Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 221
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّ١ؕ وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْ١ۚ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا١ؕ وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ١ؕ اُولٰٓئِكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۖۚ وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖ١ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوا : تم نکاح کرو الْمُشْرِكٰتِ : مشرک عورتوں سے حَتّٰى : یہاں تک کہ يُؤْمِنَّ ۭ : وہ ایمان لے آئیں وَلَاَمَةٌ : اور البتہ لونڈی مُّؤْمِنَةٌ : مومنہ۔ ایمان والی خَيْرٌ : بہتر ہے مِّنْ مُّشْرِكَةٍ : مشرکہ عورت سے وَّلَوْ : اور اگرچہ اَعْجَبَتْكُمْ ۚ : وہ اچھی لگے تم کو وَلَا : اور نہ تُنْكِحُوا : تم نکاح کر کے دو الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک مردوں کو حَتّٰى : یہاں تک کہ يُؤْمِنُوْا ۭ : وہ ایمان لے آئیں وَلَعَبْدٌ : اور البتہ غلام مُّؤْمِنٌ : مومن خَيْرٌ : بہتر ہے مِّنْ : سے مُّشْرِكٍ : مشرک مرد وَّلَوْ : اور اگرچہ اَعْجَبَكُمْ ۭ : وہ پسند آئے تم کو اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ يَدْعُوْنَ : بلاتے ہیں اِلَى النَّارِ ښ : آگ کی طرف وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلَى الْجَنَّةِ : جنت کی طرف وَالْمَغْفِرَةِ : اور بخشش کی طرف بِاِذْنِهٖ ۚ : ساتھ اپنے اذن کے وَيُبَيِّنُ : اور بیان کرتا ہے اٰيٰتِهٖ : آیات اپنی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : وہ نصیحت پکڑیں
اور (مومنو ! ) مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا کیونکہ مشرک (مرد) سے خواہ تم کو کیسا بھلا لگے مومن غلام بہتر ہے یہ (مشرک لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں
مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح قول باری ہے ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن، مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لے آئیں انکے ساتھ نکاح نہ کرو) ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے حدیث بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے ابوطلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن۔ پھر اہل کتاب کو اس سے مستثنیٰ کردیا۔ چناچہ فرمایا والمحصنات من الذین ادتوا الکتاب من قبلکم اذا تیتموھن اجودھن محصنین غیر مسافحین ولامتخذی اخدان۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال ہیں جو ان قوموں میں سے ہوں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے محصنات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکدامن ہوں بدکار نہ ہوں۔ یہ کہہ کر حضرت ابن عباس ؓ نے بتادیا کہ قول باری ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن ۔ قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ پر مرتب ہے اور کتابی عورتیں ان سے مستثنیٰ ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت کتابی اور غیر کتابی تمام عورتوں کو عام ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید، انہیں یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ بن نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی کہ آپ اہل کتاب کے طعام میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن صالح نے، انہیں لیث نے، انہیں نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی جب آپ سے یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں کو مسلمانوں پر حرام کردیا ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے کہ ” مجھے کسی ایسے شرک کا علم نہیں جو اس بات سے بڑھ کر ہو۔۔۔ یا یوں فرماتے، اس سے زیادہ عظیم ہو۔۔۔ کہ کوئی عورت یہ کہے کہ میرا رب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا اللہ کے بندوں میں سے کوئی بندہ ہے “۔ حضرت ابن عمر ؓ نے پہلی روایت میں کتابی عورت سے نکاح کو مکروہ کہا ہے لیکن تحریم کا ذکر نہیں کیا جبکہ دوسری روایت میں صرف آیت کی تلاوت کی لیکن قطعی طور پر کوئی بات نہیں کی اور یہ بتایا کہ عیسائیوں کا مذہب شرک ہے۔ ہمیں ابوعبید نے روایت کی ، انہیں علی بن سعد نے ابواللیح سے، انہوں نے میمون بن مہران سے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہا کہ ہم ایسی سرزمین میں رہتے ہیں جہاں ہمارے ساتھ اہل کتاب بھی بستے ہیں، ہم ان کے ساتھ شادی بیاہ بھی کرتے ہیں اور ان کا کھانا بھی کھالیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے کہا میرے سامنے آیت تحلیل اور آیت تحریم دونوں تلاوت کردیں میں نے پھر کہا کہ یہ آیتیں تو میں بھی پڑھتا ہوں لیکن ہم ان کی عورتوں سے نکاح کرتے اور ان کا کھانا کھاتے ہیں یہ سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے دوبارہ آیت تحلیل اور آیت تحریم کی تلاوت کردی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ کا اباحت یا ممانعت کے جواب سے پہلو تہی کر کے آیت کی تلاوت کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اس کے حکم کے متعلق توقف تھا یعنی اس حکم کے متعلق آپ کوئی قطعی رائے نہیں رکھتے تھے کراہت کی جو روایت آپ سے منقول ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے نزدیک یہ کراہت تحریم کی بنا پر نہیں تھی جس طرح کہ ایسی کتابی عورتوں سے نکاح کرنا جن کا تعلق اہل حرب سے ہو یعنی ایسے لوگوں سے ہو جو مسلمانوں سے پر سرپیکار ہوں۔ یہ کراہت بھی تحریم کی بنا پر نہیں ہوتی۔ کتابی عورتوں سے نکاح پر صحابہ کا تعامل۔۔۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت منقول ہے ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں سعید بن ابی مریم نے یحییٰ بن ایوب اور نافع بن یزید سے، انہوں نے عفرہ کے آزاد کردہ غلام عمر سے روایت کی۔ عمر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن علی بن السائب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت عثمان ؓ نے نائیلہ بنت الفرافصہ الکلبیہ سے نکاح کرلیا۔ نائلہ عیسائی تھیں، حضرت عثمان ؓ نے بیویوں کی موجودگی میں ان سے نکاح کیا تھا۔ اسی سند سے راوی نافع کے ذکر کے بغیر یہ مروی ہے کہ حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ نے شام کی رہنے والی ایک یہودی عورت سے نکاح کیا تھا۔ حضرت حذیفہ ؓ کے متعلق یہ روایت ہے کہ آپ نے ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا حضرت عمر ؓ کو جب پتہ چلا تو آپ نے حضرت حذیفہ ؓ کو لکھا کہ وہ اس عورت کو چھوڑ دیں۔ حضرت حذیفہ ؓ نے جواب میں لکھا کہ مجھے بتایا جائے کہ آیا یہ عورت میرے لئے حرام ہے ؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ ” حرام تو نہیں ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم لوگ اس طرح بدکار یہودی عورتوں سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کرلو “۔ تابعین کی ایک جماعت سے بھی کتابی عورتوں سے نکاح کی اباحت منقول ہے ، ان میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور شعبی شامل ہیں۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ کسی صحابی یا تابعی نے ان سے نکاح کی تحریم کا فتوی دیا ہو۔ حضرت ابن عمر ؓ سے جو روایت ہے وہ تحریم پر دلالت نہیں کرتی اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسے پسند نہیں کرتے تھے جس طرح کہ حضرت عمر ؓ سے کراہت کی روایت ہے کہ آپ نے حضرت حذیفہ ؓ کے نکاح کو پسند نہیں کیا تھا جو انہوں نے ایک کتابی عورت سے کیا تھا۔ دوسری طرف حضرت عثمان ؓ ، حضرت طلحہ ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ نے کتابی عورتوں سے نکاح کیا تھا اگر یہ نکاح صحابہ کرام کے ہاں حرام ہوتا تو اس پر سب نکیر کرتے اور اس کے مخالف ہوجاتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نکاح کے جواز پر سب کا اتفاق تھا۔ قول باری ولاتنکحوا المشرکات حتی یومن) کتابی عورتوں سے نکاح کی حرمت کو واجب نہیں کرتا۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ لفظ المشرکات کا ظاہر اطلاق کی صورت میں بت پرستوں کو شامل ہوتا ہے اور اس میں کتابی عورتیں داخل نہیں ہوتیں۔ اگر ان کے دخول کے لئے کوئی دلالت موجود ہو تو پھر وہ اس کے ذیل میں آتی ہیں۔ آپ یہ قول باری نہیں دیکھتے مایودالذین کفروامن اھل الکتب ولاالمشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو) نیزقول باری لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین، جو لوگ کافر تھے اہل کتاب میں سے وہ باز آنے والے نہ تھے) ۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور مشرکین کے درمیان لفظی طور پر فرق رکھا ہے۔ اس کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ معطوف معطوف علیہ کا غیر ہو الایہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو یہ ثابت کر دے کہ اسم سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الگ سے ان کا ذکر کیا اس میں ایک قسم کی تعظیم یا تاکید پائی جاتی ہے۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے من کان عدواللہ وملائکتہ ورسلہ و جبریل ومیگال، جو شخص اللہ اس کے فرشتوں اس کے پیغمبروں اور جبریل ومیکائیل کا دشمن ہو۔۔۔ آیت میں حضرت جبریل اور حضرت میکائیل کا الگ سے ذکر ہوا حالانکہ یہ دونوں لفظ ملائکتہ میں داخل ہیں اس کا مقصد ان دونوں کی عظمت شان بیان کرنا ہے۔ زیادہ ظاہر بات جو ہے وہ یہ ہے کہ معطوف، معطوف علیہ کا غیر ہوتا ہے الا یہ کہ ایسی دلیل موجود ہو جو یہ ثابت کر دے کہ معطوف معطوف علیہ کے جنس میں سے ہے۔ اب یہاں اہل کتاب پر مشرکین کو عطف کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب ایک دوسرے کے غیر ہیں۔ اور نکاح کی حرمت بت پرست مشرکین تک محدود ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ حکم سب کے لئے عام ہوتا یعنی اس میں اہل کتاب اور مشرکین دونوں شامل ہوتے تو اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ یہ عموم قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ کے حکم پر مرتب ہو۔ اور جہاں تک ان دونوں آیتوں پر عمل ممکن ہو تاہم ایک کو دوسری کی وجہ سے منسوخ قرار نہ دیتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ میں وہ کتابی عورتیں مراد ہیں جو اسلام لے آئی تھیں۔ ارشاد باری ہے وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وماانزل الیکم۔ اہل کتاب میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے) ۔ اسی طرح قول باری ہے من اھل الکتب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ اناء اللیل و ھم یسجدون۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو راہ راست پر قائم ہے۔ راتوں کو اللہ کی آیات تلاوت کرتے اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوجاتے) ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو خلاف مفروض ہے جو قائل اور استدلال کرنے والے کی غباوت ذہنی کا پتہ دیتی ہے۔ اس استدلال کے بطلان کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ اہل کتاب کے اسم کا جب بھی اطلاق کیا جاتا ہے وہ ان کے کافروں کو شامل ہوتا ہے جیسا کہ قول باری ہے من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوالجزیۃ عن ید۔ ان اہل کتاب سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں) ۔ اسی طرح قول باری ہے ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقظار یودہ الیک۔ اور اہل کتاب میں سے ایسا بھی ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی اسے دے دو تو وہ تمہیں ادا کرے دے گا) اسی طرح کی اور آیات جن میں اہل کتاب کا لفظہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ یہود و نصاریٰ دونوں کو شامل ہے۔ اس سے ایسے افراد سمجھ میں نہیں آتے جو پہلے اہل کتاب تھے اور پھر مسلمان ہوگئے۔ البتہ یہ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب یہ ایمان کے ذکر کے ساتھ مقیدہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان لوگوں کا ارادہ کیا جو اسلام لے آئے تھے تو اس ذکر کے ساتھ کہ یہ اہل کتاب ہیں ان کے اسلام کا بھی ذکر کیا۔ چناچہ قول باری ہے لیسواسوائً من اھل الکتاب امۃ قائمۃ یتلون ایات اللہ اناء اللیل ولعم یسجدون۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں مومنات کا ذکر ہے یہ ان مومنات کو بھی شامل ہے جو پہلے اہل کتاب تھیں اور پھر مسلمان ہوگئیں اور ان کو بھی جو پہلے ہی مومنات تھیں۔ اس لئے کہ قول باری ہے والمحصنات من المومنات والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ اب یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ والمحصنات من الذین اوتوالکتاب۔ سے مراد وہی مومنات ہوں جن کا ابتداء میں ذکر ہوچکا ہے۔ اس قول کے قائلین بعض دفعہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جو علی بن ابی طلحہ ؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کعب ؓ بن مالک نے ایک کتابی عورت سے نکاح کا ارادہ کیا۔ انہوں نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا انھالاتحصنک یہ تمہارے اندر صفت احصان یعنی پاک دامنی پیدا نہیں کرے گی) اس قول میں نہی کے ظاہر الفاظ یہ مفہوم ادا کرتے ہیں کہ ایسا کرنے میں خرابی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سند سے یہ حدیث مقطوع ہے اور اس جیسی حدیث کے ذریعے ظاہر قرآن پرا عتراض نہیں کیا جاسکتا جو اس کی منسوخیت پر دلالت کرتا ہے اور اس کی تخصیص نہیں کرتا۔ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو یہ کراہت پر محمول کیا جائے گا جس طرح کہ حضرت عمر ؓ سے منقول ہے کہ آپ نے حضرت حذیفہ ؓ کے ایک یہودی عورت سے نکاح کو ناپسند کیا تھا لیکن حرام نہیں سمجھا تھا۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد انھالاتحصنک دلالت کرتا ہے کیونکہ تحصین، یعنی محصن بنانے کی نفی نکاح کے فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتی جس طرح کہ نابالغ لڑکی یا لونڈی کے ساتھ نکاح سے انسان محصن نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان کے ساتھ نکاح جائز ہوتا ہے۔ ایسی کتابی عورت جو حربی بھی ہو اس کے ساتھ نکاح میں اختلاف ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت سنائی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عباد بن العوام نے سفیان بن حسین سے ، انہوں نے الحکم سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے آپ نے فرمایا کہ اہل کتاب جب ہم سے برسرپیکار ہوں تو ان کی عورتیں حلال نہیں ہیں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی قاتلوا الذین لایومنون باللہ۔ تا وھم صاغرون۔ الحکم کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے اس کا ذکر کیا تو انہیں یہ بات بہت اچھی لگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اس بات کو کراہت کی بنا پر ایسا سمجھا ہو۔ ہمارے اصحاب بھی اسے مکروہ سمجھتے ہیں لیکن تحریم میں قائل نہیں ہیں۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے حربی اہل کتاب کی عورتوں کو مکروہ سمجھا ہے قول باری والمحصنات من الذین اوتوالکتاب نے حربی اور غیر حربی یعنی ذمی کتابی عورتوں میں فرق نہیں کیا اور دلالت کے بغیر اس معموم میں تخصیص بھی نہیں ہوسکتی۔ رہ گیا قول باری قاتلوا الذین لایومنون باللہ تا آخر آیت۔ تو اس کا نکاح کے جواز یا فساد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر وجوب قتال نکاح کے فساد کے علت ہوتا تو پھر ضروری ہوتا کہ خوارج اور اسلامی حکومت کے باغیوں کی عورتوں سے بھی نکاح جائز نہ ہو کیونکہ قول باری ہے فقاتلوا التی تبغی و حتی تفی الی امر اللہ، پس اس گروہ سے جنگ کرو جو بغاوت کرے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے) ۔ ہمارے اس بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ وجوب قتال کا نکاح کو فاسد کردینے میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہمارے اصحاب نے اسے اس قول باری کی بنا پر مکروہ سمجھا ہے۔ لاتجدقوماً یومنون باللہ والیوم الاخر یعادون من حاد اللہ ورسولہ ولوکانوا اباء ھم او ابناء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم تم ایسی کوئی قوم نہیں پائو گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی ہو اور پھر وہ ان لوگوں سے دوستی کرے جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں خواہ وہ ان کے آبائو یا اولاد یا بھائی کیوں نہ ہوں) اور نکاح سے مودت و محبت پیدا ہوتی ہے۔ قول باری ہے وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ۔ اللہ نے تمہارے درمیان اسے یعنی نکاح کو محبت اور رحمت کا سبب بنادیا) جب اللہ نے یہ بتادیا کہ نکاح مودت اور محبت کا سبب ہے اور اس نے اہل حرب سے دوستی کا نٹھنے سے منع فرمایا تو ہمارے اصحاب نے اہل حرب کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھا ۔ قول باری یوادون من حاد اللہ ورسولہ۔ اہل حرب کے متعلق ہے اہل ذمہ سے اس کا تعلق نہیں ہے،۔ اس لئے کہ لفظ حاد اس معنی کے لئے مشتق ہے کہ وہ ایک حد یعنی کنارے پر ہیں۔ اور ہم ایک حد یعنی کنارے پر “۔ جس طرح کہ لفظ المشاقۃ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک شق یعنی کنارے پر اور ہم ایک شق پر “۔ یہ اہل حرب کی خصوصیت ہوتی ہے اہل ذمہ کی نہیں ہوتی۔ اسی بنا پر اہل حرب کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اس کا بچہ دارالحرب میں پرورش پائے گا اور اس میں حربیوں والے اخلاق و صفات پیدا ہوں گے اس سے ہمیں روکا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا قول ہے انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔ میں ہر اس مسلمان سے برات کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا بستا ہو۔ ) اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اس سے انکار تو نہیں کیا کہ قول باری لاتجدقوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ۔ اس قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم۔ کی تخصیص کرتا اور اس کے حکم کو ذمی عورتوں تک محدود رکھتا ہے حربی عورتیں اس میں داخل نہیں ہوتیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کا اقتضاء صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں کے ساتھ محبت و مودت کا رشتہ قائم نہ ہو۔ آیت میں اس سے روکا گیا ہے جہاں تک نکاح وغیرہ کا تعلق ہے آیت اس پر مشتمل نہیں ہے۔ اگرچہ یہ نکاح باہمی محبت و مودت کا ذریعہ بن جاتا ہے نفس نکاح اس کا سبب نہیں ہوتا اگرچہ اس کے نتیجیمیں یہ چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے فقہائے نے ایسی عورتوں کے مقابلے میں دوسری عورتوں سے نکاح کو پسند کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کی تحریم کے معاً بعد قول باری ہے اولئک یدعون الی النار۔ یہ لوگ آگ یعنی جہنم کی طرف بلاتے ہیں) اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کی یہی خاصیت ان کے ساتھ نکاح کی حرمت کی علت ہے۔ اب یہی علت کتابی عورتوں میں پائی جاتی ہے خواہ وہ ذمی عورتیں ہوں یا حربی۔ اس بنا پر ان سے بھی اس علت کی وجہ سے اسی طرح نکاح حرام ہونا چاہیے جس طرح مشرک عورتوں سے حرام ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تحریم نکاح کے لئے یہ علت موجب نہیں ہے کیونکہ اگر بات ایسی ہوتی تو مشرک عورتوں سے کسی بھی صورت میں نکاح کی اباحت نہیں ہوتی حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ابتدائے ا سلام میں اس کی اباحت تھی حتی کہ اس کی حرمت نازل ہوگئی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ بات ایسی نہیں ہے کہ جو تحریم نکاح کے لئے علت موجبہ ہو جبکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویاں کافر تھیں اور اللہ کے دو نبیوں کے نکاح می تھیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے ضرب اللہ مثلاً للذین کفو وا امراۃ نوح مراۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا صالحین فخانت ھما فلم یغنیا عنھما من اللہ شیئاً و قیل ادخلا النار مع الداخلین، اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے یہ دونوں عورتیں ہمارے دو نیک بندوں کے عقد میں تھیں، پھر ان دونوں عورتوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور ان کے شوہر اللہ کے مقابلے میں ان عورتوں کے کچھ کام نہ آئے ان عورتوں سے کہا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جائو) ۔ اللہ تعالیٰ نے کفر کے وجود کے ساتھ ان کے نکاح کی صحت کی خبر دی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کفر تحریم نکاح کے لئے علت موجبہ نہیں ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح کے سیاق میں ضرور فرمایا ہے کہ اولئک یدعون الی النار۔ اس بات کو اللہ نے بطلان نکاح کی ایک نشانی قرار دیا اور ایسی باتیں جو علل شرعیہ جیسی خصوصیت رکھتی ہوں ان کے ذریعے اسم سے متعلق ہونے والے حکم کی تاکید نہیں ہوتی۔ اور اسم کی تخصیص کی طرح اس حکم کی بھی تخصیص جائز ہوتی ہے۔ جب قول باری والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب۔ میں اس تحریم کی تخصیص جائز ہے جس کا تعلق اسم یعنی اہل کتاب سے ہے تو اس حکم کی تخصیص بھی جائز ہے جو اس مفہوم پر عائد ہو رہا ہے جس میں علل شرعیہ کا رنگ اور ان جیسی خصوصیت پائی جا رہی ہے۔ اس کی نظیر یہ قول ہے انما یریدالشیطان ان یوفع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمروالمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور قمار کے ذریعے تمہارے درمیان بعض و عداوت پیدا کر دے اور تمہیں اللہ کی یاد سے روک دے) ۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی بنا پر پیدا ہونے والے ممنوعات کا ذکر کر کے انہیں علت کا رنگ دے دیا حالانکہ ان ممنوعات کو ان کے معلولات میں جاری کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بیع و شراء اور شادی بیاہ کے تمام معاملات اور لین دین کی تمام صورتیں حرام ہوجاتیں اس لئے کہ شیطان ان تمام باتوں کے ذریعے ہمارے درمیان بغض و عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور ہمیں اللہ کی یاد سے روکتا ہے۔ اب جبکہ مذکورہ تمام باتوں میں اس مفہوم (شیطان کا بغض و عداوت پیدا کرنے کا ارادہ اور یا دالٰہی سے باز رکھنے کی کوشش) کا اعتبار کرنا واجب نہیں ہوا باوجودیکہ یہ مفہوم ان تمام امور میں پایا جاتا ہے بلکہ اس کا حکم صرف دو باتوں یعنی خمر اور میسر تک محدود رہا دوسرے امور تک متعدی نہیں ہوا تو اسی طرح ان تمام علل شرعیہ کا حکم ہے خواہ وہ منصوص ہوں یا ان کا اقتضاء ہو یا بطریق استدلال انہیں ثابت کیا گیا ہو ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر علل شرعیہ کی تخصیص کے سلسلے میں استدلال کیا گیا ہے۔ ہمارے اس بیان سے یہ بات واجب ہوگئی کہ تحریم نکاح کا حکم صرف مشرک عورتوں تک محدود رہے اور ان کے سوا دوسری عورتیں مثلاً ذمی یا حربی اس میں داخل نہ ہوں اور قول باری اولئک یدعون الی النار۔ مشرک عورتوں سے نکاح کے امتناعی حکم کی تاکید بن جائے اور دوسری عورتوں تک یہ حکم متعدی نہ ہو۔ اس لئے کہ شرک اور جہنم کی آگ کی طرف بلاوایہ دونوں باتیں تحریم نکاح کی علامتیں ہیں اور یہ کتابی عورتوں میں موجود نہیں ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حکم مشرکین عرب کے متعلق ہے جو حضور ﷺ اور اہل ایمان کے خلاف برسرپیکار تھے۔ مسلمانوں کو ان کی عورتوں سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا تاکہ یہ عورتیں اپنے اہل خاندان کے مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کی مودت و الفت کا وسیلہ نہ بن جائیں اور اس طرح ان کے خلاف جنگ کرنے میں مسلمانوں کے اندر کوتاہی نہ پیدا ہوجائے۔ اس حکم کا تعلق اہل ذمہ کے ساتھ نہیں ہے جو مسلمانوں سے دوستی رکھتے تھے اور جن کے خلاف ہمیں جنگ نہ کرنے کا حکم ملا تھا۔ الایہ کہ دشمنی کی یہی کیفیت ان ذمیوں میں بھی پیدا ہوجائے تو اس صورت میں برسرپیکار ذمی عورتوں سے نکاح کی حرمت ہوجائے گی اور ہمارے لئے اس علت کے معلول کے حکم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوجائیگا۔ قول باری ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ اور ایک مومن لونڈی ایک مشرک عورت سے بہتر ہے) اس پر دلالت کر رہا ہے کہ آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینا جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آزاد مشرک عورت سے نکاح کی بجائے جو انہیں اچھی بھی لگے اور اس سے نکاح کرنے کی ان میں استطاعت بھی ہو مومن لونڈی سے نکاح کرلیں۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہوگا اسے آزاد مسلمان عورت سے نکاح کرنے کی بھی استطاعت ہوگی۔ اس لئے کہ رواج کے مطابق ان دونوں کے مہر کی رقموں میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ جب یہ صورتحال ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ قول باری بھی ہے کہ ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولواعجبتکم) پھر آزاد مشرک عورت سے نکاح کرنے کی بجائے مومن لونڈی سے نکاح کرنے کی ترغیب اسی وقت درست ہوگی جبکہ وہ آزاد مسلمان خاتون سے نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہوگا تو ان تمام باتوں کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زیر بحث آیت آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کے جواز کو متضمن ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت عام ہے اس میں استطاعت رکھنے والا مال دار اور عدم استطاعت کا حامل فقیر دونوں شامل ہیں پھر اس حکم کے فورا بعد یہ قول باری ہے ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ اس میں ان لوگوں کے لئے لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اباحت ہے جنہیں مشرک عورت کے نکاح گئی تھی اس بنا پر یہ حکم اباحت غنی اور فقیر دونوں کے لئے عام ہوگا۔
Top