Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 223
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ١۪ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ١٘ وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نِسَآؤُكُمْ : عورتیں تمہاری حَرْثٌ : کھیتی لَّكُمْ : تمہاری فَاْتُوْا : سو تم آؤ حَرْثَكُمْ : اپنی کھیتی اَنّٰى : جہاں سے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقَدِّمُوْا : اور آگے بھیجو لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے وَاتَّقُوا : اور دوڑو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم مُّلٰقُوْهُ : ملنے والے اس سے وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ اور اپنے لیے (نیک عمل) آگے بھیجو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمہیں اس کے رو برو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر ﷺ ایمان والوں کو بشارت سنادو
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اگر ہم ان کو ہمارے مخالف کے قول کے مطابق عمل میں لائیں تو اس صورت میں دو میں سے ایک غایت کا اسقاط لازم آئے گا کیونکہ ہمارا مخالف یہ کہتا ہے کہ اگر حائضہ پاک بھی ہوجائے اور اس کا خون رک بھی جائے پھر بھی غسل سے پہلے وطی کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر ہم اس بات کو اپنے مخالف کے خلاف ابتدائی دلیل کے طور پر استعمال کریں تو ہمارے لئے اس کی گنجائش ہے اور ہماری یہ دلیل اسے مطمئن کرسکتی ہے ہمارے اصحاب نے اس عورت کے متعلق جس کے ایام دس دن سے کم ہوں اور اس کا خون رک جائے وطی کی اباحت کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ یا تو وہ غسل کرے لے یا اس پر ایک نمازکا وقت گزر جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ دوبارہ خون جاری ہوجائے اور یہ خون حیض بن جائے کیونکہ ہر طہر جسے عورت دیکھتی ہے صحیح طہر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ حائضہ عورت کبھی خون کہ بہتا ہوا دیکھتی ہے اور کبھی رکا ہوا۔ اس لئے خون کا ایسے وقت میں رک جانا جس میں حیض آسکتا ہو اس امر کا سبب نہیں بن سکتا کہ اس پر زوال حیض کا حکم لگا دیا جائے۔ اس لئے ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے ایسی عورت میں انقطاع دم کا اعتبار دو میں سے ایک شے کے ذریعے کیا جائے گا یا تو غسل کرلے کہ اس کے ساتھ حیض کا حکم اس سے زائل ہوجائے گا اس پر سب کا اتفاق ہے غسل کرنے کے ساتھ نماز پڑھ لے کیونکہ نمازحیض کے حکم کے منافی ہے۔ اس لئے نماز کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جائے گا کہ اس کا حیض ختم ہوگیا یا اس پر ایک نماز کا وقت گزر جائے وقت گزر جانے کے ساتھ اس پر فرض نماز لازم ہوجائے گی اور فرض نماز کالزوم حکم حیض کے بقاء کے منافی ہے کیونکہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ حائضہ کو نماز کی فرضیت لازم ہوجائے۔ اس دوسری صورت میں جب حیض کا حکم منتفی ہو کر طہر کا حکم ثابت ہوجائے گا اور صرف غسل کرنا باقی رہ جائے گا تو یہ وطی سے مانع نہیں ہوگا جس طرح کہ ایک جنبی عورت کی حیثیت ہوتی ہے وہی اس کی ہوجائے گی اور ظاہر ہے کہ اگر اجنبی عورت سے اس کا شوہر ہمبستری کرے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہوتا ہے۔ صحابہ کرام سے عدت کی مدت کے اختتام کے لئے غسل کے اعتبار کی جو روایات منقول ہیں وہ ہمارے نزدیک اسی معنی پر محمول ہوں گی۔ عیسیٰ الخیاط نے شعبی سے اور انہوں نے تیرہ صحابہ سے یہ روایت نقل کی ہے جن میں حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ شامل ہیں ان سب کا قول ہے کہ مرد اپنی بیوی کا زیادہ حق دار ہوتا ہے جب تک وہ تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔ اس قسم کی روایت حضرت علی ؓ ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ اور حضرت ابودرد ؓ سے بھی ہے۔ جب عورت کے ایام دس دنوں کے ہوں تو ہمارے نزدیک دس دنوں کے بعد حیض کا وجود نہیں ہوتا اس لئے دس دنوں کے بعد اس پر حیض گزر جانے کا حکم لگانا واجب ہوگا اس لئے کہ اب اس کے حکم کے بقاء کا جواز ممتنع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے تو صرف حائضہ یا ایسی عورت کی ہمبستری سے منع فرمایا ہے جس کا حیض آسکتا ہو۔ لیکن جب حیض کا حکم مرتفع ہوجائے اور حیض زائل ہوجائے تو اب ہمبستری میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن۔ اور اب وہ لامحالہ پاک ہوچکی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ عدت گزار رہی ہو تو اس کے ساتھ اس کی عدت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم وہی ہوتا ہے جو طہر والی دوسری عورتوں کا ہے۔ وطی کی ممانعت کے لئے غسل کے وجوب کا کوئی اثر نہیں ہوتا یعنی غسل سے پہلے وطی کا جواز ہوجاتا ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب دس دن سے کم مد ت میں اس کا خون بند ہوجائے تو اس پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور غسل کالزوم حکم حیض کے بقاء کے منافی ہے کیونکہ یہ بالکل درست نہیں ہے کہ حائضہ عورت کے لئے غسل لازم ہو جیسا کہ آپ نے نماز کی فرضیت کے سلسلے میں بیان کیا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب غسل حیض کے موجبات اور لوازم میں سے ہے تو اس کا لزوم حیض کے حکم اور اس کی بقاء کے منافی نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب سلام پھیرنا نماز کی تحریمہ کے موجبات میں سے ہے تو نماز کے آخر تک اس کے لزوم کی انتہاء نماز کی بقاء کے حکم کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح حلق یعنی سر کے بال جب صاف کرانا احرام کے موجبات میں سے ہے تو جب تک وہ حلق نہ کرالے اس وقت تک اس کالزوم احرام کی بقاء کے منافی نہیں ہے۔ اسی طرح غسل جب حیض کے موجبات میں سے ہے تو حائضہ پر اس کا وجوب حیض کے حکم کی بقاء کے لئے مانع نہیں ہے۔ رہ گئی نماز جس کی معترض نے مثال دی ہے تو وہ حیض کے موجبات میں داخل ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک علیحدہ حکم ہے جس کالزوم طہر والی عورتوں کے ساتھ نہیں۔ اگر ان کے ساتھ نماز کالزوم ہوجائے تو اس سے حیض کے حکم کی نفی لازم آئے گی اور قول باری حتی یطھرن فاذا تطھرن میں چونکہ غسل کا بھی احتمال موجود ہے۔ اس لئے یہ بمنزلہ قول باری وان کنتم حنباً فاطھروا۔ اور اگر تم ناپاکی کی حالت میں ہو تو خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرلو کے ہوجائے گا اور اس پر دلالت کرے گا۔ حائضہ پر حیض ختم ہوجانے کے بعد غسل واجب ہے۔ یہ بات حضور ﷺ سے بھی مروی ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ قول باری ہے فاذا اتطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ، جب یہ پاک ہوجاتیں تو ان کے پاس اسی طریقے سے جائو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس میں ممانعت کی بنا پر لگی ہوئی پابندی اٹھانے اور اباحت کو بحال کرنے کی بات کی گئی ہے اس میں وجوب کی بات نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض۔ جب جمعہ کی نماز ہوجائے تو زمین میں بکھرجائو) یا واذا حللتم فاصطادوا، جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو) ان دونوں آیتوں میں جو حکم ہے وہ دراصل اباحت ہے جو ممانعت کے بعد وارد ہوئی ہے وجوب نہیں ہے کہ نماز جمعہ کے بعد زمین میں بکھر جانا یا احرام کھول کر شکار کرنا ضروری ہے۔ قول باری من حیث امرکم اللہ۔ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ فرج میں عمل جنسی کیا جائے یہی وہ جگہ ہے جس سے حیض کی حالت میں درد رہنے کا حکم اس سلسلہ کلام کے آغاز میں دیا گیا تھا چناچہ فرمان تھا فاعتزلوا النساء فی المحیض۔ سدی اور ضحاک کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ طہر کے زمانے میں بیویوں سے قربت اختیار کرو نہ کہ حیض کے زمانے میں۔ ابن الحنفیہ کا قول ہے کہ نکاح کے واسطے سے قربت اختیار کرو نہ کہ بدکاری کے واسطے سے ابوبکر حبصاص کہتے ہیں یہ تمام معانی اللہ کی مراد ہیں۔ اس لئے کہ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے اس لئے یہ تمام معانی آیت کے ذیل میں آجائیں گی۔ قول باری ہے ان اللہ یحب التوابین ویحب المتنطھوین۔ بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں) عطاء سے مردی ہے کہ المتطھرین بالماء للصلوۃ یعنی وہ لوگ جو نماز کے لئے پانی سے طہارت حاصل کرتے ہیں مجاہد کا قول ہے المتطھرین من الذنوب یعنی وہ لوگ جو گناہوں سے پاک رہتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عطاء کا قول زیادہ مناسب ہے کیونکہ آیت میں طہارت کا ذکر گزر چکا ہے چناچہ قول باری ہے فاذا تطھرن فاتوھن۔ اس لئے اس سے مراد نماز کے لئے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا ہے زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ قول باری ویحب المتطھرین ان لوگوں کی مدح ہو جو نماز کے لئے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرتے ہیں۔ قول باری ہے فیہ رجال یحبون ان یتطھرو ا واللہ یحب المتطھرین۔ اس مسجد میں ایسے لوگ ہیں جو پاکیزگی اختیار کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) روایت میں ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی اس لئے مدح کی ہے کہ وہ لوگ پانی کے ذریعے استنجا کرتے تھے۔ (آیت 222 ۔ کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔ تفسیر آیت 223: قول باری ہے نسائوکم جدث لکم فالواحرثکم انی شئتم تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو) حرث سے مراد تخم ریزی کی جگہ یعنی کھیتی ہے یہاں یہ ہمبستری سے کنایہ ہے۔ عورتوں کو حرث یعنی کھیتی اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ یہ اولاد کے لئے تخم ریزی کی جگہیں ہیں اور قول باری فاتوا حرثکم انی شئتم۔ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ وطی کی اباحت فرج میں عمل جنسی تک محدود ہے اس لئے کہ فرج ہی کاشت کی جگہ ہے۔ عورتوں کے دبر میں عمل جنسی کرنے کے مسئلے میں اختلاف ہے ہمارے اصحاب اسے حرام قرار دیتے اور اس سے سختی سے روکتے تھے۔ یہی ثوری کا قول ہے اور مزنی کی روایت کے مطابق امام شافعی کا بھی یہی قول ہے طحاوی نے کہا ہے کہ ہمیں محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم نے بیان کیا کہ انہوں نے امام شافعی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ سے عورت کی دبر میں عمل جنسی کی تحلیل یا تحریم کے متعلق کوئی صحیح روایت منقول نہیں ہے۔ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ حلال ہے اصبغ بن الفرج نے ابن القاسم سے اور انہوں نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو جس کی دین کے معاملے میں اقتدا کرتا ہوں اس معاملے میں شک کرتے ہوئے نہیں پایا کہ یہ حلال ہے ۔ یعنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی سرانجام دینا پھر امام مالک نے یہ آیت پڑھی نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم انی شئتم۔ پھر کہا ” اس سے بڑھ کر اور کیا چیز واضح ہوگی مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے “۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے کہا کہ ہمارے پاس مصر میں لیث بن سعد ہیں جو حادث بن یعقوب سے حدیث بیان کرتے ہیں اور وہ ابوالحباب سعید بن یسار سے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ آپ لونڈیوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ہم ان کے لئے ” تحمیض “ نہ کریں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے پوچھا کہ تخمیض کیا شے ہے ؟ میں نے دبر کا ذکر کیا اس پر حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ” آیا کوئی مسلمان اس طرح بھی کرسکتا ہے “۔ یہ سن کر امام مالک نے کہا ” میں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ابوالحباب سعید بن یسار سے یہ بیان کیا کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ امام مالک کی یہ بات سن کر مجلس میں بیٹھا ہوا ایک شخص بول اٹھا ” ابوعبداللہ ؟ (امام مالک کی کنیت) آپ ہی تو کہتے ہیں کہ سالم نے یہ کہا تھا کہ اس غلام یا اس موٹے عجمی یعنی نافع نے میرے والد کی طرف غلط بات کی نسبت کی ہے جس طرح کے عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف غلط بات کی نسبت کی ہے “۔ یہ سن کر امام مالک نے کہا ” میں گواہی دیتا ہوں کہ یزید بن رومان نے مجھے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ یہ فعل کرتے تھے “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سلیمان بن بلال نے زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی کرلیا لیکن پھر اسے اس کا گہرادکھ ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی نساء کم حرث لکم فاتو وا حرثکم انی شئتم۔ اس روایت میں یہ نقص موجود ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سے زید بن اسلم کی سماع غیر معلوم ہے۔ فضل بن فضالہ نے عبداللہ بن عباس ؓ سے انہوں نے کعب بن علقمہ سے انہوں نے ابوالنضر سے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ کے آزاد کردہ غلام نافع سے پوچھا کہ تمہارے متعلق یہ بات کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ تم حضرت ابن عمر ؓ سے یہ نقل کرتے ہو کہ انہوں نے عورتوں کی دبر میں عمل جنسی کرنے کا فتوی دیا تھا۔ نافع نے یہ سن کر کہا کہ لوگوں نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک دن حضرت ابن عمر ؓ قرآن پاک کے نسخے کو جگہ جگہ سے کھول کر دیکھ رہے تھے۔ اچانک ان کی نظر اس آیت نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم پر پڑی، مجھے کہنے لگے ” نافع تمہیں اس آیت کے پس منظر کے متعلق کچھ پتہ ہے “۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمانے لگے ” ہم قریش کے لوگ عورتوں کو آغوش میں لے کر مباشرت کرتے تھے، انصار کی عورتوں نے یہودیوں سے کروٹ کے بل لیٹ کر ہمبستری کرنے کا طریقہ اخذ کیا تھا یہودی صرف اسی ہیت پر جماع کو جائز سمجھتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی یعنی اس میں ہر ئیت سے مباشرت کی اجازت مل گئی یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ نافع کی اس روایت میں بیان کردہ سبب حضرت ابن عمر ؓ سے زید بن اسلم کے بیان کردہ سبب سے مختلف ہے میمون بن مہران نے کہا ہے کہ نافع نے یہ بات یعنی عورتوں کی دبر میں عمل جنس کی حالت اس وقت کہی تھی جب بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور دماغی توازن بگڑ گیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام مالک سے مشہور یہی ہے کہ وہ ایتان دبر کی اباحت کے قائل تھے جبکہ اصحاب مالک اس کی قباحت اور شفاعت کی بنا پر اس کی نفی کرتے ہیں لیکن امام مالک سے یہ بات اس قدر مشہور ہے کہ صرف اس کی نفی کر کے اسے دور نہیں کیا جاسکتا ہے محمد بن سعید نے ابوسلیمان الجوزجانی سے نقل کیا ہے کہ میں مالک بن انس کے پاس موجود تھا۔ ان سے نکاح فی الدبر کے متعلق سوال کیا گیا، انہوں نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ ” میں ابھی اس کام سے فارغ ہو کر غسل کر کے آیا ہوں “۔ ابن القاسم نے بھی امام مالک سے اس کی نقل کی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں یہ مسئلہ فقہ کی کتابوں میں بھی درج ہے نیز محمد بن کعب القرظی سے منقول ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اور اس قول باری اتاتون الذکران من العالمین وتذرون ماخلق لکم ربکم من ازواجکم۔ کیا تم دنیا کی مخلوق میں سے مردوں کے پاس جاتے ہو اور تمہاری بیویوں میں تمہارے رب نے تمہارے لئے جو پیدا کیا ہے اسے چھوڑ دیتے ہو) کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ” تم اپنی بیویوں کے ساتھ اس جیسا فعل کرلو اگر تم چاہو “۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ عورتوں کے مقاعد حرام ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ فعل عمل قوم لوط کی چھوٹی شکل ہے۔ اس بارے میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایات مختلف ہیں اس لئے روایات کے تعارض کی بنا پر یہ سمجھا جائے گا کہ اس مسئلے کے بارے میں ان سے گویا کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ اباحت فرج میں عمل جنسی تک محدود ہے جو کہ موضع حرث یعنی تخم ریزی کا مقام ہے اور جہاں سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔ حضور ﷺ سے اس کی حرمت کے متعلق بہت سی روایات منقول ہیں۔ خزیمہ بن ثابت ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ اور طلق بن علی ؓ سب نے حضور ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا لاقاتوا النساء فی ادبارھن۔ عورتوں کی دبر میں عمل جنسی نہ کرو) عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے ان کے دادا سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایاھی اللوطیۃ الصغری۔ یہ فعل عمل قوم لوط کی چھوٹی شکل ہے ) یعنی عورتوں کی دبر میں عمل جنسی کرنا۔ حماد بن سلمہ نے حکیم اثرم سے انہوں نے ابوتمیمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا من اتی حائضاً اوامراۃ فی دبرھا فقد کفربماانزل علی محمد، جس شخص نے حائضہ عورت سے ہمبستری کی یا عورت کی دبر میں عمل جنسی کیا اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ شریعت کا انکار کردیا) ۔ ابن جریج نے محمد بن المنکدر سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی کہ یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا کہ جس شخص نے بیوی کے ساتھ عقب سے ہمبستری کی اس کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ بھینگا ہوگا۔ (دراصل یہودی صرف کروٹ کے بل لیٹ کر ہمبستری کو درست سمجھتے تھے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی نساء کم حرث لکم فاتواحرثکم انی شئتم۔ حضور ﷺ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا مقبلۃ مدبرۃ ماکان فی الفرج، مباشرت اندام نہانی میں ہونی چاہیے خواہ سامنے سے ہو خواہ پیچھے سے۔ حفصہ ؓ بنت عبدالرحمن نے حضرت ام سلمہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا فی صمام واحد ہمبستری ایک ہی ڈاٹ یعنی سوراخ فرج میں ہونی چاہیے) مجاہد نے حضرت ابن عباس ؓ سے آیت کی تفسیر میں اسی طرح فرمایا، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ” بچہ پیدا ہونے کی جگہ یعنی اندام نہانی میں جس ہیت میں چاہو عمل جنسی کرو “۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی، آپ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا یاینظو اللہ الی رجل اتی امرتہ فی دبرھا، اللہ تعالیٰ اس شخص پر نظر بھی نہیں ڈالے گا جو اپنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی کرے گا) ۔ طائوس نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے اس شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا جو اپنی بیوی کی دبر میں عمل جنسی کرتا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا ” سائل مجھ سے کفر کے متعلق پوچھتا ہے “ یعنی ایسی حرکت کفر ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے قول باری نساء کم حرث لکم۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا۔ اپنی بیویوں کے ساتھ جس طرح چاہوہمبستری کرو چاہو تو عزل کرلو یاچاہو تو عزل نہ کرو “۔ امام ابوحنیفہ نے کثیرالریاح الاصم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اس کی روایت کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے عزل کی صورت ہمارے نزدیک لونڈی کے ساتھ ہمبستری کے وقت درست ہے لیکن بیوی اگر حرہ ہو تو اس کی اجازت سے عزل کرنا درست ہوگا ہمبستری کے دوران مادہ تولید کو عورت کے رحم میں پہنچنے نہ دینا عزل کہلاتا ہے۔ ) ہمارے اس مسلک کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جو حضرت ابوبکر ؓ ۔ حضرت عمر ؓ حضرت عثمان ؓ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری والذین ھم لفروجھم حافظون الاعلی اندجھم واماملکت ایمانھم۔ مومن وہ ہیں جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ماسوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے) وطی فی الدبر کی اباحت کا مقتضی ہے کیونکہ اس میں اباحت کا درد کسی قید یا تخصیص کے بغیر علی الاطلاق ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فاتوھن من حیث امرکم اللہ۔ پھر آیات کی ترتیب میں یہ فرمایا فاتواحرثکم انی شئتم۔ تو اس کے ذریعے اس مقام کی وضاحت کردی جس کا امر کیا گیا ہے اور وہ تخم ریزی کا مقام فرج ہے۔ ہمبستری کی ممانعت کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اس کی مطلقاً اباحت کا ارادہ نہیں کیا بلکہ اس سے مراد بچے کی پیدائش گاہ ہے۔ اس لئے اجازت اب اسی مقام تک محدود ہے کسی اور مقام کے لئے اجازت نہیں ہے۔ تاہم اس آیت نے قول باری الاعلی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم۔ کا فیصلہ کردیا ہے جس طرح حائضہ عورت کے ساتھ ہمبستری کی ممانعت والی آیت نے قول باری الاعلی ازواجھم کا فیصلہ کردیا ہے۔ اس بنا پر معترض کی ذکر کردہ آیت کو حائضہ عورت کے حکم پر مشتمل آیت پر مرتب سمجھا جائے گا یعنی آیت زیر بحث کے حکم کو آیت حیض کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ جو لوگ عورت کی دبر میں عمل جنسی کو ممنوع سمجھتے ہیں ان کا استدلال اس قول باری سے ہے۔ قل ھواذیً اللہ تعالیٰ نے حائضہ عورت کے ساتھ حالت حیض میں پائی جانے والی گندگی کی بنا پر ہمبستری کی ممانعت کردی یہی گندگی اور نجاست غیر موضع الولد یعنی دبر میں ہر حال کے اندر موجود ہوتی ہے اس لئے اس علت کا اقتضاء ہے کہ موضع ولد یعنی فرج کے سوا کسی اور جگہ ہمبستری کے عمل کی اجازت نہ ہو۔ جو لوگ اس کی اباحت کے قائل ہیں وہ درج بالا استدلال کا اس طرح جواب دیتے ہیں کہ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ مستحاضہ کے ساتھ ہمبستری جائز ہے جبکہ اذی یعنی گندگی جو کہ دم استحاضہ ہے وہاں بھی موجود ہے اور استحاضہ کا خون اسی طرح نجس اور پلید ہے جس طرح حیض کا خون اور دوسری تمام نجاستیں۔ یہ لوگ موضع حرث یعنی فرج میں وطی کی اباحت کی تخصیص کا یہ جواب دیتے ہیں کہ مادون الفرج جماع پر سب کا اتفاق ہے جبکہ مادون الفرج یعنی فرج کے علاوہ نسوانی جسم کا کوئی اور حصہ مثلا ران وغیرہ اولاد کی پیدائش گاہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ وطی کی اباحت موضع ولد تک محدود نہیں ہے۔ انہیں اس کا یہ جواب دیا جائے گا کہ ظاہر آیت اس کا مقتضی ہے کہ اباحت وطی فرج تک محدود رہے اور یہی مراد خداوندی ہے کیونکہ آیت من حیث امرکم اللہ اس پر معطوف ہے اگر اجماع کی دلالت قائم نہ ہوجاتی تو مادون الفرج وطی کا جواز بھی پیدا نہ ہوتا لیکن ہم نے مادون الفرج جماع کو اس دلالت کی بنا پر تسلیم کرلیا اور ممانعت کا حکم اس جگہ کے لئے باقی رہا جس کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی۔
Top