جادوگرنی ہونے کا اعتراف کرلیا۔ ابن ہبیرہ نے فقہاء سے اس کے متعلق مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے اسے قتل کردینے کا فتویٰ دیا۔ ابن ہبیرہ نے کہا ” میں اسے ڈبو کر ماروں گا۔ “ پھر اس نے آٹا پینے والی چکی کا ایک پاٹ لے کر جادو گرنی کے پائوں سے باندھ دیا اور دریائے فرات میں اسے پھینک دیا لکین جادوگرنی چکی کے پٹ کے ساتھ پانی پر کھڑی رہی اور موجوں کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی رہی۔ ابن ہبیرہ کے آدمی ڈر گئے کہ کہیں یہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے۔ یہ دیکھ کر ابن ہبیرہ نے اعلان کیا کہ جو شخص اس جادوگرنی کو پکڑے گا اسے اتنا انعام ملے گا ایک جادوگر نے کہا کہ ” مجھے شیشے کا ایک پیالہ کچھ پانی ڈال کر لا دو ۔ “ وہ اس پیالے میں بیٹھ کرچکی کے پاٹ تک گیا اور پیالہ مار کر پتھر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور اس کے نتیجے میں جادوگرنی ڈوب کر مرگئی۔ عوام الناس اس قسم کے گھٹیا اور من گھڑت قصوں کو سچ تسلیم کرلیتے ہیں۔ حالانکہ جو شخص اس قسم کے واقعات کی سچائی تسلیم کرے گا وہ نبوت کی معرفت سے بےبہرہ ہوگا اور ابنیاء (علیہم السلام) کو جادوگر قرار دینے کے شیطانی چکر سے بچ نہیں سکے گا۔ فرمان الٰہی ہے : ولا یفلح الساحر حیث اتی (جادو گر جہاں بھی چلا جائے کامیاب نہیں ہوسکتا) اس سے بڑھ کر بھیانک اور گھنائونی بات یہ ہے کہ لوگوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ حضور ﷺ پر بھی جادو کا اثر ہوگیا تھا حتی کہ آپ ﷺ نے اس بارے میں فرمایا :” مجھے خیال ہوتا ہے کہ میں نے فلاں بات کہی ہے اور فلاں کام کیا ہے، حالانکہ میں نے وہ بات نہ تو کہی ہے اور نہ ہی وہ کام کیا ہے۔ “ نیز یہ کہ ایک یہودی عورت نے کھجور کے کھوکھلے گابھے میں کنگھی اور پرانے کپڑوں کا ٹکڑا رکھ کر آپ ﷺ پر جادو کیا تھا اور پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے آ کر آپ ﷺ کو اطلاع دی تھی کہ آپ ﷺ پر کھجور کے کھوکھلے گابھے کے ذریع جادو کیا گیا ہے اور یہ گابھا ایک کنوئیں میں پتھر کے نیچے دبایا گیا ہے۔ پھر اسے وہاں سے نکالا گیا اور حضور ﷺ سے جادو کی کیفیت زائل ہوگئی۔ حالانکہ قول باری : وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلاً مسحوراً ) اور ظالموں نے کہا کہ تم تو ایک سحر زدہ انسان کی پیروی کرتے ہو) درج بالا قسم کی روایتیں ملحدین نے احمق لوگوں پر ذہنی طور سے غلبہ حاصل کرنے اور انہیں انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات کے ابطال اور ان میں کیڑے نکالنے کی طرف مائل کرنے کے لئے ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کے لئے وضع کی ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات اور جادوگروں کی جادوگری میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ سب کی بنیاد ایک ہے۔ ہمیں تو ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو ایک طرف انبیاء (علیہم السلام) کی تصدیق اور ان کے معجزات کا اثبات کرتے ہیں اور دوسری طرف جادوگروں کے افعال کو بھی سچ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ قول باری موجود ہے کہ : ولا یفلح الساحر حیث اتی (جادو گر جہاں بھی چلا جائے کامیاب نہیں ہوسکتا) ان لوگوں نے ایسے شخص یعنی جادوگر کی تصدیق کی جس کی تکذیب اللہ نے کی ہے اور اس کی من گھڑت باتوں کو صاف صاف لفظوں میں غلط بتایا ہے۔ جہاں تک یہودی عورت کا واقعہ ہے تو عین ممکن ہے کہ جہالت کی بنا پر یہ سوچتے ہوئے اس نے یہ حرکت کی ہو کہ اس کی اس حرکت کا اثر انسانی اجسام پر ہوسکتا ہے اور یہ سوچ کر اس نے حضور ﷺ کو نشانہ بنایا ہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اس کے خفیہ ارادے سے آگاہ کر کے اس کی اس جاہلانہ حرکت کو ظاہر کردیا ہو کہ یہ بات بھی آپ ﷺ کی نبوت کی دلیل بن جائے نہ یہ کہ مذکورہ عورت کی اس حرکت سے آپ ﷺ کو نقصان پہنچا تھا اور ذہنی طور پر آپ کے اندر اختلاط پیدا ہوگیا تھا۔ اس روایت کے تمام راویوں نے اس ذہنی پراگندگی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ تو روایت کے اندر زید کے الفاظ ہیں اور ان الفاظ کی کوئی اصل نہیں ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات اور جادو کے درمیان فرق انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات اور جادوگروں کے مذکورہ تخیلات کے درمیان فرق یہ ہے کہ معجزات حقائق پر مبنی ہوتے اور ان کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے اور ان پر جس قدر غور کیا جائے اسی قدر ان کی صحت کے بارے میں بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ اگر ساری مخلوق ان معجزات کے بالمقابل کوئی چیزیں پیش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے تو بھی وہ نکام رہے گی۔ جبکہ جادوگروں کی خرق عادات اور تخیلاتی امور محض شعبدہ بازی اور چابکدستی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کے ذریعے وہ لوگوں کے سامنے ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اگر ان چیزوں کے بارے میں غور و فکر سے کام لیا جائے اور چھان بین کی جائے تو ان کا غیر حقیقی ہونا ثابت ہوجائے گا ۔ اگر کوئی شخص یہ چیزیں سیکھنا چاہے تو وہ اسی طرح کے کرتب دکھا سکتا ہے اور کرتب دکھانے والوں کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سحر کے معنی اور اس کی حقیقت کے بارے میں گزشتہ سطور میں جو کچھ بیان کردیا ہے اس سے قارئین کو سحر کی مجموعی حقیقت اور اس کے طریق کار کے بارے میں واقفیت حاصل ہوجائے گی۔ اگر یہاں ہم ان حیلہ سازیوں کا احاطہ کرنا چاہیں تو بات طویل ہوجائے گی اور ہمیں ایک نئی کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی، ہماری غرض تو صرف سحر کا معنی اور اس کا حکم بیان کرنا ہے۔ اس لئے ہم یہاں جادو کے متعلق فقہاء کے قول نقل کریں گے اور اس کا وہ حکم بیان کریں گے جسے زیر بحث آیت مضمن ہے، نیز جادوگری کا دعویٰ کرنے والے کو لاحق ہونے والی ان سزائوں کا تذکرہ کریں گے جو انہیں ان کے گناہوں اور ان کے پیدا کردہ فساد کے مطابق ملنی چاہئیں۔ واللہ اعلم بالصواب ساحر کے متعلق فقہاء کا اختلاف عبدالباقی نے حدیث بیان کی، انہیں عثمان بن عمر الضبی نے، انہیں عبدالرحمٰن بن رجاء نے ، انہیں اسرائیل نے ابو اسحاق سے، انہوں نے ہبیرہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ سے کہ انہوں نے فرمایا :” جو شخص کسی کا ہن یا کسی عراف (نجومی) یا کسی جادوگر کے پاس جا کر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا اس نے محمد ﷺ پر نازل ہونے والی (کتاب یا شریعت کے ساتھ کفر کیا۔ “ عبداللہ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت بیان کی کہ حضرت حفضہ کی ایک لونڈی نے ان پر جادو کیا اور لوگوں نے اس جادو کو پا لیا اور خود لونڈی نے بھی اس کا اعتراف کرلیا۔ حضرت حفضہ نے عبدالرحمٰن بن زید کو اسے قتل کردینے کا حکم دیا اور انہوںں نے اسے قتل کردیا۔ یہ بات امیر المومنین حضرت عثمان کو پہنچ گئی۔ آپ نے اسے ناپسند کیا۔ پھ رحضرت ابن عمر حضرت عثمان کے پاس گئے اور انہیں لونڈی کے متعلق تمام بات بتادی۔ حضرت عثما ننے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار صرف اس بنا پر کیا تھا کہ لونڈی کو ان کی اجازت کے بغیر قتل کردیا گیا تھا۔ ابن عیینہ نے عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بجار کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ :” میں جزی بن معاویہ کا کاتب یعنی منشی تھا۔ ان کے پاس حضرت عمر کا مراسلہ آیا جس میں تحریر تھا کہ ہر جادوگر اور جادوگرنی کو قتل کر دو ۔ چناچہ ہم نے تین جادوگر نیوں کو قتل کردیا۔ ابو عاصم نے اشعث سے اور انہوں نے حسن بصری سے روایت بیان کی کہ انہوں نے فرمایا :” جادوگر کو قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ “ المثنیٰ بن الصباح نے عمرو بن شعیب سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک جادوگر کو پکڑا کر اسے سینے تک دفن کردیا اور پھر اسے اسی طرح رہنے دیا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔ سفیان عمرو سے اور انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے روایت بیان کی کہ فیس بن سعد مصر کے حاکم تھے۔ ان کے سرکاری راز افشاء ہونے شروع ہوگئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ میرے راز کون افشاء کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا یہاں ایک جادوگر رہتا ہے ، چناچہ انہوں نے اسے بلوایا۔ اس نے بتایا کہ آپ جب خط کھولتے ہیں تو مجھے اس کا مضمون معلوم ہوجاتا ہے، البتہ جب تک یہ خط سربمہر ہوتا ہے مجھے اس کے مضمون کا علم نہیں ہوتا۔ یہ سن کر انہوں نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔ ابو اسحاق الشیبانی نے جامع بن شداد سے اور انہوں نے اسود بن ہلال سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : یہ نجومی لوگ عجوم کے کاہن ہیں۔ جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس کی باتوں کا یقین کرے گا وہ حضور ﷺ پر نازل شدہ شریعت سے بری ہوجائے گی۔ ابن المبارک نے حسن سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت جندب بن سفیان الجلبی نے ایک جادو گر کو قتل کردیا تھا۔ اسی طرح یونس نے زہری سے روایت بیان کی ہے کہ مسلمان جادوگر کو قتل کردیا جائے گا لیکن اہل کتاب جادوگر کو قتل نہیں کیا جائے گا، اس لئے کہ ایک یہودی شخص ابن اعصم نے اور خیبر کی ایک یہودی عورت زینب نے حضور ﷺ پر جادو کیا تھا، لیکن آپ ﷺ نے انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ جادوگر کو قتل کردیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا سلف ساحر کے قتل کے وجوب پر متفق ہیں اور ان میں سے بعض حضرات نے ساحر کے کفر کی تصریح کردی ہے۔ ساحر کے بارے میں حکم کے متعلق فقہائے امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ابن شجاع نے حسن بن زیاد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر ساحر کے بارے میں پہت چل جائے کہ وہ ساحر ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جب وہ یہ اقرار کرے گا کہ وہ جادو گر ہے تو اس کا خون حلال ہوجائے گا۔ اگر دو گواہ اس کے خلاف گواہی دیں کہ وہ جادو گر ہے اور اس کی کیفیت اس طرح بیان کردیں جس سے معلوم ہوجائے کہ وہ جادوگر ہے تو اسے قتل کردیا جائے گا اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ اس بات کا اعتراف کرلے کہ وہ جادو کیا کرتا تھا۔ لیکن کافی عرصہ ہوا وہ یہ کام چھوڑ چکا ہے، تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس کے خلاف یہ گواہی دیجائے کہ وہ کبھی جادوگر تھا اور کافی عرصہ ہوا کہ اس نے یہ کام ترک کردیا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اگر گواہ یہ گواہی دیں کہ وہ ابھی تک جادو کرت ا ہے اور وہ خود اس بات کا اعتراف کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ اسی طرح اگر مسلمان غلام اور ذمی غلام اور آزاد ذمی یہ اقرار کرلیں کہ وہ جادوگر ہیں تو ان کا خون حلال ہوجائے گا اور انہیں قتل کردیا جائے گا۔ ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی غلام یا ذمی کے خلاف گواہی دی جائے کہ وہ جادوگر ہے اور گواہ اس کی کیفیت اس طرح بیان کریں جس سے اس کے جادوگر ہونے کا علم ہوجائے تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اسے قتل کردیا جائے گا۔ اگر غلام یا ذمی یہ اقرار کرے کہ وہ کبھی جادوگر تھا لین اب کافی عرصے سے اس نے یہ دھندا چھوڑ رکھا ہے، تو اس کی یہ بات قبول کرلی جائے گی۔ اسی طرح اگر اس کے خلاف یہ گواہی دی جائے کہ وہ کبھی جادوگری کرتا تھا، لیکن یہ گواہی نہ دی جائے کہ وہ اب بھی جادوگر ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اگر عورت کے خلاف لوگ گواہی دیں کہ وہ جادوگرنی ہے یا وہ خود اس کا اعتراف کرلے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے قید میں ڈال دیا جائے گا اور اس کی پٹانی کی جائے گی حتیٰ کہ لوگوں کو یہ یقین آ جائے کہ اس نے یہ دھندا چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح لونڈی یا ذمی عورت کے خلاف اگر لوگ گواہی دیں کہ وہ جادوگرنی ہے یا وہ خود اس کا اعتراف کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ محبوب رکھا جائے گا، یہاں تک کہ اس کے بارے میں یہ علم ہوجائے کہ اس نے جادوگری ترک کردی ہے۔ درج بالا اقوال تمام کے تمام امام ابوحنیفہ کے اقوال ہیں۔ ابن شجاع نے کہا ہے کہ جادوگر اور جادوگرنی کے بارے میں حکم دہی ہے جو مرتد اور مرتدہ کے بارے میں ہے۔ اگر جادوگر آ کر جادوگری کا اعتراف کرے یا اس کے خلاف گواہی دی جائے کہ اس نے جادو کا عمل کیا ہے تو اس کی یہ بات ارتداد کے ثبات کے بمنزلہ ہوگی۔ محمد بن شجاع نے ابو علی الرازی سے روایت بیان کی ہے کہ : میں نے امام ابو یوسف سے ساحر کے بارے میں امام ابوحنیفہ کے قول کے متعلق دریافت کیا کہ اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی یہ بات تو مرتد کے حکم کی طرح نہیں ہے۔ “ یعنی امام صاحب نے دونوں کے حکم میں فرق رکھا ہے ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ امام ابو یوسف نے جواب دیا کہ جادوگر اپنے کفر کے ساتھ فساد فی الارض کی سعی کو بھی شام لکر لیتا ہے اور فساد کے لئے سعی کرنے والا اگر کسی کو قتل کرے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ “ میں نے امام ابویوسف سے پھر پوچھا :” جادوگر کے جرم کا بدلہ کیا ہے ؟ “ انہوں نے جواب دیا کہ ” جادوگر کے عمل کا بدلہ اسی طرح لیا جائے گا جس طرح یہودیوں کے اس عمل کا بدلہ لیا گیا تھا جس کا مظاہرہ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ کیا تھا اور سج کے بارے میں روایتیں وارد ہوئی ہیں اگر وہ قتل کا ارتکاب کرے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اگر قتل کا ارتکاب نہیں کرے گا تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ لبیدین العاصم نے حضور ﷺ پر جادو کیا تھا، لیکن آپ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا کیونکہ اس نے اپنے فعل سے قتل کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام ابویوسف نے جو کچھ کہا ہے اس میں دراصل اس سحر کے معنی بیان نہیں ہوئے جس کا فاعل قتل کا مستحق ہوتا ہے اور امام ابو یوسکے بارے میں یہ گمان جائز نہیں ہے کہ جادو کے متعلق ان کا وہی اعتقاد ہے جو عوام الناس کا ہے کہ جادوگر ہاتھ لگائے یا کوئی دوا پلائے بغیر مسحور کو ضرر پہنچا دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہودیوں کی طرف سے حضور ﷺ پر جادو کا عمل اس نوعیت کا حامل ہو کہ انہوں نے آپ ﷺ کو خوراک کے ذریعے قتل کرنے کا ارادہ کیا ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے مذموم ارادے کی اطلاع دے دی ہو جس طرح زینب یہودن کے بکری کے زہرملے گوشت کے ذریعے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا اور بکری نے آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دے دی تھی اور آپ نے فرمایا تھا کہ : یہ بکری مجھے بتارہی ہے کہ اس میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ “ ابو مصعب نے امام مالک سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مسلمان اگر جادو کا عمل کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ اس لئے کہ مسلمان اگر باطنی طور پر مرتد ہوجائے تو اس کی طرف سے اظہار سالام کی بنا پر اس کی توبہ کا پتہ نہیں چل سکے گا۔ اسماعیل بن اسحق نے کہا ہے کہ اہل کتاب کا جادوگر امام مالک کے نزدیک قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اگر وہ مسلمان کو نقصان پہنچائے گا تو نقض عہد کی بنا پر قتل کردیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے اگر ساحر یہ کہے کہ میں جادو کا عمل کرتا ہوں تاکہ قتل کا ارتکاب کروں، لیکن کبھی کامیاب ہوجاتا ہوں اور کبھی ناکام اور یہ شخص میرے عمل کے نتیجے میں مرگیا ہے، تو ایسی صورت میں دیت لازم ہوگی اور اگ روہ کہے کہ ” یہ میرا معمول ہے اور میں نے اسے عمداً قتل کیا ہے۔ “ تو ایسی صورت میں اس یقصاص میں قتل کر دای جائے گا۔ اگر وہ کہے کہ میرے عمل سے میرا معمول بیمار پڑگیا تھا، مرا نہیں تھا “ تو ایسی صورت میں متوفی کے اولیا سے قسم لی جائے گی کہ وہ اسی عمل سے مرگیا تھا اور پھر دیت لازم ہوجائے گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی نے ساحر کو اس کے سحر کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا، بلکہ دوسرے محرموں کی طرح اسے صرف ایک جانی یعنی مجرم قرار دیا۔ ہم نے گزشتہ سطور میں سلف کے جو اقوال نقل کئے ہیں وہ اس امر کے موجب ہیں کہ جب جادوگر پر ساحری کا دھبہ لگ جائے تو وہ قتل کا مستحق ہوجائے گا۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضرات سلف ساحر کو کافر سمجھتے تھے اور اس بارے میں امام شافعی کا قول ان حضرات کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے۔ ان حضرات میں سے کوئی بھی یہ رائے نہیں رکھتا کہ اگر جادو گر اپنے جادو کے عمل سے کسی کو قتل کر دے تو وہ واجب القتل ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے گزشتہ سطور میں سحر کے معانی اور اس کی قسمیں بیان کردی ہیں۔ ہمارے بیان کے مطابق سحر کی پہلی قسم وہ ہے جس پر قدیم اہل بابل عمل پیرا تھے۔ اس سحر کے بارے میں صائبین کے مذاہب بھی ہم نے بیان کردیئے ہیں۔ اسی سحر کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں کیا ہے : وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت (وہ پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی) اس سے یہی معلوم ہتوا ہے کہ اس سحر کا قائل، اس کا عامل اور اسے سچے سمجھنے والا کافر ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی اس بارے میں یہی قول ہے اور میرے نزدیک اس کی توبہ بھی قابل تسلیم نہیں ہے۔ درج بالا آیت سے جادوگری کی یہی قسم مراد ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کی روایت عبدالباقی بن قانع نے کی ہے، انہیں مطیر نے، انہیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے ۔ انہیں یحییٰ بن سعید القطان عبداللہ بن الاخنس سے، انہیں الولید بن عبداللہ نے یوسف بن مالک سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے سنا کر حضور ﷺ نے فرمایا :” جس شخص نے نجوم سے کسی علم کا اقتباس کیا اس نے سحر کے ایک شعبے کا اقتباس کیا۔ یہ حدیث دو معنوں پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آیت سے وہ سحر مراد ہے جس کی نسبت اس کے عامل ستاروں کی طرف کرتے تھے یہی وہ سحر ہے جس کا ذکر ہم نے اہل بابل اور صائبین کی جادوگری کے سلسلے میں کیا ہے۔ اس لئے کہ جادو کی جن دیگر اقسام کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ خود ان اقسام پر عمل پیرا جادوگروں کا کہنا بھی یہی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ مذموم سحر کے لفظ کا اطلاق جادو کی اسی قسم کو شامل ہے اور یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضرات سلف کے نزدیک جادو کی یہی قسم متعارف تھی اور وہ صورت بھی جس پر عمل پیرا جادوگر خوق عادات کا دعویٰ کرتے تھے اگرچہ وہ اسے ستاروں کی حرکات کے ساتھ متعلق نہیں کرتے تھے۔ جادو کی دیگر اقسام جن کا ہم نے ذکر کیا ہے حضرات سلف کے نزدیک متعارف نہیں تھیں۔ بس یہی وہ قسم تھی جس پر عمل پیرا جادوگر کا قتل جائز سمجھا جاتا تھا۔ نیز یہ کہ حضرات سلف نے ادویات کے ذریعے ، چغل خوری، لاگئی بجھائی اور گنڈوں کے ذریعے جادو کا عمل کرنے والے جادوگر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا تھا اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سحر کی مذکورہ بالا قسموں پر عمل پیرا جادوگر واجب القتل نہیں ہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے جادو کے عمل میں کسی ایسی بات کا دعویٰ نہ کریں جسے وجود میں لانا عام لوگوں کے لئے ممکن نہ ہو۔ یہ بات اس مر پر دلالت کرتی ہے کہ سلف کی طرف سے جادوگر کو واجب القتل قرار دینا صرف اس جادوگر کے لئے تھا جو اپنے جادو کے ذریعے ایسے خرق عادت کا دعویٰ کرتا اور اس کا یہ دعویٰ انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات سے مشابہ لگتا ۔ یہ بات دو صورتوں کی طرف منقسم ہوتی ہے ۔ پہلی صورت تو وہ ہے جس کا ذکر ہم نے اہل بابل کے سحر کے سلسلے میں ابتدا میں کیا ہے اور دوسری صورت وہ ہے جس کا دعویٰ منت ر پڑھنے والے نیز شعبدہ باز کرتے ہیں کہ شیاطین اور جنات ان کے تابع ہیں۔ یہ دونوں گروہ کافر ہیں۔ پہلا گروہ تو اس بناء پر کافر ہے کہ اس کی جادوگری میں کواکب کی تعظیم اور انہیں الہ قرار دینے کا پہلو موجود ہے۔ دوسرا گروہ اگر چہ اللہ اور سا کے رسول ﷺ کا قائل ہے لکین اس گروہ نے چونکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ جنات ان لوگوں کو غیب کی باتیں بتاتے ہیں نیز انہیں ہوا میں اڑنے، پانی پر چلنے اور دیگر جانداروں کی شکلیں بدلنے کی قدرت حاصل ہے یا اسی طرح کے دیگر کرتب وہ دکھا سکتے ہیں اور اس جہت سے وہ انبیاء (علیہم السلام) کی نشانیوں کو بھی اپنے کرتبوں جیسا بتاتے ہیں۔ ایسے اشخاص دراصل انبیاء (علیہم السلام) کی صداقت کو جانتے ہی نہیں اور نہ اسے تسلیم ہی کرتے ہیں۔ یہ جھوٹے شعبدہ ابز اور اٹکل چلانے الے انبیاء علیہم ا لسلام کی صداقت کا انکار کرنے کی وجہ سے کفر کی زد میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔ صحابہ کرام جس جادوگر کو اس کا حال معلوم کئے بغیر اور اس کی جادوگری کے طریقوں کے بارے میں تفتیش کئے بغیر واجب القتل قرار دیتے تھے اس کا ذکر اس قول باری میں آیا ہے۔ یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت (وہ لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے اور پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل کی گئی تھی) پس یہی وہ جادوگر ہے جس کا ذکر ہم نے جادو کی اقسام پر بحث کے آغاز میں کیا تھا۔ قدیم اہل بابل میں اسی قسم کی جادوگری کا چرچا تھا۔ شاید اس کے ساتھ جادوگری کی وہ یدگر اقسام بھی رائج ہوں جن کا ذکر ہم نے گزشتہ سطور میں کیا ہے۔ اور ان پر کاربند جادوگر غیب کی خبریں بتانے اور جانداروں کی شکلیں بدل ڈالنے میں بابل کے جادوگروں کے طریقے پر چلتے ہوں۔ عرب کے کاہنوں اور جوتشیوں کو بھی کفر کا اسم شامل ہے کیونکہ ان کی طرف سے بھی مذکورہ بالا دعوے کئے گئے تھے اور وہ بھی نعوذ باللہ انبیاء (علیہم السلام) کی برابری کے دعویدار تھے۔ حضرت سلف کے نزدیک سحر خواہ جس معنی پر محمول ہو ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جادوگر اس وقت واجب القتل ہوگا جب اس کے ہاتھوں سے کسی کو جانی نقصان پہنچ جائے، بلکہ ان حضرات کے نزدیک جادوگر جادو کے عمل کا اعتقاد رکھنے کی بنا پر واجب القتل قرار پاتا تھا اور یہ بات نظر انداز کردی جاتی تھی کہ آیا اس کے ہاتھ سے کسی کو جانی نقصان پہنچا ہے یا نہیں رہ گئے وہ لوگ جو منتر پڑھ کر، ہاتھ کی صفائی دکھا کر، عقل کو کند کردینے والی دوائیاں یا جان لیوا زہر پلا کر نیز چغلخوری اور لگائی بجھائی کر کے لوگوں کو آپس میں لڑا کر جادو کا کرتب دکھاتے ہیں تو اگر وہ یہ اعتراف کریں کہ یہ سب ان کے حیلے ہیں، جادو نہیں ہے تو ان پر کفر کا حکم عائد نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں مناسب طریقے سے اس کام سے روکا جائے گا اور ان کی تادیب کی جائے گی۔ (بقیہ حصہ تفسیر، اگلی آیت میں)
Top