Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ
: اور جب
ابْتَلٰى
: آزمایا
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
رَبُّهٗ
: ان کا رب
بِکَلِمَاتٍ
: چند باتوں سے
فَاَتَمَّهُنَّ
: وہ پوری کردیں
قَالَ
: اس نے فرمایا
اِنِّيْ
: بیشک میں
جَاعِلُکَ
: تمہیں بنانے والا ہوں
لِلنَّاسِ
: لوگوں کا
اِمَامًا
: امام
قَالَ
: اس نے کہا
وَ
: اور
مِنْ ذُرِّيَّتِي
: میری اولاد سے
قَالَ
: اس نے فرمایا
لَا
: نہیں
يَنَالُ
: پہنچتا
عَهْدِي
: میرا عہد
الظَّالِمِينَ
: ظالم (جمع)
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے خدا نے کہا میں تم لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار ! ) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو) خدا نے فرمایا کہ ہمارا اقرار ظالموں کیلئے نہیں ہوا کرتا
قو ل باری ہے : واذا ابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن (یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب پر پورا اتر گیا) اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مناسک میں آزمایا حسن بصری کے قول کے مطابق یہ آزمائش حضرت اسماعیلی (علیہ السلام) کی قربانی اور کواکب کے ذریعے کی گئی (کواکب کے ذریعے آزمائش کا ذکر قرآن میں موجود ہے) طائوس نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طہارت کے حکم کے ذریعے آزمایا۔ اس سلسلے میں سر کے ساتھ تعلق رکھنے والے پانچ حکم اور جسم ک یساتھ تعلق رکھنے والے پانچ حکم دیئے گئے پہلے پانچ حکم یہ تھے ۔ لب کتروانا، کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا اور سر میں مانگ نکالنا۔ دوسرے پانچ حکم یہ تھے : ناخن کاٹنا، موئے زیر ناف صاف کرنا، ختنہ کرنا بغل کے بال اکھیڑنا اور پاخانہ پیشاب کے بعد پانی سے دھونا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ ” دس باتوں کا تعلق فطرت سے ہے۔ یعنی انبیاء علیہم ا لسلام ک سنت سے ہے۔ اور پھر آپ ﷺ نے مذکورہ بالا باتیں بیان فرمائیں۔ البتہ سر میں مانگ نکالنے کی جگ داڑھی بڑھانے کا ذکر فرمایا۔ اس روایت میں آیت کی تاویل کا ذکر نہیں ہے۔ حضرت عمار، حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ نے بھی کم و بیش یہ روایت بیان کی ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم نے ان روایتوں کے اسانید اور ان کے ال فاظ کا ذکر ترک کردیا ہے ۔ کیونکہ یہ مشہور روایتیں ہیں اور لوگوں نے قول اور عمل دونوں اعتبار سے انہیں نقل کیا ہے اور انہیں حضور ﷺ کی سنت کے طور پر پہنچانا ہے۔ رہ گیا زیر بحث آیت کی تاویل میں سلف کا اختلاف جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے، تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مذکورہ تمام باتوں کے ذریعے آزمایا ہو اور حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام ان تمام باتوں میں پورے اترے ہوں اور ان میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر منشائے الٰہی کے مطابق انہیں پورا کیا ہو۔ کیونکہ نقص یعنی کمی اتمام کی ضد ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اتمام کی خبر دی ہے ۔ حضور ﷺ 1 ؎ فاضل مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے علاوہ حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص دنیا کے مشاغل میں منہمک ہو کر گویا خود کو فروخت کردیتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے اور دوسرا دنیا کو ٹھکرا کر گویا خود کو آزاد کرلیتا ہے اور فلاح پاتا ہے۔ سے یہ جو مقنول ہے کہ : سر اور جسم میں دس باتیں فطرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ “ تو عین ممکن ہے کہ آپ ان باتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیرو کار تھے کیونکہ قول باری ہے : ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیفاً (پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو جو حنیف تھے) نیز فرمایا : اولئک الذین ھدی اللہ فبھدا ھم اقتدہ (یہی وہ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی آپ ﷺ ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے) اس لئے مذکورہ بالا باتیں حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام اور حضور ﷺ کی سنت کے طور پر ثابت ہیں اور یہ اس بات کی مقتضی ہیں کہ صفائی اور پاکیزگی نیز کپڑوں سے گندی اور میل کچیل دور کرنا ایسے امور ہیں جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے جب احرام کے اندر جسم سے بال اتارنے اور میل کچیل دور کرنے سے منع فرما دیا تو احرام کھولنے پر انہیں دور کرنے کا حکم دیا، چناچہ ارشاد ہوا : ثم لیقضوا تفثھم (پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں) حضور ﷺ سے بھی جمعہ کے دن غسل کرنے کے سلسلے میں اسی طرح کی روایت ہے کہ مسواک کا استعمال کیا جائے اور گھر میں موجود خوشبو لگائیجائے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو انسانی عقل کے مطاب قمستحسن اور اخلقا و عادات کے اعتبار سے قابل تعریف اور پسندیدہ ہیں۔ حضور ﷺ سے منقول توقیف و رہنمائی نے انہیں اور موکد کردیا ہے۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے محمد بن عمر بن حیان التمار نے، ان سے ابوالولید اور عبدالرحمٰن بن المبارک نے ان سے قیش بن حیان العجلی اور ان سے سلیمان فروخ ابو الواصل نے کہ میں حضرت ابو ایوب انصاری کے پاس آیا اور ان سے مصافحہ کیا، انہوں نے میرے ناخن بڑھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ سے آسمان کی خبر پوچھنے لگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص آتا ہے اور آ کر آسمان کی خبر پوچھتا ہے، جبکہ ان کے ناخن پرندوں کے ناخنوں کی طرح بڑھے ہوت یہیں جن میں گندگی اور میل کچیل جمع ہوتا ہے۔ “ اسی طرح عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے احمد بن سہل بن ایوب نے ، ان سے عبدالملک بن مروان المحذاء نے ، ان سے ضحاک بن زید ا ہوازی نے اسماعیل بن خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ : ہم نے عرض کیا کہ ” اللہ کے رسول کیا آپ بھی غلطی کرتے ہیں ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا :” میں کیوں غلطی نہ کروں جبکہ تم میں سے ایک شخص کے جسم کے گوشوں کے میل کچیل اس کے ناخنوں اور انلیوں کے پودوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ “ حضرت ابوہریرہ نے حضور ﷺ سے رویات بیان کی ہے کہ آپ جمعہ کی نماز کے لئے جانے سے پہلے ناخن تراشتے اور لب کترتے تھے۔ محمد بن بکر البصری سے رویات بیان کی، ان سے ابو دائود نے ، ان سے عثمان ابن ابی شیبہ نے وکیع سے، انہوں نے اور زاعی سے ، انہوں نے حسان سے، انہوں نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ انہوں نے فرمایا : ہم حضور ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے ایک شخص کے سر کے بال بکھرے ہوئے دیکھے اور فرمایا : کیا اس شخص کو ایسی چیز بھی میسر نہیں جس کے ذریعے وہ اپنے بال درست کرے ؟ “ آپ ﷺ نے ایک اور شخص کو دیکھا جس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا : کیا اس کو ایسی چیز بھی میسر نہیں جس کے ذریعے وہ اپنے کپڑے دھو لے ؟ “ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے حسین بن اسحاق نے، ان سے محمد بن عقبہ السدوسی نے، ان سے ابوامیہ بن یعلی نے ، ان سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے انہوں نے فرمایا : پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں حضور ﷺ سفر اور حضر میں ترک نہیں کرتے تھے۔ آئینہ، سرمہ دانی، کنگھی، مدری (سر وغیرہ کھجلانے کے لئے لوہے یا لکڑی کی بنی ہوئی دندانے دار چیز) اور مسواک۔ “ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے الحسین بن المثنیٰ 1 ؎ نے معاذ سے، ان سے مسلم بن ابراہیم نے، ان سے صدقہ الدقیقی نے، ان سے ابو عمران الجونی نے حضرت انس بن مالک سے، انہوں نے فرمایا کہ : حضور ﷺ نے موئے زیر ناف صاف کرنے ، مونچھیں کترنے اور بغل کے بال اکھیڑنے کے لئے چالیس دنوں کا وقفہ مقرر کیا تھا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ بالوں کی صفائی کے لئے چونہ استعمال کرتے تھے۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے ادریس الحداد نے ، ان سے عاصم بن علی نے، ان سے کامل بن العلاء نے ، ان سے حبیب بی ابی ثابت نے حضرت ام سلمہ سے کہ حضور ﷺ جسم مبارک پر مالش کے دوران اپنے ہاتھوں سے اپنے مغابن (جسمانی گوشوں) کو ملا کرتے تھے۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے مطیر نے، ان سے ابراہیم بن المنذر نے ان سے معن بن عیسیٰ نے ایسے شخص سے جس نے یہ روایت ابن ابی نحیح سے سنی، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ حضور ﷺ کے جسم مبارک پر ایک شخص نے مالش کی۔ آپ ﷺ نے ستر پر ایک کپڑا ڈال دیا۔ جب وہ شخص مالش سے فارغ ہوا تو آپ ﷺ نے اسے باہر نکل جانے کے لئے کہا پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے ستر کی مالش کی۔ حبیب بن ابی ثاثت نے حضرت انس سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ بالوں کی صفائی کے لئے چونہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اگر بال زیادہ ہوجاتے تو مونڈ دیتے۔ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ حضرت انس یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بال مونڈنا آپ ﷺ کی عادت تھی۔ اور زیادہ تر آپ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ اس تاویل سے بال مونڈنے اور چونہ استعمال کرنے کی دونوں روایتیں درست ہوجائیں گی، البتہ گزشتہ حدیث میں چالیس دن کے وقفے کا جو ذکر ہوا ہے تو اسے اس بات پر محمول کرنا جائز ہے کہ تاخیر میں رخصت کی مدت کا اندازہ چالیس دن لگایا گیا ہے اور اس سے زیادہ تاخیر ممنوع ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو سنت کی مخالفت کی نبا پر ملامت کا مستحق ہوگا۔ خاص طور پر لب کتروانے اور ناخن ترشوانے کے سلسلے میں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ابو جعفر الطحاوی نے سر اور لب کے بال کترنے کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ، امام زفر، امام ابو یوسف اور امام محمد کا مسلک بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک چھوٹے کرانے کی بہ نسبت احفاء ( بہت زیادہ کتر کے پست کردینا) افضل ہے، خواہ اس کے ساتھ بعض بال مونڈ دیئے جائیں۔ ابن الہشیم نے امام مالک سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مونچھوں کا احفا میرے نزدیک مثلہ ہے۔ امام مالک نے مونچھوں کے احفاء کے بارے میں حضور ﷺ کے قول کی تفسیر اطار سے کی ہے، یعنی امام مالک مونچھوں کے بال اوپر کی طرف سے کترنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور چاروں طر سے کترنے میں توسیع کے قائل تھے۔ اشہب نے کہا ہے کہ میں نے ا مام مالک سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو اپنے لب پوری طرح کتر دیتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے خیال میں ایسے شخص کی زبرسدت پٹائی ہونی چاہیے۔ حضور ﷺ کی حدیث احفاء یعنی پوری طرح کتر کر پست کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ گویا امام مالک یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اطار یعنی چاروں طرف سے کترنے کا عمل لبوں کے کنارے ظاہر کردیتا ہے۔ پھر امام مالک نے نے فرمایا : مونچھیں مونڈ دینا ایک بدعت ہے جو لوگوں کے اندر ظہور پذیر ہوگئی ہے، حضرت عمر ؓ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوجاتا تو آپ کا چہرہ تمتما جاتا اور آپ اپنی مونچھوں کو تائو دینا شروع کردیتے۔ اوزاعی سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنا سر مونڈ دیتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ شہری لوگوں میں یہ بات صرف یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو ظاہر ہوتی ہے اور یہ کام عرفات میں ہوتا ہے۔ عہدہ بن ابی لبابہ سرمونڈنے کی بڑی فضیلت بیان کرتے ہیں۔ لیث کا قول ہے کہ : میں یہ بات پسند نہیں کرت ا کوئی شخص اپنی مونچھیں اس طرح مونڈ ڈالے کہ اس کی جلد نظر آنے لگے، میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں، لیکن وہ مونچھوں کے کنارے والے بال کتردے، مجھے ایک شخص کالمبی مونچھوں والا ہونا ناپسند ہے۔ اسحق بن ابی اسرائیل نے کہا : میں نے عبدالمجید بن عبدالزعیز بن ابو دائود سے سر مونڈنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا مکہ مکرمہ میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ شہر سر مونڈنے کا شہر ہے، لیکن اس کے علاوہ دوسرے شہروں میں ایسا نہ کیا جائے۔ ابو جعفر کا کہنا ہے کہ امام شافعی سے اس سلسلے میں کوئی ختصوص قول منقول نہیں، تاہم امام شافعی کے المزنی اور الربیع کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ اپنی مونچھوں کا احفاء کرتے تھے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان دونوں حضرات نے امام شافعی سے یہ چیز اخذ کی تھی۔ حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ نے حضور ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” دس باتیں فطرت کی ہیں اور لب کترنا ان میں سے ایک ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے مونچھوں پر مسواک رکھ کر زائد بال کتر دیئے تھے۔ یہ بات جائز اور مباح ہے اگرچہ دوسری بات افضل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے مسواک رکھ کر اس لئے بال کترے تھے کہ اس وقت آپ ﷺ کو احفاء کے لئے کوئی آلہ میسر نہیں تھا۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ اپنی مونچھوں کے بال کاٹ دیتے تھے۔ اس میں احفاء کا بھی احتمال ہے۔ عبداللہ بن عمر نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : مونچھیں پست کرو اور داڑھیاں بڑھائو۔ اعلاء بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھنے دو ۔ “ اس میں بھی احفاء کا احتمال ہے۔ عمر بن سلمہ نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا :” مونچھیں پست کرو اور داڑھیاں بڑھائو۔ “ یہ روایت اس امر پر دلالت کرت ہے کہ پہلی روایت میں آپ ﷺ کی مراد احفاء ہے۔ احفاء اس امر کا مقتضی ہے کہ بال دور کرنے سے جلد ظاہر ہوجائے جس طرح ننگے پیروں والے شخص کو ” رجل حاف “ (پیروں سے ننگا) کہا جاتا ہے اور اس کے لئے ” حفیت رجلہ “ (اس کا پیر ننگا ہے) کا فقرہ بھی بولا جاتا ہے اسی طرح حفیت الدابۃ کا فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب جانور کے تلوے گھس جانے کی وجہ سے اس کی ٹانگوں کا نچلا حصہ کمزور ہوجائے۔ حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابواسید ، حضرت رافع بن خدیج، حضرت سہل بن سعد، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوہریرہ کے متعلق مروی ہے کہ یہ حضرات اپنی مونچھوں کا احفاء کیا کرتے تھے۔ ابراہیم بن محمد بن خطاب نے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر کو اپنی مونچھیں اس طرح صاف کرتے دیکھا تھا کہ گویا وہ تمام بال اکھیڑ لیتے۔ بعض دوسرے راویوں نے کہا ہے کہ حضرت ابن عمر اس طرح مونچھیں صاف کرلیتے کہ جلد کی سفیدی نظر آ جاتی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب مونچھوں کے بال چھوٹے کرنا سب کے نزدیک مسنون ہے تو پھر حلق، یعنی مونڈ دینا افضل ہوگا کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا : اللہ تعالیٰ مونڈنے والوں پر رحم فرمائے۔ آپ ﷺ نے تین بار یہ دعا کی اور بال چھوٹے کرنے والوں کے لئے ایک دفعہ داع کی تھی۔ اس لئے آپ ﷺ نے سر مونڈنے کو سر کے بال چھوٹے کرانے سے افضل قرار دیا۔ امام مالک نے حضرت عمر کے فعل سے استدلال کیا ہے کہ جب آپ غصے میں آتے تو مونچھوں کو تائو دیتے۔ اس بارے میں یہ ممکن ہے کہ آپ مونچھوں کے بال اس قدر رہنے دیتے ہوں کہ انہیں بٹ دینا ممکن ہو۔ جیسا کہ بہت سے لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ قول باری ہے : انی جاعلک للناس اماماً (میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں) امام وہ شخص ہے جس کی امور دین کے اندر از راہ نبوت پیروی کی جائے۔ اسی طرح تمام انبیاء (علیہم السلام) ائمہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امور دین میں ان کا اتباع اور پیروی لازم کردی ہے خلفا بھی ائمہ ہیں، اس لئے کہ ان کا مرتبہ ایسا ہے کہ لوگوں پر ان کا اتباع کرنا اور ان کے قول اور احاکم کو قبول کرنا لازم ہے۔ فقہاء اور قضاۃ بھی ائمہ ہیں۔ اسی مفہوم کی بنا پر لوگوں کو نماز پڑھانے والا امام کہلاتا ہے، اس لئے کہ جو شخص جماعت کی نماز میں دخل ہوجاتا ہے اس پر امام کا اتباع لازم ہوجاتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : امام کو اس لئے امام بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سجدے میں جائے تم بھی سجدے میں جائو۔ نیز آپ نے فرمایا : اپنے امام سے اختلاف نہ کرو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امامت کے اسم کا وہ شخص مستحق ہوتا ہے جس کا امور دین میں اتباع لازم ہوتا ہے۔ باطل کے اندر جس شخص کی اقتداء کی جائے اسے بھ یہ نام دیا جاتا ہے، تاہم اس اسم کا علی الاطلاق ذکر ایسے شخص کے شامل نہیں ہوتا۔ ارشاد باری ہے : وجعلنا ھم المۃ یدعون الی النار (اور ہم نے انہیں ایسا پیشوا بنادیا جو آگ کی طرف بلاتے رہے) انہیں ائمہ کا نام اس لئے دیا گیا کہ لوگوں نے انہیں اس شخص جیسا درجہ دے دیا تھا جس کی امور دین میں اقتدا کی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ ائمہ نہیں تھے اور ان کی اقتدا واجب نہیں تھی۔ جس طرح یہ قول باری ہے (فما اعنت عنھم الھتھم التی یدعون (ان کے یہ الہ جنہیں یہ پکارتے ہیں ان کے کچھ کام نہ آئے) نیز فرمایا : وانظر الی اھلک الذی ظلت علیہ عاکفاً (اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس پر تو یرجھا ہوا ہے) حضور ﷺ کا ارشاد ہے : مجھے اپنی اتم کے بارے میں جس چیز کا زیادہ خطرہ ہے وہ گمراہ کرنے والے ائمہ ہیں۔ ائمہ کا علی الاطلاق ذکر صرف ان ائمہ کو شامل ہوتا ہے جن کی اللہ کے دین نیز حق اور ہدایت کے اندر اقتدا واجب ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری : انی جاعلت للناس اماماً کسی تقیید کے بغیر مذکور ہے، لکین جب ائمہ ضلال کا ذکر ہوا تو اسے : یدعون الی النار کی قید سے مقید کردیا ۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ امامت کا اسم ان لوگوں کو شامل ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے تو پھر انبیاء (علیہم السلام) امامت کے سب سے اونچے متر بےپر ہیں۔ پھر خلفائے راشدین اور اس کے بعد ھپر علماء اور انصاف کرنے والے قاضی، نیز ایسے لوگ جن کی اقتدا اللہ نے لوگوں پر لازم کردی ہے اور پھر نماز کی امامت وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خبر دی کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کا پیشوا بنا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے درخواست کی کہ وہ ان کی اولاد میں سے بھی پیشوا بنائے۔ اس کا ذکر قرآن کے الفاظ میں اس طرح ہے : ومن ذریتی (اور میری اولاد میں سے) چونکہ اس فقرے کا عطف پہلے فقرے پر ہے اس لئے مفہم کے اعتبار سے گویا الفاظ یہ ہیں : اور میری اولاد میں سے بھی ائمہ بنا دے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ بالا فقرے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھا ہو کہ آیا میری اولاد میں بھی ائمہ ہوں گے ؟ “ اور اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ہو : لا ینال عھدی الظلمین (میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ ) اس طرح یہ فقرہ دومعنوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یا تو ابراہیم (علیہ السلام) کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے جسے معلوم کرنے کی غرض سے انہوں نے اللہ سے سوال کیا تھا اور یا اس بات کا جواب دیتے ہوئے جس کا سوال انہوں نے اللہ سے اپنی اولاد کے لئے کیا تھا، انہیں بتایا کہ وہ ان کی اولاد میں ائمہ بنائے گا۔ دوسری بات اس صورت میں ہوگی جب قول باری : ومن ذریتی کو اپنی اولاد میں سے ائمہ بنانے کے لئے سوال قرار دیا جائے۔ یہ بھی جائز ہے کہ آیت سے دونوں معنی مراد ہوں۔ اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ سے یہ سوال کہ ان کی اولاد میں ائمہ بنائے جائیں نیز انہیں اس سے آگاہ کردیا جائے اور دوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا جواب۔ کیونکہ اگر درج بالا قرآنی فقرہ اللہ کی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا جواب نہ ہوتا تو پھر یہ فقرہ ان الفاظ پر مشتمل ہوتا :” لیس فی ذریتک المۃ (تمہاری اولاد میں ائمہ نہیں ہوں گے) یا : لاینال عھدی من ذریتک احد (میرا وعدہ تمہاری اولاد میں سے کسی سے متعلق نہیں ہے) اللہ تعالیٰ نے اس فقرے کے ذریعے یہ خبر دی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ظالموں کو ائمہ نہیں بنایا جائے گا۔ قول باری : لاینال عھد الظلمن۔ کی تفسیر میں سدی سے مروی ہے کہ اس سے مراد نبوت ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ کے ہاں یہ مراد ہے کہ ظالم امام نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عباس سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ ظالم کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر ظالم نے ازراہ ظلم تمہارے ساتھ کوئی عقد باندھا ہو تو اسے توڑ ڈالو حسن بصری نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے کہ وہ آخرت میں بھلائی عطا کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت کے جتنے معانی اوپر بیان ہوئے آیت کے الفاظ میں ان سب کا احتمال موجود ہے اور یہ ممکن ہے کہ یہ تمام معانی اللہ کی مراد قرار دیئے جائیں، ہمارے نزدیک یہ آیت اسی مراد پر محمول ہے، چناچہ کسی ظالم کا نہ تو نبی ہونا ممکن ہے نہ وہ کسی نبی کا خلیفہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ایسا شخص بننا جس کا امور دین کے اندر لوگوں پر اتباع لازم ہو مثلاً مفتی یا گواہ یا حدیث کا راوی۔ زیر بحث آیت نے یہ بتادیا ہے کہ دین کے معاملے میں جن لوگوں کی اتباع کی جائے ان سب کے لئے عدالت اور صلاح شرط ہے۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نماز پڑھانے والے اماموں کو صالح اور نیکو کار ہونا چاہیے۔ کیونکہ آیت اس شخص کے لئے عدالت یعنی نیکو کاری اور سلامت روی کی شرط پر دلالت کرتی ہے جسے دین کے امور میں مقتدا کے منصب پر فائز کیا جائے۔ ارشاد باری ہے : الم اعھد الیکم یا بنی ادم ان لا تعبدوا لشیطان انہ لکم عدو مبین (کیا میں نے تم کو تاکید نہیں کردی تھی، اے اولاد آدم، کہ تم شیطان کی فرمانبرداری نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے) نیز فرمایا : الذین قالوا ان اللہ عمد الینا (جو لوگ کہتے ہیں اللہ نے ہم کو ہدایت کردی ہے) خلفاء کا اپنے حکام اور قاضیوں سے عہد ان ہی معنوں میں ہے یعنی اس سے مراد وہ ہدایات اور احکامات ہیں جو خلیفہ کی طرف سے اپنے گورنروں اور قاضیوں کو وقتاً فوقتاً جاری کئے جاتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ان پر عمل پیرا کریں اور ان کی روشنی میں لوگوں کے جھگڑے نمٹائیں۔ درج بالا وضاحت اس بنا پر ہے کہ اگر ” عہد اللہ “ اللہ کے اوامر کا نام ہے تو پھر قول باری : لاینال عھد الظلمین۔ دو میں سے ایک امر سے خلای نہیں ہوگا۔ یا تو یہ مراد ہے کہ ظالم مامورین و مکلفین کی فہرست سے خارج ہیں یا یہ مراد ہے کہ ظالموں کے لئے ایسے منصب اور اور مقام پر ہونا جائز نہیں ہے جس کے تحت ا ن سے اللہ کے اوامر اور احکام قبول کئے جائیں۔ پہلی صورت تو اس لئے باطل ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اللہ کے واوامر دیگر لوگوں کی طرح ظالموں کے لئے بھی لازم ہیں اور ان پر ظلم کا ٹھپہ صرف اس لئے لگتا ہے کہ وہ اوامر اللہ کے تارک ہوتے ہیں اور جب پہلی وجہ باطل ہوگئی تو اس سے دوسری صورت ثابت ہوگئی، وہ یہ کہ ظالم لوگوں کو اللہ کے اوامر اور ان کے اجرا کے سلسلے میں دیانت دار اور امین قرار نہیں دیا جاسکتا اور ان کی اقتدا نہیں کی جاسکتی۔ وہ ائمہ دین نہیں بن سکتے۔ درج بالا وضاحت کی روشنی میں زیر بحث آیت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فاسق کی امامت باطل ہے اور فاسق شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی فاسق شخص اپنے آپ کو اس منصب پر فائز کرلے تو لوگوں پر اس کا اتباع لازم نہیں ہوگا۔ یہی بات حضور ﷺ کے ارشاد : خلاق کی معصیت میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں کی جائے گی، میں بھی کہی گئی ہے۔ اس کے گواہی بھی قابل قبول نہیں ہوگی اور نہ ہی حضور ﷺ کی طرف سے اس کی دی ہوئی خبر یعنی روایت قابل تسلیم ہوگی۔ اگر وہ مفتی بن جائے تو اس کا فتویٰ نہیں چلے گا اور اسے نماز پڑھانے کے لئے امام نہیں بنایا جائے گا، البتہ اگر اسے امام بنادیا جائے تو اس کی اقتدا میں نمازیوں کی نماز درست ہوجائے گی۔ قول باری : ولا ینال عھد الظالمین ان تمام معافی اور امور کو عادی ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امام ابوحنیفہ فاسق کی امامت اور خلافت کو جائز قرار دیتے اور اس کے اور حاکم کے درمیان فرق کرتے ہیں اور فاسق حاکم کی حکومت کو جائز قرار نہیں دیتے۔ یہ بات بعض متکلمین کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔ بیان کرنے والے کا نام زرقان ہے، لیکن زرقان نے اس بارے میں کذب بیانی سے کام لیا ہے اور ایک باطل بات کہی ہے۔ یہ شخص ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہے جن کی نقل کردہ باتیں قابل قبول ہوں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس اعتبار سے قاضی اور خلیفہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لئے عدالت کی شرط ہے : نیز یہ کہ فاسق شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے اور نہ ہی حاکم، اس کی گواہی بھی قبال قبول نہیں ہے اور اگر وہ حضور ﷺ سے کسی حدیث کی روایت کرے تو اس کی یہ روایت بھی ناقابل قبول ہوگی۔ مذکورہ شخص امام ابوحنیفہ کے بارے میں درج بالا دعویٰ کس طرح کرسکتا ہے جبکہ بنی امیہ کے زمانے میں ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو قضا کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا تھا اور ماں بیٹا بھی تھا۔ لکین امام صاحب اپنی بات پر قائم رہے۔ اس پر ابن ہبریہ بھی ضد میں آگیا اور ہر روز آپ کو کوڑوں کی سزا دینے لگا۔ حتیٰ کہ آپ کی جان جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فقہاء نے آپ کو مشورہ دیا کہ ابن ہبیرہ نے کسی کام کی ذمہ داری سنبھال لیں تاکہ ایذا رسانی کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے۔ اس پر آپ نے بھوسے سے لدے ہوئے آنے والے جانوروں کی گنتی کا کام سنبھال لیا اور اس طرح آپ کو ابن ہبیرہ سے چھٹکارا مل گیا۔ پھر خلفیہ منصور نے آپ کو قضا کا عہدہ سنبھالنے کی دعوت دی اور انکار پر اس نے آپ کو قید کردیا۔ پھر آپ نے ان اینٹوں کی گنتی کا کام سنبھال لیا جو بغداد کے شہر پناہ کی تعمیر کے لئے بنائی جاتی تھیں۔ ظالموں نیز ائمہ جور کے خلاف قتال کرنے کے سلسلے میں آپ کا مسلک سب کو معلوم ہے۔ اسی بنا پر امام اوزاعی نے خلاف قتال کرنے کا مسئلہ بیان کیا، لیکن ہم نے اسے قبول نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ کا قول تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قول کے ذریعے فرض ہے۔ اگر یہ طریقہ کارگر نہ ہو تو پھر تلوار کے ذریعے قتال فرض ہے : جیسا کہ حضور ﷺ سے مروی ہے۔ ابراہیم الصائع اہل خراسان کے فقہا اور ان کے عابد و زاہد محدثین میں سے تھے، انہوں نے امام صاحب سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں جب سوال کیا تو امام صاحب نے جوا ب میں فرمایا کہ : یہ فرض ہے اور اس کے ساتھ وہ حدیث بیان کی جس کی روایت عکرمہ سے کی گئی ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : سب سے افضل شہید حمزہ بن عبدالمطلب ہیں، نیز وہ شخص جو ظلم وجور کرنے والے امام کے سامنے کھڑا ہو کر اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے اور پھر قتل ہوجائے۔ ابراہیم الصائغ امام صاحب کی یہ باتیں سن کر مرو (ایک شہر کا نام) واپس آ گئے اور ابو مسلم خراسانی (عہد عباسی کے ابتدائی دور کا مشہور سپہ سالار) کے سامنے کھڑے ہو کر اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہے پھر اس کے ظلم و ستم اور ناحق خونریزی پر برملا ٹوکتے رہے۔ ابو مسلم کچھ عرصے تک ان کی یہ تنقید برداشت کرتا اور پھر انہیں قتل کرا دیا۔ زید بن علی کے سلسلے میں امام صاحب کا رویہ سب کے علم میں ہے۔ آپ ان کے لئے رقمیں بھیجتے اور لوگوں کو ان کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ مل کر قتال کرنے کے وجوب کا خفیہ طور پر فتویٰ دیتے رہے۔ امام صاحب نے عبداللہ بن حسن کے دونوں بیٹوں ممد اور ابراہیم کے سلسلے میں بھی اپنا یہی رویہ رکھا تھا (مذکورہ بالا حضرات وہ تھے جنہوں نے عباسی خلیفہ سفاح اور منصور کے ظلم و ستم اور خونریزی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا) ابو اسحٰق الفراری نے جب امام احب سے پوچھا کہ ” آپ نے میرے بھائی ابراہیم ( یہ صاحب تاریخ میں نفس ذکیہ کے نام سے مشہور ہیں) کے ساتھ مل کر عباسی خلیفہ کے خلاف خروج کا کیوں مشورہ دیا ؟ میرا بھائی آپ کے مشورے پر چل کر قتل ہوگیا۔ تو امام احب نے جواب میں فرمایا : تمہارے بھائی کا خروج میرے نزدیک تمہارے خروج سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ “ یاد رہے کہ ابو اسحق بصرہ کی طرف نکل گئے تھے۔ دراصل بعض کو دن قسم کے اصحاب حدیث نے امام صاحب پر اس قسم کی تنقید کی ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا جس کے نتیجے میں ظلم و ستم ڈھانے والے لوگ اسلام پر غالب آ گئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ امر بالمعرفو اور نہی عن المنکر کے بارے میں جس شخص کا مسلک یہ ہو وہ کس طرح فاسق کی امامت کو جائز سمجھ سکتا ہے۔ اگر ہم یہاں حسن ظن سے کام لے کر یہ کہیں کہ امام صاحب پر تنقید کرنے والوں نے جان بوجھ کر کذب بیانی سے کام نہیں لیا ہے تو اتنا ضرور کہیں گے کہ وہ امام صاحب نیز فقہائے عراق کے اس قول سے غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں کہ اگر قاضی فی نفسہ عادل ہوا ور اسے کسی ظالم حاکم کی طرف سے عہدہ قضا پر مقرر کردیا جائے تو اس کے فیصلے نافذ العمل ہوں گے۔ نیز حاکموں کے فاسق اور ظالم ہونے کے باوجود ان کے پیچھے نماز درست ہوگی۔ یہ ایک درست مسلک ہے ، لیکن اس میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ امام صاحب فاسق کی امامت کو جائز قرار دیتے تھے۔ اس لئے کہ قاضی اگر عادل ہو تو وہ بایں معنی قاضی ہوگا کہ اس کے لئے احکامات کو تنفیذ ممکن ہوگی اور جو شخص اس کے احکامات کو قبول کرنے سے باز رہے گا اسے یہ احکامات قبول کرنے پر مجبور کرنے کا اختیار اور قدرت ہوگی۔ اس سلسلے میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ اسے کس نے اس عہدہ قضا پر مامور کیا ہے کیونکہ مامور کرنے والا حاکم قاضی کے دیگر اعوان اور کارندوں جیسا ہوگا۔ جبکہ قاضی کے مددگاروں کے لئے عادل ہونا شرط نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شہر والے جن کا کوئی حاکم نہ ہو اکٹھے ہو کر اپنے میں سے کسی عادل شخص کو قضا کا عہدہ سپرد کردیں اور اس سے وعدہ کرلیں کہ جو لوگ اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے باز رہیں گے ان کے خلاف یہ لوگ اس کی مدد کریں گے، تو اس صورت میں مذکورہ قاضی کے تمام فیصلے نافذ العمل ہوں گے خواہ اسے اس عہدے کا پروانہ کسی امام یا سلطان کی طرف سے حاصل نہ بھی ہو۔ اسی بنا پر شریح اور دیگر تاعبین نے بنی امیہ کی طرف سے عہدہ قضا قبول کیا تھا۔ شریخ تو حجاج کے زمانے تک کوفہ کے قاضی رہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے عرب اور مروان کے سارے خاندان میں عبدالملک بن مروان (اموی خلیفہ) بڑھ کر کوئی شخص ظالم اور فاسق وکافر نہیں تھا اور عبدالملک کے مقرر کردہ تمام عمال (گورنروں) میں کوئی عامل حجاج سے بڑھ کر ظالم اور فاسق و کافر نہیں تھا۔ عبدالملک ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام سر انجام دینے والے لوگوں کی زبانیں کاٹ ڈالی تھیں۔ ایک دفعہ منبر پر چڑھ کر کہنے لگا۔” خدا کی قسم ! میں کوئی کمزور خلیفہ نہیں ہوں۔ (اشارہ حضرت عثمان کی طرف تھا) اور نہ ہی کوئی مصلحت کوش خلیفہ (اشارہ حضرت معاویہ کی طرف تھا) تم لوگ ہمیں بہت سی باتیں کرنے کا حکم دیتے ہو اور خود یہ باتیں اپنی ذات کے سلسلے میں بھول جاتے ہو۔ خدا کی قسم آج کے بعد جو شخص بھی مجھ سے تقویٰ اور اللہ سے ڈرنے کی بات کرے گا میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اس زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے وظائف بیت المال سے وصول کیا کرتے تھے جب مختار ثقغی کذاب نے اپنی حکومت قائم کرلی تو وہ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور محمد بن الحنفیہ کی طرف مال و اسباب ارسال کیا کرتا تھا اور یہ حضرات مذکورہ مال و اسباب قبول کرلیا کرتے تھے۔ محمد بن عجلان نے انفقاع سے نقلی کیا ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے حضرت ابن عمر کو پیغام بھیجا کہ اپنی ضروریات سے مجھے اگٓاہ کریں۔ اس پر حضرت ابن عمر نے اسے لکھا کہ ” حضور ﷺ نے فرمایا ہے : کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ “ اور میرا خیال ہے کہ اوپر کا ہاتھ دینے والے کا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ لینے والے کا ہاتھ ہے، اس لئے میں تم سے کوئی چیز طلب نہیں کروں گا۔ اور نہ وہ وظیفہ واپس کروں گا جو اللہ نے تمہارے ذریعہ مجھے رزق کے طور پر عطا کیا ہے۔ والسلام حسن بصری، سعید بن جبیر اور شعبی، نیز تمام دیگر حضرات تابعین ان ظالموں سے اپنے وظائف وصول کرتے تھے۔ ان کی یہ وصولی اس بنا پر نہیں تھی کہ انہیں ان ظالموں سے لگائو تھا اور ان کی امامت کو درست سمجھتے تھے، بلکہ یہ حضرات اس بنا پر اپنے وظائف وصول کرتے تھے کہ وہ ان وظائف کو اپنا ایسا حق سمجھتے تھے جو فاجر قسم کے لوگ کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ حضرات از راہ موالات اور دوستی کس طرح یہ حقوق حاصل کرسکتے تھے۔ جبکہ انہوں نے حجاج کے خلاف تولار لے کر خروج کیا تھا۔ اس کے خلاف چار ہزار تابعین اور فقہائے عبدالرحمٰن بن الاشعث کی ہمرکابی میں پہلے اہواز کے مقام پر جنگ کی تھی اور پھر بصرہ کے مقام پر اور اس کے بعد کوفہ کے قریب دریائے فرات کی جانب سے دیر جماجم کے مقام پر۔ انہوں نے عبدالملک بن مروان سے خلافت کی بیعت توڑ دی تھی۔ اس پر لعنت بھیجتے رہے تھے اور اس سے اپنی برأت کا اظہار کرتے تھے حضرت معاویہ کے ساتھ بھی ان حضرات سے پہلے لوگوں کا یہی رویہ تھا۔ جب حضرت علی شہادت کے بعد حضرت معاویہ تخت خلافت پر متمکن ہوگئے تھے۔ حضرت حسن اور حضتر حسین بھی اپنے وظائف وصول کرتے تھے اور اس زمان یکے صحابہ کرام کا بھی یہی طریق کار تھا، حالانکہ یہ حضرات خلیفہ وقت حضرت معاویہ سے موالات کا کوئی رشتہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان سے اس طرح بیزاری کا اظہار کرتے تھے جس طرح حضرت علی اپنی وفات تک ان سے بیزار رہے تھے، چناچہ اس بنا پر ظالم حکمرانوں کی طرف سے عہدئہ قضا قبول کرنے اور ان سے اپنے وظائف وصول کرنے میں ایسی کسی دلالت کا وجود نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی کا رشتہ رکھنے تھے اور ان کی امامت کے قائل تھے۔ بعض غبی قسم کے روافض نے قول باری (لاینال عھدی الظلمین سے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی امامت کی تردید پر یہ کہہ کر استدلال کیا ہے کہ یہ دونوں حضرات زمانہ جاہلیت میں حالت شرک کے اندر ظلم کیا کرتے تھے۔ ان کا یہ استدلال حد سے بڑھی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ ظالم ہونے کا دھبہ صرف اس شخص کو لگتا ہے جو ظلم ڈھانے پر ڈٹا رہے۔ جو شخص ظلم کرنے سے تائب ہوجائے اس سے یہ دھبہ زائل ہوجاتا ہے اور پھر اس پر ظلم کرنے کا حکم عائد کرنا جائز نہیں رہتا ۔ اس لئے کہ اگر حکم کا تعلق کسی صفت سے ہو اور وہ صفت زائل ہوجائے تو حکم بھی زائل ہوجاتا ہے۔ ظلم کی صفت تو ایک قابل مذمت صفت ہے اور یہ صرف اس شخص کو لاحق ہوتی ہے جو ظلم ڈھانے پر ڈٹا رہتا ہے۔ جب اس سے یہ صفت زائل ہوجاتی ہے تو حکم بھی زائل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح ایسے شخص سے اللہ کے عہد کو حاصل کرنے کی نفی کا حکم بھی زائل ہوجائے گا جس کا ذکر قول باری : لاینال عھدی الظلمین کے اندر ہوا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری : ولا ترکنوا الی الذین ظلموا (اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہو جائو جنہوں نے ظلم کیا) میں ظالموں کی طرف میدان کی ممانعت کردی گئی ہے جب تک وہ اپنے ظلم پر قائم رہیں۔ اسی طرح قول باری ہے : ما علی المحسنین من سبیل (نیکو کاروں پر کوئی گرفت نہیں) گرفت نہ ہونے کی بات اس وقت تک ہے جب تک یہ اپنی نیکو کاری پر قائم رہیں۔ اس لئے قول باری : لا ینال عھدی الظلمین میں ان لوگوں سے عہد کی نفی نہیں کی گئی جو اپنے ظلم سے تائب ہوجائیں، کیونکہ ایسی صورت میں انہیں ظالم نہیں کہا جاسکتا جس طرح کفر سے توبہ کرنے والے اور فسق سے تائب ہوجانے والے کو کافر اور فاسق نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کافر یا فاسق یا ظالم تھا۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : میرا عہد اس شخص کو نہیں پہنچے گا جو کافر تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص سے اس عہد کی نفی کردی جو ظلم کے دھبے کا حامل ہو، ظلم کا اسم اس کے ساتھ چپکا ہوا ہو اور اس کی ذات میں موجود ہو۔
Top