Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 222
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ١ؕ قُلْ هُوَ اَذًى١ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ١ۙ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ١ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے
عَنِ
: سے (بارہ)
الْمَحِيْضِ
: حالتِ حیض
قُلْ
: آپ کہ دیں
ھُوَ
: وہ
اَذًى
: گندگی
فَاعْتَزِلُوا
: پس تم الگ رہو
النِّسَآءَ
: عورتیں
فِي
: میں
الْمَحِيْضِ
: حالت حیض
وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ
: اور نہ قریب جؤ ان کے
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يَطْهُرْنَ
: وہ پاک ہوجائیں
فَاِذَا
: پس جب
تَطَهَّرْنَ
: وہ پاک ہوجائیں
فَاْتُوْھُنَّ
: تو آؤ ان کے پاس
مِنْ حَيْثُ
: جہاں سے
اَمَرَكُمُ
: حکم دیا تمہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
التَّوَّابِيْنَ
: توبہ کرنے والے
وَيُحِبُّ
: اور دوست رکھتا ہے
الْمُتَطَهِّرِيْنَ
: پاک رہنے والے
اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو وہ تو نجاست ہے سو ایام حیض میں عورتوں سے کنا رہ کش رہو اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ہاں جب پاک ہوجائیں تو جس طریق سے خدا نے تمہیں ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ کچھ شک نہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
حیض کا بیان قول باری ہے ویسئلونک عن المحیض قل ھواذی فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا حکم ہے کہہ دیجئے کہ وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو) لفظ محیض حیض کے لئے اسم ہے اور یہ بھی درست ہے کہ یہ موضع حیض کے لئے اسم ہو۔ مثلا مقیل (قیلولہ کرنے کی جگہ) یا مبیت (رات گزارنے کی جگہ) وغیرہ۔ لیکن لفظ محیض سے جس مضمون کی طرف اشارہ ہو رہا ہے اس کی دلالت یہ ہے کہ یہاں اس سے حیض مراد ہے اس لئے کہ سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ ” یہ گندگی کی حالت ہے “ یہ بات حیض کی صفت موضع حیض کی نہیں ہوسکتی لوگوں نے دراصل اس کے حکم کے متعلق سوال کیا تھا اور یہ پوچھا تھا کہ اس حالت میں ان کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ مدینہ میں یہود ان کے پڑوسی تھے جو حیض کی حالت میں عورتوں کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا بھی ترک کردیتے تھے اس لئے مسلمانوں نے یہ جاننا چاہا کہ اسلام میں اس کا کیا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ھواذیً یعنی حیض نجاست اور گندگی ہے حیض کی اس کیفیت کے بیان سے یہ لازم آگیا کہ لوگ اس سے اجتناب کریں اس لئے کہ انہیں نجاستوں سے اجتناب کا پہلے ہی سے علم تھا۔ اس بنا پر حیض پر نجاست اور گندگی کا اطلاق کر کے انہیں سمجھا دیا کہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ نجاستوں پر لفظ اذی کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ قول ہے ۔ اذا اصاب نعل احدکم اذی فلیمسحھا ب الارض ولیصل فیہ فانہ لہ طھور، جب تم میں سے کسی کے جوتے کو نجاست لگ جائے تو اسے زمین پر گڑ کر صاف کرلے اور اس کے ساتھ نماز پڑھ لے کیونکہ زمین اس کی طہارت کا ذریعہ ہے) حضور ﷺ نے نجاست کو اذی کا نام دیا۔ نیز جب یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ھواذی فرما کر یہ خبر نہیں دی کہ حیض کی وجہ سے لوگوں کو اذیت ہوتی ہے کیونکہ اس اطلاع کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ لوگوں کو فطری طور پر یہ بات م معلوم تھی۔ اس بنا پر ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ ھواذی فرما کر دراصل اس کی نجاست اور اس سے اجتناب کی اطلاع دی جا رہی ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس پر لفظ اذی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ نجاست ہو مثلاً یہ قول باری ہے ولاجناح علیکم ان کان بکم اذیً من مطر، تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اگر تمہیں بارش کی وجہ سے وقت ہو…) بارش نجس نہیں ہوتی۔ اسی طرح قول باری ہے ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم و من الذین اشرکوا اذی کثیراً ۔ اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے) اس لئے زیر بحث آیت میں جس اذی کا ذکر ہوا ہے اس سے مراد نجاست ہے اور ایسی گندگی جس سے اجتناب لازم ہے یہ تشریح اس لئے کی گئی کہ سوال کرنے والوں کے سوال کا یہی مقتضیٰ تھا اور خطاب کے الفاظ کی بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ حیض کی حالت میں مافوق الازار استمتاع جائز ہے لیکن اختلاف اس میں ہے کہ کن باتوں سے اجتناب ضروری ہے۔ پہلی بات کی اجازت حضور ﷺ کے طرز عمل سے حاصل ہوئی جس کی روایت حضرت عائشہ ؓ اور حضرت میمونہ ؓ نے ان الفاظ میں کی کہ آپ ازواج مطہرات سے حیض کے دوران مافوق الازارہم کنار ہوتے تھے۔ فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ فرج سے اجتناب ضروری ہے لیکن ماتحت الازاراستمتاع میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ فرج کے ماسوا اس کے لئے عمل جنسی کرنا جائز ہے ۔ (اس میں دبر داخل نہیں ہے اس لئے کہ ایتان و بریہرصورت حرام ہے) یہی سفیان ثوری اور محمد بن الحسن کا قول ہے۔ ان دونوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خون نکلنے کی جگہ سے اس عمل کے دوران پرہیز کرے گا۔ اسی قسم کی روایت حسن بصری، شعبی، سعید بن المسیب اور ضحاک سے بھی ہے۔ حضرت عمر ؓ بن الخطاب اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اسے صرف مافوق الازار کی اجازت ہے، یہی امام ابوحنیفہ، ابو یوسف، اوزاعی، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن، حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ اس سے پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب بھی نہ جائو) میں ماتحت الازار کی ممانعت پر دلالت دو وجہ سے ہو رہی ہے۔ اول قول باری فاتعزالوالنساء فی المحیض ) ہے جس کا ظاہر مافوق الازار اور ماتحت الازار دونوں سے اجتناب کے لزوم کا متقاضی ہے لیکن جب مافوق الازار سے استمتاع پر سب کا اتفاق ہوگیا تو اس دلالت کی بنا پر ہم نے اسے تسلیم کرلیا لیکن ممانعت کا حکم ماتحت الازار میں بحالہ باقی ہے کیونکہ اس کی اباحت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ دوسری وجہ قول باری ولاتقربوھن ہے مافوق الازار اور ماتحت الازار کے امتناع پر اس فقرے کی دلالت کی بھی وہی کیفیت ہے جو پہلے فقرے کی دلالت کی ہے۔ اس لئے اختلاف رائے کی وجہ سے اس سے صرف اسی چیز کی تخصیص کی جائے گی جس پر دلالت قائم ہوجائے۔ اس پر سنت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ یہ یزیدبن ابی انیسہ کی حدیث ہے جس کی روایت انہوں نے ابواسحاق سے کی اور انہوں نے حضرت عمر ؓ کے آزاد کردہ غلام عمیر سے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے حضرت عمر ؓ سے استفسار کیا تھا کہ حالت حیض میں شوہر کے لئے اپنی بیوی سے کون کون سی باتیں حلال ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ یہی سوال میں نے حضور ﷺ سے کیا تھا تو آپ نے جواب دیا تھا کہ لک منھا مافوق الازار ولیس لک عھا تحتۃ تمہیں مافوق الازار کی اجازت ہے ماتحت الازار کی نہیں) ۔ اس پر شیبانی کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عبدالرحمن بن الاسود سے روایت کی ہے انہوں نے اپنے والد اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے وہ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی حالت حیض میں ہوتی تو آپ ﷺ اسے حیض شروع ہوتے ہی ازار بند باندھنے کے لئے کہتے پھر اس سے اگر چاہتے تو ہم کنار ہوتے لیکن تم میں کون ایسا ہے جو اپنے جذبات پر اس طرح قابو رکھ سکے جس طرح حضور ﷺ رکھا کرتے تھے شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے حضرت میمونہ ؓ سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے۔ جو لوگ مادون الازار کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے حماد بن سلمہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے حماد نے اس کی ثابت سے روایت کی ہے اور ثابت نے حضرت انس سے کہ یہودیوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حیض والی عورت کو گھر سے نکال دیتے تھے اور اس ک ساتھ کھانا پینا ترک کردیتے تھے حتی کہ ایک گھر میں نہیں رہتے تھے۔ حضور ؓ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ویسئلونک عن المحیض۔ تاآخر آیت۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک گھر میں ان کے ساتھ رہو اور جماع کے سوا جو چاہو کرو۔ اسی طرح ان حضرات نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ حضور ؓ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ مجھے کھجور کی چھوٹی چٹائی پکڑا دو ۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ میں تو حائضہ ہوں، اس پر آپ نے فرمایا کہ ” تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے “۔ ان حضرات نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس حدیث کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ ہر وہ عضو جو حیض میں ملوث نہیں ہے حیض کی حالت میں اس کی طہارت اور جو ازاستمتاع کا وہی حکم ہے جو حیض آنے سے پہلے تھا۔ جو لوگ ماتحت الازار کی ممانعت کے قائل ہیں ان کی طرف سے یہ جواب دیا گیا ہے کہ حضرت انس کی روایت میں صرف نزول آیت کے سبب کا ذکر ہے اور یہودیوں کے طرز عمل کی اطلاع ہے حضور ؓ ﷺ نے یہودیوں کی مخالفت کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم حیض والی عورتوں کو گھروں سے نکال دیں اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ترک کردیں۔ حضور ؓ ﷺ کا یہ قول کہ اصنعواکل شی الاالنکاح ۔ یہ جائز ہے کہ اس سے مراد مادون الفرج عمل جنسی ہو۔ اس لئے کہ یہ بھی نکاح یعنی جماع کی ایک صورت ہے۔ حضرت عمر ؓ کی ایک روایت جس کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کیا ہے وہ زیر بحث روایت سے متاخر اور اس کے لئے فیصلہ کن ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زیر بحث روایت جو حضرت انس ؓ کی ہے اس میں نزول آیت کے سبب کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے یہ دریافت کیا تھا کہ حائضہ عورت سے کسی قسم کا تعلق حلال ہے اور یہ سوال لامحالہ حضرت انس ؓ کی روایت کے بعد کی بات ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ حضرت عمر ؓ نے یہ سوال لازمی طور پر یہ جاننے کے بعد کیا ہوگا کہ حائضہ عورت سے ہمبستری حرام ہے۔ دوم یہ کہ اگر یہ سوال نزول آیت کی حالت میں فوراً بعد ہوتا تو اس میں اسی بات کے ذکر پر اکتفا کرلیا جاتا جو حضرت انس ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ اصنعواکل شئی الالنکاح۔ اس سے یہ چیز واضح ہوگئی کہ حضرت عمر ؓ کا سوال اس کے بعد ہوا تھا۔ ایک اور پہلو سے غور کریں کہ اگر حضرت عمر ؓ اور حضرت انس ؓ کی روایتوں میں تعارض پیدا ہوگیا ہے تو اس صورت میں حضرت عمر ؓ کی روایت پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا اس لئے کہ اس میں مادون الفرج عمل جنسی کی ممانعت ہے جبکہ حضرت انس ؓ کی روایت بظاہر اباحت کی متقاضی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جب اباحت اور ممانعت کا اجتماع ہوجائے تو ممانعت اولیٰ ہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے غور کریں وہ یہ کہ حضرت عمر ؓ کی روایت کی تائید ظاہر آیت فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھون) سے ہوتی ہے جبکہ حضرت انس ؓ کی روایت اس کی تخصیص کرتی ہے اس لئے ایسی روایت جو قرآن کے موافق ہو اس روایت سے اولیٰ ہوتی ہے جو قرآن کی تخصیص کرے۔ نیز حضرت انس ؓ کی روایت عام اور مجمل ہے اس میں کسی معین جگہ کی اباحت کا ذکر نہیں ہے جبکہ حضرت عمر ؓ کی روایت مفصل ہے جس میں مافوق الازار اور ماتحت الازار دونوں جگہوں کے حکم کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔ حیض کا مفہوم اور اس کی مقدار کا بیان ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حیض خون کی اس مقدار کا نام ہے جس کے ساتھ بہت سے احکام کا تعلق ہوتا ہے مثلاً نماز اور روزے کی تحریم ہمبستری کی ممانعت، عدت کا اختتام، مسجد میں داخل ہونے ، قرآن مجید کو ہاتھ لگانے اور تلاوت قرآن سے پرہیز وغیرہ۔ اس کی آمد سے عورت بالغ ہوجاتی ہے جب خون کے وجود کے ساتھ ان احکام کا تعلق ہوگا تو اس کی مقدار کو حیض کا نام دیا جائے گا اور اگر ان احکام کا تعلق نہیں ہوگا تو اسے حیض نہیں کہا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ عورت حیض کے ایام میں اور ایام کے بعد ایک ہی کیفیت کا خون دیکھتی ہے لیکن ایام کے دوران ان کا خون حیض کہلاتا ہے۔ اس لئے کہ خون کے وجود کے ساتھ ان احکام کا تعلق ہوجاتا ہے اور ایام کے بعد کا خون حیض نہیں کہلاتا کیونکہ اس کے وجود کے ساتھ ان احکام کا تعلق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا۔ اگر وہ دوران حمل خون دیکھ بھی لے لیکن چونکہ اس خون کے ساتھ ہمارے ذکرکردہ احکام کا تعلق نہیں ہوتا اس لئے وہ حیض نہیں کہلاتا۔ اسی طرح استحاضہ والی عورت ایک عرصے تک خون بہتے ہوئے دیکھتی ہے لیکن یہ حیض نہیں ہوتا جبکہ استحاضہ کا خون اس کیفیت کا ہوتا ہے جسے وہ ایام کے دوران دیکھتی ہے اس لئے حیض اس خون کا نام ہوا جس کے ساتھ شرعی لحاظ سے ان احکام کا تعلق ہوتا ہے بشرطیکہ اس کی کوئی نہ کوئی مقدار ہو۔ حیض اور نفاس اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی وجہ سے روزہ اور نماز حرام ہوجاتے ہیں ہمبستری کی ممانعت ہوجاتی ہے اور ان باتوں سے پرہیز کیا جاتا ہے جن سے ایک حائضہ عورت پرہیز کرتی ہے لیکن ان دونوں میں دو وجہ سے فرق ہوتا ہے۔ اول یہ کہ حیض کی مدت کی مقدار نفاس کی مدت کی مقدار سے مختلف ہوتی ہے دوم یہ کہ نفاس کا عدت کے گزرنے اور عورت کے بالغ ہونے کے سلسلے میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ابوالحسن حیض کی یہ تعریف کرتے تھے کہ یہ رحم سے نکلنے والا وہ خون ہوتا ہے جس کے شروع ہوجانے پر عورت بالغ ہوجاتی ہے اور عورتیں وقتاً فوقتاً جس کی عادی ہوجاتی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس تعریف سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے شروع ہوجانے پر عورت اس وقت بالغ ہوتی ہے جب اس سے پہلے وہ اپنی عمر یا احتلام یا ہمبستری پر انزال کی وجہ سے بالغ نہ ہوچکی ہو۔ اگر ان صورتوں کے ذریعے وہ پہلے بالغ ہوچکی ہو پھر وہ خون دیکھے تو وہ حیض کا خون ہوگا جبکہ وہ اسے مدت حیض کی مقدار دیکھتی رہے اگرچہ وہ اس کی ابتداء کے ساتھ بالغ قرار نہ بھی پائے۔ مدت حیض کی مقدار کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کم سے کم مدت حیض تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ یہی سفیان ثوری کا قول ہے کہ یہی بات ہمارے تمام اصحاب سے مشہور ہے۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا وقل ہے اگر دو دن اور تیسرے دن کا اکثر حصہ خون آتا رہے تو یہ حیض ہوگا۔ امام محمد کا مشہور قول اما م ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ حیض کی قلیل اور کثیر مدت کے لئے کوئی وقت نہیں ہے۔ عبدالرحمن بن مہدی نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ آپ کے خیال میں حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے۔ ہمیں عبداللہ بن جعفر فارس نے انہیں ہارون بن سلیمان الجزار نے اور انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے امام مالک کی درج بالا روایت بیان کی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے۔ عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن سلمہ سے ، انہوں نے علی بن ثابت سے، انہوں نے محمد بن زید سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی کہ حیض تیرہ دنوں تک آتا ہے اور اگر اس سے بڑھ جائے تو وہ استحاضہ ہوگا۔ عطاء کا قول ہے کہ اگر پندرہ دنوں سے بڑھ جائے تو وہ استحاضہ ہوگا۔ امام ابوحنیفہ پہلے عطاء بن ابی رباح کے قول کے مطابق حیض کی کم سے کم مدت ایک دن ایک رات اور زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن کے قائل تھے پھر آپ نے اس سے رجوع کرلیا اور وہی قول اختیار کرلیا جو پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ جو لوگ حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن کے قائل ہیں ان کا استدلال قاسم کی حدیث سے ہے جو انہوں نے حضرت ابوامامہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے اقل الحیض ثلاثۃ ایام واکثرہ عشرۃ حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے) ۔ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو کسی کو اس سے ہٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس حدیث کی تائید حضرت عثمان بن ابی العاص الثقفی اور حضرت انس ؓ بن مالک کے قول سے بھی ہوتی ہے۔ ان دونوں نے یہ فرمایا کہ حیض تین دنوں چار دنوں سے لے کر دس دنوں تک ہوتا ہے اس سے جو زائد ہو وہ استحاضہ ہوتا ہے ان کے اس قول کی ہمارے بیان کردہ مسلک پر دو طریقے سے دلالت ہو رہی ہے۔ اول یہ کہ جب ایک قول صحابہ کرام کی ایک جماعت سے منقول ہو اور کثرت سے اس کی نقل کی جائے اور اس قول کی مخالفت میں بھی کوئی قول موجود نہ ہو تو یہ اجماع ہوتا ہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے حجت کا کام دیتا ہے۔ ان دونوں حضرات سے جو قول منقول ہے اور جو ہمارے مسلک کی تائید میں ہے اس سے ان کے ہم چشموں کا کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوا۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس قول کا حجت ہونا ثابت ہوگیا۔ دوم یہ کہ اس قسم کی مقداریں جو حقوق اللہ ہیں اور ان کا درجہ محض عبادات کا ہے۔ ان کے اثبات کا صرف یہ طریقہ ہے کہ یا تو شریعت کی طرف سے اس سلسلے میں رہنمائی کی جائے یا امت کا اس پر اتفاق ہوجائے مثلا فرض نمازوں کی رکعتوں اور رمضان کے روزوں کی تعداد یا حدود کی مقداریں یا فرضیت زکواۃ کے لئے اونٹوں کی تعداد وغیرہ حیض اور طہر کی مدت کی مقدار بھی اسی طرح کی ہے۔ اسی طرح مہر کی مقدار ہے جو نکاح میں شرط ہے نیز نماز میں تشہد کی مقدار قعدہ اخیرہ کرنا بھی یہی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ان مقادیر کی تحدید اور ان کے اثبات کے متعلق کسی صحابی سے کوئی روایت ہو تو ہمارے نزدیک توقف ہوگی یعنی ہم اسے شریعت کی رہنمائی سمجھیں گے کیونکہ ان چیزوں کو قیاس کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حیض کی مقدار کا اعتبار عورتوں کی عادات کے ذریعے کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اس لئے اس معاملے میں عورتوں کی عادات سے رجوع کرنا واجب ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے جو آپ نے حمنہ ؓ بنت حجش سے فرمایا تھا تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء فی کل شھہر۔ جس طرح عورتیں ہر ماہ حیض کے ایام گزارتی ہیں تم بھی چھ یا سات دن گزار لو۔ اس کا علم اللہ کو ہے) ۔ آپ نے حیض کی مدت کا معاملہ عورتوں کی عادت پر چھوڑ دیا اور اس کے لئے چھ یا سات دن مقرر کردیئے، اس بنا پر یہ کہنا جائز ہے کہ جو لوگ حیض کی اکثر اور اقل مدت کے لئے دس اور تین دن کے قائل ہیں انہوں نے یہ بات عورتوں کی عادت کے سامنے رکھ کر کہی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم اور ہمارے مخالفین حیض کی اقل مدت کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں جس سے حیض کسی طرح کم نہ ہو۔ اسی طرح ہماری بحث حیض کی اکثر مدت کے متعلق ہو رہی ہے جس سے حیض زیادہ نہ ہو جس عدد کا ذکر کیا گیا ہے اس پر ہم سب متفق ہیں رہ گئی حمنہ ؓ کے واقعے میں چھ یا سات کی بات تو وہ اس کے متعلق کوئی حد نہیں ہے اور تحدید کے سلسلے میں اس جیسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لئے اختلاف کے موقع پر اس جیسی روایت سے استدلال ساقط ہوگیا۔ حمنہ ؓ کو حضور کا یہ فرمانا کہ تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء فی کل شھر) یہ ہمارے قول کی صحت کے لئے ابتدائی طور پر دلیل کا کام دے سکتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کے قول کا یہ حصہ کما تحیض النساء فی کل شھر) چونکہ عورتوں کے پورے جنس کا احاطہ کئے ہوئے ہے تو اس کا اقتضاء یہ ہے کہ یہ حکم تمام عورتوں کے لئے ہو۔ یہ بات اس چیز کی نفی کرتی ہے کہ عورت کا حیض اس سے کم مدت کا ہو۔ اگر اس امر پر کہ حیض کبھی تین دنوں کا بھی ہوتا ہے اجماع کی دلالت قائم نہ ہوجاتی تو کسی کے لئے یہ گنجائش نہ ہوتی کہ وہ حیض کی مدت چھ یا سات دن سے کم مقرر کرے جب تین دن پر سب کا اتفاق ہوگیا تو ہم نے حدیث کے عموم سے اس کی تخصیص کردی اور حدیث کے مقتضی کے مطابق تین دن سے کم کی نفی کا حکم باقی رہا۔ اسی طریقے سے حیض کی اکثر مدت کے اثبات کے لئے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس پر حضور ﷺ سے مروی یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں مارایت ناقصات عقل و دین اغلب لعقول ذوی الالباب منھن، میں نے عقل اور دین کے لحاظ سے ناقص کسی کو نہیں دیکھا جو عقلمندوں کی عقل پر ان سے بڑھ کر غالب آجانے والی ہو) ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ دین کے لحاظ سے ان میں کیا کمی ہے ؟ آپ نے فرمایا تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی، بےچاری کئی دن اور کئی رات اس طرح گزار دیتی ہے کہ نماز نہیں پڑھ سکتی) اس قول سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حیض کی مدت وہ ہے جس پر ایام ولیالی کے اسم کا اطلاق ہو سکے۔ ایام ولیالی کی کم سے کم مقدار تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔ اس پر اعمش کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کی ہے کہ حضور ﷺ نے فاطمہ ؓ بنت ابی جیش سے فرمایا تھا اجتنبی الصلوۃ ایام محیضتک ثم اغتسلی وتوضای لکل صلاۃ۔ اپنے حیض کے ایام کی مقدار نماز سے پر ہیر کرو۔ پھر غسل کر کے ہر نماز کے لئے وضو کرو) ۔ الحکم نے ابوجعفر سے روایت کی ہے کہ حضرت سودہ ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے استحاضہ ہوتا ہے آپ نے انہیں یہ حکم دیا کہ ایام حیض کی مقدار وہ بیٹھ رہیں یعنی نماز وغیرہ سے اجتناب کریں جب یہ ایام گزر جائیں تو ہر نماز کے لئے وضو کر کے نماز ادا کرلیں۔ فاطمہ ؓ بنت ابی جیش کی حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں دعی الصلوۃ بعددالایام التی کنت تحیضین فیھا ثم اغتسلی ، ان دنوں کی گنتی کی مقدار نماز چھوڑ دو جس میں تم حیض کے ایام گزارتی تھیں پھر غسل کرلو) ۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث میں اس عورت کے متعلق ذکر ہے جس نے حضور ﷺ سے پوچھا تھا کہ وہ خون بہاتی رہتی ہے آپ نے اسے یہ فرمایا کہ وہ ان دنوں اور راتوں کی گنتی پر نظر رکھے جو وہ حیض کے ایام کے طور پر ہر ماہ گزارتی تھی ان دنوں کی مقدار ہر ماہ نماز نہ پڑھے پھر اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھ لے۔ شریک نے ابوالیقظان سے انہوں نے عدی بن ثابت سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عدی کے دادا اسے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا المستحافتہ تدع الصلوۃ ایام حیضھا ثم تغتسل وتتوضا لکل صلاۃ ، مستحاضہ اپنے حیض کے ایام کی مقدار نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کر کے ہر نماز کے لئے وضو کرے گی) ۔ اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں تدع اصلواۃ ایام اقرائھا۔ اپنے قروع یعنی حیض کے ایام کی مقدار نماز چھوڑ دے گی) حضور ﷺ نے فاطمہ ؓ بنت ابی جیش کو نیز اس عورت کو جس کا واقعہ حضرت ام سلمہ ؓ نے بیان کیا ہے حیض کے ایام کی مقدار نماز چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ آپ نے یہ پوچھے بغیر حکم دیا تھا کہ استحاضہ سے قبل اس کے حیض کے ایام کی مقدار کیا تھی ؟ اس پورے بیان سے یہ بات واجب ہوگئی کہ حیض کی مدت ہونی چاہیے جس پر ایام کے اسم کا اطلاق ہوتا ہو اور یہ تین سے لے کر دس تک ہے اگر حیض کی مدت تین دن سے کم ہوتی تو حضور ﷺ اس کے سوال کے جواب میں ایام ولیالی کا ذکر نہ فرماتے۔ آپ نے عدی بن ثابت کی روایت کردہ حدیث میں فرمایا المستحاضۃ تدع اصلواۃ ایام حیضھا ۔ یہ لفظ تمام عورتوں کے لئے عام ہے اور ایام کے اسم کا اطلاق جب کسی محدود یا محصور عدد پر ہوتا ہے تو اس سے کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ دس مراد ہوتا ہے اس اسم کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی محدود یا متعین عدد ہو جس کی طرف ایام کی اضافت کی جائے۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ حضور ﷺ نے ایام ولیالی کا جو ذکر کیا ہے تین اور دس اس کا عدد ہوجائے۔ ایک اور پہلو سے بھی غور کریں وہ یہ کہ اگر پہلے سے اس وقت کی معرفت حاصل ہوجائے جس کی طرف ایام کی اضافت کی گئی ہے تو اس وقت ایام کا اسم کسی محدود یا محصور عدد پر مشتمل نہیں ہوتا۔ اس کی نظیر کہنے والے کا یہ قول ہے ” ایام السنۃ سال کے ایام اس میں ایام کا لفظ نہ تین پر دلالت کرے گا اور نہ دس پر کیونکہ السنۃ یعنی سال کا وقت سب کو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ قول باری ایاما معدودات ۔ تین سے لے کر دس تک کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ اس لئے کہ فرمانالٰہی ہے کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم۔ جب اللہ نے ان ایام کی اضافت اس وقت کی طرف کردی جس کی معرفت مخاطبین کو حاصل ہوچکی تھی یعنی رمضان کا پورا مہینہ تو اس صورت میں ایام کا اسم تین سے لے کر دس تک کے ساتھ مختص نہیں ہوا۔ لیکن حضور ﷺ کے اس قول میں کہ تدع اصلواۃ ایام حیضھا و ایام قرائھا ۔ مخاطبین کو پہلے سے اس عورت کے ایام کی تعداد کے متعلق کوئی علم نہیں تھا۔ اس لئے ایام کا ذکر اس عورت ہی کی طرف راجع ہوگا۔ اس عدد کی طرف نہیں جو اس کیساتھ مختص ہے۔ اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ لفظ ایام کو اس عدد پر محمول کیا جائے جو اس کے ساتھ مختص ہے اور یہ تین سے لے کر دس تک ہے۔ یہ اس وجہ سے ایسا ہوگیا کہ ایام کے اسم کا اطلاق کر کے کبھی اس سے مبہم وقت مراد لیا جاتا ہے جس طرح کہ لیالی کے اسم کا اطلاق کر کے کبھی اس سے مبہم وقت مراد ہوتا ہے اور رات کی تاریکی مراد نہیں ہوتی جب اس وقت کی معرفت پہلے سے حاصل ہوجائے جس کی طرایام کی اضافت کی گئی ہے تو ایسی صورت میں ایام کے ذکر کا معنی مبہم وقت ہوتا ہے جس سے کوئی عدد مراد نہیں ہوتا۔ شاعر کا مصرعہ ہے۔۔۔ لیالی تصطاد الرجالی بضاحم ۔۔ ایسی راتیں جو تاریکی کے ذریعے مردوں کا شکار کرتی ہیں یہاں شاعر نے دن کی سفیدی کو چھوڑ کر صرف رات کی تاریکی مراد نہیں لی ہے۔ اسی طرح ایک اور شاعر کا قول ہے۔ واذکرایام الحمی ثم انثنی۔ علی کبدی من خشیۃ ان تصدعا۔ ولیست عشیات الحمی برواجع ۔ الیک ولکن خل عینیک قدمعا۔۔ میں حمیٰ کے مقام پر اپنے گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتا ہوں اور پھر اپنے جگر پر اس ڈر سے دوہرا ہوجاتا ہوں کہ کہیں یہ مارے غم کے پھٹ نہ جائے جمیٰ میں گزاری ہوئی شامیں اب تمہاری طرف لوٹ کر نہیں آسکتیں لیکن اب تم ان کی یاد میں اپنی آنکھوں کو آنسو بہانے کے لئے تنہا چھوڑ دو ۔ شاعر نے یہاں ایام کے ذکر سے دن کی سفیدی مراد نہیں لی ہے اور نہ ہی شاموں کے ذکر سے دن کا اواخر مراد لیا ہے بلکہ اس سے وہ وقت مراد لیا ہے جس کی معرفت مخاطب کو پہلے سے حاصل ہوچکی ہے اسی طرح قول باری ہے فاصبح من النادمین وہ نادمین میں سے ہوگیا) یہاں لفظ اصبح سے دن کے آخری حصے کو چھوڑ کر صرف اول حصہ مراد نہیں لیا گیا ہے اسی طرح شاعر کا قول ہے۔ اصبحت عاذلتی معتلہ ۔۔ مجھے ملامت کرنے والی خود بیمار ہوگئی۔ یہاں شاعر نے شام کو چھوڑ کر صرف صبح کا وقت مراد نہیں لیا۔ لبید کا شعر ہے۔ وامسیٰ کا حلام النیام نعیمھم ۔ وای نعیم خلتہ لایزایل۔۔ ان کی عیش و عشرت اور آرام و راحت نیند میں پڑے انسانوں کا خواب بن گئی اور کون سی عیش و عشرت ایسی ہے جس کے متعلق تمہارا یہ خیال ہو کہ وہ زائل نہیں ہوگی۔ یہاں شاعر نے صبح کو چھوڑ کر صرف مساء یعنی شام کا ارادہ نہیں کیا بلکہ ایک وقت مبہم مراد لیا ہے۔ لغت میں یہ بات اس قدر مشہور ہے کہ اس کے لئے کثرت شواہد کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جب ایام کا اسم ان دو معنوں میں بٹ گیا تو ہم یہ کہیں گے کہ جس وقت کی معرفت پہلے سے حاصل ہوچکی ہو اور اس کی طرف ایام کی اضافت کی جائے تو اس کا معنی مطلق وقت ہوگا اور اگر وقت کی معرفت پہلے سے نہ ہو اور ایام کی اضافت اس کی طرف کی جائے تو اس کا معنی تعیین کی صورت میں تین سے لے کر دس تک ہوگا۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ جب عربوں کی زبان میں یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ ایام کے اسم کی جب کسی عدد کی طرف اضافت کی جائے تو وہ تین سے دس تک کے درمیان اعداد پر محمول ہوتا ہے۔ اور ایام کا یہ اسم کسی حال میں بھی اس عدد یعنی تین سے لے کر دس تک سے جدا نہیں ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ” احد عشر “ کہیں گے تو اس کے ساتھ ” ایاما “ نہیں کہیں گے بلکہ ” احدعشریوما “ کہیں گے۔ اسی طرح جب آپ مہینے کا اطلاق کرتے ہوئے ثلاثین کہیں گے تو اس کے ساتھ ایام کہنا بجا نہ ہوگا بلکہ آپ کہیں گے ثلاثین یوما جب ایام کا اسم اس عدد کے ذکر کے ساتھ جس کی طرف اس کی اضافت ہوئی ہے تین سے لے کر دس تک پر بولا جاتا ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہی اس اسم کا حقیقی معنی ہے اور یہ اس طرح استعمال ہونے کی صورت میں اپنے حقیقی معنی پر محمول ہوتا ہے اور اس معنی سے اسے کسی دلالت کے بغیر ہٹایا نہیں جاسکتا اس لئے کہ اس صورت میں وہ مجاز ہوگا۔ اس لئے حقیقی معنی سے کسی دوسرے معنی کی طرف اس طرح ہرگز نہیں لے جایا جاسکتا کہ اس سے اسم ایام کی نفی ہوجائے اور جب اس اسم کا مدلول یعنی عدد جو تین سے لے کر دس تک ہے متعین ہوجائے گا ایام کی اضافت اس کی طرف کردی جائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور ﷺ نے یہ فرمایا دعی الصلوۃ ایام اقدائک۔ تو آپ نے ایام کو اقراء کے لئے مخصوص کردیا اب ایام کی کم سے کم دلالت تین پر ہوتی ہے اور اقراء بھی جمع ہے جو کم سے کم تین پر محمول ہوتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ تین دن میں تین اقراء کے حساب سے ہر قرار یعنی حیض کے لئے ایک دن کی مدت متعین کردی گئی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کے قول سے مراد ایک حیض ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت کی عادت یہ ہو کہ اس کا حیض تین سے لے کر دس دن کے مابین جاری رہتا ہو اس کے حق میں لفظ اقراء سے لامحالہ یہی دن مراد ہونگے اور یہ بات تو واضح ہے کہ اس جیسی صورت میں حضور ﷺ کے قول ایام اقراء ک) سے مراد ایک حیض ہی ہوگا۔ اسی طرح وہ عورت جس کی عادت نہ ہو یعنی ہر ماہ اس کے حیض کے ایام میں کمی بیشی ہوجاتی ہو۔ اس کے حق میں بھی لفظ اقراء سے ایک حیض مراد ہوگا۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول اغتسلی وتوضاء لکل صلوۃ) دلالت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حیض کی مدت گزر جانے کے بعد غسل اور وضو کا عمل کرو۔ اس لئے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ حضور ﷺ کے قول ایام اقرائک۔ سے مراد ایک حیض کے ایام ہیں نیز اعمیش کی روایت کردہ حدیث میں الفاظ ہیں ایام محیضتک۔ دوسری حدیث میں ایام حیضک ۔ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں فلتدع اصلواۃ الایام واللیالی التی کانتتقعد) ایک روایت کے الفاظ ہیں نقصان دینھن تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی) ان تمام روایات میں حضور ؟ ﷺ نے اقراء کا ذکر نہیں کیا بلکہ حیض کا لفظ ادا فرمایا۔ ان روایات کی مقتضیٰ کے بموجب یہ ضروری ہے کہ حیض ایام کا نام ہو اور وہ مدت جس پر ایام کے اسم کا اطلاق نہ ہوتا ہو وہ حیض قرار نہ دیا جائے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے حیض کے سلسلے میں تمام عورتوں کے حکم کو بیان کرنے کا قصد کیا تھا۔ محمد بن شجاع نے روایت بیان کی ہے انہیں یحییٰ بن ابی بکیر نے انہیں اسرائیل نے عثمان بن سعید سے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے فاطمہ ؓ بت ابی حبیش سے کہ جب حضور ﷺ کے علم میں فاطمہ ؓ کی بات آئی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا مری فاطمۃ فلتمسک کل شھر عددایام اقراء ھا فاطمہ ؓ سے کہو کہ وہ ہر ماہ اپنے اقراء یعنی حیض کے ایام کی تعداد کے برابر دنوں میں روزہ ، نماز وغیرہ سے رک جائے یعنی پرہیز کرے) ۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے یہ واضح کردیا کہ اقراء کے ذکر سے آپ کی مراد ہر ماہ کا حیض ہے۔ اس لئے کہ آپ نے فرمایا کہ تمسک کل شھر۔ یعنی وہ ہر ماہ پرہیز کرے گی۔ ایک دوسری حدیث میں آپ نے یہ بتادیا کہ عورتوں کی عادت ہر ماہ ایک حیض ہوتی ہے۔ یہ بات آپ نے حمنہ ؓ کو ان الفاظ میں بتائی تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کم اتحیض النساء فی کل شھر۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ ایک حیض کو اقراء کا نام دیا جائے جبکہ ایک حیض اقراء نہیں بلکہ قرہ ہوتا ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اقراء کا اطلاق حیض کے پورے گروہ پر کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب قرء حیض کے خون کا نام ہے تو ایک حیض کو اقراء کا نام دینا جائز ہے اور اس کی یہ تاویل کی جائے گی کہ اقراء خون کے اجزاء سے عبارت ہے جس طرح کہ ” ثوب اخلاق “ (پرانے کپڑے) سے کپڑے کے ٹکڑے مراد ہوتے ہیں۔ ورنہ ایک کپڑے کی صفت اخلاق نہیں ہوسکتی جو جمع ہے ایک شاعر کا قول ہے۔ جاء الشتاء و قمیصی اخلاق۔۔۔ شراذ مریضعک منہ التواق۔۔ سردیاں آگئیں اور میری قمیض چیتھڑوں کی شکل کے ٹکڑوں پر مشتمل ہے کہ جس سے دیکھنے والے کو بھی ہنسی آجاتی ہے۔ شاعر نے ایک قمیض کو چیتھڑوں کا نام دیا اس لئے کہ اس نے یہ کہہ کر قمیض کے ٹکڑے مراد لئے ہیں اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ ایک حیض کو اقراء کا نام دے کر اس سے خون کے اجزاء مراد لئیجائیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایام کا نام کبھی دو دنوں پر بھی واقع ہوتا ہے اس لئے یہ واجب ہے کہ حیض کی کم سے کم مدت کو دو دنوں پر محمول کیا جائے۔ اس لئے کہ ایام کا اطلاق دو دنوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو دنوں پر ایام کا اطلاق مجازاً ہوتا ہے جبکہ اس کے حقیقی معنی تین یا اس سے زائددن ہیں اور لفظ کے استعمال کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے اس کے معنی پر محمول کیا جائے الایہ کہ کوئی ایسی دلالت قائم ہوجائے جو اسے اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر مجازی معنی کی طرف سے جانا ضروری قرار دے۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ حیض کی اکثر اور اقل مدت کی مقدار کے اثبات کے لئے ہمارے پاس قیاس کا ذریعہ استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے اثبات کا طریقہ یا تو توقیف ہے یا سب کا اتفاق ہے جیسا کہ ہم اس باب میں پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ تین دن بھی حیض کے ہوتے ہیں اور دس دن بھی۔ اختلاف تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ کے اندر ہے ہم نے اس مدت کو ثابت کردیا ہے جس پر سب کا اتفاق ہے لیکن اختلافی مدت کا کوئی ثبوت نہیں ملا کیونکہ اس کے ثبوت کے لئے نہ تو توقیف ہی ہے اور نہ ہی سب کا اتفا اق۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس عورت کو پہلی مرتبہ حیض آئے وہ خون دیکھتے ہی نماز پڑھنا چھوڑ دے گی خواہ اس نے ایک دن اور ایک رات ہی یہ خون دیکھا ہو۔ اس سے اس امر پر دلالت ہوگئی کہ ایک دن اور ایک رات حیض کی مدت ہے۔ اب جو شخص یہ دعوی کرے کہ یہ حیض کا خون نہیں تھا اسے اس کی دلیل پیش کرنا ہوگی۔ اس لئے کہ ابتداء میں تو اس خون پر حیض کا حکم لگا دیا گیا تھا۔ اب یہ حکم کسی دلالت کی وجہ سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے جو اس کے خاتمہ کو واجب کرتی ہو۔ اس صورتحال سے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ حیض کی مدت ایک دن ایک رات تسلیم کرلی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سب کا اس پر بھی تو اتفاق ہے کہ ایسی عورت اگر ایک نماز کے پورے وقت میں خون دیکھتی رہے تو وہ نماز چھوڑ دے گی اس لئے تمہارے استدلال کی روشنی میں اس اتفاقی مسئلے کو بھی اس بات کی دلیل قرار دینا چاہیے کہ حیض کی مدت ایک نمازکا وقت ہے۔ دراصل بات ایسی نہیں ہے کہ ایک نماز کا وقت کم سے کم مدت حیض ہوجائے بلکہ اس کے اس خون کی صورتحال کے متعلق انتظار کیا جائے اور حیض کی مدت کی تکمیل تک خواہ وہ ہمارے مخالف کے بقول ایک دن ایک رات ہی کیوں نہ ہو اس پر حکم لگانے میں رعایت کی جائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب باری تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ولایحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن، اور ان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھیں جو اللہ نے ان کے رحم میں پیدا کردیا ہے) تو اس نے اس کے ذریعے عورت کے قول کی طرف رجوع کرنا واجب کردیا اس لئے کہ ترک کتمان کی نصیحت بھی تو اسی کو ہورہی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کا ہمارے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو صرف اس بات کی گفتگو ہے کہ جب عورت اپنے حمل کی اطلاع دے تو اس کی اطلاع قبول کرلی جائے ہم بھی تو اس کے متعلق اس کے ہی قول کو آخری بات تسلیم کرتے ہیں لیکن خون کے متعلق یہ حکم لگانا کہ آیا یہ حیض کا خون ہے یا نہیں تو اس کا دارومدار اس کے قول پر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ یہ ایک حکم ہے اور حکم کی تخلیق اس کے رحم میں نہیں ہوئی ہے کہ ہم اس کے متعلق اس کی طرف رجوع کریں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے درج بالا سطور میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس شخص کے قول کے بطلان پر مشتمل ہے جس نے حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات سے کم رکھی ہے نیز اس شخص کے قول کا بھی بطلان ہوجاتا ہے جس نے اقل اور اکثر مدت حیض کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں کی ہے۔ اسی طرح اس شخص کے قول کا فساد بھی واضح ہوجاتا ہے جس نے اس معاملے کو عورتوں کی عادت کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جو شخص اقل اور اکثر مدت حیض کے لئے کسی مقدار کا قائل نہیں ہے۔ اس کے قول کے بطلان کی دلیل یہ ہے کہ اگر صورتحال اسی طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو اس سے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس سے جو خون بھی خارج ہوتا حیض شمار ہوتا جس کے نتیجے میں دنیا کے اندر کسی مستحاضہ کا وجود ہی نہ ہوتا اس لئے کہ خواہ آرہا ہے اور یہ سارے کا سارا حیض ہے۔ سنت اور اتفاق امت سے اس قول کے بطلان کا ہمیں علم ہوتا ہے اس لئے کہ فاطمہ ؓ بنت حبیش نے حضور ﷺ سے یہی عرض کیا تھا کہ مجھے استحاضہ ہے میں کبھی پاک نہیں ہوتی اور مجھے ڈر ہے اسلام میں میرا کوئی حصہ ہی نہ ہو یعنی میں کسی قسم کی کوئی عبادت ہی نہ کرسکوں۔ اسی طرح حمنہ ؓ کو سات برسوں تک استحاضہ کا خون آتا رہا لیکن شارع (علیہ السلام) نے ان دونوں کو کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا یہ خون حیض کا خون ہے۔ اس کے برعکس انہیں یہ بتایا کہ اس خون کا اتنا حصہ حیض ہے اور اتنا حصہ استحاضہ ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس خون میں سے حیض کے خون کے لئے وقت کی ایک مقدار مقرر کی جائے حضور ﷺ نے ایام کا ذکر کر کے اس مقدار کی اطلاع دی۔ اس قول سے ایک اور بات لازم آتی ہے وہ یہ کہ اگر اقل اور اکثر مدت حیض کے لئے کوئی مقدار مقرر نہ ہو تو ایسی عورت جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہو اگر اس کے خون کا اخراج ایک سال تک جاری رہے تو اس ساری مدت کو حیض شمار کرلیا جائے کیونکہ حیض کے متعلق اس کی عادت تو ہے نہیں اور یہ خون اس کے رحم سے نکل رہا ہے۔ اس نتیجے سے آپ کے اپنے دعوے میں تخلف پیدا ہوجاتا ہے جس کے بطلان پر سب کا اتفاق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نفاس بھی اپنے احکام کے لحاظ سے حیض کی طرح ہے اور چونکہ اقل نفاس کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے اس لئے اقل حیض کی بھی کوئی مدت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نفاس کا اثبات اتفاق امت کے ذریعے ہوا ہے۔ ہم حیض کو اس پر قیاس نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے اثبات کا ذریعہ قیاس نہیں ہے۔ جس گروہ نے تھوڑے اور بہت خون کو حیض شمار کیا ہے اور جس گروہ نے اس کی مدت ایک دن ایک رات مقرر کی ہے ان دونوں کا استدلال قرآن مجید کی اس آیت سے ہے فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ نیز حضور ﷺ کا یہ قول بھی ان کی تائید میں ہے کہ اذا اقبلت الحیضۃ فدعی اصلوۃ۔ جب حیض آجائے تو نمازچھوڑ دو ) آیت اور سنت کا ظاہر یہ تقاضا کرتا ہے کہ قلیل اور کثیر سب حیض شمار کیا جائے۔ اس لئے کہ لفظ میں کوئی توقیت نہیں ہے جب وہ ایک دن ایک رات خون دیکھے گی تو اس پر ظاہر آیت اور سنت کے مطابق حیض کا حکم لگ جائیگا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ضروری بات یہ ہے کہ اس خون کا حیض ہونا ثابت ہوجائے تاکہ شوہر اس کے دوران بیوی سے الگ رہے کیونکہ حیض کی کیفیت اس کے معنی اور اس کی صفت کے متعلق آیت اور حدیث کے الفاظ میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس وقت اس کا حیض ہونا ثابت ہوجائے گا اس پر حدیث اور آیت کا حکم جاری ہوجائے گا اور جب تک اس میں اختلاف ہے اس وقت تک یہ آیت اور حدیث اس کی دلیل نہیں بن سکے گی اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی زیر بحث مسئلے میں فریق مخالف کا دعویٰ اس مسئلے کے اثبات کے لئے دلیل کا کام نہیں دے سکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ شارع (علیہ السلام) نے حیض کے خون کی علامت اور اس کی خصوصیت ایسے واضح طریقے سے بیان کردی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے حیض کے خون کے لئے کسی مقدار کی تعبین کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی چناچہ شارع (علیہ السلام) کا قول ہے دم الحیض ھوالاسعودالمحتدھر حیض کا خون دوہ ہوتا ہے جو سیاہ اور گہرا سرخ ہو) اس لئے جب بھی اس صفت کا خون پایا جائے گا وہ حیض کہلائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس خون کی یہ صفت اور رنگت نہ ہو وہ کبھی حیض کا خون نہیں ہوتا ہے جبکہ ایک عورت اسے ایام کے دوران دیکھے یا وہ عورتا یسی ہو جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہو اور اس نے ایسا خون دیکھا ہو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حدیث میں بیان کردہ خون ایام ماہواری گزرنے کے بعد آجاتا ہے یا ایام کے دوران آجاتا ہے۔ اس صورت میں ایا م کے دوران آنے والا خون حیض شمار ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ کہلاتا ہے۔ اس بنا پر یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ حضور ﷺ نے اس صفت کے وجود کو حیض کی نشانی قرار دیا ہے اور اس کی دلیل بنادیا ہے جبکہ یہ صفت حیض کی عدم موجودگی میں پائی جاتی ہے اور کبھی حیض موجود ہوتا ہے لیکن یہ صفت معدوم ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کے اس قول کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ آپ نے کسی متعین خاتون کے حالات سے یہ معلوم کرلیا ہوگا کہ اس کے حیض کا خون ہمیشہ اس رنگت کا ہوتا ہے۔ اس بنا پر آپ نے اس متعین خاتون کے حیض کا حکم بیان فرما دیا۔ تمام عورتوں کے حیض کے خون کے متعلق نہیں فرمایا۔ اس لئے اس رنگت اور صفت کا دوسری عورتوں کے حیض کے خون میں اعتبار کرنا درست نہیں ہوگا۔ مذکورہ بالا دونوں گروہوں نے آیت ویسئلونک عن المحیض قل ھواذی۔ سے استدلال کیا ہے کہ اس آیت میں حیض کو اذی یعنی گندگی کی حالت قرار دیا گیا ہے اس لئے جس وقت بھی یہ اذی پایا جائے گا اس پر حیض کا حکم لگ جائے گا۔ اس لئے اس میں مقدار کے اعتبار کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آیت میں مقدار کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے۔ دوسرا اگر وہ جو اقل مدت حیض یعنی ایک دن ایک رات کا قائل ہے وہ یہ کہتا ہے کہ آیت کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ رات اور دن کے دوران جس وقت بھی اذی کی کیفیت پائی جائے اسے حیض شمارکر لیا جائے خواہ اس کی مدت ایک رات ایک دن یا اس سے کم ہو لیکن ہم نے اس حکم سے کم کی مدت کی تخصیص کردی ہے جس کی دلیل ہمارے پاس موجود ہے اس کے بعد ایک دن ایک رات کی مدت کے لئے لفظ کا حکم بحالہ باقی رہے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پہلے حیض کا ہونا ثابت ہوجائے تاکہ یہ صفت ثابت کی جاسکے یہ صفت حیض کا اذی یعنی گندگی کی حالت ہونا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حیض کو اذی قرار دیا ہے اذی کو حیض قرار نہیں دیا ہم جان چکے ہیں کہ ہرو اذی حیض نہیں ہوتا اگرچہ ہر حیض اذی ہوتا ہے جس طرح کہ ہر نجاست حیض نہیں ہوتی اگرچہ ہر حیض نجاست ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ حیض کا ثبوت ہوجائے تاکہ اسے اذی قرارا دیا جاسکے۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر اللہ کی مراد یہ ہوتی کہ اذی کو حیض کا اسم قرار دیا جائے تو پھر بھی اس کی میراد یہ نہ ہوتی کہ ہر اذی حیض ہے۔ اس لئے کہ واقعاتی دنیا میں اذی کی تمام صورتیں حیض نہیں ہوتیں چناچہ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے مراد اذی منکر یعنی ناپسندیدہ گندگی کی حالت ہے کیونکہ اس کی معرفت کے لئے کسی اور دلالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب ہمیں ا س کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے تو ہم اس پر حیض کا حکم لگا دیتے ہیں۔ نیز یہ بھی ہے کہ اذی ایک مشترک اسم ہے جو ایسی چیزوں پر محمول ہوتا ہے جن کے معانی مختلف ہوتے ہیں۔ اس لئے جس اسم کی یہ کیفیت ہو اس کا عموم بننا کسی طرح بھی جائز نہیں ہوتا۔ جو لوگ حیض کی اکثر مدت پندرہ دن کے قائل ہیں انہوں نے حضور ﷺ کے اس قول سے استدلال کیا ہے کہ مارایت ناقصات عقل و دین اغلب لعقول ذدی الالباب منھن۔ آپ سے جب عورتوں کے دینی نقص کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا تمکث احداھن نصف عمرھا لاتصلی۔ ایک بےچاری عورت اپنی زندگی کا آدھا حصہ اسی طرح گزار دیتی ہے کہ نماز نہیں پڑھ سکتی) ۔ حضور ﷺ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ مہینے میں پندرہ دن حیض کے ہوتے ہیں اور پندرہ دن طہر کے کیونکہ یہی پندرہ دن کم سے کم طہر کے ہوتے ہیں اور اسی طرح اس کی آدھی عمر حیض کی ہوتی ہے اگر حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت اس سے کم ہوتی تو کوئی ایسی عورت نہ ہوتی جو اپنی آدھی عمر نماز نہ پڑھ سکتی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ کسی نے نصف عمرھا کی روایت نہیں کی ہے بلکہ اس حدیث کی روایت دو طرح سے ہوئی ہے اول شطرعمرھا۔ اور دوسری تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی۔ نصف عمر کا ذکر کسی روایت میں موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب شطرعمرھا۔ کی اس پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ اس سے حضور ﷺ نے نصف عمر مرادلیا ہے۔ اس لئے شطر کا ذکر اسی طرح ہے جیسے حضور ﷺ نے یوں فرمایا ہو کہ ” طائفۃ عمرھا “ اپنی عمر کا ایک حصہ) یا ” بعض عمرھا “ اپنی عمر کا بعض حصہ) یا اسی طرح کا کوئی اور مفہوم۔ دیکھئے قول باری ہے فول وجھک شطر المسجد الحرام۔ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف موڑ لو) یہاں شطر سے اللہ کی مراد جہت اور سمت ہے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ سے نصف مراد نہیں لیا۔ اب حدیث میں مذکورہ شطرعمرھا کی مقدار حضور ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرما دی ہے تمکث احداھن الایام واللیالی لاتصلی۔ اس لئے ضروری ہے کہ شطر سے یہی مراد لی جائے اور کوئی چیز مراد نہ لی جائے۔ علاوہ ازیں دنیا میں کوئی عورت ایسی نہیں ہے جو اپنی عمر کا نصف حصہ حیض میں گزارا چکی ہو اس لئے کہ بلوع سے پہلے گزرا ہوا عمر کا حصہ طہرہ کا حصہ ہوتا ہے جو حیض کے بغیر گزر جاتا ہے۔ اس لئے اگر یہ ممکن ہوتا کہ بلوغ کے بعد مرنے تک حیض ہر ماہ پندرہ دنوں کا ہوتا تو پھر بھی عمر کا آدھا حصہ حیض میں نہ گزرتا۔ اس بیان سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ جن لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ عورت کی عمر کا آدھا حصہ حیض میں گزرتا ہے ان کا یہ گمان باطل ہے۔ کم سے کم مدت طہر میں اختلااف رائے امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر، ثوری، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ طہر کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ یہی عطاء کا قول ہے امام مالک سے ایک روایت کے مطابق اس کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔ عبدالملک بن حبیب نے امام مالک سے جو روایت کی ہے اس کے مطابق طہر کی مدت پندرہ دن سے کم نہیں ہوتی امام مالک سے ایک روایت دس دن کی بھی ہے) ۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ کبھی تو طہر پندرہ دن سے کم ہوتا ہے ایسی صورت میں عورت کے طہر کی اس مدت کی طرف رجوع کیا جائے گا جو اس سے پہلے وہ گزارتی آئی ہے۔ امام شافعی سے یہ منقول ہے کہ اگر عورت کہے کہ اس کے طہر کی مدت پندرہ دن سے کم رہی ہے تو اس کے ہی قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ طحاوی نے ابو عمران سے اور انہوں نے یحییٰ بن اکثم سے نقل کیا ہے کہ طہر کی اقل مدت انیس دن ہے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حیض اور طہر کے لئے ایک ماہ کے برابر مدت مقرر کی ہے اور حیض عادۃ طہر سے کم مدت لیتا ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ حیض پندرہ کا ہو بلکہ اسے دس دن کا ہونا ضروری ہے اور مہینے کے باقی دن طہر کے ہوں گے۔ اور یہ انیس دن ہوتے ہیں کیونکہ مہینہ کبھی انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے ہم نے سعید بن حییر سے نقل کیا ہے کہ اقل طہر تیرہ دن کا ہوتا ہے۔ طہر کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک مہینے کو حیض اور طہر کا بدل بنایا ہے تو ضروری ہوگیا کہ طہر کی مدت حیض کی مدت سے زیادہ ہو۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے حمنہ ؓ کو فرمایا تھا تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء فی کل شھر۔ آپ نے چھ یا سات دن حیض کے مقرر کردیئے اور مہینے کے باقی دنوں کو طہر قرار دیا، آپ کے اس فرمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام عورتوں کے لئے یہی حکم ہو جب تک کہ پندرہ دن کی مدت طہر کے لئے کوئی اور دلیل نہ مل جائے۔ رہ گئے دس یا تیرہ دن تو ان کے ثبوت کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لئے یہ مدت طہر کی درست مدت قرار نہیں دی جائے گی۔ نیز حیض سے پاک ہونے کے ساتھ نمازیں لازم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے طہر کی مشابہت اقامت کی حالت کے ساتھ ہوگئی اب جبکہ اقامت کی کم سے کم مدت ہمارے نزدیک پندرہ دن اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی انتہا نہیں ہے تو یہ ضروری ہوگیا کہ حیض سے پاک ہونیکا زمانہ یعنی طہر بھی اسی طرح ہو۔ یعنی اس کی کم سے کم مدت بھی پندرہ دن ہو۔ ایک اور پہلو سے اس پر غور کیجئے طہر کی مقدار کے اثبات کا طریقہ یا تو توقیف ہے یا اتفاق امت ہے۔ فقہاء سلف سے متفقہ طور پر یہ ثابت ہے کہ پندرہ دن طہر کی صحیح مدت ہے اور اس سے کم کی مدت میں اختلاف ہے اس لئے ہم نے متفقہ طور پر ثابت ہونے والے امر کو اختیار کرلیا۔ اس سے کم مدت کے طہر کا ثبوت نہیں مل سکا کیونکہ نہ اس کے متعلق توقیف ہے اور نہ ہی اتفاق۔ یحییٰ بن اکثم سے طہر کی مدت انیس دن نقل کی گئی ہے یہ کئی وجوہ سے غلط ہے ایک تو یہ کہ سلف کا پندرہ دن کی مدت پر اتفاق ہوچکا ہے اس لئے اس کے خلاف اب کوئی قول قابل قبول نہیں ہوگا۔ دوسری یہ کہ یحییٰ بن اکثم سے پہلے جن حضرات کا طہر کی مدت کے متعلق اختلاف منقول ہوا ہے اس کی تین صورتیں ہیں۔ عطاء کا قول ہے کہ اس کی مدت پندرہ دن ہے سعید بن جبیر کے نزدیک یہ تیرہ دن ہے امام مالک سے ایک روایت میں پندرہ دن اور ایک روایت میں دس دن ہے۔ ان حضرات میں سے کوئی بھی انیس دن کا قائل نہیں ہے۔ یحییٰ بن اکثم کا قول اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ انہوں نے توقیف یا اتفاق کے بغیر طہر کے لئے اس مدت کا اثبات کردیا ہے اور یہ بات ان جیسے مسائل میں جائز نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے استدلال میں جو بات کہی ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں وہ ایک بےمعنی بات ہے اور اس سے وہ چیز واجب نہیں ہوتی جسے وہ واجب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ کو ایک حیض اور طہر کے قائم مقام کردیا ہے تو یہ اس بات سے مانع نہیں ہے کہ ایک حیض اور طہر ایک ماہ سے کم مدت میں پایا جائے۔ اس لئے کہ اگر ایک عورت کو تین دن تک حیض آئے تو اس صورت میں اس کا حیض اور طہر ایک ماہ سے کم عرصے میں گزر جائے گا۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ماہ کو ایک حیض اور طہر کے لئے واجب کرنا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ ایک ماہ سے کم مدت میں ایک حیض اور طہر کا وجود نہ ہو اور حیض کا دس دن سے کم ہونا بھی درست ہے تاکہ عورت ایک ماہ سے کم مدت میں ایک حیض اور طہر گزارے اور اس کی عدت تین ماہ سے کم مدت میں گزر جائے اگرچہ مہینوں کے حساب سے عدت گزارنے کی صورت میں تین ماہ سے کم مدت میں اس کی عدت گزر نہ سکتی ہو تو اس صورتحال کے پیش نظر اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حیض کے دس دن پورے کرلینے کے بعد اس کے طہر کی مدت انیس دن سے کم رہ جائے۔ ہمارے اس بیان سے یہ ظاہر ہوگیا کہ یحییٰ بن اکثم کی ذکر کردہ وجہ اس کی دلیل نہیں ہے کہ طہر کی کم سے کم مدت کو انیس دن میں محدود کرنا واجب ہے۔ ان کی بات صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ طہر کبھی اتنی مقدار کا بھی ہوتا ہے اور اس پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ اس سے کم مدت کا نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔ حالت حیض میں پیدا ہونے والے طہر یعنی طہر متخلل میں اختلاف کا بیان ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ جو عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن طہر۔ اسے لگاتار خون دیکھنے والی تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح امام ابویوسف نے کہا ہے کہ اگر دو خون کے درمیان آنے والا طہر پندرہ دن سے کم مدت کا ہوگا اسے لگاتار خون یعنی حیض سمجھا جائے گا۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر دو خون کے درمیان آنے والا طہر تین دن سے کم مدت کا ہوگا تو اسے لگاتار خون سمجھا جائیگا اور اگر تین دن یا اس سے زائد مدت کا ہوگا تو اس صورت میں دونوں خون یعنی حیض کی مدت اور ان کے درمیان آنے والے طہر پر غور کیا جائے گا۔ اگر طہر کا زمانہ ان دونوں خون کے زمانے سے زیادہ ہوگا تو یہ طہر ان دونوں خون کے درمیان فصل پیدا کر دے گا۔ اگر دونوں خون اور طہر کی مدتیں ایک جیسی ہوں یا طہر کی مدت کم ہو تو پھر اس مدت کو لگاتار خون کی مدت شمار کیا جائیگا۔ جس وقت طہر کی مدت دو خون کی مدت سے زیادہ ہونے کی بنا پر ان دونوں کے درمیان فصل پیدا کر دیگا تو اس صورت میں ہر خون کا علیحدہ اعتبار کیا جائے گا یعنی اگر پہلا خون تین دن کی مدت کا ہوگا و ہ حیض شمار ہوگا۔ اگر پہلا خون تین دن کا نہ ہو اور دوسرا تین دنوں کا ہوجائے تو یہ دوسرا خون حیض شمار ہوگا۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی تین دن کا نہ ہو تو کوئی بھی خون حیض شمار نہیں ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر عورت ایک خون دیکھے اور ایک دن طہر یا دو دن طہر دیکھے اور پھر دو دن خون تو وہ طہر کے دنوں کو نظر انداز کر کے خون کے ایام کو ایک دوسرے کے ساتھ ضم کر دے گی۔ اگر یہ صورت حال مسلسل رہے تو وہ اپنے حیض کے دنوں پر تین دنوں کے ذریعے استظہار کرے گی یعنی گزرنے کے بعد تین دنوں تک احتیاط کرے گی اور نماز وغیرہ نہیں پڑھے گی اگر اس نے ایام استظہار کے دوران بھی طہر دیکھا تو وہ اسے نظر انداز کر دے گی تاکہ دم استظہار کے تین حاصل ہوجائیں۔ ایام طہر کے دوران وہ نماز پڑھے گی روزے رکھے گی اور شوہر سے ہمبستری بھی کرسکے گی اور خون کے ایام ایک دوسرے کے ساتھ جمع کر کے ایک حیض شمار ہوگا اور طلاق کی عدت میں ایام طہر کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایام حیض کے بعد تین دن استظہار یعنی احتیاط کیا تو ایام طہر کے انقطاع کی صورت میں ہر نماز کے لئے وضو اور ہر روز غسل کریگی۔ امام مالک کہتے ہیں کہ میں اسے غسل کا حکم اس لئے دے رہا ہوں کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شائد خون دوبارہ شروع نہ ہوجائے۔ الربیع نے امام شافعی سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات تو ظاہر ہے کہ حائضہ عورت ہمیشہ خون کہ بہتا ہوا نہیں دیکھتی یہی حال مستحاضہ کا ک بھی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ کبھی خون دیکھتی ہے اور کسی وقت خون بند ہوتا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک گھڑی کے لئے خون کا بند ہوجانا اسے حیض کے حکم سے باہر نہیں لاتا گویا خون بند ہونے کی وجہ سے اس کے لئے جو طہر کا وقت پیدا ہوتا ہے وہ حیض میں ہی شمار ہوتا ہے اور یہ سارا وقت لگاتار خون آنے کا وقت سمجھا جاتا ہے۔ ایک یا دو گھڑی کے لئے خون بند ہوجانے کے متعلق فقہاء کا متفقہ قول یہی ہے۔ نیز دو خون کے درمیان آنے والا طہر سب کے نزدیک صحیح طہر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ کسی نے طہر کی مدت ایک یا دو دن مقرر نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی کا یہ قول ہے کہ دو حیض کے درمیان آنے والا طہر دس دن سے کم مدت کا ہوتا ہے جیسا کہ ہم اس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہیں نیز یہ وجہ بھی ہے کہ اگر ایک یا دو دن کا طہر جو دو خون کے درمیا ن آجاتا ہے نماز اور روزہ واجب کرنے والا طہر ہوتا تو پھر یہ بھی ضروری ہوتا کہ ان دونوں میں ہر خون ایک مکمل حیض ہوجائے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ طہر کی یہ مقدار دو خون کے درمیان فصل کرنے اور ان میں سے ہر ایک کو ایک مکمل حیض قرار دینے میں غیر معتدبہ ہے تو یہ ضروری ہے کہ اس مقدار سے طہر کا حکم ساقط ہوجائے اور اسے اس کے ماقبل اور مابعد کے ساتھ خون تصور کر کے اس عرصے کو لگاتار خون آنے کا عرصہ سمجھ لیا جائے۔ ایام حیض میں نظر آنے والی صفرۃ یعنی زردی اور کدرۃ یعنی گدلے رنگ کے متعلق اختلاف ہے۔ ام عطیہ ؓ انصاریہ سے مروی ہے کہ ہم حیض سے غسل کرلینے کے بعد نظر آنے والی زردی اور گدلے رنگ کا کوئی اعتبار نہیں کرتے تھے فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ ایام حیض میں نظر آنے والی زردی حیض کا ہی ایک حصہ ہے۔ ان میں امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر، امام مالک، لیث بن سعد، عبدالہ بن الحسن اور امام شافعی شامل ہیں۔ البتہ کدرت یعنی گدلے رنگ کے متعلق اختلاف ہے مذکورہ بالافقہائے کرام کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ایام حیض میں نظر آنے والی کدرت حیض ہی کا حصہ ہے خواہ اس سے پہلے خون نہ بھی آیا ہو۔ البتہ امام ابویوسف کا قول ہے کہ اگر خون آنے کے بعد کدرت نظر آئے تو وہ حیض کا حصہ ہے۔ اگر خون آنے سے پہلے نظر آجائے تو وہ حیض کا حصہ نہیں ہے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اسماء ؓ سے مروی ہے کہ حائضہ عورت اس وقت تک نماز پڑھنا شروع نہیں کرے گی جب تک کہ سفید چونا نہ دیکھ لے۔ فقہاء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ خون آنے کے بعد نظر آنے والا گدلا رنگ یعنی کدرت حیض کا ہی حصہ ہوتا ہے جب کہ خون آنے کے بعد اس کا پایا جانا اس کی دلیل ہے کہ یہ گدلا پن خون کے بعض اجزاء کے اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو یہ ضروری ہے کہ ایام حیض کے دوران اس طرح نظر آنے والے گدلے رنگ کا بھی یہی حکم ہو خواہ اس سے پہلے خون نہ بھی آیا ہو اور ایسے وقت میں جس کے دوران عادۃ حیض کا خون آتا ہے کدرت کا نظر آنا اس بات کی دلیل ہوجائے کہ یہ کدرت خون کے اجزاء کا سفید رنگ کے ساتھ اختلاط کی بنا پر پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کی دلیل کہ وقت کا اس کدرت کے نظر آنے پر اثر ہوتا ہے یہ ہے کہ عورت اپنے حیض کے ایام کے دوران اور اس کے بعد خون دیکھتی ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ ایام کے دوران نظر آنے والا خون حیض شمار ہوتا ہے اور بعد میں نظر آنے والا خون حیض شمار نہیں ہوتا۔ اس طرح وقت اس خون کے حیض ہونے کی علامت اور اس کی دلیل بن جاتا ہے اسی طرح یہ ضروری ہے کہ وقت اس بات کی دلیل بن جائے کہ کدرت حیض کے خون کے اجزاء سے بنی ہے اور یہ حیض میں شامل ہے۔ جس عورت کو پہلی دفعہ حیض آئے اور مسلسل خون جاری رہے۔ اس کے حکم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ دس دن حیض کے ہوں گے اور اس سے زائد ایام استحاضہ کے ہوں گے۔ یہاں تک کہ مہینے کا اختتام ہوجائے۔ اس صورت میں دس دن حیض کے ہوں گے اور بیس دن طہر کے۔ فقہ حنفی کے اصول کی کتابوں میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ تاہم بشربن الولید نے امام ابویوسف سے نقل کیا ہے کہ ایسی عورت حیض کی کم سے کم مدت یعنی تین دن گزار کر نماز شروع کر دے ، دس دن کے بعد شوہر کے ساتھ ہمبستری کرسکے گی اور روزہ قضاء کرنا شروع کرے گی۔ رمضان کے دس روزے رکھے گی اور سات قضاء کرے گی ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ ایسی عورت اپنے خاندان کی عورتوں کے ایام حیض کی مقدار حیض کے دن گزارے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسی عورت عورتیں حیض کے جتنے دن گزارتی ہیں وہ گزارے گی اس کے بعد پھر وہ مستحاضہ ہوجائے گی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اس کے حیض کی مدت وہی ہے جو حیض کی کم سے کم مدت ہے یعنی ایک دن ایک رات۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل سب کا وہ اتفاق ہے کہ ایسی عورت کو حیض کی اکثر مدت تک جس کے متعلق اگرچہ فقہاء کا آپس میں اختالف ہے نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان ایام میں گویا اس پر حائضہ ہونیکا حکم لگا دیا گیا۔ اور یہ ایام بھی ایسے ہیں کہ ان کا حیض کے ایام ہونا جائز ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ پورا عشرہ حیض کا ہوجائے۔ اس لئے کہ اس عشرہ میں اس پر حائضہ ہونے کا حکم لگارہا۔ اور اس کی عادت بھی اس کے خلاف نہیں (پہلی دفعہ حیض آنے کی وجہ سے دراصل اس کی سرے سے ہی کوئی عادت نہیں تو پھر خلاف ہونے کا کیا سوال) ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سب یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا خون دس دن سے کم عرصے میں منقطع ہوجاتا تو یہ ساراعرصہ حیض شمار ہوتا۔ اس لئے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ دس دن پر بھی حیض کا ہی حکم لگے گا اور اس حکم کو توڑنا اسی وقت د رست ہوگا جبکہ کوئی دلالت موجود ہو۔ اگر اقل مدت سے زائد مدت کے ایام حیض ہونے میں شک ہوتا جبکہ اکثر مدت سے زائد مدت بھی موجود ہو تو پھر بھی یہ بات بہتر ہوتی کہ شک کی وجہ سے اس مدت میں کمی نہ پیدا کی جائے جس پر ہم نے ایام حیض ہونے کا حکم لگا دیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے اس مہینے کے متعلق جس کے آخر میں رویت ہلال نہ ہو سکے تیس دن پورے کرنے کا حکم لگا دیا۔ آپ کا قول ہے فان غم علیکم فعدواثلاثین، اگر رکاوٹ کی وجہ سے رویت ہلال نہ ہو سکے تو تیس دن کی گنتی کرلو) چونکہ مہینے کی ابتداء یقین کی حالت میں ہوئی تھی۔ اس لئے حضور ﷺ نے شک کی بنا پر اس کے اختتام کا حکم نہیں دیا اگر یہ کہا جائے کہ جس عورت کی عادت دس دن سے کم کی ہو اور پھر کسی ماہ خون زیادہ دنوں تک آتا رہا تو ایسی صورت میں ا سے اس کی عادت کی طرف لوٹایا جائے گا اور ابتداء میں اس کی عادت سے زائد دنوں پر ہماری طرف سے حیض کا حکم لگانا اب اس کی عادت کا اعتبار کرنے سے مانع نہیں ہوا (اس سے یہ معلو م ہوا کہ ابتداء میں عادت سے زائد دنوں پر حیض کا حکم لگانا درست نہیں تھا) ۔ اسی طرح وہ عورت جس نے اپنے ایام کے شروع میں خون دیکھ لیا اسے ترک صلوۃ کا حکم دے دیا گیا خواہ وہ خون تین دن سے کم مدت تک ہی کیوں نہ جاری رہا ہو، جب تین دن سے پہلے خون آنا بند ہوجائے تو ہم حکم لگائیں گے کہ جو خون اس نے دیکھا تھا وہ حیض کا خون نہیں تھا۔ اور اگر تین دن مکمل ہوگئے تو ہم کہیں گے کہ یہ حیض تھا (یہ کیسی بات ہوئی کہ شروع میں ہم ایک خون پر حیض ہونے کا حکم لگا کر نماز چھوڑنے کے لئے کہتے ہیں پھر بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ حیض کا خون نہیں ہے) ۔ ان دونوں اعتراضات کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جس عورت کے ایام معروف و متعین ہوں، اس کے زائد دنوں پر حیض کا جو حکم لگایا جاتا ہے وہ دراصل قطعی نہیں ہوتا بلکہ اس کی قطعیت کا ابھی انتظار ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب حیض دس دنوں کے اندر منقطع ہوجائے اس لئے کہ حضور ﷺ کا مستحاضہ کے متعلق یہ ارشاد ہے کہ تدع الصلوۃ ایام اقراء ھا) ۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ زائد دنوں کے متعلق انتظار کیا جائے کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کے ایام حیض معروف و متعین ہیں لیکن جس عورت کو پہلی دفعہ حیض آیا ہو اس کی عادت اور اس کے ایام معلوم نہیں ہوتے جن کا اعتبارا کرلیا جائے اس لئے دس دن میں بھی اس کا خون دیکھنا اس بات کا متقاضی نہیں ہوگا کہ اس خون کے متعلق آخری فیصلے کے سلسلے میں انتظار کیا جائے۔ بلکہ ہمارے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ ایسی عورت جسے پہلی دفعہ حیض کا خون آیا ہے اس نے دس دن کے اندر جو دیکھا وہ اس کی عادت کی طرح ہوگا اور یہی آگے چل کر اس کے لئے ایام اور وقت بن جائے گا۔ جب بات اس طرح ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ اس نے دس دنوں میں جو خون دیکھا ہے اس کے حکم کا انتظار کیا جائے بلکہ واجب ہوگا کہ اس خون پر حیض کا حکم لگا دیا جائے کیونکہ اس جیسا خون حیض ہوسکتا ہے۔ رہ گئی وہ عورت جس نے اپنا اول ایام میں خون دیکھا اور ہم نے اس پر اس لحاظ سے حیض کا حکم لگا دیا کہ اسے نماز اور روزہ چھوڑنے کا حکم دے دیا اور پھر تین دن سے کم عرصے میں خون کا انقطاع اسے حیض کے حکم سے نکال دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے ابتداء میں لگایا گیا حیض کا حکم قطعی نہیں تھا بلکہ اس کی قطعیت کا انتظار تھا کیونکہ ہمیں یہ علم تھا کہ اقل حیض کی ایک مقدار ہے کہ جب اس مقدار سے خون آنے کی مدت ہوگی تو یہ خون حیض نہیں ہوگا۔ اس بناپر اس پر لگایا ہوا حکم انتظار کے تحت رہا۔ اس کے برعکس ایسی عورت کا جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہے تین دن تک حیض کا خون دیکھنے کے بعد اس کی کوئی ایسی حالت نہیں تھی جس کی رعایت کی جائے اور اس کا انتظار کیا جائے اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ سارا عشرہ حیض شمار کیا جائے کیونکہ ایسی کوئی دلالت موجود نہیں تھی جو اس سے کم مدت پر اقتضاء کو واجب کردیتی۔ امام ابویوسف نے ایسی عورت کو اس عورت کے بمنزلہ قرار دیا جس کا حیض پانچ یا چھ دن رہتا ہے اور چھٹے دن میں اسے شک رہتا ہے پھر سب کا یہ قول ہے کہ ایسی عورت نماز کے معاملے میں حیض کی کم سے کم مدت کا اعتبار کریگی اسی طرح میراث اور رجعت کے معاملے میں بھی اسی مدت کا اعتبار کرے گی اور ازدواجی تعلق کے معالمے میں حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت یعنی دس دن کا اعتبار کرے گی۔ اس کا یہ اعتبار احتیاط کے طور پر ہوگا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جسے پہلی دفعہ حیض آیا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا صورت ہمارے مسئلے کی نظیر نہیں ہے اس وجہ سے کہ اس عورت کے حیض کے معلوم ایام تھے ہم نے پانچ دن کا یقین کرلیا اور چھٹے دن کے متعلق ہم نے شک کیا نماز اور روزے کے معاملے میں ہم نے احتیاط کا پہلو اختیار کیا اور ازدواجی تعلق کے بارے میں بھی ہم نے احتیاط کیا اور شک کی بنا پر اس کی اباحت کا حکم نہی دیا۔ اس کے برعکس ایسی عورت جسے پہلی مرتبہ حیض آیا ہے اس کے لئے حیض کے ایام نہیں ہوتے جن کا اعتبار کرنا واجب ہو۔ اس لئے اگر وہ ایسا خون دیکھے جو حیض کا خون بن سکتا ہو تو وہ حیض ہوگا۔ اسے اقل حیض کی طرف لوٹانے کا کوئی معنی نہیں۔ اس لئے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی دلالت نہیں ہے جو اس کو واجب کر دے۔ اس جہت سے بھی یہ قول فاسد ہے کہ اقل حیض اس کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے اقل حیض اور اس سے بڑھ جانے والے حیض میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کہ دونوں صورتوں میں اقل حیض کی طرف لوٹانے کا وجوب ممتنع ہے۔ اس صورت میں اس خون پر حیض ہونے کا حکم لگانے اور اس حکم کو منقوص کرنے کی دلالت کو ختم کرنے کے لئے حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت کا اعتبار کرنا واجب ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر یہ چیز بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نابالغ لڑکی اور سن یاس کو پہنچ جانے والی عورت دونوں کی عدت کی مدت حیض کی بجائے تین مہینے رکھی اور اس طرح ہر حیض اور طہر کے بدلے ایک مہینہ رکھ دیا گیا۔ یہ صورتحال اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی عورت کو خون جاری ہوجائے اور پہلے سے ایام حیض کے سلسلے میں اس کی کوئی عادت نہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایک حیض اور ایک طہر مکمل کرے اور یہ تو ظاہر ہے کہ طہر کی زیادہ سے زیادہ مدت کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہے جبکہ حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت کے لئے ایک حد مقرر ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ حیض کی اکثر مدت گزارے اور مہینے کے باقی دن طہر کے ہوجائیں۔ اس لئے کہ مہینے کے باقی دنوں میں حیض کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے اس لئے اسی کا اعتبار کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اس بنا پر یہ ضروری ہوگا کہ مہینے کے باقی ماندہ دنوں میں جس طہر کا اعتبار کیا گیا ہے یہ وہ طہر ہو جو حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد باقی رہ جائے آپ نہیں دیکھتے کہ اگر آپ حیض کی مدت دس دن سے گھٹا دیں گے تو آپ کو حیض کے گھٹائے ہوئے دنوں کو طہر میں بڑھانے کی ضرورت پڑجائے گی جبکہ طہر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ سات دنوں کو طہر میں بڑھانے کی ضرورت پڑجائے گی جبکہ طہر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ سات دنوں کا ہو تو اس کا اس طرح ہونا پانچ دنوں یا چھ دنوں کے ہونے سے اولیٰ نہیں ہوتا یعنی دنوں کی کمی بیشی سے طہر کی کیفیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بنا پر یہ واجب ہے کہ حیض کی اکثر مدت یعنی دس دن کا اعتبار کر کے مہینے کے باقی دنوں کو طہر شمار کرلیا جائے۔ پہلی دفعہ حیض کا خون دیکھنے والی اس عورت کے لئے ایک ماہ میں حیض اور طہر دونوں کو پورا کرلینے کے وجوب پر حضور ﷺ کا وہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ ﷺ نے حمنہ ؓ سے فرمایا تھا تحیضی فی علم اللہ ستاً اوسبعاً کما تحیض النساء کل شھر۔ اس میں آپ نے یہ بتادیا کہ ہر ماہ عورتوں کی عادت ایک حیض اور ایک طہر کی ہوتی ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ایسی عورت کے لئے آپ نے چھ یا سات دنوں کا کیوں نہیں اعتبار کیا جبکہ حدیث میں اس کا ذکر ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم نے کچھ وجوہ کی بنا پر اس کا اعتبار نہیں کیا۔ اول یہ کہ ہم نے کسی اہل علم کو ایسی عورت یعنی پہلی دفعہ حیض کا خون دیکھنے والی کے متعلق ایسا کہتے ہوئے نہیں سنا اور نہ ہی ہمارے علم میں اس کا کوئی قائل ہے۔ دوم یہ کہ چھ یا سات دن کی عادت اس خاتون کی تھی جس کو اس حدیث میں مخاطب کیا گیا ہے یعنی حضرت حمنہ ؓ اس بنا پر دوسری عورتوں میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اس بیان کی روشنی میں حدیث سے ہمارا استدلال صحیح ہے۔ اس لئے کہ ہم نے اس حدیث سے ایک ماہ میں متعارف اور متعاد صورت میں ایک حیض اور طہر کو ثابت کرنا چاہا ہے۔ جو ہم نے ثابت کردیا۔ جو لوگ پہلی دفعہ حیض کا خون دیکھنے والی عورت کے مسلسل جریان خون کی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اتنے دن حیض کے شمار کرے گی جتنے دن اس کے خاندان کی عورتیں کرتی ہیں (یاد رہے کہ یہ ابراہیم نحعی کا قول ہے) ان کے اس قول کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے مستحاضہ کو اس کے خاندان کی عورتوں کی عادت اور مدت حیض کی طرف نہیں لوٹایا تھا بلکہ ایک عورت کو اس کی اپنی عادت اور مدت کی طرف لوٹایا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ وہ اپنے حیض کے ایام کی مقدار بیٹھ رہے گی یعنی حیض گزار دے گی جبکہ دوسری کو یہ حکم تھا کہ وہ چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہے بیٹھ رہے گی۔ ایک اور خاتون کو آپ نے ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم دیا تھا آپ نے ان میں سے کسی خاتون کو اپنے خاندان کی عورتوں کے حیض کے ایام کی مقدار بیٹھنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ نیز اپنے خاندان کے عورتوں اجنبی عورتوں اور عمر میں اپنے سے بڑی یا چھوٹی عورت کے ایام حیض ایک جیسے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان عورتوں کی عمروں کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں ہوتا لیکن حیض کی عادت میں فرق ہوتا ہے۔ اس بنا پر اپنے خاندان کی عورتوں کی اس سلسلے میں دوسری عورتوں کے مقابلے میں کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اہل علم کا اس قول باری ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن۔ ان کے قریب بھی نہ جائو جب تک یہ پاک نہ ہوجائیں جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جائو ) کی تفسیر و تشریح میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ حیض کا خون بند ہوتے ہی ہمبستری کی اباحت ہوجاتی ہے اور اس میں حیض کے اقل یا اکثر مدت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے جبکہ دوسرے اہل علم کا قول ہے کہ خواہ حیض کی اقل مدت ہو یا اکثر خون بند ہوجانے کے بعد جب تک غسل نہیں کریگی اس سے ہمبستری جائز نہیں ہوگی امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اس کا خون دس دن سے کم مدت میں بند ہوجائے تو جب تک وہ غسل نہ کرلے بشرطیکہ اسے پانی میسر ہو یا اس پر ایک نمازکا وقت گزر نہ جائے وہ حائضہ کے حکم میں رہے گی۔ اگر ان دو باتوں میں سے ایک وقوع پذیر ہوجائے تو وہ حیض سے نکل جائے گی اور شوہر کے لئے ہمبستری بھی جائز ہوجائے گی اور آخری حیض کی صورت میں اس کی مدت بھی گزر جائے گی۔ اگر اس کے ایام دس دن کے ہوں تو دس دن گزرنے کے ساتھ ہی حیض کا حکم مرتفع ہوجائے گا اور شوہر سے ہمبستری کی اباحت یا عدت گزر جانے یا اس طرح کے اور مسائل کے لحاظ سے اس کی حیثیت ایک اجنبی عورت کی سی ہوگی۔ جو لوگ حیض کے دن گزر جانے اور خون کے منقطع ہونے کے ساتھ ہی غسل کرنے سے پہلے درج بالا تمام صورتوں میں وطی کی اباحت کے قائل ہیں ان کا استدلال قول باری ولا تقربوھن حتی یطھرن۔ پر ہے ان کا کہنا ہے کہ حرف حتی غایت کے لئے آتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے مابعد کا حکم غایت کے حکم کے خلاف ہو۔ اسی طرح آیت میں خون منقطع ہوتے ہی وطی کی اباحت کے لئے عموم ہے اس کی مثالیں قرآن مجید کی ان آیات میں ملتی ہیں حتی مطلع الفجر۔ طلوع فجر تک) اور فقاتلوا التی تبغی حتی تفی الی امر اللہ۔ تو اس گروہ سے جنگ کرو جس نے بغاوت کی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے) ۔ نیز ولاجنباً الاعا بری سبیل حتی تغتسلوا۔ اور نہ ہی حالت جنابت میں نماز کے قریب جائو جب تک غسل نہ کرلو اللہ کہ راستے کو عبور کر رہے ہو یعنی سفر کی حالت میں ہو ) ان آیات میں حتی کے ذریعے ذکر کردہ امور کی نہایتیں بیان کی گئی ہیں اور حتی کے مابعد کا حکم ان نہایتوں کے حکم کے خلاف ہے۔ اسی طرح قول باری حتی یطھرن کا حکم ہے جب اس کی قرات تخفیف طاء اور ھاء کے ساتھ کی جائے اس صورت میں اس کا معنی انقطاع الدم یعنی خون کا بند ہوجانا ہوگا ان کا کہنا ہے کہ اس کی قرات تشدید کے ساتھ بھی ہوئی ہے۔ اس صورت میں اس میں اسی معنی کا احتمال ہوگا جو تخفیف کی قرات میں ہے یعنی اس سے انقطاع دم مراد لیا جائے گا کیونکہ جب عورت کا خون آنا بند ہوجائے تو یہ کہنا بھی جائز ہے کہ طھرت المراۃ اور یہ بھی کہ تطھرت المراۃ جس طرح کہ یہ کہا جاتا ہے کہ تقطع الجل رسی ٹوٹ گئی یا تکسرالکوز، کوزہ ٹوٹ گیا۔ اس میں تقطع بمعنی اتقطع اور تکسر، بمعنی انکسر ہوتا ہے۔ ان جملوں کا یہ مقتضیٰ نہیں ہوتا کہ جن چیزوں کی طرف ان افعال کی نسبت ہوئی ہے وہ خود یہ فعل کریں دوسرے الفاظ میں یہ فعل لازم ہوتے ہیں نہ کہ متعدی۔ جن لوگوں کا یہ فعل ہے کہ جب تک عورت حیض سے پاک ہو کر غسل نہ کرے اس وقت تک درج بالا تمام صورتوں میں وطی کی ممانعت ہوتی ہے ان کا استدلال قول باری فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ۔ جب یہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس اسی طریقے سے جائو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے) ۔ پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں اباحت وطی کی دو شرطیں بیان ہوئی ہیں خون کا بند ہوجانا اور غسل کرلینا۔ اس لئے کہ قول باری فاذا تطھرن میں غسل کے سوا اور کسی معنی کا احتمال نہیں۔ اس کی مثال کسی قائل کا یہ قول ہے لاتعط زیداً دیناراً حتی یدخل الداز فاذا خلھا وقعد فیھا فاعطہ دیناراً (زید کو اس وقت تک ایک دینار نہ دو جب تک وہ گھر میں داخل ہو کر وہاں بیٹھ نہ جائے یعنی دونوں باتوں پر موقوف ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ فان طلقھا فلاجناح علیھما ان یتراجعا۔ یہ عورت اس طلاق کے بعد اپنے پہلے شوہر کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے پھر اگر وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر رجوع کرلینے میں کوئی گناہ نہیں ہوگا) ۔ آیت میں پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے کے لئے دو باتوں کی شرط لگائی گئی ہے اور ان میں سے ایک کے ذریعے وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ اسی طرح قول باری فاذا تطھرن فانوھن۔ وطی کی اباحت کے لئے دو باتوں کے ساتھ مشروط ہے۔ اول طہر جو کہ خون بند ہونے کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور دوم غسل۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری حتی یطھرن جب تخفیف کے ساتھ پڑھا جائے تو اس سے مراد خون کا بند ہونا ہے نہ کہ غسل کرنا۔ اس لئے کہ اگر حیض کی حالت میں غسل کرلے تو اس سے وہ پاک نہیں ہوگی۔ اس لئے قول باری حتی یطھرن صرف ایک معنی کا احتمال رکھتا ہے اور وہ ہے خون کا بند ہوجانا جس کے ذریعے وہ حیض سے نکل آتی ہے لیکن اگر اس کی قرات تشدید کے ساتھ کی جائے تو اس میں دو باتوں کا احتمال پیدا ہوگا۔ انقطاع دم اور غسل جیسا کہ ہم ابھی بیان کر آئے ہیں اس بنا پر تخفیف کی قرات محکم ہوگی اس لئے کہ اس میں صرف ایک معنی مراد ہوگا اور تشدید کی قرات متشابہ کیونکہ اس میں دو معنوں کا احتمال ہے اور متشابہ کا حکم یہ ہے کہ اسے محکم پر محمول کیا جائے اور محکم کی طرف لوٹایا جائے۔ اس طرح دونوں ق راتوں کا معنی یکساں ہوجائے گا۔ اور ان دونوں کا ظاہر خون بند ہوتے ہی جو دراصل حیض سے خروج ہے وطی کی اباحت کا مقتضی ہوگا۔ قول باری فاذا تطھرن میں دونوں معنوں کا احتمال ہے جو حتی یطھرن کی تشدید والی قرات میں ہے اور یہ بمنزلہ اس قول کے ہوگا۔ ولاتقدبوھن حتی یطھرن فاذاتطھرن فاتوھن۔ اس صورت میں یہ بالکل درست اور مستقیم کلام ہوگا جس طرح کہ آپ یہ کہتے ہیں لا تعطہ حتی یدخل المداد فاذا دخلھا فاعطہ۔ اس صورت میں یہ غایت کے حکم کی تاکید ہوگا۔ اگرچہ اس کا حکم ماقبل کے حکم کے خلاف ہے جب اس میں اس طریقے پر احتمال کی گنجائش ہے جو ہم نے بیان کیا ہے اور غایت کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا بھی ضروری ہے تو ظاہر آیت جس چیز کا متقاضی ہے وہ یہی ہے کہ خون بند ہوتے ہی جس کے ذریعے حیض سے خروج عمل میں آجاتا ہے وطی کی اباحت ہوجاتی ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی اس میں احتمال پایا جاتا ہے وہ یہ کہ قول باری فاذاتطھرن کا معنی فاذاھل لھن ان یتطھرن بالماء اوالتیم ہے یعنی جب ان کے لئے پانی یا تیمم کے ذریعے پاک ہونا حلال ہوجائے جس طرح کہ یہ قول رسول اللہ ﷺ ہے اذا غابت الشمس فقد افطرالصائم۔ جب سورج غروب ہوجائے تو روزے دار کا روز کھل جاتا ہے) اس کا معنی ہے فقد حل لہ لافطار۔ یعنی اس کے لئے روزہ کھولنا حلال ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آپ کا قول ہے من کسواوعرج فقد حل وعلیہ المحج من قابل۔ جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہوجائے تو اس کا احرام کھل گیا اور اس پر اگلے سال کا حج ہے) اس کا معنی ہے فقد جازلہ ان یحل یعنی اس کے لئے احرام کھولنا جائز ہوگیا یا جس طرح کسی مطلقہ عورت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اذا انقضت عدتھا فقد حلت لازدواج “ جب اس کی عدت گزر جائے تو وہ ازدواج کے لئے حلال ہوگئی) اس کا معنی ہے فقد حل لھا ان تتزوج یعنی اس کے لئے نکاح کرنا حلال ہوگیا۔ یہی مفہوم ہے اس قول کا جو حضور ﷺ نے فاطمہ ؓ بنت قیس سے فرمایا تھا۔ اذاحللت فاذنینی جب آیت میں اس معنی کا احتمال مان لیا جائے گا تو غایت کے مابعد بھی دحلی کی ممانعت سے غایت اپنے حقیقی معنی سے نہیں ہٹے گا۔ قول باری فلاتحل لہ من بعد حتی تنلح زوجاً غیرہ۔ میں غایت اپنے حقیقی معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور دوسرے شوہر کا نکاح یعنی اس عورت کے ساتھ اس کی ہمبستری ہی وہ چیز ہے جو تین طلاقوں کی وجہ سے واقع تحریم کو ختم کردیتی ہے۔ دوسرے شوہر کا وطی کرنا اس کے لئے مشروط ہے دوسرے شوہر کی طرف سے طلاق ملنے سے قبل اس کی وطی کے ساتھ ہی تحریم رفع ہوجاتی ہے دوسرے شوہر کی طرف سے طلاق اس تحریم کو ختم کرنے کے لئے شرط نہیں ہے اس بنا پر آیت میں ہمارے بیان کے مطابق امام شافعی کے لئے اپنے مسلک کی صحت کو ثابت کرنے کی غرض سے کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی ان ک مخالفین کے قول کی نفی کے لئے کوئی دلیل ہے۔ جہاں تک ہمارے مسلک کا تعلق ہے تو اس کی رو سے آیت اپنی تاویل کے احتمال کے لحاظ سے دو حالتوں میں اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہوگی یعنی ان دونوں حالتوں میں اس پر عمل کرنا ممکن ہوگا جس کی تفصیل درج ذیل ہے اگر قول باری یطھرن کی قرات تخفیف کے ساتھ کی جائے تو یہ اپنے حقیقی معنی میں اس عورت کے مسئلے میں قابل عمل ہوگا جس کے حیض کے ایام دس دن کے ہوں۔ اس صورت میں شوہر کے لئے دس دن گزر جانے کے ساتھ ہی وطی کرنا مباح ہوگا اور قول باری یطھرن تشدید کی قرات کے ساتھ اور قول باری فاذا تطھرن دونوں پر عمل غسل کی صورت میں ہوگا جبکہ اس کے ایام دس دن سے کم ہوں اور ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے کیونکہ ہمارے پاس اس کی دلیل موجود ہے کہ ایک نمازکا وقت گزرجانا وطی کو مباح کردیتا ہے ہم عنقریب اس کی وضاحت کریں گے۔ اس صورت میں دونوں فعلوں میں سے کسی کو بھی مجازی معنی میں استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ دونوں اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ دونوں ق راتوں کو دو آیتیں قرار دے کر ان دونوں پر بیک وقت اور ایک ہی حالت میں عمل کرلیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ہم ان کو دو آیتیں قرار دے دیں پھر بھی جو بات ہم نے کہی ہے وہ اولی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دو آیتیں ایسی اتریں کہ ایک انقطاع دم کو وطی کی اباحت کی غایت قرار دیتی اور دوسری غسل کو اس کی اباحت کی غایت ٹھہراتی تو اس صورت میں دو حالتوں میں ان پر اس طرح عمل کرنا واجب ہوتا کہ ان میں سے ہر ایک کو غایت کے حکم کے سلسلے میں اس کے مقتضیٰ کے مطابق حقیقی معنی پر برقرار رکھا جاتا یہ صورت صرف اسی وقت ممکن ہے جب دو حالتوں کے اندر ان پر اس طریقے سے عمل کیا جائے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں )
Top