Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے
قول باری ہے وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ اور اگر وہ طلاق کی ہی ٹھان لیں تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ طلاق کی ٹھان لینے کے متعلق جبکہ وہ رجوع نہ کرے، سلف کا اختلاف درج ذیل ہے حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ چار ماہ گزر جانا عزیمت طلاق ہے یعنی یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس نے طلاق کی ٹھان لی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا یہی قول ہے۔ ان سب نے فرمایا ہے کہ مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی یعنی وہ عدت کے دوران رجوع نہیں کرسکے گا البتہ عدت کے بعد اس سے نکاح کرسکے گا حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابوالدرداء سے اس بارے میں رویا ات مختلف ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان حضرات کا بھی وہی قول ہے جو پہلے گروہ کا ہے۔ دوسری روایت ہے کہ مدت گزرنے کے بعد بذریعہ عدالت اسے مطلع کیا جائے گا کہ یا تو وہ رجوع کرلے یا طلاق دے دے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابوالدرداء ؓ کا یہی قول ہے تیسرا قول سعید بن المسیب، سالم بن عبداللہ، ابوبکر بن عبدالرحمن، زہری، عطاء اور طائوس کا ہے کہ جب مدت گزر جائے گی تو اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی یعنی وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کرسکے گا۔ ہمارے اصحاب نے حضرت ابن عباس ؓ اور ان کے ساتھیوں کا قول اختیار کیا ہے کہ اگر رجوع کرنے سے پہلے چار ماہ کی مدت گزر جائے تو اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا یہی قول ہے امام مالک، لیث بن سعد اور امام شافعی نے حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا قول اختیار کیا ہے کہ مدت گزر جانے کے بعد اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے گا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے طلاق کی صورت میں اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب تک وہ عدت کے اندر اس سے وطی نہیں کرے گا اس کا رجوع درست نہیں ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مدت گزرنے کے بعد اگر عورت وطی سے دامن بچائے تو اس کے بعد بھی وہ وطی کا مطالبہ کرسکتی ہے اور جماع کے لئے ایک دن سے زائد کی مہلت نہیں دی جائے گی امام اوزاعی نے سعید بن المسیب اور سالم بن عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کا قول اختیار کیا ہے کہ مدت گزرنے کے ساتھ اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری وان عزموا الطلاق وان اللہ سمیع علیم) ان تمام وجوہ کا احتمال رکھتا ہے جو سلف کے اختلاف کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ اگر آیت میں ان وجوہ کا احتمال نہ ہوتا تو یہ حضرات اس کی ا ن صورتوں میں تاویل نہ کرتے۔ اس لئے کہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ لفظ کی وہ تاویل کی جائے جس کا اس لفظ میں احتمال ہی نہ ہو۔ حضرات سلف اہل لغت تھے اور لفظ کے احتمالات اور معانی مختلفہ سے باخبر تھے۔ انہیں یہ بھی خبر تھی کہ لفظ میں کون سے احتمالات نہیں ہوسکتے جب ان حضرات کا اختلاف ان وجوہ کی شکل میں ظاہر ہوا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ لفظ میں یہ سارے احتمالات موجود ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے ۔ سلف کا یہ اختلاف ان کے درمیان مشہورو معروف تھا لیکن کسی کی طرف سے بھی کسی کی تردید نہیں ہوئی۔ اس طرح ان وجوہ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش پر ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہمیں یہ ضرورت پیش آگئی ہم ان اقوال میں سے اولیٰ اور حق سے زیادہ قریب قول پر نظر ڈالیں۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ شوہر کے رجوع سے قبل چار ماہ کی مدت کا گزر جانا عزیمت طلاق ہے یعنی یہ اس بات کی نشانی ہے کہ شوہر نے طلاق کی ٹھان لی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے مدت گزر جانے تک رجوع نہ کرنے کی عزیمت طلاق کا نام دیا ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہی اس کا نام بن جائے اس لئے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ نام یا تو شرعی طور پر رکھا ہوگا یا لغوی طور پر۔ جو بھی صورت ہو اس کی حجیت ثابت اور اس کا عموم واجب ہے کیونکہ شریعت میں اسماء توقیفی طریقے سے اخذکئے جاتے ہیں یعنی شریعت کی طرف اس کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ مولی کے متعلق اللہ کی طرف سے دو باتوں میں سے ایک کا حکم ہے۔ یا تو رجوع کرے یاعزیمت طلاق یعنی طلاق کی ٹھان لے تو ان دو باتوں کی روشنی میں یہ ضروری ہوگیا کہ رجوع کا معاملہ چار ماہ تک محدود رہے اور اس مدت کے گزرنے کے ساتھ رجوع کی سہولت ہاتھ سے نکل جائے اور عورت کو طلاق ہوجائے۔ اس لئے کہ مدت گزر جانے کے بعد بھی اگر رجوع کی سہولت باقی رہے تو اس صورت میں مدت کا گزرجانا عزیمت طلاق نہیں بن سکے گا۔ ایک اور جہت سے غور کیجئے وہ یہ کہ عزیمت دراصل عقدقلب یعنی دل میں کسی چیز کے ٹھان لینے کو کہتے ہیں۔ اگر آپ دل میں کسی کام کی ٹھان لیں تو آپ یہ فقرہ کہیں گے۔ عزمت علی کذاً میں نے فلاں چیز کی ٹھان لی ہے یعنی میں نے فلاں کام کی گرہ اپنے دل میں باندھ لی ہے۔ جب یہ بات ہے تو ضروری ہے کہ مدت کا گزر جانا وقف (شوہر کو بذریعہ عدالت مطلع کرنا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے) سے بڑھ کر عزیمت طلاق کے مفہوم کو پورا کرنے والا قرار پائے، اس لئے کہ وقف کے قائلین کے مطابق وقف زبانی الفاظ کے ذریعے طلاق واقع کرنے کا متقاضی ہے یا تو شوہر یہ طلاق واقع کرے گا یا قاضی یعنی عدالت اس کی طرف سے یہ کام سرانجام دے گی اس صورت حال کی روشنی میں شوہر کی طرسے مدت کے اندر رجوع نہ کرنے کی بنا پر مدت گزرنے کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی واقع ہوجانا آیت کے معنی کے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے طلاق واقع کرنے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ صرف عزیمت طلاق کا ذکر کیا ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم آیت میں ایسے معنی کا اضافہ کردیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا للذین یولون من نساء ھم ترتبص اربعۃ اشھر فان فائوا فان اللہ غفور رحیم وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ تو آیت دو میں سے ایک بات کی متقاضی ہوئی۔ فی ۔ یعنی رجوع کی یا عزیمت طلاق کی ۔ تیسری کسی بات کی نہیں۔ اب فی تو چار ماہ کی مدت کے اندر مراد ہوتا اور اس کا حکم اسی مدت کے اندر محدود ہوتا ہے۔ اس کی دلیل قول باری فان فائوا ہے۔ حرف فائو تعقیب کے لئے آتا ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ فی یعنی رجوع قسم کے بعد ہو کیونکہ اللہ نے فی کو قسم کے پیچھے رکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فی اس فریق کے لئے رکھا گیا ہے جسے چار ماہ انتظار کا حکم دیا گیا ہے یعنی فی یعنی رجوع مرد کا کام ہے۔ اب جبکہ فی مدت کے اندر محدود ہے اور مدت گزرنے کے ساتھ ہی اس کی سہولت ہاتھ سے نکل گئی تو اب طلاق کا حصول واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ یہ جائز نہیں کہ رجوع اور طلاق دونوں سے روک دیا جائے۔ رجوع سے مراد چار ماہ کی مدت کے اندر رجوع ہے اس پر اس مدت کے اندر رجوع کی صحت پر سب کا اتفاق دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اس سے مراد اس مدت کے اندر رجوع ہے اس لئے آیت کی عبارت اس طرح ہوگئی ” فان فائوا فیھا “ (اگر اس مدت میں وہ رجوع کرلیں) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرات میں اسی طرح مذکور ہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ رجوع مدت کے اندر محدود ہے مدت سے باہر نہیں اور مدت کے گزرنے کے ساتھ ہی رجوع کا موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا للذین یولون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر فان فائوا) تو اس نے حرف فاء کے ذریعے تربص یعنی انتظار پر فی کا عطف کیا، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ فی کی شرط یہ ہے کہ وہ تربص اور مدت کے گزر جانے کے بعد ہو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اگر مدت کے اندر رجوع کرلیتا ہے تو صرف ایسے حق کی ادائیگی میں جلد بازی کرتا ہے جس کے لئے تعجیل کرنا اس پر لازم نہیں ہے جس طرح کہ ایک شخص اس قرض کو جس کے لئے ایک مدت مقرر ہے، مدت سے پہلے ادا کرنے میں تعجیل کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر فی اللہ کی مراد نہ ہوتا تو مدت کے اندر اس کا وجود درست نہ ہوتا اور اس فی کے بعد مدت گزرنے پر ایک اور فئے کی ضرورت ہوتی۔ جب اس مدت میں فی درست ہوگیا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ آیت میں مذکورہ فی سے اللہ کی مراد یہی فی ہے۔ اسی وجہ سے اس کے ساتھ عزیمت طلاق کا بطلان ہوجاتا ہے۔ پھر معترض کا یہ قول کہ نئی سے مراد وہ ہے جو مدت گزرنے کے بعد ہوا اور ساتھ ساتھ یہ قول کہ مدت کے اندر بھی فی درست ہوتا ہے جس طرح کہ مدت کے بعد اور اس کے ساتھ عزیمت طلاق باطل ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ دونوں قول ایک دوسرے کے نقیض ہیں جس طرح کہ کوئی یہ کہے کہ مدت کے اندر فی مراد بھی ہے اور مراد بھی نہیں۔ پھر معترض یہ کہہ کر اس مناقضہ سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتا۔ مدت کے اندر فی یعنی رجوع اس قرض کی طرح ہے جس کی ادائیگی کے لئے ایک مدت مقرر ہو لیکن اس مدت سے پہلے اس کی ادائیگی کردی جائے۔ اس لئے کہ ایسے قرض کی ادائیگی کے لئے تاجیل یعنی مہلت کا موجود ہونا اسے لزوم کے حکم سے نہیں نکالتا اس لئے معترض کا اسے اپنے دعوے کی تائید میں بطور نظیر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ اگر لزوم کا حکم نہ ہوتا تو ثمن موجل کے بدلے میں ایک چیز کی بیع درست نہ ہوتی (ثمن موجل سے مراد کسی چیز کی قیمت کی فوری ادائیگی نہ کی جائے بلکہ اس کے لئے مہلت لے لی جائے) اس لئے کہ فروخت شدہ شے کی جس قیمت پر فروخت کنندہ کی ملکیت کا تعلق آنے والے وقت میں ہوا اس پر سودا طے کرنا درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ ” میں تمہیں یہ چیز ایک ہزار درہم میں فروخت کرتا ہوں۔ یہ ہزار درہم تم پر چار ماہ بعد لازم ہوں گے “۔ تو یہ بیع باطل ہوگی۔ قیمت کی ادائیگی میں جس تاخیر کا یہاں ذکر ہوا ہے وہ تاخیر ثمن پر فروخت کنندہ کی ملکیت واجب ہونے میں رکاوٹ نہیں بنتی اور خریدار جب بھی اس کی ادائیگی میں تعجیل کر کے تاجیل یعنی تاخیر کو ختم کر دے گا تو یہ بات اس سودے کا تقاضا قرار پائے گی۔ لیکن یہ بات ایلاء میں اس لحاظ سے فی کے برعکس ہے کہ فی کا موقعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد طلاق واجب ہوجاتی ہے اور جب فی سے مراد چار ماہ کی مدت کے اندر واقع ہونے والا فئے ہے تو یہ ضروری ہے کہ مدت کے اندر اس کے موقعہ کا ہاتھ سے نکل جانا طلاق کا موجب بن جائے جیسا کہ ہم پہلے اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ نیز قول باری فان فائوا) میں ضمیر مولی کی طرف راجع ہے جس کے ذکر سے آیت کی ابتداء ہوئی تھی اور جس کے لئے چار ماہ کے انتظار کا حکم تھا۔ اب ظاہر آیت جس مفہوم کا متقاضی ہے وہ قسم کے بعد فی کا ایقاع ہے۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ قول باری تربص اربعۃ اشھر) اس قول باری کی طرح ہے۔
Top