Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ
: اور اگر
عَزَمُوا
: انہوں نے ارادہ کیا
الطَّلَاقَ
: طلاق
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
سَمِيْعٌ
: خوب سنے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے
قول باری ہے وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ اور اگر وہ طلاق کی ہی ٹھان لیں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ طلاق کی ٹھان لینے کے متعلق جبکہ وہ رجوع نہ کرے، سلف کا اختلاف درج ذیل ہے حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ چار ماہ گزر جانا عزیمت طلاق ہے یعنی یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس نے طلاق کی ٹھان لی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا یہی قول ہے۔ ان سب نے فرمایا ہے کہ مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی یعنی وہ عدت کے دوران رجوع نہیں کرسکے گا البتہ عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکے گا حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابوالدرداء سے اس بارے میں رویا ات مختلف ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان حضرات کا بھی وہی قول ہے جو پہلے گروہ کا ہے۔ دوسری روایت ہے کہ مدت گزرنے کے بعد بذریعہ عدالت اسے مطلع کیا جائے گا کہ یا تو وہ رجوع کرلے یا طلاق دے دے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابوالدرداء ؓ کا یہی قول ہے تیسرا قول سعید بن المسیب، سالم بن عبداللہ، ابوبکر بن عبدالرحمن، زہری، عطاء اور طائوس کا ہے کہ جب مدت گزر جائے گی تو اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی یعنی وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کرسکے گا۔ ہمارے اصحاب نے حضرت ابن عباس ؓ اور ان کے ساتھیوں کا قول اختیار کیا ہے کہ اگر رجوع کرنے سے پہلے چار ماہ کی مدت گزر جائے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا یہی قول ہے امام مالک، لیث بن سعد اور امام شافعی نے حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا قول اختیار کیا ہے کہ مدت گزر جانے کے بعد اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے گا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے طلاق کی صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب تک وہ عدت کے اندر اس سے وطی نہیں کرے گا اس کا رجوع درست نہیں ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مدت گزرنے کے بعد اگر عورت وطی سے دامن بچائے تو اس کے بعد بھی وہ وطی کا مطالبہ کرسکتی ہے اور جماع کے لئے ایک دن سے زائد کی مہلت نہیں دی جائے گی امام اوزاعی نے سعید بن المسیب اور سالم بن عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کا قول اختیار کیا ہے کہ مدت گزرنے کے ساتھ اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری وان عزموا الطلاق وان اللہ سمیع علیم) ان تمام وجوہ کا احتمال رکھتا ہے جو سلف کے اختلاف کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ اگر آیت میں ان وجوہ کا احتمال نہ ہوتا تو یہ حضرات اس کی ا ن صورتوں میں تاویل نہ کرتے۔ اس لئے کہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ لفظ کی وہ تاویل کی جائے جس کا اس لفظ میں احتمال ہی نہ ہو۔ حضرات سلف اہل لغت تھے اور لفظ کے احتمالات اور معانی مختلفہ سے باخبر تھے۔ انہیں یہ بھی خبر تھی کہ لفظ میں کون سے احتمالات نہیں ہوسکتے جب ان حضرات کا اختلاف ان وجوہ کی شکل میں ظاہر ہوا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ لفظ میں یہ سارے احتمالات موجود ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔ سلف کا یہ اختلاف ان کے درمیان مشہورو معروف تھا لیکن کسی کی طرف سے بھی کسی کی تردید نہیں ہوئی۔ اس طرح ان وجوہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش پر ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہمیں یہ ضرورت پیش آگئی ہم ان اقوال میں سے اولیٰ اور حق سے زیادہ قریب قول پر نظر ڈالیں۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ شوہر کے رجوع سے قبل چار ماہ کی مدت کا گزر جانا عزیمت طلاق ہے یعنی یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شوہر نے طلاق کی ٹھان لی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے مدت گزر جانے تک رجوع نہ کرنے کی عزیمت طلاق کا نام دیا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہی اس کا نام بن جائے اس لئے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ نام یا تو شرعی طور پر رکھا ہوگا یا لغوی طور پر۔ جو بھی صورت ہو اس کی حجیت ثابت اور اس کا عموم واجب ہے کیونکہ شریعت میں اسماء توقیفی طریقے سے اخذکئے جاتے ہیں یعنی شریعت کی طرف اس کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ مولی کے متعلق اللہ کی طرف سے دو باتوں میں سے ایک کا حکم ہے۔ یا تو رجوع کرے یاعزیمت طلاق یعنی طلاق کی ٹھان لے تو ان دو باتوں کی روشنی میں یہ ضروری ہوگیا کہ رجوع کا معاملہ چار ماہ تک محدود رہے اور اس مدت کے گزرنے کے ساتھ رجوع کی سہولت ہاتھ سے نکل جائے اور عورت کو طلاق ہوجائے۔ اس لئے کہ مدت گزر جانے کے بعد بھی اگر رجوع کی سہولت باقی رہے تو اس صورت میں مدت کا گزرجانا عزیمت طلاق نہیں بن سکے گا۔ ایک اور جہت سے غور کیجئے وہ یہ کہ عزیمت دراصل عقدقلب یعنی دل میں کسی چیز کے ٹھان لینے کو کہتے ہیں۔ اگر آپ دل میں کسی کام کی ٹھان لیں تو آپ یہ فقرہ کہیں گے۔ عزمت علی کذاً میں نے فلاں چیز کی ٹھان لی ہے یعنی میں نے فلاں کام کی گرہ اپنے دل میں باندھ لی ہے۔ جب یہ بات ہے تو ضروری ہے کہ مدت کا گزر جانا وقف (شوہر کو بذریعہ عدالت مطلع کرنا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے) سے بڑھ کر عزیمت طلاق کے مفہوم کو پورا کرنے والا قرار پائے، اس لئے کہ وقف کے قائلین کے مطابق وقف زبانی الفاظ کے ذریعے طلاق واقع کرنے کا متقاضی ہے یا تو شوہر یہ طلاق واقع کرے گا یا قاضی یعنی عدالت اس کی طرف سے یہ کام سرانجام دے گی اس صورت حال کی روشنی میں شوہر کی طرسے مدت کے اندر رجوع نہ کرنے کی بنا پر مدت گزرنے کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی واقع ہوجانا آیت کے معنی کے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے طلاق واقع کرنے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ صرف عزیمت طلاق کا ذکر کیا ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم آیت میں ایسے معنی کا اضافہ کردیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا للذین یولون من نساء ھم ترتبص اربعۃ اشھر فان فائوا فان اللہ غفور رحیم وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ تو آیت دو میں سے ایک بات کی متقاضی ہوئی۔ فی ۔ یعنی رجوع کی یا عزیمت طلاق کی ۔ تیسری کسی بات کی نہیں۔ اب فی تو چار ماہ کی مدت کے اندر مراد ہوتا اور اس کا حکم اسی مدت کے اندر محدود ہوتا ہے۔ اس کی دلیل قول باری فان فائوا ہے۔ حرف فائو تعقیب کے لئے آتا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ فی یعنی رجوع قسم کے بعد ہو کیونکہ اللہ نے فی کو قسم کے پیچھے رکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فی اس فریق کے لئے رکھا گیا ہے جسے چار ماہ انتظار کا حکم دیا گیا ہے یعنی فی یعنی رجوع مرد کا کام ہے۔ اب جبکہ فی مدت کے اندر محدود ہے اور مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس کی سہولت ہاتھ سے نکل گئی تو اب طلاق کا حصول واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ یہ جائز نہیں کہ رجوع اور طلاق دونوں سے روک دیا جائے۔ رجوع سے مراد چار ماہ کی مدت کے اندر رجوع ہے اس پر اس مدت کے اندر رجوع کی صحت پر سب کا اتفاق دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اس سے مراد اس مدت کے اندر رجوع ہے اس لئے آیت کی عبارت اس طرح ہوگئی ” فان فائوا فیھا “ (اگر اس مدت میں وہ رجوع کرلیں) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرات میں اسی طرح مذکور ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ رجوع مدت کے اندر محدود ہے مدت سے باہر نہیں اور مدت کے گزرنے کے ساتھ ہی رجوع کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا للذین یولون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر فان فائوا) تو اس نے حرف فاء کے ذریعے تربص یعنی انتظار پر فی کا عطف کیا، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ فی کی شرط یہ ہے کہ وہ تربص اور مدت کے گزر جانے کے بعد ہو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اگر مدت کے اندر رجوع کرلیتا ہے تو صرف ایسے حق کی ادائیگی میں جلد بازی کرتا ہے جس کے لئے تعجیل کرنا اس پر لازم نہیں ہے جس طرح کہ ایک شخص اس قرض کو جس کے لئے ایک مدت مقرر ہے، مدت سے پہلے ادا کرنے میں تعجیل کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر فی اللہ کی مراد نہ ہوتا تو مدت کے اندر اس کا وجود درست نہ ہوتا اور اس فی کے بعد مدت گزرنے پر ایک اور فئے کی ضرورت ہوتی۔ جب اس مدت میں فی درست ہوگیا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ آیت میں مذکورہ فی سے اللہ کی مراد یہی فی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے ساتھ عزیمت طلاق کا بطلان ہوجاتا ہے۔ پھر معترض کا یہ قول کہ نئی سے مراد وہ ہے جو مدت گزرنے کے بعد ہوا اور ساتھ ساتھ یہ قول کہ مدت کے اندر بھی فی درست ہوتا ہے جس طرح کہ مدت کے بعد اور اس کے ساتھ عزیمت طلاق باطل ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ دونوں قول ایک دوسرے کے نقیض ہیں جس طرح کہ کوئی یہ کہے کہ مدت کے اندر فی مراد بھی ہے اور مراد بھی نہیں۔ پھر معترض یہ کہہ کر اس مناقضہ سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتا۔ مدت کے اندر فی یعنی رجوع اس قرض کی طرح ہے جس کی ادائیگی کے لئے ایک مدت مقرر ہو لیکن اس مدت سے پہلے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ اس لئے کہ ایسے قرض کی ادائیگی کے لئے تاجیل یعنی مہلت کا موجود ہونا اسے لزوم کے حکم سے نہیں نکالتا اس لئے معترض کا اسے اپنے دعوے کی تائید میں بطور نظیر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ اگر لزوم کا حکم نہ ہوتا تو ثمن موجل کے بدلے میں ایک چیز کی بیع درست نہ ہوتی (ثمن موجل سے مراد کسی چیز کی قیمت کی فوری ادائیگی نہ کی جائے بلکہ اس کے لئے مہلت لے لی جائے) اس لئے کہ فروخت شدہ شے کی جس قیمت پر فروخت کنندہ کی ملکیت کا تعلق آنے والے وقت میں ہوا اس پر سودا طے کرنا درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ ” میں تمہیں یہ چیز ایک ہزار درہم میں فروخت کرتا ہوں۔ یہ ہزار درہم تم پر چار ماہ بعد لازم ہوں گے “۔ تو یہ بیع باطل ہوگی۔ قیمت کی ادائیگی میں جس تاخیر کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ تاخیر ثمن پر فروخت کنندہ کی ملکیت واجب ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتی اور خریدار جب بھی اس کی ادائیگی میں تعجیل کر کے تاجیل یعنی تاخیر کو ختم کر دے گا تو یہ بات اس سودے کا تقاضا قرار پائے گی۔ لیکن یہ بات ایلاء میں اس لحاظ سے فی کے برعکس ہے کہ فی کا موقعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد طلاق واجب ہوجاتی ہے اور جب فی سے مراد چار ماہ کی مدت کے اندر واقع ہونے والا فئے ہے تو یہ ضروری ہے کہ مدت کے اندر اس کے موقعہ کا ہاتھ سے نکل جانا طلاق کا موجب بن جائے جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ نیز قول باری فان فائوا) میں ضمیر مولی کی طرف راجع ہے جس کے ذکر سے آیت کی ابتداء ہوئی تھی اور جس کے لئے چار ماہ کے انتظار کا حکم تھا۔ اب ظاہر آیت جس مفہوم کا متقاضی ہے وہ قسم کے بعد فی کا ایقاع ہے۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ قول باری تربص اربعۃ اشھر) اس قول باری کی طرح ہے۔
Top