Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 128
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاجْعَلْنَا : اور ہمیں بنادے مُسْلِمَيْنِ : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَ ۔ مِنْ : اور۔ سے ذُرِّيَّتِنَا : ہماری اولاد أُمَّةً : امت مُسْلِمَةً : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَاَرِنَا : اور ہمیں دکھا مَنَاسِکَنَا : حج کے طریقے وَتُبْ : اور توبہ قبول فرما عَلَيْنَا : ہماری اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيمُ : رحم کرنے والا
اے پروردگار ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بناتے رہیو اور (پروردگار) ہمیں ہمارے طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم) کیساتھ توجہ فرما بیشک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے۔
قول باری ہے : وارنا منا سکنا (ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا) کہ اجاتا ہے کہ لغت میں نسک کے اصل معنی غسل یعنی دھونے کے ہیں۔ اگر ایک شخص اپنے کپڑے دھو لے تو اس موقعہ پر کہا جائے گا کہ ” نسک ثوبہ “ اس سلسلے میں ایک شعر بھی پیش کیا گیا ہے۔ ولا ینبت الموعی سباح عراعر ولونسکت بالماء ستۃ اشھر (پہاڑوں کی شوز زدہ چوٹایں کوئی چراگاہ نہیں اگا سکتیں خواہ چھ برسوں تک پانی سے ان کی دھلائی کیوں نہ کی جاتی رہے) شرع میں نسک عیادت کا اسم ہے۔ کہا اجتا ہے ” رجل ناسک “ یعنی عابد شخص حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ حضور ﷺ یوم الاضحی کو گھر سے نکلے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : آج کے دن ہماری پہلی عبادت نماز ہوگی اور پھر جانور کی قربانی۔ آپ ﷺ نے نماز کو نسک کا نام دیا۔ ذبیحہ کو تقرب الٰہی کے طور پر نسک کا نام دیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے : فقہ یۃ من صیام او صدقۃ اونسک (تو روزے یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں فدیہ ادا کرو) مناسک حج بشمول قربانی ان تمام افعال کو کہا جاتا ہے جن کا حج مقتضی ہے۔ حضور ﷺ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : مجھ سے تم اپنے مناسک لے لو یعنی سکھ لو۔ قول باری : وارنا مناسکنا کا زیادہ ظاہر مفہوم یہی ہے کہ اس سے تمام اعمال حج مراد ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل کو حج کی خاطر بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ ابن ابی لیلیٰ نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : حضرت جبرئیل (علیہ السلام) حضتر ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہیں مکہ لے گئے پھر منیٰ لے گئے پھر حضرت ابن عمر نے حج کے وہ تمام افعال اسی ترتیب سے روایت میں بیان کردیئے جس ترتیب سے حضور ﷺ نے حجتہ الودا ع کے موقع پر بیان کئے تھے اس کے بعد حضرت عمر نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر وحی نازل فرمائی : ان اتبع ملۃ ابراھیم حنیف (یہ کہ تم ابراہیم کی پیروی کرو جو حنیف تھے) اسی طرح حضور ﷺ نے عرفات میں کچھ لوگوں کو جو آپ ﷺ کے پیچھے وقوف کر رہ ی تھے پیغام بھیجا کہ : تم لوگ اپنے مشاعر پر رہو، کیونکہ تم لوگ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے ترکہ پر ہو۔ یہاں مشاعر سے حج کے مناسک و افعال مراد ہیں۔
Top