Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠ ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ
: اور طلاق یافتہ عورتیں
يَتَرَبَّصْنَ
: انتظار کریں
بِاَنْفُسِهِنَّ
: اپنے تئیں
ثَلٰثَةَ
: تین
قُرُوْٓءٍ
: مدت حیض
وَلَا يَحِلُّ
: اور جائز نہیں
لَهُنَّ
: ان کے لیے
اَنْ يَّكْتُمْنَ
: وہ چھپائیں
مَا
: جو
خَلَقَ
: پیدا کیا
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَرْحَامِهِنَّ
: ان کے رحم (جمع)
اِنْ
: اگر
كُنَّ يُؤْمِنَّ
: ایمان رکھتی ہیں
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَ
: اور
الْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت
ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ
: اور خاوند ان کے
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
بِرَدِّھِنَّ
: واپسی ان کی
فِيْ ذٰلِكَ
: اس میں
اِنْ
: اگر
اَرَادُوْٓا
: وہ چاہیں
اِصْلَاحًا
: بہتری (سلوک)
وَلَهُنَّ
: اور عورتوں کے لیے
مِثْلُ
: جیسے
الَّذِيْ
: جو
عَلَيْهِنَّ
: عورتوں پر (فرض)
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
وَلِلرِّجَالِ
: اور مردوں کے لیے
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
دَرَجَةٌ
: ایک درجہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے رہیں اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کو جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں اور عورتوں کو حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر البتہ مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے
(والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثہ مودء اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین قرہ یعنی حیض تک انتظار میں رکھیں گی) اب تین حیض کے انتظار کی صورت میں مدت کے گزرتے ہی دونوں میں علیحدگی ہوجاتی ہے تو ضروری ہے کہ ایلاء کے انتظار کا بھی کئی وجوہ سے یہی حکم ہو کہ مدت گزرتے ہی طلاق واقع ہوجائے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگر ہم بذریعہ عدالت مولی کو مطلع کریں تو پھر انتظار کی مدت چار ماہ سے بڑھ جائے گی اور یہ بات کتاب اللہ کے خلاف ہے اور اگر مولی اپنی بیوی سے ایک یا دو سال غائب رہے اور عورت یہ معاملہ عدالت میں نہ لے جائے اور اپنے حق کا بھی مطالبہ نہ کرے تو پھر انتظار کے وقت کی کوئی مقدار متعین نہیں ہوگی اور یہ بات بھی کتاب اللہ کے خلاف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرہ یعنی حیض کے انتظار کی صورت میں جب مدت گزرتے ہی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واقع ہوجاتی ہے تو ایلاء میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے ان دونوں میں جو مشترک چیز ہے وہ دونوں مدتوں میں تریص یعنی انتظار کا مذکور ہونا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک مدت شوہر کے قول کی بنا پر واجب ہوتی ہے اور پھر مدت کے ساتھ علیحدگی کا حکم متعلق ہوتا ہے۔ جب ان میں سے ایک کے اندر مدت کے گزرنے کے ساتھ علیحدگی کے حکم کا تعلق ہوجاتا ہے اور دوسری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے دونوں میں مشترک جو چیز ہے یعنی شوہر کا قول اس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نامرد کو بالاتفاق ایک سال کی مہلت دی جاتی ہے اور سال گزرنے کے بعد جماع نہ ہونے کی صورت میں اس کی بیوی کو علیحدہ ہونے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اس چیز سے مدت میں زیادتی لازم نہیں آتی۔ اسی طرح ایلاء میں مدت گزرنے کے بعد وقف (بذریعہ عدالت شوہر کو مطلع کر کے اسے رجوع کرنے یا طلاق دینے کے لئے کہنا) کے ایجاب سے مدت میں زیادتی لازم نہیں آتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نہ تو کتاب اللہ میں اور نہ ہی سنت رسول ﷺ میں نامرد کے لئے مہلت کی مدت کی تعیین ہے۔ یہ حکم تو اقوال سلف سے اخذ کیا گیا ہے جن حضرات نے اس کے لئے ایک سال کی مہلت کا تعین کیا ہے انہوں نے ہی عورت کو یہ اختیار دیا ہے کہ جماع نہ ہونے کی صورت میں سال گزرنے کے بعد وہ اس سے علیحدگی اختیار کرلے۔ انہوں نے مدت کے گزر جانے سے پہلے عورت پر طلاق واقع نہیں کی۔ اس کے برعکس ایلاء کی مدت کتاب اللہ کے ذریعے مقرر کی گئی ہے اور اس کے ساتھ تخیر کا ذکر نہیں کیا گیا، اس لئے اس مقررہ مدت پر اضافہ کتاب اللہ کے حکم کے خلاف ہوگا۔ نیز نامرد کو دی گئی مہلت کے گزرنے پر اس کی بیوی کو اختیار ملتا ہے۔ اور ایلاء کی مہلت معترض کے نزدیک شوہر پر رجوع کو واجب کرتی ہے۔ چناچہ اگر شوہر کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں تو میاں بیوی کو علیحدہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر نامرد یہ کہہ دے کہ میں مہلت کی مدت گزرنے کے بعد جماع کرلوں گا تو اس کے قول پر کان نہیں دھرا جائے گا اور عورت کے اختیار کی بنا پر دونوں میں علیحدگی کردی جائے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایلاء نہ تو طلاق صریح ہے اور نہ ہی طلاق کنایہ، اس لئے یہ واجب ہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لعان بھی تو نہ طلاق صریح ہے اور نہ طلاق کنایہ، اس لئے معترض کے قول کے بموجب یہ ضروری ہے کہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہ کی جائے یہاں تک کہ حاکم اپنے حکم کے ذریعے دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دے۔ ہمارے اصول کی بنا پر یہ بات ہمیں لازم نہیں آتی کیونکہ ایلاء میں اس کا جواز ہے کہ وہ علیحدگی کے لئے کنایہ بن جائے۔ کیونکہ شوہر کا یہ کہنا کہ میں تجھ سے قربت نہیں کروں گا طلاق کے کنایہ کے مشابہ ہے اور چونکہ کنایہ صریح کی بہ نسبت کمزو ر ہوتا ہے اس لئے اس کی وجہ سے اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک کہ ایک بات اس کے ساتھ شامل نہ ہوجائے اور وہ ہے مدت کا اسی طریقے پر گزر جانا جس طریقے سے شوہر کہتا ہے کیونکہ ہم نے بہت سے کنایات ایسے پائے ہیں جن میں شوہر کے قول کی بنا پر اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک ایک اور چیز اس کے ساتھ شامل نہ ہوجائے مثلاً یہ کنایہ کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے اختیار دے دیا یا یوں کہے کہ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ ان صورتوں میں جب تک عورت اطلاق اختیار نہ کرے صرف شوہر کے قول کی بنا پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ ایلاء بھی کنایہ ہے تو اس میں کوئی امتناع نہیں۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ایلاء کمزور ترین کنایہ ہے اس لئے اس میں صرف زبان سے لفظ کہہ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ اس کے ساتھ ایک اور بات بھی شامل کرنا ضروری ہوگا اور وہ بات جیسا کہ ہم کہہ آئے ہیں، مدت کا گزر جانا ہے۔ رہ گیا لعان کا معاملہ تو اس میں کنایہ والی کوئی بات نہیں پائی جاتی اس لئے شوہر کا اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانا، پھر دونوں کا لعان کرنا کسی صورت میں بھی علیحدگی کی تعبیر نہیں کرتے نیز لعان ایلاء سے اس وجہ سے بھی مختلف ہے کہ لعان کا حکم حاکم کے پاس جا کر ثابت ہوتا ہے جبکہ ایلاء کا حکم حاکم کے پاس گئے بغیر بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ ایلاء کی وجہ سے علیحدگی کا حکم بھی اسی طرح ہونا چاہیے اور اسی نقطے پر ایلاء کی حالت نامرد کی حالت سے مختلف ہوجاتی ہے کیونکہ نامرد کو مہلت دینے کا حکم حاکم کے ذریعے ہوتا ہے اور ایلاء کا حکم حاکم کے بغیر ثابت ہوجاتا ہے اس لئے علیحدگی سے تعلق رکھنے والا حکم بھی اسی طرح ہونا چاہیے۔ جو لوگ وقف کے قائل ہیں انہوں نے قول باری وان عزموا الطلاق فا ن اللہ سمیع علیم۔ سے استدلال کیا ہے۔ آیت کا آخری حصہ اس امر پر دلالت کرتا ہے جب اللہ کی ذات سمیع ہے تو کوئی قول ایسا ہوگا جس کی سماعت ہوگی اور وہ قول طلاق ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ایسی بات کہنا قائل کی جہالت پر دال ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سمیع ہونا مسموع (جو بات سنی جائے) کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ازازل سمیع ہے جبکہ ازازل کوئی مسموع نہیں نیز قول باری ہے وقاتلوا فی سبیل اللہ واعلموا ان اللہ سمیع علیم اللہ کے راستے میں قتال کرو اور جان لو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے) حالانکہ جنگ کے موقع پر کوئی قول نہیں ہوتا اس کی دلیل حضور ﷺ کی یہ حدیث ہے لاتتمنوالقاء العدو، فاذا لقیتموھم فاثبتوا وعلیکم المصمت دشمن کا سامنا کرنے کی تمنا نہ کرو لیکن جب سامنا ہوجائے تو ڈٹ جائو اور خاموشی کو اپنے اوپر لازم کرلو) آیت میں یہ بھی گنجائش ہے کہ اس کا مرجع سلسلہ کلام کا ابتدائی حصہ یعنی للذین یولون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر) ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس آخری حصے میں یہ خبر دی ہو کہ وہ ان تمام باتوں کو سن رہا ہے جو مولی نے کی ہیں اور اس کے دل کی چھپی ہوئی بات کو بھی وہ جانتا ہے۔ مدت ایلاء کے گزرنے کے ساتھ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ وقف کے قائلین آیت سے چند اور باتیں بھی ثابت کرتے جن کا اس میں ذکر نہیں ہے کیونکہ آیت تو دو باتوں میں سے ایک کی مقتضی ہے یا تو رجوع ہوجائے یا طلاق۔ اس میں عورت کی طرف سے علیحدگی کے مطالبہ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کا تذکرہ کہ قاضی یا عدالت شوہر کو مطلع کر کے اس سے رجوع یا طلاق کے لئے کہے گی۔ ہمارے لئے آیت میں ایسی باتیں شامل کرنا درست نہیں جو آیت کا جز نہ ہوں اور نہ ہی ہم آیت کے مفہوم میں اپنی طرف سے اضافہ کرسکتے ہیں جبکہ ہمارے مخالفین کے قول سے یہ باتیں لازم آتی ہیں اور اس سے آیت کے حکم پر اقتصار کرنا ضروری ہے جبکہ ہمارے قول سے آیت کے حکم پر اقتصار لازمی ہوجاتا ہے اور اس کے مفہوم میں اضافہ بھی نہیں ہوتا اس لئے ہمارا قول اولیٰ ہوگا ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایلاء میں اس بات کا حکم اس لئے دیا ہے کہ تاکہ عورت کو اس کا حق جماع مل جائے یا علیحدگی ہوجائے۔ آیت کا یہ مفہوم اس قول باری فاماک بمعروف اوتسریح باحسان) کے مفہوم کی طرح ہے۔ اب جو لوگ وقف کے قائل ہیں ان کے مسلک کے مطابق بذریعہ عدالت شوہر کو مطلع کر کے اسے رجوع کرنے کا یا طلاق دینے کا حکم دیا جائے گا دوسری صورت میں یا تو وہ اسے طلاق بائن دے گا یا رجعی۔ پہلی صورت میں دی ہوئی طلاق طلاق بائن نہیں ہوگی کیونکہ صریح الفاظ میں دی گئی طلاق کسی کے نزدیک بھی تین سے کم کی صورت میں طلاق بائن نہیں ہوتی۔ دوسری صورت میں عورت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوگا ۔ کیونکہ شوہر جب چاہے گا رجوع کرے گا اور وہ حسب سابق اس کی بیوی رہے گی۔ اس لئے ایسی طلاق لازم کرنا ایک بےمعنی سی بات ہوگی جس میں عورت کو اپنی پسند اور ناپسند پر بھی اختیار نہ ہو اور نہ ہی اپنے حق تک اس کی رسائی ہو سکے۔ امام مالک کا یہ قول کہ اس کا رجوع اس وقت تک صحیح قرار نہیں دیا جائے گا جب تک وہ عدت میں اس کے ساتھ ہمبستری نہ کرلے، کئی وجوہ سے ناقص قول ہے۔ اول یہ کہ امام مالک نے یہ کہا ہے کہ ” شوہر جب بیوی کو طلاق رجعی دے “۔ حالانکہ طلاق رجعی کی صورت میں رجوع کرنا کسی اور بات پر موقوف نہیں ہوتا جبکہ امام مالک اس کے ساتھ ہمبستری کی شرط بھی عائد کرتے ہیں۔ دوم یہ کہ جب شوہر کو وطی کے بغیر رجوع کرنے سے روک دیا گیا تو گویا اس بات کی نفی کردی گئی کہ یہ طلاق طلاق رجعی نہیں ہے اور اگر وہ رجوع کرے گا تو یہ رجوع نہیں ہوگا۔ سوم یہ کہ امام مالک کے نزدیک طلاق کے بعد وطی کی ممانعت ہوجاتی ہے اور ایلاء میں نفس وطی سے رجوع عمل میں نہیں بلکہ عدالت کے ذریعے رجوع کا عمل مکمل ہوتا ہے اس لئے وطی کی اباحت کا حکم کس طرح دیا جاسکے گا۔ جو لوگ اس با ت کے قائل ہیں کہ مدت گزرنے کے ساتھ ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی ان کی بات بھی واضح طور پر غلط ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں ایک وجہ تو وہ ہے جو ہم اس سے قبل کی فصل میں بیان کر آئے ہیں۔ دوم یہ کہ میاں بیوی میں علیحدگی کی وہ تمام صورتیں جو بنیادی طور پر واضح الفاظ میں طلاق کے ذکر کے بغیر عمل میں آتی ہیں طلاق بائن واجب کرتی ہیں۔ مثلاً نامرد کی اس کی بیوی سے علیحدگی شوہر کے ارتداد کی صورت میں مسلمان بیوی کی علیحدگی نابالغ میاں بیوی کو اختیار ملنے کی صورت میں ان کے درمیان علیحدگی اور اس طرح لونڈی کا اختیاران تمام صورتوں میں صریح الفاظ کے ذریعے جب طلاق نہ دی گئی تو ضروری ہوگیا کہ طلاق بائن ہو۔ ذمی کے ایلاء میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ اگر اس نے بیوی سے قربت نہ کرنے کے لئے غلام آزاد کرنے یا طلاق دینے کی قسم کھائی تو وہ مولی قرار پائے گا اور اگر صدقہ یا حج کی قسم کھائی تو مولی نہیں ہوگا۔ اگر اس نے اللہ کی قسم کھائی تو بقول امام ابوحنیفہ وہ مولی ہوگا لیکن صاحبین یعنی امام یوسف اور امام محمد کے نزدیک مولی نہیں ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ ان تمام صورتوں کی قسمیں کھا کر وہ مولی نہیں بنے گا۔ امام اوزاعی کا قول ہے کہ ذمی کا ایلا درست ہے اور انہوں نے ان صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ایلاء کے لزوم کے اعتبار سے ذمی مسلمان کی طرح ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات تو واضح ہے کہ ایلاء کا حکم اس حق کے متعلق قسم توڑنے سے ثابت ہوتا ہے جو مولی پر لازم ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ ذ می کا ایلاء بھی درست ہوجائے۔ جب یہ غلام آزاد کرنے یا طلاق دینے کی قسم کے ساتھ کیا جائے۔ اس لئے کہ یہ ذمی کو اسی طرح لازم ہوجاتا ہے جس طرح مسلمان کو۔ رہ گیا صدقہ، روزہ اور حج تو قسم توڑنے پر اس کا لزوم نہیں ہوگا اس لئے کہ اگر ذمی ان عبادات کو اپنے اوپر واجب بھی کرلے گا تو بھی یہ اس پر لازم نہیں ہوں گی۔ نیز ان عبادات کی ادائیگی اگر وہ کرے بھی تو بھی درست نہیں ہوگی کیونکہ اسلام کی عدم موجودگی میں وہ کوئی عبادت سرانجام نہیں دے سکتا۔ اسی لئے مسلمانوں پر ان کے مال میں واجب ہونے والی زکواۃ اور صدقات دنیاوی احکام کے تحت اس پر لازم نہیں ہوتیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ حج یا عمرہ یا صدقہ یا روزے کی قسم کھانے کی صورت میں وہ مولی قرار نہ دیا جائے۔ اس لئے کہ جماع کرنے کی صورت میں اس پر ان عبادات میں سے کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ قول باری للذین یولون من نسائھم مسلمان اور کافر سب کے عموم کا متقاضی ہے لیکن ہم نے درج بالا وجوہ کی بنا پر اس کی تخصیص کردی لیکن اگر ذمی اللہ کے نام کی قسم کھا کر ایلاء کرے تو امام ابوحنیفہ اسے مولی قرار دیتے ہیں اگرچہ دنیاوی احکام کے لحاظ سے اس پر کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نام لینے کا حکم کافر سے اسی طرح متعلق ہوجاتا ہے جس طرح مسلمان سے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ذبیحہ پر اگر کافر اللہ کا نام لے لے تو اس کا کھانا حلال ہوجاتا ہے جس طرح مسلمان کا ذبیحہ حلال ہوتا ہے لیکن اگر کافر نے جانور پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کا نام لے لیا تو اس جانور کا کھانا حلال نہیں ہوگا۔ اس دلیل کی روشنی میں کافر کے تسمیہ کا حکم ثابت ہوگیا جس طرح مسلمان کے تسمیہ کا حکم ثابت ہے۔ یہی کیفیت ایلاء کی بھی ہے۔ اس لئے کہ ایلاء کے ساتھ دو حکموں کا تعلق ہوتا ہے۔ ایک کفارہ اور دوسرا طلاق کا حکم۔ اللہ کا نام لینے کی بنا پر طلاق کے سلسلے میں ذمی پر اس کا حکم ثابت ہے کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ایلاء صرف اللہ کی قسم کے ذریعے ہوتا ہے اور غلام آزاد کرنے یا صدقہ کرنے یا طلاق دینے کی قسم پر نہیں ہوتا۔ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ ایلا قسم کو کہتے ہیں اور وہ ان چیزوں کی قسم کھا رہا ہے اور وہ ہمبستری تک غلام آزاد کئے یا طلاق دیے یا صدقہ کئے بغیر نہیں پہنچ سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ مولی قرار دیا جائے جس طرح کہ اللہ کی قسم کھانے پر قرار دیا جاتا ہے کیونکہ عموم لفظ ان تمام باتوں کو شامل ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص ان میں سے کسی چیز کی بھی قسم کھائے گا وہ مولی ہوگا۔ فصل ایلاء کی آیت جن احکام کا افادہ کر رہی ہے ان میں سے ایک حکم وہ ہے جس پر محمد بن حسن نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارے کا جواز ممتنع ہے۔ امام محمد نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مولی کو دو میں سے ایک بات کا حکم دیا یعنی فی کا یا عزیمت طلاق کا ۔ اب اگر قسم توڑنے پر کفارے کا مقدم ہونا جائز ہوجائے تو اس صورت میں فی یا عزیمت طلاق کے بغیر ایلاء سا قط ہوجائے گا۔ اس لئے کہ اگر اس نے قسم توڑ دی تو اس سے اس پر کوئی چیز لازم نہیں آئے گی اور جب قسم توڑنے والے پر قسم توڑنے کی وجہ سے کوئی چیز لازم نہ آئے تو وہ مولی نہیں ہوگا۔ کفارہ کو قسم توڑنے پر مقدم کرنے کی وجہ سے ایسی چیز کے بغیر ایلاء کے حکم کا اسقاط لازم آئے گا جس کا اللہ نے ذکر نہیں فرمایا اور یہ بات کتاب اللہ کے خلاف ہوگی۔ واللہ الموفق للصواب۔ فروء کا بیان ارشاد باری ہے والمطلقات یتربصن بانسھن ثلثۃ قروء اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین قرہ یعنی حیض تک انتظار میں رکھیں گی ) آیت میں لفظ قرء سے کیا مراد ہے۔ اس بارے میں سلف کے اندر اختلاف ہے حضرت علی ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوموسی ؓ کا قول ہے کہ یہ حیض ہے۔ ان حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ مطلقہ عورت جب تک تیسرے حیض سے پاک ہونے کے لئے غسل نہیں کرلیتی اس وقت تک اس کا شوہر سب سے بڑھ کر اس کا حق دار ہے۔ وکیع نے عیسیٰ الحافظ سے انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے تیرہ صحابہ کرام سے اس کی روایت کی ہے۔ ان میں حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ شامل ہیں۔ سب نے یہ فرمایا ہے کہ مرد اپنی مطلقہ بیوی کا سب سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے جب تک وہ تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے۔ سعید بن جبیر اور سعید بن المسیب کا یہی قول ہے حضرت ابن عمر ؓ حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے کہ الاقراء (جمع قرء) کا معنی الاطہار جمع طہر سے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ جب عورت تیسرے حیض میں داخل ہوجائے تو مرد کے لئے کوئی سبیل باقی نہیں رہتی۔ اور جب تک غسل نہ کرلے اس سے نکاح جائز نہیں ہوتا۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ الاقراء کا معنی حیض ہے یہی ثوری اوزاعی اور حسن بن صالح کا قول ہے۔ تاہم ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ جب اس کے ایام دس دن سے کم کے ہوں تو اس کی عدت اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک وہ تیسرے حیض سے غسل نہ کرلے یا ایک نماز کا وقت گزر نہ جائے یہی حسن صالح کا قول ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں یہودی اور نصراتی عورتیں مسلمان عورتوں کی طرح ہیں جن لوگوں نے اقراء کو حیض قرار دیا ہے ان میں سے کسی نے بھی حسن بن صالح کے سوا یہ بات نہیں کہی ہے۔ ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ ذمی عورت کی عدت تیسرے حیض کا خون بند ہوتے ہی ختم ہوجائے گی اور اس کے لئے اس پر غسل لازم نہیں ہے۔ اس طرح یہ اس عورت کے حکم میں ہوگی جس نے تیسرے حیض سے غسل کر لیاہو۔ اب وہ خون بند ہوجانے کے بعد کسی اور شے کا انتظار نہیں کریگی۔ ابن شبرمہ کا قول ہے کہ جب تیسرے حیض کا خون بند ہوجائے تو رجوع کرنے کی گنجائش باطل ہوجاتی ہے۔ انہوں نے غسل کا اعتبار نہیں کیا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ الاقراء کا معنی الاطہار ہے۔ جب عورت تیسرے حیض میں داخل ہوجائے گی تو وہ بائن ہوجائے گی اور رجوع کرنے کی گنجائش باطل ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سلف کے اقوال سے اس پر اتفاق کی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ اقراء کا اسم دو معنوں پر محمول کیا جاتا ہے۔ ایک حیض اور دوسرا اطہار جمع طہر۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول یہ کہ اگر لفظ ان دونوں معنوں کا احتمال نہ رکھتا تو سلف ہرگز اسے ان دونوں معنوں پر محمول نہ کرتے اس لئے کہ وہ اہل لغت تھے اور انہیں اسماء کے معانی کی معرفت تھی اور معانی میں جو تصرف یعنی کمی بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر تھے۔ جب سلف کے ایک گروہ نے اس سے حیض کا معنی لیا اور دوسرے نے اطہار کا تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس اسم کا اطلاق ان دونوں معنوں پر ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اختلاف ان حضرات کے درمیان مشہور و معروف تھا اور ان میں سے کسی نے کسی کے قول کی تردید نہیں کی بلکہ ہر ایک نے دوسرے کے قول کو جائز قرار دیا اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے اور اس میں اجتہاد کی گنجائش اور جواز موجود ہے۔ اب ان دونوں معنوں پر اس اسم کے اطلاق کی کئی صورتیں ہیں یا تو یہ لفظ ان دونوں معنوں میں بطور حقیقت استعمال ہوتا ہے یا بطور مجاز یا ایک میں حقیقت اور دوسرے میں مجاز ہے ہم نے جب تحقیق و تفتیش کی تو پتہ چلا کہ اہل لغت کی رائے بھی اس بارے میں مختلف ہے کہ لغوی لحاظ سے اس لفظ کے معنی اصل کیا ہیں۔ کچھ کا قول ہے کہ یہ وقت کا اسم ہے ہمیں یہ ثعلب کے غلام ابوعمرو نے ثعلب کے متعلق بیان کیا کہ جب ان سے قرء کا معنی پوچھا جاتا تو اس سے زائد کچھ نہ بتاتے کہ یہ ہے اور پھر وہ شاعر کا شعر بطور استشہاد پیش کرتے۔ یا رب مولی حاسد متاغض علی ذی ضتعن وضب فارض ، لہ قروء کفردء العائض ۔ اے میرے پروردگار میں ایک حاسد کا غلام ہوں جو مجھ سے بغض رکھتا ہے بڑا کینہ ور ہے اور یہ کینہ بڑا پرانا ہے۔ حیض والی عورت کی طرح اس کا بھی وقت ہوتا ہے جس میں اس کی عداوت بھڑک اٹھتی ہے یعنی اس کا ایک وقت ہوتا ہے جس میں اس کی عداوت جوش مارتی ہے اسی معنی پر لوگوں نے اعشی کے شعر کی تاویل کی ہے۔ و فی کل عام انت جاشم غزوۃ تشدلاقصا ھا عزیم عزائکا……مورثۃ ھالاً و فی الحی رفعۃ لماضاع فیھا من قروء نسائکا……کیا تم ہر سال ایک دفعہ جنگ پر جانے کی تکلیف اٹھاتے ہو جس کے آخری حصے تک پہنچنے کے لئے اپنے صبر و ہمت کے کجاوے کس لیتے ہو۔ یہ جنگ تمہیں مال کا وارث بناتی ہے اور قبیلے کے اندر تمہاری عورتوں کے ساتھ وطی کے ضائع ہونے والے وقت سے لوگ اپنے آپ کو بلند رکھتے ہیں۔ یہاں قروء نسائکا سے مراد تمہاری عورتوں کے ساتھ وطی کا وقت ہے بعض لوگوں نے اس لفظ کو طہر کے معنی میں لیا ہے یعنی تمہاری عورتوں کا طہر۔ ایک اور شاعر کا قول ہے۔ کرھت العقر عقر بنی شلیل…اذاھبت لقادئھا الریاح…میں بنو شلیل کی قیام گاہ یا پڑائو کو ناپسند کرتا ہوں جب سردی کے موسم میں ٹھنڈی ہوائیں اپنے وقت پر چلتی ہیں۔ یہاں لقائھا سے مراد لوقتھا ہے یعنی سردیوں میں اپنے وقت پر۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ قرء کا معنی ضم اور تالیف ہے یعنی ملالینا اور جوڑ لینا۔ تریک اذادخلت علی خلاء…وقتد امنت عیون الکاشعلینا…ذراعی عیطل ادماء بکر…ھجان اللون لم تقراً جنینا…جب تم اس کے پاس تنہائی میں جائو گے جبکہ وہ دشمنوں کی نظروں سے محفوظ ہو تو وہ تمہیں ایسی دراز گردن خوبصورت عورت کے دو بازو دکھائے گی جو گندم گوں کھلتے ہوئے رنگ والی دوشیزہ ہے جس نے اپنے رحم میں کوئی جنین یعنی حمل اپنے ساتھ ملا نہیں رکھا ہے۔ یہاں لم تقراً کا معنی لم تضم ہے یعنی اس نے اپنے پیٹ میں کوئی جنین اپنے ساتھ نہیں ملا رکھا ہے۔ اسی معنی میں یہ فقرہ ہے ” قریت الماء فی المحوض میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا) اسی طرح یہ فقرہ قدرت الارض (زمین نے ایک شی کو دوسری شی کے ایک اور سفر کو دوسرے سفر کے ساتھ جمع کردیا) اسی طرح یہ محاورہ ہے ” ماقرات الناقۃ قط “ (اونٹنی نے اپنے رحم میں کبھی کسی بچے کو جمع نہیں کیا) اسی طرح یہ فقرہ ہے ” اقرات النجوم “ (افق میں ستارے اکٹھے ہوگئے) یہ محاورہ بھی ہے اقرات المراۃ فھی مقدی (عورت کو حیض آگیا اب وہ حیض والی ہوگئی) اصمعی، کسائی اور فراء نے اس کا ذکر کیا ہے بعض سے یہ منقول ہے کہ قرء کا معنی ایک چیز سے نکل کر دوسری چیز کی طرف چلے جانا ہے لیکن اس معنی کی تائید کے لئے شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ معنی قابل اعتماد اہل لغت سے منقول نہیں اور نہ ہی ہمارے ذکر کردہ شواہد میں اس معنی کے لئے کوئی گنجائش ہے۔ اس لئے یہ معنی ساقط ہے اور قابل قبول نہیں پھر ہم کہیں گے کہ اگر اس لفظ کا حقیقی معنی وقت ہے تو اس صورت میں اس سے حیض مراد لینا اولی ہوگا۔ کیونکہ وقت صرف اس چیز کی نسبت سے وقت کہلاتا ہے جو اس میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اب حیض وقوع پذیر ہونے والی چیز یعنی حادث ہے اور طہر تو صرف عدم حیض کا نام ہے یہ وقوع پذیر ہونے والی چیز نہیں ہے۔ اس لئے یہ ضر وری ہے کہ حیض اپنے مفہوم کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی کے زیادہ قریب ہو اگر قرء کا حقیقی معنی ضم اور تالف یعنی ملا لینا اور جوڑ لینا ہے تو پھر بھی حیض اس معنی کے زیادہ قریب ہے کیونکہ حیض کا خون حالت حیض سے بدن کے تمام اجزاء سے بنتا ہے اور جمع ہوتارہتا ہے اس لئے اس کا معنی اسم قرء سے زیادہ قریب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خون تو ایام طہر میں بنتا اور جمع ہوتا رہتا ہے اور ایام حیض میں بہہ جاتا ہے تو جواب میں یہ کہا جائے گا کہ معترض نے بہت اچھی بات کہی اور معاملہ بھی اسی طرح ہے لیکن اس معاملے کی دلالت اس بات پر قائم ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی حیض کیونکہ معترض کے اس قول کے بعد اب لفظ قرء خون کے لئے اسم بن گیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ معترض کے خیال میں یہ حالت طہر کے خون کا نام ہے اور ہمارے خیال میں یہ حالت حیض کے خون کا نام ہے۔ بہرحال یہ بات ضرور واضح ہوگئی کہ اس خون کو قرء کا نام دینے میں طہر کو کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ طہر خون نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ خون کی عدم موجودگی میں کبھی طہر موجود ہوتا ہے اور کبھی خون کے ساتھ اس کا وجود ہوتا ہے جیسا کہ معترض نے اپنے اعتراض میں یہ نکتہ اٹھایا ہے اس لئے قرء دم یعنی خون کے لئے اسم قرار پایا طہر کے لئے۔ لیکن خون ظاہر ہونے سے اس اسم کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس خون کے ساتھ صرف اس کے ظہور کی حالت ہی میں کسی حکم کا تعلق ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ طہر کی حالت میں رحم کے اندر اس خون کے وجود کا تیقن نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ حالت طہر میں ہم اسے قرء کا نام دیں۔ اس لئے کہ قرء تو ایسا اسم ہے جس کے ساتھ شرعی حکم کا تعلق ہوتا ہے اور اس خون کے جاری ہونے سے پہلے اور اس کے وجود کے علم سے قبل اس کے ساتھ کسی حکم کا تعلق نہیں ہوتا۔ معترض سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ طہر کی حالت میں رحم کے اندر خو ن جمع ہوتا رہتا ہے اور وہاں رکے رہنے کے بعد حیض کے وقت جاری ہوجاتا ہے کیونکہ یہ ایسا قول ہے جو دلیل سے خالی ہے اور ظاہر کتاب سے بھی اس کی تردید ہو رہی ہے قول باری ہے ویعلم ما فیالارحام اور اللہ ہی کو علم ہے جو کچھ رحموں میں ہے) ۔ اس ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مافی الارحام اپنی ذات کے لئے خاص کرلیا ہے اور بندوں کو اس سے مطلع نہیں کیا تو اب معترض کس طرح حالت طہر کے اندر رحم میں اس کے جمع ہونے اور حالت حیض میں جاری ہونے کے متعلق کہاں سے فیصلہ دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ پورے جسم سے جمع ہوتا ہے اور حیض کی حالت میں جاری ہوجاتا ہے اس سے پہلے نہیں ا ن کے اس قول کی تردید نہیں کی گئی۔ ان کا یہ قول حق سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہمیں حیض کی حالت میں اس کے وجود کا یقینی علم ہوتا ہے لیکن حیض سے پہلے اس کے وجود کا ہمیں علم نہیں ہوتا اس بنا پر وقت سے پہلے اس کے متعلق کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اب جبکہ ہم نے یہ واضح کردیا کہ لفظ قرء کا حیض اور طہر دونوں پر اطلاق ہوتا ہے اور یہ بھی بتادیا کہ لغت میں یہ لفظ کن معانی پر مشتمل ہے تو اس کی روشنی میں اس بات پر ازخود دلالت ہونی چاہیے کہ حقیقت میں یہ حیض کے لئے اسم ہے نہ کہ طہر کے لئے اور طہر پر اس کا اطلاق مجاز اور استعارے کے طور پر ہوتا ہے۔ ہم نے پچھلی سطور میں لغت سے جو شواہد بیان کئے ہیں اور لفظ کے حقیقی معنی کی جو وضاحت کی ہے وہ اس بات کی دلالت کے لئے کافی ہیں کہ اس کا حقیقی معنی حیض کے ساتھ خاص ہے طہر کے ساتھ نہیں ۔ اس طویل تمہید کے بعد اب ہم یہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے یہ دیکھا کہ حقیقی معنوں پر دلالت کرنے والے اسماء کسی حال میں بھی اپنے مسمیات یعنی مدلولات سے منتفی نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس مجازی معنوں پر دلالت کرنے والے اسماء اپنے مدلولات سے کبھی منتفی ہوجاتے ہیں اور کبھی انہیں لازم ہوجاتے ہیں پھر ہم نے یہ دیکھا کہ قرء کا اسم حیض کے معنی سے کبھی منتفی نہیں ہوا لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ قرء کا اسم طہر کے معنی سے کبھی منتفی ہوجاتا ہے کیونکہ طہر تو سن یاس کو پہنچ جانے والی عورت اور نابالغ لڑکی میں موجود ہوتا ہے لیکن وہ ذوات الاقراء (قرء والیوں) میں سے نہیں ہوتیں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ دو حیض کے درمیان آنے والے طہر پر قرء کا اسم مجازی طور پر بولا جاتا ہے حقیقی طور پر نہیں اس اسم کا طہر پر اس لئے اطلاق ہوتا ہے کہ حیض کے متصل طہر پایا جاتا ہے۔ جس طرح کہ ایک اسم کا اطلاق اس کے غیر پر بھی ہوجاتا ہے جبکہ وہ غیر اس اسم کے پڑوسی یعنی متصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اس کا ایک گو نہ تعلق ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جس وقت طہر حیض سے متصل ہوتا ہے تو اس پر قرء کے نام کا اطلاق ہوجاتا ہے اور جب متصل نہیں ہوتا تو نام کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لفظ قرء سے مراد حیض ہے طہر نہیں۔ اس پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ جب قرء میں دونوں معنوں کا احتمال ہے اور امت کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں میں سے ایک معنی مراد ہے۔ اگر احتمال کی حد تک دونوں معنی یکساں ہیں تو پھر بھی حیض کا معنی اولیٰ ہوگا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے اس لفظ میں حیض کا معنی ہے طہر کا نہیں۔ آپ نے فرمایا الستعاضۃ تدع اصلواۃ ایام اقراء ھا استحاضہ والی عورت اپنے ایام کے برابر دنوں میں نماز چھوڑ دے گی) اسی طرح آپ نے حضرت فاطمہ ؓ بنت حبیش کو فرمایا تھا فذا اقبل قرء ک فدعی الصلوۃ واذا ادبرفاغتسلی وصلی مابین القرء الی القرء جس وقت حیض شروع ہوجائے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض واپس ہوجائے تو غسل کرلو اور ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض کے درمیان پوری مدت میں نمازیں پڑھتی رہو) حضور ﷺ کے الفاظ میں قرء حیض کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس لئے آیت کو حیض کے سوا اور کسی معنی پر محمول نہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید لامحالہ حضور ﷺ کی لغت میں نازل ہوا تھا اور حضور ﷺ ایسے الفاظ میں اللہ کی مراد بیان کردیتے تھے جن میں کئی معانی کا احتمال ہوتا تھا اور آپ کی لغت میں قرء طہر کے لئے استعمال نہیں ہوا۔ اس لئے اس لفظ کو طہر پر محمول کرنے کی بہ نسبت حیض پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ اس معنی پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر البصری نے بیا ن کی انہیں ابودائود نے انہیں محمد بن مسعود نے، انہیں ابوعاصم نے ابن جریج سے، انہوں نے مظاہر بن اسلم سے انہوں نے قاسم بن محمد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اور حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا طلاق الامۃ ثنتین وقو وھا حیضتان ، لونڈی کو ملنے والی طلاق کی زیادہ سے زیادہ تعداد دو ہے اور اس کا قرء دو حیض ہے) ۔ ابوعاصم کہتے ہیں مجھے مظاہر نے انہیں القاسم نے حضرت عائشہ ؓ سے اور حضر ت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ سے اسی طرح کی روایت کی البتہ اس روایت میں الفاظ یہ ہیں وعدتھا حیضتان اس کی عدت دو حیض ہے) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے، انہیں محمد بن شاذان نے انہیں معلی نے انہیں عبداللہ بن شبیب نے عبداللہ بن عیسیٰ سے، انہوں نے عطیہ سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی کہ تطلیق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہے) ۔ حضور ﷺ نے صریح الفاظ میں لونڈی کی عدت د و حیض بیان کردی اور یہ بات ہمارے مخالفین کے قول کے خلاف جاتی ہے۔ اس لئے کہ ان کا گمان ہے کہ لونڈی کی عدت دو طہر ہے اور وہ اس کے حق میں دوحیض پورے نہیں کرتے۔ اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ لونڈی کی عدت دو حیض ہے تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حرہ کی عدت تین حیض ہوگی۔ یہ دونوں حدیثیں اگرچہ خبرواحد کے طور پر روایت ہوئی ہیں لیکن اہل علم ان دونوں پر اس لحاظ سے عمل کرنے میں متفق ہیں کہ سب کے نزدیک لونڈی کی عدت حرہ کی عدت کا نصف ہے۔ یہ چیز اس کی صحت کو واجب کردیتی ہے۔ قرء سے حیض مراد ہے۔ اس پر حضرت ابوسعید خدری ؓ کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی روایت انہوں نے حضور ﷺ سے کی ہے۔ آپ نے معرکہ اوطاس کے قیدیوں کے متعلق فرمایا تھا کہ لاتوطاحامل حتی تضع ولاحائل حتی تستبری بحیضۃ جو عورت حاملہ ہو اس کے ساتھ ہمبستری اس وقت تک نہ کی جائے جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے دے اور جو حاملہ نہیں ہے جب تک ایک حیض گزارنے کے ساتھ استبراء رحم نہ کرلے اس وقت تک اس سے قربت نہ کی جائے) یہ تو معلوم ہے کہ عدت کی بنیاد استبراء رحم ہے جب حضور ﷺ نے لونڈی کا استبراء ایک حیض قرار دیا نہ کہ طہر، تو واجب ہوگیا کہ عدت کا اعتبار حیض کے ذریعے کیا جائے نہ کہ طہر کے ذریعے۔ اس لئے کہ ا ن دونوں میں سے ہر ایک کو اصلاً استبراء کے لئے وضع کیا گیا ہے یعنی یہ معلوم کرنے کے لئے کہ رحم حمل سے خالی ہے اگرچہ سن یاس کو پہنچ جانے والی عورت اور نابالغ لڑکی کو بھی عدت کے دن گزارنے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ عدت کی اصل تو استبراء کے لئے ہے پھر اس اصل پر آئسہ اور صغیرہ کو بھی محمول کیا گیا ہے تاکہ قریب البلوغ لڑکی میں حمل کی گنجائش باقی نہ رہے اور بڑ ی عمر کی عورت میں بھی جس کے اند ر یہ ممکن ہے عدت ترک کرنے کی صورت میں اسے حیض آجائے اور وہ حیض کا خون دیکھ لے اس بنا پر سب کے لئے استبراء کے متعلق احتیاط کرتے ہوئے عدت واجب کردی گئی۔ قرء سے مراد حیض ہے اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے واللائی لیسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعد لھن ثلاثۃ اشھر، تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے) اللہ تعالیٰ نے حیض نہ آنے کی صورت میں تین ماہ کی مدت واجب کردی اور انہیں حیض کے قائم مقام بنادیا۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حیض ہی اصل ہے جس طرح کہ تیمم کے متعلق جب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا فلم تجدوا ماء فتیمموا، تو پاک مٹی سے تیمم کرلو) تو ہمیں یہ معلوم ہوگیا طہارت کے حصول کا اصل ذریعہ پانی ہے جس کی عدم موجودگی میں حصول طہارت کو پاک مٹی کی طرف منتقل کردیا گیا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اقراء کو ایسے عدد میں محصور کردیا جو اس کا تقاضا کرتا ہے کہ عدت کے لئے اسے پورا کیا جائے۔ قول باری ہے ثلثۃ قرء تین قرء) اب جو شخص اپنی بیوی کو طلاق سنت دے تو قرء کو طہر پر محمول کر کے عدت کی مدت یعنی تین قرء کو پوری طرح مکمل کرنا ممتنع ہوجائے گا اس لئے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ وہ ایسے طہر کے دوران دی جائے جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو۔ اس صورت میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ طلاق دیتے وقت طہر کا کچھ حصہ گزرچکا ہو پھر وہ عورت اس کے بعد دو طہر عدت میں گزارے۔ اس طرح عدت کی مدت دو طہر اور ایک طہر کا بعض حصہ بنے گی اور تین قرء کی تکمیل نہیں ہوگی۔ جب طلاق سنت کی صورت میں تین قرء کی تکمیل متعذر ہوگئی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ قرء سے مراد حیض ہے کہ جس کے ذریعے آیت میں مذکور عدد کی پوری طرح تکمیل ممکن ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ بات قول باری الحج اشھر معلومات کی طرح نہیں ہے یہاں دو ماہ اور تیسرے مہینے کا ایک حصہ مراد ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اشھر معلومات کو کسی عدد میں محصور نہیں کیا۔ اسے صرف جمع کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ اقراء ایک عدد میں محصور ہے جس میں اس سے کم کا احتمال ہی نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آپ یہ فقرہ رایت ثلاثہ رجال (میں نے تین آدمی دیکھے) کہہ کر دو آدمی مراد لیں تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس اگر آپ رایت رجالاً میں نے کئی آدمی دیکھے) کہہ کر دو آدمی مراد لیں تو یہ درست ہوگا۔ نیز قول باری الحج اشھر معلومات) سے مراد ہے کہ عمل الحج فی اشھر معلومات “ (حج کا عمل معلوم مہینوں میں ہوتا ہے) اور مراد اس سے یہ ہے کہ بعض میں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ حج کے اعمال پورے مہینوں پر پھیلے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ ان کے بعض حصوں میں ادا ہوجاتے ہیں۔ اس لئے یہاں عدد کو مکمل کرنی کی ضرورت نہیں پڑی لیکن اقراء میں عدت پوری کرنے کے لئے عدد کے تحت آنے والی مدت کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر اقراء سے مراد طہر ہوں تو پھر بھی تین کے ہند سے کے تحت آنے والی مدت کو پورا کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح وقت کو پورا کرنا۔ اس بنا پر طہر کے تمام اوقات عدد مکمل ہونے تک عدت کی مدت میں شامل ہوں گے اور اس عدد سے کم عدد پر اقتصار جائز نہیں ہوگا۔ اس صورت میں اقراء سے مراد حیض ہی ہوگا کیونکہ حیض مراد لے کر عدد کے تحت واقع ہونے والی مدت کی تکمیل ہوسکتی ہے اگر طلاق بطریق سنت دی جائے اب جس طرح آئسہ اور صغیرہ کی عدت کے سلسلے میں دو ماہ اور تیسرے مہینے کے بعض حصے کی مدت پر اقتصار قول باری فعدتھن ثلثۃ اشھر) کی روشنی میں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح قول باری ثلثۃ قرء) کی روشنی میں دو طہر اور تیسرے طہر کے بعض حصے پر اقتصار جائز نہیں ہے نتیجہ یہ نکلا کہ قرء سے حیض مراد ہے طہر مراد نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ طہر میں طلاق ملنے کی صورت میں طہر کا باقی ماندہ حصہ ایک مکمل قرء ہوگا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر طہر کے ایک جز کو قرء کا نام دیا جائے پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تیسرے طہر کا ایک جز موجود ہوتے ہی اس کی عدت مکمل ہوجائے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرء نام ہے حیض سے طہر کی طرف یا طہر سے حیض کی طرف جانے کا تاہم سب کا اتفاق ہے کہ اگر حیض کی حالت میں اسے طلاق مل جاتی ہے تو اس صورت میں اس کے حیض سے طہر کی طرف خروج کو قرء شمار نہیں کیا جائیگا۔ اب جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہاں حیض سے طہر کی طرف خروج مراد نہیں ہے تو ایک صورت باقی رہ گئی وہ ہے طہر سے حیض کی طرف خروج۔ جب یہ بات واضح ہوگئی تو اگر کوئی شخص حالت حیض میں بیوی کو طلاق دے تو درج بالا وضاحت کی روشنی میں اس کے لئے تین قرء پوری طرح مکمل کرنا ممکن ہوگا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ قرء کی یہ تشریح یعنی طہر سے حیض یا حیض سے طہر کی طرف خروج کئی وجوہ سے فاسد ہے۔ اول یہ کہ سلف کا قول باری یتربصن بانفسھن ثلثۃ قرء) میں لفظ قرء کے معنی کے متعلق اختلاف ہے بعض کا قول ہے کہ قرء حیض ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اطہار جمع طہر ہے۔ اب معترض نے قرء کی جو توضیح کی ہے وہ اجماع سلف کی توضیحات سے باہر ہے۔ اس لئے سلف کے اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا۔ ایک اور پہلو بھی ہے جیسا کہ ہم نے تفصیلاً بیان کردیا ہے کہ اہل لغت کا خود اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ لفظ قرء کا اصل لغوی معنی کیا ہے اس سلسلے میں اہل لغت کے جو اقوال نقل کئے گئے ہیں ان میں کوئی قول ایسا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اس لفظ کی حقیقت حیض سے طہر یا طہر سے حیض کی طرف خروج ہے۔ اس لئے معترض کی یہ توضیح اس بنا پر فاسد ہوجائے گی۔ فساد کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ جو شخص کسی لفظ کے لغوی معنی کے متعلق کوئی دعوی کرے اس کے ذمے اس دعوے کی تصدیق کے لئے لغت سے کوئی شاہد یعنی مثال پیش کرنا یا اہل لغت کی اس کے متعلق کوئی روایت بیان کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن اگر مدعی کا یہ قول کسی شاہد یعنی لغت کی دلالت اور اہل زبان کی روایت دونوں سے خالی ہو تو یہ ساقط ہو کر قابل اعتبار نہیں رہتا۔ ایک اور پہلو سے ملاحظہ کیجئے اگر قرء کا لفظ حیض سے طہر یا طہر سے حیض کی طرف انتقال کا نام ہوتا تو یہ ضروری ہوتا کہ اصل میں لغت کے اندر اس لفظ کو کسی اور معنی کے لئے حقیقت کے طور پر وضع کیا گیا تھا پھر اسے طہر سے حیض کی طرف انتقال کے معنی کی طرف منتقل کردیا گیا کیونکہ یہ بات تو معلوم ہے کہ اصل لغت میں یہ اسم طہر سے حیض کی طرف انتقال کے معنی کے لئے وضع نہیں کیا گیا بلکہ یہ دوسرے معنی سے منتقل ہو کر ادھر آیا ہے۔ اب جبکہ انتقال کی کسی صورت کو بھی قرء کا نام نہیں دیا گیا تو اس سے معلوم ہوگیا کہ قرء کا لفظ طہر سے حیض کی طرف انتقال کے معنی کے لئے اسم ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا بھی یعنی قرء کا لفظ طہر سے حیض کی طرف انتقال کے معنی کے لئے اسم ہوتا تو یہ ضروری ہوتا کہ عورت کا طہر سے حیض کی طرف منتقل ہونا ایک قرئہ ہوتا پھر حیض سے طہر کی طرف منتقل ہونا دوسرا قرء ہوتا اور پھر دوسرے طہر سے حیض کی طرف منتقل ہونا تیسرا قرء ہوتا اور اس طرح دوسرے حیض میں داخل ہوتے ہی اس کی عدت گزر جاتی اس لئے کہ معترض کے اصل کے مطابق قرء حیض کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ حیض سے طہر کی طرف انتقال کی صورت میں اسم قرء کا مدلول پایا جاتا ہے۔ (تاکہ حیض کے بعد آنے والا طہر پہلا قرء ہو اور اس طرح تین قرء کی تکمیل ہوجائے) طہر سے حیض کی طرف انتقال کی صورت میں قرء کا یہ مدلوں نہیں پایا جاتا کیونکہ اس صورت میں تین قرء کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ طاہر اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ حیض سے طہر کی طرف انتقال کی صورت میں اسم قرء کی مدلول پایا جائے لیکن اجماع کی دلالت نے اس سے روک دیا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے حیض سے طہر کی طرف انتقال کا معنی لینے سے صرف اس لئے انکار کیا ہے کہ شوہر اگر بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دے تو اس صورت میں اجماع کی دلالت کی بنا پر حیض سے طہر کی طرف اس کے انتقال کو قرء شمار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس صورت کے علاوہ حیض سے طہر کی طرف انتقال کی تمام صورتوں کے لئے لفظ کا حکم پھر بھی باقی رہے گا اب جبکہ معترض کے لئے ہمارے ذکر کردہ اعتراضات سے چھٹکارا ممکن نہیں اور معترض کی ان دونوں باتوں میں تعارض ہے تو یہ دونوں باتیں ساقط ہوجائیں گی اور استدلال ختم ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ مطلقہ کے طہر سے حیض کی طرف خروج کا اعتبار کرنا اس کے حیض سے طہر کی طرف خروج کے اعتبار کی بہ نسبت اولی ہے۔ اس لئے کہ پہلی صورت میں حمل سے اس کے رحم کے خالی ہونے پر دلالت ہوتی ہے جبکہ حیض سے طہر کی طرف خروج کی صورت میں اس پر دلالت نہیں ہوتی اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ عورت اپنے حیض کے آخر ی ایام میں حاملہ ہوجائے اس پر تابط شراً کا یہ شعر دلالت کرتا ہے۔ ومبراء من کل غیر حیضۃ وفساد مرضعۃ وداء مغیل…ممدوح (اس سے مراد خود تابط شراً ہے) اس خرابی سے بری ہے کہ اس کا حمل اس کی ماں کے حمل کے حیض کے آخری دنوں میں ٹھہرا ہو۔ اسی طرح اسے دودھ پلانے والی کے دودھ کی خرابی سے بھی وہ بچا ہوا ہے۔ (اگر دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ ایام رضاعت میں جماع کیا جائے تو دودھ خراب ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے گویا ممدوح کو دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ دوران رضاعت ہمبستری نہیں ہوئی) نیز حاملہ عورت نے اسے دودھ نہیں پلایا۔ اس لئے وہ اس خرابی سے بچا ہوا ہے۔ یہاں شاعر یہ مراد لے رہا ہے کہ ممدوح کی ماں کو اس کا حمل حیض کے آخری دنوں میں نہیں ٹھہرا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قائل کا یہ کہنا حائضہ عورت حیض کے آخری دنوں میں حاملہ ہوسکتی ہے ایک غلط بات ہے۔ اس لئے کہ حمل اور حیض دونوں اکٹھے نہیں ہوسکتے حضور ﷺ نے فرمایا لاتوطا حامل حتی تضع۔ کسی حاملہ عورت کے ساتھ وطی نہ کی جائے جب تک اس کے ہاں بچہ جنم نہ لے لے) ۔ آپ نے حیض کے وجود کو حمل سے رحم کے خالی ہونے کی نشانی قرار دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ حمل اور حیض اکٹھے نہیں ہوسکتے اور جب بھی عورت حیض کے دوران حاملہ ہوجائے گی اس کا حیض ختم ہوجائے گا۔ حمل کے ساتھ پایا جانے والا خون حیض کا خون نہیں ہوگا بلکہ دم استحاضہ ہوگا،۔ اس بنا پر معترض کا یہ کہنا کہ اس کا حیض سے طہر کی خروج میں حمل سے اس کے رحم کے خالی ہونے پر دلالت نہیں ہوتی ایک غلط بات ہے۔ تابط شراً کے شعر سے جو استشہاد کیا گیاے اس پر بڑا تعجب آتا ہے زمانہ جاہلیت سے تعلق رکھنے والے اس شاعر کو اس بات کا کیا پتہ ہے جبکہ قول باری ویعلم ما فی الارحام جو کچھ رحم میں ہے اللہ اسے جانتا ہے) اسی طرح قول باری ہے عالم الغیب۔ غیب کی باتوں کی اسے خبر ہے) اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اس کے بارے میں علم کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ مخلوق کو اس کا علم نہیں دیا گیا مخلوق کو صرف اتنا ہی کچھ معلوم ہے ج اللہ نے بتادیا۔ ساتھ ساتھ حضور ﷺ کے قول کی بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ حیض اور حمل یکجا نہیں ہوسکتے۔ دوسری طرف قائل نے استدلال میں جو بات کہی ہے اس سے ہمارے قول کی صحت پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ اقراء کے ذریعے عدت کا مقصد حمل سے رحم کو پاک کرنا ہے اور طہر میں استبراء نہیں ہوتا اس لئے حمل کا استقرار طہر میں ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہوگیا کہ اقراء کا اعتبار حیض کے ذریعے کیا جائے کیونکہ حیض رحم کا حمل سے خالی ہونے کی نشانی ہوتا ہے اور اقراء کا اعتبار طہر کے ذریعے نہ کیا جائے کیونکہ طہر میں استبراء رحم پر دلالت نہیں ہوتی۔ یہ بات کہ اقراء کے ذریعے عدت استبراء ہے اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اگر عورت نے خون دیکھا اور اس کے بعد حمل ظاہر ہوگیا تو اب عدت یہی حمل ہوگا یعنی وضع حمل کے ساتھ عدت ختم ہوگی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اقراء والی عورتوں کی عدت کا مقصد حمل سے رحم کو پاک کرنا ہے اور مقصد دو وجوہ کی بنا پر حیض سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ طہر سے۔ اول یہ کہ طہر حمل کا ہم زمانہ ہوتا ہے اور جو چیز حمل کا ہم زمانہ ہو اس میں استبراء واقع نہیں ہوسکتا۔ استبراء اس میں واقع ہوسکتا ہے جو حمل کے منافی ہو اور یہ حیض ہے جس کے ذریعے رحم کے حمل سے خالی ہونے پر دلالت ہوسکتی ہے۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ عدت حیض کے حساب سے ہو طہر کے حساب سے نہ ہو۔ جن لوگوں نے طہر کا اعتبار کیا ہے ان کا استدلال قول باری فطلقوھن لعدتھن انہیں ان کی عدت پر طلاق دو ) سے ہے یعنی حالت طہر میں۔ اسی طرح ان کا استدلال حضور ﷺ کے اس قول سے بھی ہے جو آپ نے حضرت عمر ؓ سے اس وقت فرمایا تھا جب ان کے بیٹے نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تھی کہ مرہ خیرا جعھا ثم لید عھا حتی تطھر ثم تعیض ثم تطھر ثم لیطلقھا ان شاء، اس سے کہو کہ بیوی سے رجوع کرلے پھر اسے چھوڑے رکھے حتی کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے پھر اسے حیض آجائے پھر پاک ہوجائے پھر اگر چاہے تو طلاق دے دے۔ یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے) یہ بات دو وجوہ سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ عدت طہر کے حساب سے ہوگی۔ اول یہ کہ حضور ﷺ نے طہر میں طلاق کا ذکر کیا ہے اس لئے یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے اور یہ طہر کی طرف اشارہ ہے نہ کہ حیض کی طرف۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عدت طہر کے حساب سے ہوگی نہ کہ حیض کے حساب سے دوسری وجہ قول باری واحصوا العدۃ اور عدت کو خیال میں رکھو) اور عدت کو خیال میں رکھنا طہر میں طلاق دینے کے بعد ہوگا۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ جس چیز کے شمار کو خیال میں رکھا جائے وہ اس طہر کا باقی ماندہ حصہ ہے جو طلاق کے متصل بعد کا ہے۔ اس استدلال کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کا یہ کہنا کہ ” یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے “۔ تو دراصل حرف لام ایسی صورت میں حال ماضیہ اور حال مستقبلہ کے لئے داخل ہوتا ہے۔ آپ حضور ﷺ کا یہ قول نہیں دیکھتے صرمدالرویتہ یعنی گزری ہوئی رویت پر روزہ رکھو۔ اسی طرح قول باری کو دیکھئے ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا، جو شخص آخرت کا ارادہ کرتے ہوئے اس کے لئے اس کے شایان شان سعی کرے) یعنی آخرت کے لئے، یہاں لام استقبال اور تراخی کے لئے ہے، اسی طرح محاورہ ہے، ” تاھب للشتاء “ (سردی کی تیاری کرلو) یہاں مراد آنے والا وقت ہے جو تیاری سے ابھی فاصلے پر ہے۔ اب جبکہ لفظ میں ماضی اور مستقبل دونوں کا احتمال ہے اور جب یہ مستقبل کے معنی پر مشتمل ہو تو اس کا یہ مقتضی نہیں ہوگا کہ اس کا وجود ذکر کردہ شے کے فوراً متصل بعد ہوجائے ۔ جب یہ صورتحال ہے اور ادھر ہم نے حضور ﷺ کے اس قول میں جو آپ نے حضرت ابن عمر ؓ کے لئے حضرت عمر ؓ سے فرمایا تھا گزرے ہوئے حیض کا ذکر پایا ہے آنے والا حیض تو معلوم ہے اگرچہ مذکور نہیں ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے مرہ فلیرا جعھا ثم لید عھا حتی تطھرثم تعیض ثم تطھرثم لیطلقھا ان شاء قتلک العدۃ التی امر اللہ ان یطلق لھا النساء) اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ گزرے ہوئے حیض کی طرف اشارہ ہو۔ اور پھر یہ اس بات پر دلالت کرے کہ عدت حیض کے حساب سے ہوتی ہے۔ اس میں یہ گنجائش ہے کہ اس سے آنے والا حیض مراد ہو کیونکہ وہ اس لحاظ سے معلوم ہی ہوتا ہے کہ اس کا مستقبل میں آنا عادت کے مطابق ہوتا ہے یعنی کسی عورت کا آئندہ کا حیض ایک امر معتاد ہوتا ہے۔ اس صورت میں طہر کا اعتبار کرنا حیض کے اعتبار سے اولیٰ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حیض آئندہ زمانے میں آئے گا اگرچہ الفاظ میں مذکور نہیں ہے اس لئے معلوم ہونے کی بنا پر حیض مراد لینا جائز ہے اگرچہ مذکور نہیں ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنے ارشاد میں طلاق کے بعد والے طہر کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ آپ نے طلاق سے قبل والے طہر کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ عادت کے مطابق طلاق کے بعد طہر کا وجود معلوم تھا جبکہ طلاق طہر میں دی گئی ہو۔ اس لئے کلام کو اس کی طرف راجع کرنا اور لفظ سے یہی مراد لینا جائز ہوگیا۔ مندرجہ بالا تفصیل کے باوجود یہ جائز ہے کہ عورت کو طلاق کے متصل بعد حیض آجائے اس بنا پر لفظ میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جو یہ ثابت کرتی ہو کہ عدت کے حساب میں جس چیز کا اعتبار کیا جانا چاہیے وہ طہر ہے حیض نہیں ہے اس کے باوجود یہ دلالت ضرور موجود ہے کہ اگر شوہر نے اسے طہر کے آخری حصے میں طلاق دے دی اور طلاق کے متصل بعد اسے حیض آگیا تو اس کی عدت کا حساب حیض کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ طہر کے ساتھ یہی حضور ﷺ کے قول کا مقتضی ہے۔ کیونکہ اس میں طلاق کے بعد آنے والے حیض کا ہی ذکر ہے نہ طہر کا۔ اب جس وقت عورت کو طلاق کے فوراً بعد حیض آجائے تو یہی حیض اس کی عدت ہوگا پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ کسی نے طلاق کے فوراً بعد یا ٹھہر کر آنے والے حیض کے اعتبار میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ حیض ہی وہ صورت ہے جس کا اقراء کے اندر حساب کیا جائے نہ کہ طہر۔ اگر یہ کہا جائے کہ حدیث میں مذکورہ حیض سے گزرا ہوا حیض مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ طلاق سے پہلے کا حیض عدت میں شمار نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب حیض کا شمار طلاق کے بعد کیا جاسکتا ہے تو اسے عدت کا نام دینا جائز ہے۔ جس طرح اس ارشاد باری میں ہے حتی تنکح زوجاً غیرہ جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور شوہر سے شادی نہ کرلے) اللہ نے نکاح سے پہلے ہی اس دوسرے آدمی کو زوج یعنی شوہر کے نام سے موسوم کردیا۔ ہمارے مخالف کے اٹھائے ہوئے نکتہ سے جو اعتراض ہم پر عائد ہوتا ہے وہی ہمارے مخالف پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے طہر کا ذکر کر کے حضرت ابن عمر ؓ کو اس میں طلاق دینے کا حکم دیا لیکن آپ نے اس طہر کا ذکر نہیں کیا جو طلاق کے بعد آنے والا تھا۔ اب اس طہر کو تو عدت کا نام دیا گیا جو طلاق سے پہلے تھا کیونکہ ہمارے مخالف کے نزدیک عدت طہر کے ذریعے گزاری جاتی ہے تو ہمارا مخالف اس حیض کو عدت کا نام دینے سے کیوں جھجکتا ہے جو طلاق سے قبل آیا تھا کیونکہ اسی حیض کے ذریعے وہ عورت عدت گزار رہی تھی۔ رہ گیا قول باری واحصوا العدۃ تو اس میں احصاء یعنی شمار کرنا حیض کو چھوڑ کر صرف طہر کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہر ایسی چیز جو شمار میں آسکے اسے احصاء لاحق ہوسکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب وہ چیز جو طلاق کے متصل ہوتی ہے طہ رہے اور ہمیں آیت میں احصاء کا حکم دیا گیا ہے تو اس نے یہ واجب کردیا ہے کہ احصاء کے حکم کا رخ طہر کی طرف ہو کیونکہ امر کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس پر فی الفور عملدرآمد کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ احصار کا رخ ایسی اشیاء کی طرف ہوتا ہے جو شمار میں آسکیں۔ اگر صرف ایک چیز ہو تو جب تک اس کے ساتھ دوسری چیزیں مل نہ جائیں تو اس ایک چیز کے شمار کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اس بنا پر لزوم احصاء کا تعلق مستقبل میں آنے والے اقراء کے ساتھ ہوگا جو طلاق کے وقت سے دیر کے بعد آئے گا۔ پھر اس وقت اعصاء کے لئے طہر حیض کی بہ نسبت اولیٰ نہیں ہوگا۔ اس لئے احصاء کی نشانی دونوں کو شامل ہے اور دونوں ہی کو ایک ہی حیثیت سے لاحق ہے نیز اس سے معترض پر یہ لازم آئے گا کہ طلاق کے فوراً بعد حیض آجانے کی صورت میں وہ حیض کے ذریعے عدت کا قائل ہوجائے کیونکہ طلاق کے بعد احصاء کا لزوم ہوجاتا ہے۔ اب اس خاص صورت میں طلاق کے متصل بعد جو چیز ہے وہ حیض ہے اس لئے اسے ہی عدت ہونا چاہیے۔ ہمارے ایک مخالف جنہوں نے احکام القرآن کے موضوع پر تصنیف کی ہے قول باری فطلقوھن لعدتھن) کے معنی فی عدتھن (ان کی عدت میں بیان کیا ہے اور اس کی تائید میں یہ محاورہ پیش کیا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے ” کتب لغرۃ الشھر “ مہینے کی پہلی تاریخ کو یہ لکھا گیا) اس کا معنی ہے فی ھذا الوقت یعنی اس وقت میں ایسا کہنا غلط ہے۔ کیونکہ حرف فی ظرف کا معنی دیتا ہے اور حرف لام اگرچہ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ان معانی میں کوئی ایسا معانی نہیں ہے جو اس کے ظرف بننے کا احتمال رکھتا ہو حرف لام جسے لام اضافت بھی کہتے ہیں ۔ آٹھ معانی میں منقسم ہے۔ ایک لام ملکیت مثلاً آپ یہ کہیں ” لہ مال “ (اس کے پاس مال ہے) دوم لام فعل مثلاً آپ یہ کہیں ” لہ کلام ولہ حرکۃ “ وہ بات کرتا ہے اس میں حرکت ہے) سوم لام علت مثلاً آپ یہ کہیں ” قام لان زیداً جائہ (وہ اس لئے کھڑا ہوگیا کہ زید اس کے پاس آیا تھا یا یہ کہیں ” عطاء لانہ سالہ “ اس نے اسے کچھ دیا اس لئے کہ اس نے اس سے سوال کیا تھا) چہارم لام نسبت مثلاً آپ یہ کہیں ” لہ اب ولہ اخ “ اس کا باپ ہے اور اس کا بھائی بھی ہے) ۔ پنجم لام اختصاص مثلاً ۔ آپ یہ کہیں یہ کہیں ” یالبکریالدارم “ (بکر کی دہائی، دارم کی دہائی) ہفتم لام کی مثلاً قول باری ہے ولیرضوہ ولیقترفوا تاکہ وہ اسے راضی کریں اور تاکہ وہ عملی جامہ پہنائیں) ہشتم لام عاقبت مثلاً قول باری ہے لیکون لھم عدوا وحزنا، تاکہ حضرت موسیٰ فرعون اور اس کے حواریوں کے لئے انجام کار دشمن اور غم کا باعث بنیں) ۔ یہ معانی جن میں یہ لام منقسم ہے ان میں کوئی ایسا معنی نہیں ہے جس کا ذکر اس قائل نے کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا یہ قول واضح طور پر غلط ہے کیونکہ اگر قول باری فطلقومن لعدتھن) کا معنی فی وقت عدتھن ان کی عدت کے وقت) ہو تو اس سے لازم آتا ہے کہ عدت موجود ہو حتی کہ وہ اسے اس عدت میں طلاق دے دے مثلاً کوئی یہ کہے ” طلقھانی رجب “ (اسے رجب کے مہینے میں طلاق دے دو ) ۔ تو اس کے لئے رجب کے مہینے کے وجود سے قبل طلاق دینا جائز نہیں ہوگا۔ اس وضاحت کے بعد قائل کے اس قول کا فساد اور اس کا تناقض پوری طرح ظاہر ہوگیا۔ قول باری واحصوا العدۃ) کی اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ یہ طہر ہی ہے جس میں طلاق سنت مسنون ہے کہ اگر کسی نے طہر میں جماع کرنے کے بعد طلاق دے دی تو وہ سنت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔ نیز فریقین کے نزدیک اس کی عدت کے ایام کے حکم میں سارے کا سارا حیض یا سارے کا سارا طہر ہونے کی بنا پر کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طہر کے زمانے میں طلاق سنت واقع کرنے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ طہر اس کی عدت میں شمار کیا جائے۔ البتہ اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ اگر وہ اسے حیض کی حالت میں طلاق دے دے تو طلاق کے متصل بعد وہ معتدہ یعنی عدت گزارنے والی بن جائے گی اور ہمیں اس کی عدت کے احصاء کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نہ لزوم احصاء کا اور نہ ہی طلاق سنت کے وقت کا اس بات سے کوئی تعلق ہے کہ اس سلسلے میں طہر کا اعتبار کیا جائے۔ اس کے سوا اور کسی کا اعتبار نہ کیا جائے۔ اس فصل میں جس قائل کے اعتراض کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ہم یعنی اہل عراق (حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے) نے اقراء کے علاوہ عدت میں دوسری باتوں یعنی غسل یا ایک نماز کے وقت کے گزر جانے کا اعتبار بھی کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اقراء کے ذریعے عدت واجب کی ہے پھر غسل کرنے یا ایک نماز کا وقت گزر جانے کا کیا معنی ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے اقراء کے سوا جو کہ ہمارے نزدیک حیض ہے کسی اور چیز کا اعتبار نہیں کیا ہے لیکن ہمیں حیض کے ختم ہوجانے اور اس کے گزر جانے کے حکم کا تیقن دو میں سے ایک بات سے حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ اس عورت کے ایام کی مدت دس دن سے کم ہو، غسل اور اس کے ساتھ نماز کے مباح ہونے کے ذریعے اس صورت میں وہ بالاتفاق پاک ہوجائے گی۔ جس طرح کہ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ شوہر کے لئے رجوع کرنے کی گنجائش مطلقہ کے تیسرے حیض سے غسل کرنے تک باقی رہتی ہے یا دوسری بات یہ ہے کہ اس پر ایک نماز کا وقت گزر جائے۔ اس صورت میں اس نماز کی فرضیت اسے لازم ہوجائے گی اور اس طرح نماز کی فرضیت کالزوم حیض کے حکم کی بقاء کے منافی ہوجائے گا۔ یہ گفتگو صرف تیسرے حیض اور اس سے پاک ہوجانے کے متعلق ہے۔ زیر بحث مسئلے یعنی عدت کا حساب بذریعہ طہر ہوگا یا بذریعہ حیض سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہمارا یہ قول ہے کہ اگر اس کی عادت دس دنوں کی ہو تو دس دن گزرنے کے ساتھ ہی اس کی عدت ختم ہوجائے گی خواہ وہ غسل کرے یا نہ کرے کیونکہ اس صورت میں ہمیں حیض کے گزر جانے کا یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے نزدیک حیض دس دن سے زائد نہیں ہوتا۔ اس بنا پر جو شخص اقراء سے حیض مراد لینے پر ہمارے سردرج بالا اعتراضات تھوپتا ہے وہ دراصل خود غفلت کا شکار ہے اور اقراء کو اس کے غلط جگہ استعمال کا مرتکب ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے اس مسئلے پر بحث کے لئے الگ سے کتاب تصنیف کی ہے اور اس کتاب میں ہم نے اس سے زیادہ تفصیل سے گفتگو کی ہے لیکن اس مسئلے کے متعلق جتنا کچھ ہم نے یہاں بیان کردیا ہے وہ ہمارے خیال میں کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تین قرء کی جس عدت کا ذکر کیا ہے اس سے مراد حرہ یعنی آزاد عورت کی عدت ہے لونڈی کی نہیں اس لئے کہ سلف کے اندر اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ لونڈی کی عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ ہم نے حضرت علی ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور دوسرے صحابہ کرام سے یہ روایت بیان کی ہے کہ لونڈی کی عدت حرہ کی عدت کا نصف ہے۔ ہم نے حضور ﷺ سے بھی یہ روایت بیان کی ہے کہ لونڈی کی زیادہ سے زیادہ طلاق کی تعداد دو ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے۔ سنت اور اجماع دونوں کی دلالت اس پر ہے کہ قول باری ثلثۃ قرء) میں اللہ کی مراد آزاد عورت کی عدت ہے لونڈی کی عدت نہیں ہے۔ قول باری ہے ولایحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن، ان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس چیز کو پوشیدہ رکھیں جو اللہ نے ان کے رحم میں پیدا کی ہے اعمش نے ابوالضحیٰ سے اور انہوں نے مسروق سے اور مسروق نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت کی ہے کہ امانت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ عورت کو اس کی شرمگاہ کا امین سمجھا جائے۔ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے درج بالا قول باری کے متعلق روایت کی ہے کہ اس سے مراد حیض اور حمل ہے۔ الحکم نے مجاہد اور ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ ایک کا قول ہے کہ اس سے مراد حمل ہے اور دوسرے کا قول ہے کہ یہ حیض ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک عورت سے یہ حلف لیا تھا کہ اس نے ابھی تک حیض کی مدت مکمل نہیں کی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے بھی یہی فیصلہ دیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنے رحم میں پیدا شدہ چیز کو پوشیدہ نہ رکھنے کی نصیحت فرمائی تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حیض کے وجود اور اس کے عدم کے متعلق عورت کا ہی قول معتبر ہوگا۔ اسی طرح حمل کے بارے میں بھی اسی کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ اس کے رحم میں تخلیق کرتا ہے اور اگر اس کا قول معتبر نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے ترک کتمان کی نصیحت نہ کرتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر بیوی یہ کہے کہ اسے حیض آرہا ہے تو اس کے شوہر کے لئے ہمبستری کا جواز باقی نہیں رہے گا اور جب وہ کہہ دے گی کہ میرا حیض ختم ہوگیا ہے تو ہمبستری حلال ہوجائے گی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا ہے کہ اگر شوہر یہ کہے کہ اگر تجھے حیض آگیا تو تجھ پر طلاق ہے۔ بیوی جواب میں کہے کہ مجھے تو حیض آگیا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس کا یہ قول بینہ یعنی ثبوت کے مترادف ہوگا۔ ہمارے اصحاب نے اس صورت اور طلاق کے ساتھ معلق ہونے والی تمام شرطوں کے درمیان فرق کردیا ہے۔ مثلاً شوہر کہے ” اگر تو گھر میں داخل ہوگی تو تجھ پر طلاق “ یا ” اگر تو نے زید سے کلام کیا تو تجھے طلاق “۔ ان صورتوں میں ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ بیوی کے قول کا اعتبار نہیں کیا جائیگا۔ جب تک شوہر اس کی تصدیق نہ کر دے یا بیوی کوئی ثبوت پیش کرے۔ حیض اور طہر کے معاملے میں عورت کے قول کی تصدیق اس لئے کی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر حیض اور طہر اور عدت گزر جانے کے معاملے میں اس کا قول قبول کرلینا واجب کردیا ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو عورت کے ساتھ خاص ہیں اور ان پر دوسرا کوئی شخص مطلع نہیں ہوسکتا۔ اس بنا پر اس کے قول کو ثبوت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح حیض سے متعلقہ تمام احکام میں اس کا قول قبول کیا جائے گا۔ فقہاء نے کہا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ ” اگر تجھے حیض آجائے تو میرا غلام آزاد ہے “۔ عورت جواب میں کہے کہ مجھے حیض آگیا ہے تو اس صورت میں اس کے قول کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے کہ یہ اپنی ذات سے باہر غیر پر حکم لگاناے اور وہ ہے غلام کی آزادی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے قول کو ثبوت کا درجہ حیض کے ان معاملات میں دیا ہے جو اس کی ذات کے لئے مخصوص ہیں مثلاً عدت کا گزر جانا، وطی کی اباحت یا ممانعت وغیرہ لیکن حیض کے ایسے معاملات جو اس کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی ذات سے ان کا تعلق ہے تو ان معاملات کی حیثیت دیگر شرائط کی طرح ہے اس لئے ان معاملات میں عورت کے قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ جن باتوں کا کسی شخص کو امین بنایا گیا ہو ان کے سلسلے میں اس شخص کے قول کی تصدیق کے متعلق اس آیت کی نظیر یہ آیت ہے ولیملل الذین علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاً اورا ملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے یعنی قرض لینے والا اور اسے اللہ اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کمی بیشی نہ کرے) ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے کمی بیشی نہ کرنے کی نصیحت کی تو اس بات سے دلالت حاصل ہوگئی کہ قرض کے معاملے میں اس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر اس معاملے میں اس کا قول قابل قبول نہ ہوتا تو اسے کمی بیشی ترک کرنے کی نصیحت نہ کی جاتی لیکن اگر اس نے کمی بیشی کرلی تو پھر اس کے قول کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس کی ایک مثال یہ قول باری ہے ولاتکموا الشھادۃ ومن یکتمھا فانہ اثم قلیہ اور گواہی نہ چھپائو اور جو شخص گواہی کو چھپائے گا تو دراصل اس کا دل گہنگا رہے) ۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ گواہ جب گواہی چھپا جائے یا ظاہر کر دے تو دونوں صورتوں میں اسی کے قول کی طرف رجوع کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ترک کتمان کی جو نصیحت کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے قول کو قبول کرلیا جائے یہ تمام باتیں اس چیز کی بنیاد اور اصل ہیں کہ جب کسی شخص کو کسی چیز کا امین بنادیا جائے تو اس چیز کے متعلق اس کا ہی قول معتبر سمجھا جائے گا مثلاً جس شخص کے پاس کوئی چیز بطور ودیعت رکھ دی جائے اور وہ شخص یہ کہے کہ ودیعت ضائع ہوگئی یا میں نے اسے واپس کردیا ہے تو اس کے قول کو تسلیم کرلیا جائے گا۔ یہی حکم مضارب اور مستاجر کا ہے (ایسی شراکت جس میں سرمایہ ایک کا ہو اور کام دوسرا کرے مضاربت کہلاتی ہے اور کام کرنے والا مضارب کہلاتا ہے، کوئی شخص کوئی چیز یا کوئی مزدور اجرت یا کرائے پر لے یا رکھے اسے مستاجر کہتے ہیں) اور یہی حکم ان تمام لوگوں کا ہے جنہیں حقوق کا امین بنایا گیا ہو۔ اسی بنا پر ہم نے یہ کہا ہے کہ قول باری فرھان مقبوضۃ اگر سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ ملے تو رہن بالقبض پر معاملہ کرلو) پر اس قول باری فان امن بعضکم بعضاً فلیودالذی ائتمن امانتہ ولتیق اللہ ربہ، اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت واپس کر دے اور اللہ اپنے رب سے ڈرے) کا عطف اس پر دلالت کرتا ہے کہ رہن امانت نہیں ہے اس لئے کہ اگر رہن امانت ہوتا تو اسے لفظ امانت پر عطف نہ کیا جاتا اس لئے کہ ایک چیز کو اس کی ذات پر عطف نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے غیر پر عطف کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قول باری ولایحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحا مھن) کا حکم حمل کی حدتک ہے حیض اس حکم میں داخل نہیں ہے اس لئے کہ خون اس وقت حیض ہوتا ہے جب جاری ہوجائے اور رحم میں پائے جانے کی صورت میں حیض نہیں کہلاتا۔ اب چونکہ حیض وہ چیز ہے جس کے حکم کا تعلق جاری ہونے والے خون سے ہوتا ہے اس لئے جب تک وہ رحم میں ہے اس کے ساتھ کسی حکم کا تعلق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے اعتبار کا کوئی معنی ہوگا اور نہ ہی اس کے متعلق عورت کے قول پر بھروسہ کیا جائیگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کیونکہ خون اس وقت تک حیض نہیں ہوتا جب تک کہ وہ تم سے جاری نہ ہوجائے لیکن ہم نے جو بات کی ہے آیت کی دلالت اس پر قائم ہے وہ اس لئے کہ حیض کے وقت کے متعلق عورت کے قول ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا کیونکہ ہر مہینے والا خون حیض نہیں ہوتا۔ بہنے والا خون چند دوسرے اسباب کی بنا پر حیض کہلاتا ہے۔ مثلاً عادت، وقت، رحم کا حمل کا سے خالی ہونا وغیرہ۔ جب بات یہ ہے اور مذکورہ بالا امور کے متعلق معلومات کا ذریعہ صرف متعلقہ عورت ہے تو اس صورت کے تحت اگر وہ یہ کہے کہ میں تین حیض گزار چکی ہوں تو آیت کے مقتضیٰ کے تحت اس کے قول کا اعتبا ر کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے کہ میں نے خون نہیں دیکھا ہے اور میری عدت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے تو اسی کا قول معتبر ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے کہ مجھے اسقاط ہوگیا ہے اور بچے کی خلقت ظاہر ہوگئی تھی اور اب میری عدت گزرگئی تو اس وقت بھی اسی کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ تصدیق کا تعلق تو حیض سے ہے جو پایا گیا اور خون سے ہے جو جاری ہوگیا اس لئے اب اس کی بات تسلیم کرنے میں کونسی چیز حائل رہ گئی۔ آیت میں اس پر بھی دلالت پائی جاتی ہے کہ حیض کے حکم کا تعلق خون کی رنگت سے نہیں ہے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو اس معاملے میں صرف عورت کے قول کا ہی اعتبار نہ ہوتا اور یہ صرف اس کے ساتھ خاص نہ ہوتا بلکہ ہمیں بھی اس میں دخل ہوتا کیونکہ رنگوں کو ایک دوسرے سے فرق کرنے میں وہ اور ہم برابر ہیں۔ اس سے یہ دلالت مہیا ہوگئی کہ حیض کا خون استحاضہ کے خون سے رنگت کے لحاظ سے متمیز نہیں ہوتا بلکہ دونوں کی ایک ہی کیفیت ہوتی ہے۔ اس میں اس شخص کے قول کا بھی بطلان ہے جس نے خون کی رنگت سے حیض کا اعتبار کیا ہے اگر رنگت کا اعتبار ساقط کردیا جائے تو حیض کے متعلق معلومات عورت ہی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے کہ وقت حیض اس سلسلے میں عورت کی عادت، اس کی مقدار اور طہر کے اوقات وغیرہ کے متعلق معلومات کا ذریعہ متعلقہ عورت ہی ہے۔ اسی طرح حمل کی موجودگی جو خون کو حیض بننے سے روک دیتی ہے نیز اسی طرح اسقاط ان سب میں عورت کے قول کی طرف ہی رجوع کیا جائے گا۔ اس لئے کہ ہمیں ان باتوں کا نہ علم ہے اور نہ ہی ہم ان سے واقف ہیں۔ ان کے متعلق معلومات ہمیں عورت کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ اس بنا پر ان باتوں میں عورت کے قول ہی کو معتبر قرار دیا گیا ہے۔ ہشام نے امام محمد سے ذکر کیا ہے کہ حیض کے وجود کے متعلق عورت کا قول تسلیم کرلیا جائے گا اور اگر وہ عمر کے لحاظ سے سن بلوغت کو پہنچ چکی ہو اور اس جیسی لڑکی کو حیض آسکتا ہو تو اس کی بلوغت کا حکم صادرکر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم نے قول باری ولایحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن) کے سلسلے میں بیان کی ہے۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر مراہق یعنی قریب البلوغ لڑکا کہے کہ مجھے احتلام ہوگیا ہے یعنی میں بالغ ہوگیا ہوں تو اس کے قول کی اس وقت تک تصدیق نہیں کی جائے گی جب تک احتلام کے متعلق معلومات نہ ہوجائیں یا وہ ایسی عمر کو پہنچا ہوا ہو جس میں اس جیسا لڑکا بالغ ہوجاتا ہو۔ امام محمد نے حیض اور احتلام میں فرق رکھا ہے ان دونوں میں فرق کی بات یہ ہے کہ حیض کا علم اس لڑکی کے ذریعے ہوگا اس لئے کہ حیض کا تعلق اوقات نہیں عادت اور ایسے امور سے ہوتا ہے جن کے متیلق معلومات اس کے سوا کسی اور جہت سے حاصل نہیں کی جا سکتیں نیز آیت کی دلالت بھی اس پر ہو رہی ہے کہ حیض کے معاملے میں اس کا قول قبول کرلیا جائے۔ احتلام کی یہ کیفیت نہیں ہے کیونکہ اس میں مادہ تولید کا کود کر اور شہوت کے تحت نکلنے کا دوسرے اسباب کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا۔ اس میں صرف خروج ہی پایا جاتا ہے۔ اور اس میں عادت اور وقت کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ جب احتلام کی یہ کیفیت ہے تو اس میں اس لڑکے کے قول کا اس وقت تک اعتبار نہیں کیا جائے گا جب تک اس کے قول کی صحت کا یقین نہ ہوجائے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ حیض اور استحاضہ کا خون چونکہ ایک ہی کیفیت کا ہوتا ہے تو خون کا مشاہدہ کرنے والے کے لئے یہ درست نہیں ہوگا کہ اس پر حیض کے خون کا حکم لگا دے۔ اس لئے عورت کے قول کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوگا کیونکہ یہ ایسی بات ہے جسے صرف وہی جانتی ہے ہم نہیں جانتے لیکن احتلام کی صورت میں مشاہدہ کرنے والے کو کوئی اشتباہ پیش نہیں آئے گا کیونکہ وہ اسے بغیر کسی التباس کے سمجھتا اور جانتا ہے۔ دوسری کسی شئے کا اس کے ہم شکل اور ہم کیفیت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے اس میں احتلام والے کے قول کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قول باری ان کن یومن باللہ والیوم الاخر۔ اگر انہیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہو) آیت کے پہلے حصے میں کتمان کی نہی کے لئے شرط نہیں ہے یہ صرف تاکید کے لئے اور یہ بتانا ہے کہ یہ ایمان کی شرائط میں سے ہے۔ اس لئے کتمان نہ کرنا اس کے لئے ضرور ی ہے۔ جہاں تک نہی کا تعلق ہے اس میں ایمان رکھنے والی اور نہ رکھنے والی دونوں برابریں نہی دونوں کے لئے ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے ولاتاخذکم بھما رافۃ فی دین اللہ ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر۔ زناکار مرد اور زنا کار عورت کے متعلق الہ کے دین میں تمہارے دلوں کے اندر نرمی نہ پیدا ہوجائے اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو) اسی طرح حضرت مریم (علیہا السلام) کا قول انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا۔ میں رحمن کی پناہ میں آتی ہوں اگر تو پرہیزگار ہے) ۔ قول باری ہے ولبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان الادوا اصلاحاً ۔ ان کے شوہر تعلقات درست کرلینے پر آمادہ ہوں تو وہ اس عدت کے دوران میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں) یہ کئی احکام پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ تین سے کم طلاقیں زوجیت کے رشتے کو ختم اور باطل نہیں کرتیں کیونکہ ان طلاقوں کے ساتھ زوجیت کے رشتے کے باقی رہنے کی خبر دی گئی ہے طلاق کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے مرد کو بعل یعنی شوہر کے نام سے یاد کیا ہے۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورت جب تک عدت میں ہے وراثت اور زوجیت کے دوسرے تمام احکام بحالہ باقی ہیں۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اس دوران مرد کے لئے رجوع کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے فی ذلک یعنی تین قرء کے اندر جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ یہ اس پر بھی دال ہے کہ رجوع کرنے کی یہ اجازت اس حالت تک محدود ہے جس میں مرد کو اصلاح یعنی تعلقات درست کرلینے کا ارادہ ہو اور بیوی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے ولاتمسکوھن ضداداً لتعتدوا، اور تم اپنی بیویوں کو نقصان پہنچانے کے لئے روکے نہ رکھو تاکہ ان کے ساتھ زیادتی کرو) ۔ اگر یہ کہا جائے کہ زوجیت کا رشتہ باقی رہنے کی حالت میں اس قول باری احق بردھن فی ذلک) کا کیا مفہوم ہوگا، یہ بات تو صرف اس صورت میں کہی جاسکتی ہے جب ملکیت کا ازالہ ہوجائے لیکن ملکیت باقی رہنے کی صورت میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اسے اپنی ملکیت میں واپس لے آئو جبکہ بیوی پر پہلے سے شوہر کی ملکیت موجود ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس صورت میں ایک سبب موجود ہے جس کے ساتھ عدت کی مدت ختم ہونے پر زوال نکاح کا تعلق ہوجائے گا یعنی طلاق اس لئے رد یعنی واپس لینے کے اسم کا اس پر اطلاق درست ہوگیا اور یہ اسم عدت گزر جانے کے موقع پر زوال نکاح کے لئے مانع کا کام دے گا۔ اس کا نام رد اس لئے رکھا گیا کیونکہ یہ سبب کے حکم کو ختم کردیتا ہے جس کا زوال ملکیت کے ساتھ تعلق ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن بمعروف۔ جب یہ طلاق یافتہ عورتیں اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو یا تو انہیں معروف طریقے سے روک یا (معروف طریقے سے انہیں جانے دو ) حالانکہ اس حالت یعنی حالت عدت میں بھی شوہر ایس روکے ہوئے ہے۔ اس لئے کہ وہ اس کی بیوی ہے یہاں اس سے مراد وہ رجوع ہے جو عدت کے گزرنے پر نکاح کے بقاء کو واجب کرتا ہے اگر یہ رجوع نہ ہو تو یہی بات اس کے نکاح کو ختم کردینے والی بن جائے۔ اس رجوع کی اباحت اگرچہ اصلاح کے ارادے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے ہم اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر وہ نقصان پہنچانے کے ارادے سے یا عدت کو طول دینے کی نیت سے رجوع کرتا ہے تو اس کا رجوع درست ہوگا۔ اس پر یہ قول باری فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن بمعروف ولاتمسکوھن ضراراً لتعتدوا) دلالت کرتا ہے۔ اس کے فوراً بعد یہ ارشاد ہوا ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ۔ اور جو شخص ایساکرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا) اگر نقصان پہنچانے کی نیت سے شوہرکا رجوع کرنا درست نہ ہوتا تو شوہر اس کا ارتکاب کر کے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا قرار نہ دیا جاتا۔ آیت اس بات کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے کہ عموم کے لفظ کا اس کے تحت آنے والی مسمیات یعنی مدلولات پر اطلاق کیا جائے پھر اس پر ایسے حکم کے ساتھ عطف کیا جائے جو اس عموم کے تحت آنے والی چیزوں میں سے بعض کے ساتھ خاص ہو یہ چیز عموم لفظ کو ان باتوں میں اعتبار کرنے سے مانع نہیں ہوتی جو اس عموم کے تحت آتی ہوں اور جو ان باتوں کے علاوہ ہوں جن کے ساتھ معطوف کو خاص کردیا گیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری والطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قرء ) تین اور تین سے کم طلاقیں پانے والی دونوں قسم کی مطلقات کو عام ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے پھر قول باری وبعولتھن احق بردھن) خاص حکم ہے جس کا تعلق ان مطلقات کے ساتھ ہے جنہیں تین سے کم طلاقیں ملی ہوں لیکن اس نے یہ بات واجب نہیں کی کہ قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثہ قرئو) کا حکم صرف ان مطلقات تک محدود ہو جنہیں تین سے کم طلاقیں ملی ہیں کیونکہ تین طلاق والی پر بھی عدت کے تین قرء واجب ہیں۔ قرآن و سنت میں اس کے نظائر کثرت سے ملتے ہیں۔ مثلا قول باری ہے ووصینا الانسان بوالدیہ حسناً ، ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کی ہے) اس میں کافر اور مسلمان دونوں قسم کے والدین کے لئے عموم ہے پھر اس پر اس ارشاد کو عطف کیا (وان جاھداک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلاتطعھما، اور اگر یہ دونوں تمہیں اس پر مجبور کریں کہ تم میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائو جس کا تمہیں علم نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مانو) یہ حکم مشرک والدین کے ساتھ خاص ہے۔ اس حکم کے لئے اول خطاب میں مسلمان اور مشرک دونوں قسم کے والدین کے متعلق وارد ہونے والا عموم مانع نہیں ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب ! شوہر کا بیوی پر اور بیوی کا شوہر پر حق قول باری ہے ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجۃ، عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ زوجین میں سے ایک کو دوسرے پر حق حاصل ہے اور شوہر کو بیوی پر خصوصی طور پر سے ایک حق حاصل ہے کہ بیوی کو شوہر پر اس جیسا حق حاصل نہیں ہے۔ چناچہ قول باری ہے وللرجال علیھن درجۃ ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ یہ نہیں بتایا کہ کون کون سے حقوق ہیں جو زوجین میں سے ہر ایک کو دوسرے پر حاصل ہیں۔ البتہ دوسری آیتوں اور حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ان کی تفصیلات آئی ہیں چناچہ مرد پر ان کے حقوق کے سلسلے میں ارشاد ہوا (وعاشووھن بالمعروف، عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے معاشرت اختیار کرو) نیز فامساک بمعروف اوتسریح باحسان، معروف طریقے سے انہیں روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے انہیں رخصت کردیا جائے) ۔ نیز فرمایا وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف، اس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا، کپڑا دینا ہوگا) نیز فرمایا الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا من اموالہم، مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں ہر ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں) یہ نفقہ یعنی روٹی، کپڑامرد پر عورت کے حقوق میں سے ایک ہے۔ نیز فرمایا واتوا النساء صدقاتھن نحلۃ، اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو) اللہ تعالیٰ نے عورت کا یہ حق بیان کردیا کہ شوہر اسے پورا پورا اس کا مہر اسے دے دے۔ نیز فرمایا وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احداھن قنطاراً فلا تاخذوا منہ شیئاً اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ کر ہی لو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا) ۔ یہاں یہ بیا ن کردیا کہ جب شوہر بیوی سے علیحدگی کا ارادہ کرلے اور بدسلوکی مرد کی طرف سے ہوئی ہو تو یہ عورت کا اس پر حق ہے کہ جو کچھ شوہر نے اسے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے مرد کی طرف سے بدسلوکی پر استبدال (ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنا) کا ذکر دلالت کرتا ہے۔ نیز فرمایا ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم فلاتمیلواکل المیل فتذروھا کالمعلقۃ، بیویوں کے درمیان عدل کرنا پورا پورا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہوسکتے لہٰذا قانون الٰہی کا منشا پورا کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جائو کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو ) ۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر پر بیوی کا یہ حق بھی مقرر کردیا ہے کہ وہ اس کے سوا دوسری بیوی کی طرف میلان کا اظہار نہ کرے۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top