Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ؟ تم کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے پر چلاتا ہے
قول باری ہے : سیقول السفھاء من الناس ماولھم عن قبلتھم التی کانوا علیھا ( نادان لوگ ضرور کہیں گے، انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس سے یکا یک پھرگئے) ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اہل اسلام کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ حضور ﷺ مکہ میں نیز ہجرت کے بعد ایک عرصے تک مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت براء بن عازب ؓ نے کہا ہے کہ حضور ﷺ کی مدینہ تشریف آور کے سترہ مہینے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔ قتادہ نے کہا ہے کہ سولہ ماہ بعد۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ یہ عرصہ نو ماہ یا دس ماہ کا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ زیر بحث آیات کے اندر اللہ تعالیٰ نے نقاً بیان فرما دیا کہ نماز غیرکعبہ کے رخ ادا کی جاتی تھی اور پھر اللہ سبحانہ نے اپنے قول : سیقول السفھا من الناس تا آخر آیت کے ذریعے نیز : وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ ( پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے) اور : قد نری تقلب وجھک فی السماء فلنولینک قلیلۃ ترضھا ( یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں، لو ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو ( کے ذریعے قبلہ کا رخ پھیر دیا۔ مذکورہ بالا تمام آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور ﷺ غیر کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف رخ پھیر دیا تھا۔ یہ بات ان لوگوں کے قول کو باطل کردیتی ہے جو کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی شریعت میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ بیت المقدس کی طرف حضور ﷺ کے رخ کرنے کے بارے میں اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا یہ فرض تھا اور اس کے سوا کوئی اور بات جائز نہیں تھی، یا آپ کو بیت المقدس کی طرف اور اس کے سوا کسی اور طرف رخ کرنے کا اختیار تھا۔ الربیع بن انس کے قول کے مطابق آپ ﷺ کو اس بارے میں اختیار دیا گیا تھا، جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا فرض تھا اور اس سلسلے میں کوئی تخییر نہیں تھی۔ مذکورہ بالا دونوں اقوال میں سے جو قول بھی قبول کیا جائے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا فرض تھا کیونکہ تخییرا سے فرضیت کے دائرے سے خارج نہیں کرتی جس طرح مثلاً کفائرہ یمین میں کئی باتوں کے درمیان تخییر ہے لیکن ان میں سے جس صورت کے تحت یہ کفارہ ادا کیا جائے گا وہ قرض قرار پائے گی۔ یا جس طرح اول یا درمیانی یا آخر وقت میں نماز کی ادائیگی۔ جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ انہوں نے فرمایا :” قرآن کی سب سے پہلی بات جو منسوخ ہوئی وہ قبلے کی بات تھی وہ اس طرح کہ جب حضور ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اللہ نے آپ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس پر یہودی بڑے خوش ہوئے۔ آپ ﷺ نے کچھ اوپر دس مہینے اس کی طرف رخ کیا لیکن آپ کو اپنے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ دل سے پسند تھا۔ آپ اس کے لیے اللہ سے دعائیں کرتے اور آسمان کی طرف رخ کرنا فرض تھا اور مذکورہ بالا آیت کے ذریعے یہ فرضیت منسوخ ہوگئی۔ اس میں ان حضرات کے قول پر کوئی دلالت نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ تخییر کے بغیر بیت المقدس کی طرف رخ کرنا فرض تھا۔ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا علی وجہ التخییر فرض ہو اور پھر نسخ کا ورود تخییر پر ہوا ہو اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو کعبے کی طرف رخ کرنے میں بلا تخییر محدود کردیا گیا ہو۔ روایت میں ہے کہ ہجرت سے پہلے کچھ لوگ مدینہ سے مکہ حضور ﷺ کے پاس آنے کے ارادے سے چل پڑے۔ یہ لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں میں حضرت البراء بن معرور بھی تھے۔ انہوں نے راستے میں اپنی نمازیں کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھیں جبکہ دوسرے رفقا نے یہ کہہ کر ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ حضور ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ جب یہ حضرات مکہ پہنچ گئے تو انہوں نے حضور ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت البراء سے فرمایا : تم ایک قبلے یعنی بیت المقدس پر تھے، اگر اس پر ثابت رہتے تو تمہارے لیے یہ بات کافی ہوتی آپ ﷺ نے انہیں پڑھئی ہوئی نمازیں لوٹانے کا حکم نہیں دیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اس معاملے میں انہیں تخییر حاصل تھی اور انہوں نے بیت المقدس کی طرح رخ کرنے کی بات اختیار کرلی تھی۔ اگر یہاں کہاجائے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں سب سے پہلی بات جو منسوخ ہوئی وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا، تو جواب میں کہاجائے گا کہ ممکن ہے کہ اس سے مراد قرآن کا وہ حصہ ہو جو منسوخ التلاوۃ قرار پایا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد : سیقول السفھاء من الناس کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ یہاں نادانوں کے ذکر سے یہود مراد ہیں، نیز یہ کہ انہوں نے ہی تحویل قبلہ کے حکم پر نکتہ چینی کی تھی۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت بیان کی گئی ہے۔ یہوڈ نے اس نکتہ چینی کے ذریعے نسخ کے انکار کا ارادہ کیا تھا کیونکہ ان میں سے ایک گروہ نسخ کا قائل نہیں تھا۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے حضور ﷺ سے کہا تھا کہ آپ اس قبلے سے کیوں پھرگئے جس کی طرف پہلے رخ کرتے تھے ؟ آپ ؐ پھر اس کی طرف پھر جائیے۔ ہم آپ ﷺ کی پیروی کریں گے اور آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں گے۔ انہوں نے یہ کہہ کر صرف آپ ﷺ کو آزمانا چاہا تھا۔ اس طرح قبلہ اول سے قبلہ ثانی کی طرف آپ ﷺ کی تحویل پر یہود کا اعتراض اور انکی نکتہ چینی مذکورہ بالا دو میں سے ایک معنی پر محمول ہوگی حسن بصری نے کہا ہے کہ جب حضور ﷺ کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ملا تو مشرکین عرب نے کہا : محمد ﷺ ! آپ ﷺ نے اپنے آبائو اجداد کے طریقے کو چھوڑ دیا تھا۔ اب آپ ﷺ پھر اسی طریقے کی طرف لوٹ آئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آپ ﷺ ان کے دین کی طرف بھی ضرور لوٹ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کو بھی بیان فرمایا جس کی خاطر اس نے مسلمانوں کو قبلہ اول سے قبلہ ثانی کی طرف پھیر دیا تھا، چناچہ ارشاد ہے : وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ ( پہلے تم جس طرف رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے ایک قول کے مطابق مسلمانوں کو مکہ کے اندر بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا اس لیے حکم دیا گیا تھا کہ وہ مشرکین سے ممتا ز ہوجائیں جو ان کے سامنے کعبہ کی طرف رخ کیا کرتے تھے ۔ پھر جب حضور ﷺ ہجرت کرکے مدینہ گئے تو مدینہ کے آس پاس آباد یہودی بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اس لیے مسلمانوں کو پھر سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ وہ یہودیوں سے اسی طرح ممتاز ہوجائیں جس طرح وہ مکہ میں مشرکین سے ممتاز تھے۔ اس طرح مسلمان دونوں قبلوں کے اختلاف کے ذریعے مشرکین اور یہودیوں سے ممتاز ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی طرف سے نسخ کے انکار پر یہ فرما کر حجت قائم کردی کہ : قل للہ المشرق والمغرب یھدی من یشاء الی صراط مستقیم (آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے) یہود پر حجت قائم کرنے کی صورت یہ ہے کہ جب مشرق اور مغرب اللہ کے لیے ہے تو ان دونوں کی طرح رخ کرنا یکساں ہے، انسانی عقل کے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ دین اور صرا ط مستقیم کی طرف ہدایت کی مصلحت کی خاطر جس جہت کو چاہتا ہے رخ کرنے کے حکم کے ساتھ مختص کردیتا ہے۔ اسے ایک جہت سے دیکھئے۔ یہود کا دعویٰ یہ تھا کہ ارض مقدس ( فلسطین جہاں بیت المقدس واقع ہے) کی طرف رخ کرنا اولی ہے کیونکہ یہ انبیاء (علیہم السلام) کی سرزمین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو شرف اور عظمت بخشی ہے اس لیے اس سرزمین سے رخ پھیرنا بلاوجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے اس دعوے کا ابطال یہ کہہ کر کردیا کہ مشرق سے مغرب تک تمام مقامات اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان میں سے جس مقام کو چاہتا ہے ہر زمانے کے اندر بندوں کی بھلائی اور مصلحت کے پیش نظر مخصوص کردیتا ہے۔ مقامات کے اندربالذات تفصیل کی کوئی بات نہیں ہوتی بلکہ ان مقامات کو فضیلت کے وصف کے ساتھ ان امور کی بنا پر موصوف کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان مقامات کی تعظیم واجب کی اور ان مقامات میں ادا کیے جانے والے اعمال کو فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت کے ذریعے ان حضرات سے استدلال کیا ہے جو قرآن کے ذریعے سنت کے نسخ کے قائل ہیں۔ اس لیے حضور ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے اس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ پھر یہ بات زیر بحث آیت کے ذریعے منسوخ کردی گئی جو حضرات مذکورہ بالا نسخ کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے کہ قول باری : فاینما تولوافثم وجہ اللہ۔ منسوخ ہوا ہے اس آیت کے مضمون میں کسی بھی جہت کی طرف رخ کرنے کی بات کی گئی ہے جسے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے کر منسوخ کردیا گیا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مذکورہ بالا قول باری منسوخ نہیں ہوابل کہ اس کے حکم پر تین صورتوں کے اندر عمل ہوتا ہے۔ اول اس صورت میں جب ایک شخص اپنی سمجھ بوجھ اور اجتہاد سے کام لے کر کعبہ کی جہت کے سوا کسی اور جہت کی طرف رخ کرکے نمازادا کرلے۔ دوم خوف زدہ انسان کی نماز کی صورت میں اور سوم سواری پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی صورت میں۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عامر بن ربیعہ ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ مذکورہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اپنے اجتہاد سے کام لے کر کعبہ کے سوا کسی اور رخ نماز ادا کرے اور پھر اس کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ اس نے کعبہ کے رخ نماز ادا نہیں کی ۔ حضرت ابن عمر ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ مذکورہ آیت کا نزول سواری پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کے متعلق ہوا ہے۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ جب ہمارے لیے نسخ کے ایجاب کا حکم عائد کیے بغیر آیت پر عمل کرنا ممکن ہے تو پھر اس کے نسخ کا حکم لگانا جائز نہیں ہوگا۔ ہم نے اس مسئلہ پر اصول فقہ کے اندر سیر حاصل بحث کی ہے۔ زیر بحث آیت کے اندر ایک اور حکم بھی ہے۔ حماد بن سلمہ نے ثابت سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے پھر یہ آیت نازل ہوئی : فول وجھک شطر المسجد الحرام (اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑلو) اس پر حضور ﷺ کی طرف سے منادی کرنے والے نے اعلان کردیا کہ :” مسلمانو تمہیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے چہرے مسجد حرام کی طرف موڑلو ! “ یہ اعلان سن کر بنو سلمہ نے اپنے چہرے بیت اللہ کی طرف رکوع کی حالت میں ہی موڑ لیے۔ عبدالعزیز بن مسلم نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت بیان کی کہ لوگ قبا ( مدینہ کے قریب ایک آبادی کا نام ) کے اندر صبح کی نماز میں مصروف تھے کہ ایک شخص ان کیپ اس پہنچا اور انہیں آگاہ کیا کہ حضور ﷺ پر قرآن نازل ہواہی اور آپ کو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے تم لوگ بھی استقبال کعبہ کرو۔ یہ سن کر تمام لوگ اسی حالت میں کعبہ کی طرف مڑ گئے جبکہ پہلے ان کا رخ شام کی طرف تھا۔ اسرائیل نے ابو اسحق نے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت بیا ن کی ہے کہ جب آیت : قد نری تقلب وجھک فی السماء کے نزول کے بعد حضور ﷺ کعبہ کے رخ مڑ گئے تو آپ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرنے والا ایک شخص انصار کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا۔ یہ حضرات بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کر رہے تھے، یہ دیکھ کر مذکورہ شخص نے کہا کہ حضور ﷺ نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی ہے۔ یہ سن کر انصار کا مذکورہ گروہ نماز کے اندر ہی رکوع میں جانے سے پہلے کعبہ کی طرف مڑ گیا۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ اہل علم کے ہاتھوں میں یہ ایک صحیح اور مستفیض روایت ہے اور لوگوں نے اس روایت کو قبول بھی کیا ہے، اس لیے یہ روایت متواتر حدیث کے مقام پر پہنچ گئی ہے اور حدیث متواتر علم کی موجب ہوتی ہے۔ یہی روایت اس شخص کے مسئلے میں اصول کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنے اجتہاد سے کام لے کر غیر کعبہ کے رخ نماز شروع کرے اور پھر نماز کے دوران میں اسے معلوم ہوجائے کہ اس کا رخ کعبے کی طرف نہیں ہے تو وہ کعبہ کی طرف پھر جائے گا اور نئے سرے سے نما ز شروع نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر لونڈی کو نماز کے اندر آزاد ہوجانے کی خبر مل جائے تو وہ دوپٹہ لے کر اپنی نماز جاری رکھے گی۔ یہ روایت دین کے معاملے میں خبرواحد کو قبول کرلینے کے سلسلے میں اصل اور بنیاد ہے۔ اس لیے کہ انصار نے ایک شخص کی دی ہوئی خبر کی بنیاد پر نماز کے اندر ہی اپنا رخ کعبہ کی طرف کرلیا تھا۔ نیز حضور ﷺ نے جس شخص کے ذریعے تحویل قبلہ کے حکم کی منادی کرائی تھی وہ بھی ایک تھا اور اس کی دی ہوئی خبر، خبر واحد کا درجہ رکھتی تھی۔ اگر صحابہ کرام کے لیے خبر واحد کو قبول کرنا لازم نہ ہوتا تو حضور ﷺ کی طرف سے منادی کرانے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ یہاں اگر کوئی کہے کہ آپ کا اصول تو یہ ہے کہ ایسا حکم جو علم کو واجب کردینے والے ذریعے سے حاصل ہوا ہو سے رفع کرنے میں خبرواحد کو قبول نہیں کیا جائے گا اور زیر بحث واقعہ آپ ﷺ کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ لوگ آپ کی طرف سے توقیف اور حکم کی بناء پر بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور پھر انہوں نے خبر واحد کی بنا پر اس حکم کو ترک کردیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ حکم اس لئے ترک کردیا کہ حضور ﷺ کے پاس سے دور رہ کر انہیں اس حکم کے باقی رہنے کا یقین نہیں تھا اور وہ اس حکم کے نسخ کو ممکن سمجھتے تھے۔ اگر یہاں کوئی شخص یہ کہے کہ جس طرح ا ن حضرات نے تحویل قبلہ کے بعد اپنی نمازیں جاری رکھیں اسی طرح آپ اس تیمم کرنے والے کو اپنی نماز جاری رکھنے کا کیوں حکم نہیں دیتے جسے نماز کے اندر پانی دستیاب ہوجائے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اس بنا پر فرق ہے کہ تیمم کرنے والے کے لئے نماز جاری رکھنے کو جائز قرار دینا اس پر وضو کو واجب نہیں کرتا اور پانی مل جانے کے باوجود تیمم کے ساتھ اس کے لئے نماز جاری رکھنا جائز ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف بنو سلمہ کے انصار کو جب تحویل قبلہ کی خبر پہنچی تو وہ فوراً کعبہ کی طرف پھرگئے اور اس جہت کی طرف اپنا رخ باقی نہیں رکھا جس کی طرف وہ اپنے چہرے کیے ہوئے تھے۔ اس لئے قبلہ کی نظریہ ہے کہ تیمم کرنے والے کو وضو کرنے اور نماز جاری رکھنے کا حکم دیاجائے۔ اس مسئلے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تیمم کرنے والے کو اگر وضو کرنا لازم ہوجائے تو اس کے لئے تیمم کے ساتھ نمازیں جاری رکھناجائز نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھے کہ تیمم کرنے والے کے لئے اصل فرض پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا ہوتا ہے اور مٹی اس کا بدل ہوتی ہے۔ اس لئے جب اسے پانی مل جائے تو وہ اپنے اصل فرض کی طرف لوٹ آتا ہے جس طرح موزوں پر مسح کرنے والا شخص مسح کا وقت ختم ہوجانے پر اپنی نماز مسح کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ یہی کیفیت تیمم کرنیوالے کی ہے۔ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے والوں کا افضل فرض اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا نہیں تھا جب وہ نماز میں داخل ہوئے تھے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا فرض تو انہیں نماز کی حالت میں لاحق ہوا تھا۔ اسی طرح لونڈی کو اگر نماز کی حالت میں آزادکردیاجائے تو اس سے پہلے اس پر ستر فرض نہیں تھا، یہ فرض تو اسے نماز کی حالت میں لاحق ہوا۔ اس لئے لونڈی کا مسئلہ حضرات انصار کے مسئلے کے مشابہ ہوگیا جب انہیں تحویل قبلہ کا حکم معلوم ہوا۔ اسی طرح اپنی سمجھ بوجھ سے کام لے کر ایک جہت کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنے والے کا فرض اس جہت کی طرف رخ کرنا تھا جس کی طرف اپنے اجتہاد کی بنا پر اس نے رخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے سو اس اس پر قول جاری فاینما تولو انتم وجہ اللہ کی بنا پر کوئی اور بات فرض نہیں تھی۔ وہ تو ایک فرض سے دوسرے فرض کی طرف منتقل ہوا تھا۔ بدل سے اصل فرض کی طرف منتقل نہیں ہوا تھا۔ زیر بحث آیت میں ایک حکم اور بھی ہے، وہ یہ کہ حضرات انصار کا مذکورہ بالا فعل اس بات کی بنیاد ہے کہ اوامر اور زواجر کے احکام ان کے بارے میں علم ہوجانے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس پر نماز فرض ہے اور پھر وہ دارالاسلام میں آ جائے، تو اس پر گزشتہ نمازوں کی فضا لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ فرضیت اسے سماع کے طریقے سے لازم ہوگی لیکن جب تک اس کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک اس کا حکم اس سے متعلق نہیں ہوگا جس طرح حضرات انصار کے ساتھ تحویل قبلہ کی خبر آنے سے پہلے اس کا حکم متعلق نہیں ہوا۔ یہ بات وکالہ اور مضاربہ اور اسی طرح کے دیگر عقود میں جن کا تعلق بندوں کے اوامر سے ہے اس مسئلے کی اصل اور بنیاد ہے کہ اگر اسی طرح کے دیگر عقود میں جن کا تعلق بندوں کے اوامر سے ہے اس مسئلے کی اصل اور بنیاد ہے کہ اگر ان عقود میں حق فسخ رکھنے والا شخص انہیں فسخ کردے تو جب تک دوسرے کو اس کا علم نہ ہو اس وقت تک ان عقود کی کوئی بات فسخ نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے کہا ہے کہ عقد و کا لہ کا علم ہونے سے پہلے وکیل کا تصرف جائز نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Top