Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 10
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فِىْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : بیماری ہے فَزَادَھُمُ : پس زیادہ کیا ان کو / بڑھایا ان کو اللّٰهُ : اللہ نے مَرَضًا : بیماری میں وَ : اور لَھُمْ : ان کے لئے عَذَابٌ : عذاب ہے اَلِيْمٌ : درد ناک / المناک بِمَا : بوجہ اس کے جو كَانُوْا : تھے وہ يَكْذِبُوْنَ : جھوٹ بولتے
ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا خدا نے انکا مرض اور زیادہ کردیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا
دنیاوی سزائیں جرائم کے مطابق نہیں ہوتیں منافقین کی مجرمانہ روش کفر کا کھلم کھلا اظہار کرنے والے کافروں کی مجرمانہ روش سے زیادہ سنگین تھی کیونکہ انہوں نے استہزاء اور دھوکہ وہی دونوں کو یک جا کرلیا تھا، جیسا کہ قول باری : یخادعون اللہ اور انما نحن مستھزون سے واضح ہے۔ یہ بات کفر میں زیادتی ظاہر کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ : فی الدرک الاسفل من النار (جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے منافقین کی سزا اور آخرت میں عذاب کے استحقاق کی خبر دیتے ہوئے دنیا میں ان کے احکام اور شرک کا کھلم کھلا اظہار کرنے والوں کے احکام کے درمیان فرق رکھا ہے، یعنی ان کی طرف سے ایمان کے اظہار کی بنا پر ان سے قتل کا حکم رفع کردیا ہے اور وراثت وغیرہ کے اندر انہیں مسلمانوں جیسا قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیاوی سزائیں جرائم کی مقدار کے مطابق نہیں مقرر کی گئیں، بلکہ ان کی بنیاد ان مصالح پر رکھی گئی ہے جن کا علم اللہ کو ہے ۔ اور اسی علم کی بنیاد پر اللہ نے اپنے احکام جاری کئے ہیں، چناچہ اللہ نے محض زانی پر رجم کی سزا واجب کردی ہے اور توبہ کی بنا پر رجم کی یہ سزا زانی سے دور نہیں کی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ماعز کو رجم کرنے کے بعد حضور ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا : اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ یہ تو بہ ٹیکس اور چنگی وصول کرنے والا کرے تو اس کی بخشش ہوجائے۔ الغا مدیہ قبیلہ غامد سے تعلق رکھنے والی ایک عورت جس نے زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا کو رجم کرنے کے بعد بھی آپ ﷺ نے اسی طرح ارشاد فرمایا تھا۔ کفر زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ لیکن اگر ایک شخص کفر کرنے کے بعد توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہوجائے گی، چناچہ ارشاد باری ہے : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماسلف ) (آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے جنہوں نے کفر کیا کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کا سابقہ کفرکومعاف کردیا جائے گا۔ ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زنا کے قاذف کو اسی کوڑے لگانے کا حکم دیا، لیکن کفر کے قاذف پر کوئی حد اور سزا واجب نہیں کی، حالانکہ کفر زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ شراب پینے والے پر حد واجب کردی، لیکن خون پینے والے اور مردار کھانے الے پر کوئی حد واجب نہیں کی۔ ان مثالوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دنیاوی سزائیں جرائم کی مقدار کے مطابق مقرر نہیں کی گئیں۔ جب یہ بات عقل کے نزدیک جائز ہے کہ زنا، قذف اور سرقہ کے جرائم میں سرے سے کوئی حدواجب نہ کی جائے، بلکہ ایسے مجرموں کا معاملہ آخرت میں ملنے والی سزائوں پر مئوخر کردیا جائے تو عقلی طور پر یہ بھی جائز ہے کہ ان سزائوں کے مابین فرق رکھا جائے، یعنی بعض جرائم کی سزا بعض دوسرے جرائم کی نسبت زیادہ سخت رکھی جائے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ حدود کا اثبات قیاس کے ذریعے کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کے اثبات کا ذریعہ توقیف ، اشارع کی طرف سے راہنمائی) یا اجماع امت ہے، زیر بحث آیات میں اللہ سبحانہ نے منافقین کا احوال بیان کر کے انہیں ان کی حالت پر برقرار رہنے دیا اور ہمیں ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یہی چیز ہمارے درج بالا قول کی اصل اور بنیاد ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کی واجب کردہ حدود اور سزائوں کا نفاذ امام المسلمین، یعنی خلیفہ اور حاکم وقت نیز شرعی امور کے نگرانوں کا فعل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ان آلام و تکالیف کی ہے جو اللہ کی طرف سے مجرموں کو سزا کے طور پر دی جاتی ہیں۔ جب یہ بات ممکن ہے کہ ایک منافق کو دنیا کے اندر بیماری اور فقر و فاقہ کی صورت میں کوئی سزا نہ ملے، بلکہ اس کے برعکس اس کے لئے عیش و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے کی چھوٹ ہو اور اس کے کفر و نفاق کی زسا کو آخرت پر مئوخر کردیا جائے، تو یہ بات بھی جائز ہے کہ اللہ ہمیں دنیا کے اندر منافق کو قتل کردینے اور اس کے کفر و نفاق کی سزا میں تجیل کرنے کے حکم کا پابند نہ کرے۔ بعثت کے بعد حضور ﷺ نے تیرہ سال مکہ میں گزارے اور اس دوران میں آپ مشرکین کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اور اس کے پیغمبروں کی تصدیق کی دعوت دیتے رہے لیکن آپ ﷺ کو مشرکین کے ساتھ قتال کرنے کا پابند نہیں کیا گیا، بلکہ آپ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ نرم ترین الفاظ اور لطیف ترین پیرائے میں انہیں دعوت اسلام دیں، چناچہ ارشاد ہوا : ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن صاے نبی، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو) نیز : واذا خاطبھم الجاھدن قالو اسلاماً (اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام) نیز : ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم و ما یکفا ھا الا الذین صبروا وما یلقاھا الا ذوحظ عظیم۔ (آپ بدی کو ایسی نیکی سے ٹال دیا کیجیے جو بہترین ہو تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص کی آپ سے عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرتے رہتے ہیں اور اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہوتا ہے) اسی طرح کی دیگر آیات جن میں بہترین انداز سے دین کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہجرت کے بعد قتال کی فرضیت ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس مصلحت کا علم تھا جس کے تحت اس نے مکی زندگی میں قتال کا حکم نہیں دیا اور مدنی زندگی میں اس کا حکم دے دیا۔ چناچہ ہمارے بیان کردہ درج بالا اصول کی بنا پر یہ بات جائز ہوگئی کہ قتل و قتال کا حکم بعض قسم کے کافروں یعنی کھلم کھلا کفر کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ خاص ہوجائے اور اس حکم کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ نہ ہو جو ایمان کا اظہار کرتے اور کفر چھپائے رکھتے ہیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے منافق کا جرم دیگر مجرموں کے جرائم سے بڑھ کر ہے۔
Top