Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدو سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ بیوی کا حق ہے کہ شوہر اس کے اور دوسری بیوی کے درمیان دنوں کو تقسیم کر دے اور باریاں مقرر کر دے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ایک بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیویوں کی طرف میلان کا اظہار نہیں ہوگا۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس کے ساتھ ہمبستری کرنا بھی اس پر لازم ہے کیونکہ قول باری ہے فتذدوھا کالمعلقۃ یعنی نہ تو وہ آزاد ہو کہ کہیں اور نکاح کرلے اور نہ ہی شوہر والی ہو کیونکہ مرد نے اس کے ساتھ ہمبستری کا حق پورا نہیں کیا۔ عورت کا بھی یہ حق ہے کہ مرد اس کو نقصان پہنچانے کی نیت سے نہ روکے رکھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ نیز فرمایا ولاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا ترا ضوابینھم بالمعروف۔ عورتوں کو طلاق دینے کے بعد تم اس میں مانع نہ بنو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر رضامند ہوں) اگر یہ خطاب شوہر سے ہے تو یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب اس کی طرف شوہر کا میلان ختم ہوجائے تو اس کا حق یہ ہے کہ شوہر اسے طلاق نہ دے کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کے راستے میں حائل نہ ہو۔ شوہر پر عورتورں کے یہ وہ حقوق ہیں جن کا اثبات درج بالا آیتوں میں کیا گیا ہے۔ عورتوں پر مردوں کے جن حقوق کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں ارشاد ہے فالصالحت قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ ، پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں) اس بارے میں کئی اقوال ہیں۔ ایک قول ہے کہ شوہر نے بیوی کے رحم میں جو قطرے ٹپکائے ہیں ان کی وہ حفاظت کرے اور اسقاط کے لئے حیلے نہ کرے۔ ایک قول ہے کہ اپنے بستر کو شوہر کے لئے محفوظ رکھے یعنی بدکاری سے بچے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ گھر میں شوہر کا جو مال و متاع ہو اس کی اور اپنی دونوں کی حفاظت کرے اس کی بھی گنجائش ہے کہ درج بالا تمام احتمالات مراد ہوں کیونکہ الفاظ میں ان سب کی گنجائش ہے۔ قول باری الرجال قوامون علی النساء) نے یہ بتادیا کہ بیوی پر شوہر کی اطاعت لازم ہے۔ کیونکہ شوہر کو قوامیت کے وصف سے متصف کرنا اس کا متقاضی ہے۔ نیز قول باری واللاتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلاتبعو علیھن سبیلاً اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھائوخواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ بیوی پر اپنی ذاتی حیثیت سے شوہر کی فرمانبرداری لازمی ہے نیز وہ اس کے ساتھ بدسلوکی سے پیش نہ آئے۔ زوجین میں سے ہر ایک پر دوسرے کے حقوق کے متعلق حضور ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جن کا مضمون درج بالا قرآنی آیات کے مضمون کی طرح ہے اور بعض میں اس سے کچھ زائد باتیں ہیں۔ ان میں سے ایک روایت ہے جسے محمد بن بکر بصری نے ہمیں بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں عبداللہ بن محمد النفیلی وغیرہ نے انہیں خاتم بن اسماعیل نے انہیں جعفر بن محمد نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :” عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے اللہ کی امانت کے وسیلے سے انہیں حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو قدم نہ رکھنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو ان کی پٹائی کرو لیکن پٹائی سخت نہ ہو کہ زخموں کے نشان پڑجائیں تم پر ان کے حقوق یہ ہیں کہ معروف طریقے سے ان کے روٹی کپڑے یعنی نان و نفقہ کے ذمہ دار ہو) ۔ لیث نے ملک سے ، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک عورت حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سوال کیا کہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب میں بہت سی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر کی کوئی چیز بطور صدقہ نہ دے۔ اگر اس نے ایسا کرلیا تو شوہر کو اجر ملے گا اور بیوی کی گردن پر بوجھ ہوگا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے نہ نکلے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی روز نفلی روزہ نہ رکھے مسعر نے سعید المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ” بہترین عورت وہ بیوی ہے کہ تم اس پر نظر ڈالو تو تمہیں خوش کر دے جب تم اسے حکم دو تو حکم مانے اور تم موجود نہ ہو تو وہ تمہارے مال اور اپنی آبرو کی حفاظت کرے) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ الرجال تعامون علی النساء) تا آخر آیت۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں بعض نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شوہر تنگ دست ہوجائے اور بیوی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری پوری نہ کرسکے تو دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دینا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شوہروں پر بیویوں کے اسی طرح کے حقوق لازم کردیئے ہیں جس طرح کے حقوق بیویوں پر شوہروں کے لئے ہیں۔ حقوق کے لزوم کے لحاظ سے دونوں کے درمیان مساوات قائم کردی ہے۔ اب یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر بیوی کا نان و نفقہ پورا کئے بغیر اس سے ہمبستری کا لطف اٹھائے۔ لیکن یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ نان و نفقہ ہمبستری کا بدل نہیں ہے کہ جس کی عدم موجودگی میں دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے اور نہ ہی شوہر نان و نفقہ دینے کی بنا پر اس سے ہمبستری کا حق دار بنتا ہے۔ بلکہ شوہر کو یہ حق عقد نکاح کی بنا پر حاصل ہوا ہے جس کے بدلے میں مہر کی رقم ادا کی گئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر نان و نفقہ بدل ہوتا تو آیت کی روشنی میں عورت علیحدگی کی مستحق قرار نہ پاتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نان و نفقہ کے ذکر کے فوراً بعد یہ فرمایا کہ وللرجال علیھن درجۃ، آیت کا یہ حصہ اس بات کا متقاضی ہے کہ جہاں تک نکاح کی وجہ سے حاصل ہونے والے حقوق کا تعلق ہے ان میں مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے اور مرد کو عورت سے تعلقات زن وشو قائم کرنے کا حق ہے خواہ وہ اس کے نان و نفقہ کو پور ا کرنے کی قدرت نہ بھی رکھتا ہو۔ نیز اگر عورت اپنی ذات کو شوہر کے حوالے کر کے اس کے گھر میں بس کر نان و نفقہ کی مستحق ہوگئی ہے تو ہم نے شوہر پر نان و نفقہ کی ذمہ داری واجب کردی ہے جس طرح ہم نے بیوی کے ساتھ تعلقات زن و شو کو مباح کردیا ہے۔ جب ہم نے شوہر پر نان و نفقہ کی ذمہ داری واجب کردی اور اسے بیوی کے لئے اس پر ثابت کردی تو اس صورت میں ہم نے بیوی کو اس کا حق واجب کئے بغیر نہیں چھوڑا جس طرح کہ ہم نے اس پر شوہر کا حق بھی واجب کردیا۔ آیت ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف جن احکام پر دلالت کر رہی ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔ اول اگر بیوی کے لئے کوئی مہر مقرر نہیں ہوا تو شوہر پر مہر مثل واجب ہوگا۔ اس لئے کہ شوہر عقد نکاح کے ذریعے بیوی کی ذات کا مالک ہوگیا اور یہ اسے حق حاصل ہوگیا کہ بیوی اپنی ذات کو اس کے سپرد کر دے۔ اس لئے شوہر کے ذمہ بیوی پر اس کی ملکیت کا مثل واجب ہوگا اور مثل بضع اس کی قیمت ہے جو مہر مثل ہے جیسا کہ قول باری ہے فمن اعتدی علیکم فاعتدواعلیہ بمثل ما اعتدی علیکم جو شخص تم پر زیادتی کرے تو تم پر اس پر اسی قدر زیادتی کرو جس قدر اس نے کی ہے) ۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اس پر اس چیز کی قیمت واجب ہوجاتی ہے جس کی ملکیت اسے حاصل ہوجائے اور یہ ملکیت اسے ایسی چیز کے بدلے میں حاصل ہو جس کا اس کی جنس میں کوئی مثل نہ ہو اسی طرح مثل بضع مہر مثل ہے۔ قول باری بالمعروف۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو مہر واجب ہوجائے اس میں نہ زیادتی کی جائے نہ کمی جس طرح کہ حضور ﷺ کا اس عورت کے متعلق ارشاد ہے جس کے شوہر کی وفات ہوجائے اور نہ تو اس نے اس کے لئے مہر مقرر کیا ہو اور نہ ہی اس سے ہمبستری کی ہو لھا مھرمثل نساء ھا ولاوکس ولاشطط، اسے اس کے خاندان کی عورتوں جیسا مہر ملے گا نہ اس میں کمی ہوگی نہ زیادتی) ۔ اسی طرح آپ کا ارشاد ہے ایمامراۃ تزوجت بغیراذن ولیھا فنکاحھا باطل فان دخل بھا فلھا مھر مثل نساء ھا ولاوکس فیھا ولاشطط، جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر مرد نے اس کے ساتھ ہمبستری کرلی تو اس کے ذمہ عورت کے خاندان کی عورتوں جیسا مہر لازم آئے گا اس میں نہ کمی ہوگی نہ بیشی یہی وہ معنی ہے جو مشہور ہے اور جو آیت میں مذکور ہے۔ آیت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ اگر اس نے اس شرط پر نکاح کرلیا کہ اسے کوئی مہر نہیں ملے گا پھر بھی اس پر مہر واجب ہوگا۔ اس لئے آیت نے نکاح میں مہر کی نفی کی شرط لگانے کا وہ حق واجب کردیا جو اس حق کی طرح ہے جو مرد کے لئے عورت پر واجب ہوتا ہے۔ قول باری ہے وللرجال علیھن درجۃ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جن باتوں کی وجہ سے فضیلت دی ہے ان میں سے ایک کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ مرد کو عورت کا منتظم بنا کر اسے اس پر فضیلت عطا کردی۔ نیز قول باری ہے وبما انفقوا امن اموالھم، یہ چیز بھی ایسی ہے جس کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی نیز قول باری ہے۔ عورت پر مرد کی اطاعت لازم کر کے اس پر اسے فضیلت دی گئی۔ فضیلت کے درجات میں سے ایک بات یہ ہے کہ اگر عورت بدسلوکی اور سرکشی کرے تو اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لئے مباح کردیا ہے کہ اس کی پٹائی کرے اور خواب گاہ میں اس سے علیحدہ رہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ شوہر طلاق دے کر عورت سے علیحدگی کرنے کا حق رکھتا ہے جبکہ عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ شوہر اس بیوی کے ہوتے ہوئے مزید تین بیویاں کرسکتا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب تک وہ اس کے حبالہ عقد میں ہے یا اس سے طلاق حاصل کر کے عدت کے اندر رہے اس وقت تک کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ اسی طرح میراث میں شوہر کا حصہ بیوی کے حصے سے زائد ہے اسی طرح شوہر جہاں چاہے گا بیوی کو اس کے ساتھ جانا پڑے گا لیکن بیوی جہاں جانا یا رہنا چاہے شوہر پر اس کا ساتھ دینا لازم نہیں ہے۔ اسی طرح بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی ہے۔ حضور ﷺ سے ہمارے بیان کردہ وجوہ تفصیل کے علاوہ اور کئی وجوہ مروی ہیں۔ ان میں سے ایک اسماعیل بن عبدالمالک کی روایت کردہ حدیث ہے جو انہوں نے ابوالزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی آپ نے فرمایا لاینبغی لبشران یسجد لبشولوکان ذلک کان النساء لازواجھن، کسی بشر کو کسی بشر کے آگے جھکنا یعنی سجدہ کرنا مناسب نہیں اگر ایس ہوتا تو عورتیں اپنے مردوں کے سامنے جھکتیں) اسی طرح خلف بن امیہ کی روایت کردہ حدیث ہے جو انہوں نے حضرت انس ؓ کے بھتیجے حفص سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی۔ اعمش نے ابوحازم سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ حضور ﷺ نے فرمایا اذادعا الرجل امراتہ الی فراشہ فابت فبات غضبان علیھالعن تھا الملائکۃ حتی تصبح، جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ہمبستری کے لئے بلائے اور وہ انکار کر دے جس کی بنا پر اس سے ناراض ہو کر وہ رات گزارے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں) ۔ حصین بن محصن نے اپنی خالہ سے روایت کی ہے کہ خالہ حضور ﷺ کی خدمت میں گئی۔ حضور ﷺ نے استفسار کیا تو شوہر والی ہے ، خالہ اثبات میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا ” تمہارا اس کے ساتھ کیا سلوک ہے “۔ خالہ نے عرض کیا ” میں تو کوئی کمی نہیں کرتی، اس چیز کے سوائے جو میں نہ کرسکوں “۔ اس پر حضور نے فرمایا ” شوہر کے ساتھ اپنے سلوک کا خیال رکھو کیونکہ شوہر ہی تمہارے لئے جنت ہے یا دوزخ “۔ سفیان نے ابوالزناد سے، انہوں نے اعرج سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لاتصوم المراۃ یوماً زوجھا شاھد من غیر رمضان الاباذنہ، رمضان کے علاوہ کوئی عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے) ۔ اعمش نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنے سے منع فرما دیا۔ ان احادیث اور کتاب اللہ کی آیات پر مشتمل دلالت ان حقوق میں جو عقد نکاح سے لازم ہوتی ہیں عورت پر مرد کی فضیلت کا تقاضا کرتی ہے۔ قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) کے بارے میں کئی مواضع میں نسخ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جس کی روایت مطرف نے ابوعثمان الہندی سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے کی ہے جب مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی عدت والی آیت نازل ہوئی تو ہم نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ نابالغ، سن یاس کو پہنچ جانے والی عورت اور حاملہ عورت کی عدت کا حکم ابھی تک نازل نہیں ہوا۔ اس پر یہ آیت واللائی یئسن من المحیض من نساء کم) تا قول باری واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن، اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں تا قول باری اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے) نازل ہوئی۔ عبدالوھاب نے سعید سے انہوں نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اولمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) میں مطلقہ کی عدت تین حیض مقرر ہوئی پھر اس سے اس عورت کی عدت کا حکم منسوخ ہوگیا جس کے ساتھ اس کے شوہر نے ہمبستری نہ کی ہو۔ پھر تین قرء سے دو قسم کی عورتوں کا حکم منسوخ ہوگیا ایک واللائی یئسن من المحیض من نساء کم ان رتبتم) یعنی ایسی بوڑھی عورت جسے حیض نہ آتا ہے اور دوسری واللائی لم یحضن، اور وہ عورتیں جنہیں حیض نہ آیا ہو) یعنی ایسی کنواری عورت جسے ابھی تک حیض نہ آیا ہو۔ ان دونوں قسموں کی عورتوں کی عدت تین ماہ ہے اور ان کا حیض سے کوئی تعلق نہیں ہے اسی طرح تین قروء سے حاملہ عورت کی عدت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ قول باری ہے واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) حاملہ عورت کی عدت کا بھی حیض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی عدت وضع حمل ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب ؓ کی حدیث میں نسخ پر کسی قسم کی دلالت نہیں ہے اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے صغیرہ، آئیسہ اور حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق دریافت کیا یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام کو اس آیت کے خصوص کا علم تھا اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حاملہ عورت اس آیت میں داخل نہیں ہے اگرچہ یہ جواز تھا کہ وہ بھی مراد لی جائے اسی طرح نابالغ لڑکی بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جائز تھا کہ بلوغت کے بعد اس کے لئے بھی تین قروء کی شرط ہو اگر اسے بلوغت سے پہلے ہی طلاق ہوچکی ہو۔ رہ گئی آئیسہ تو آیت سے یہ بات خودبخود سمجھ میں آرہی تھی کہ وہ یہاں مراد نہیں ہے کیونکہ آئیسہ وہ عورت ہوتی ہے جسے حیض آنے کی کوئی امید نہیں ہوتی اس لئے یہ درست ہی نہیں تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں آیت میں مراد ہو۔ رہ گئی قتادہ کی روایت تو اس میں یہ ذکر ہے کہ آیت مدخول بہا (جس کے ساتھ شوہر ہمبستری کرچکا ہو) اور غیر مدخول بہاسب کے لئے تین قروء کی عدت واجب کرنے کے سلسلے میں عمومی حکم کی متقاضی تھی پھر اس سے غیر مدخول بہا کر منسوخ کردیا گیا۔ یہاں تک ممکن ہے کہ بات اس طرح جو جس طرح قتادہ نے کہی ہے لیکن قتادہ کا یہ قول کہ اس آیت سے دو قسم کی عورتیں منسوخ ہوگئیں اور وہ آئیسہ اور نابالغ لڑکی ہیں تو دراصل انہوں نے لفظ نسخ کا اطلاق کر کے اس سے مراد تخصیص لی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے اہل تفسیر سے اکثر لفظ نسخ منقول ہوتا ہے اور اس سے مراد تخصیص ہوتی ہے۔ اسی طرح قتادہ نے آئیسہ کے متعلق لفظ نسخ کہہ کر تخصیص مراد لی ہے نسخ کا حقیقی معنی مراد نہیں لیا ہے۔ اس لئے یہ بات درست ہی نہیں ہے کہ نسخ کا ورود ایسی چیز کے متعلق ہوجائے جس کا حکم ابھی ثابت ہی نہ ہو اور اس حکم کو ابھی استقرار حاصل نہ ہوا ہو۔ یعنی نسخ اس مقام پر وارد ہوتا ہے جہاں ایک چیز کے حکم کو استقرار حاصل ہوچکا ہو اور یہ بات تو کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتی کہ حیض سے مایوس عورت کو اقراء کے حساب سے عدت گزارنے کے حکم میں شامل کرلیا جائے جبکہ اقراء یعنی حیض کا وجود اس کی ذات میں محال ہوتا ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قتادہ نے لفظ نسخ کہہ کر اس سے تخصیص مراد لی ہے۔ ہمارے نزدیک قتادہ کے اس قول میں ایک احتمال اور بھی ہے اگرچہ وہ ذرا بعید سا احتمال ہے وہ یہ کہ قتادہ کا مسلک یہ ہے کہ جس عورت کا حیض بند ہوچکا ہو وہ ان کے نزدیک آئیسہ کہلاتی ہے خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی عدت اس عذر کے باوجود اقراء یعنی حیض کے حساب سے ہوگی ، واہ اس کی مدت کتنی لمبی کیوں نہ ہوجائے۔ حضرت عمر ؓ سے یہ مروی ہے کہ جس عورت کا حیض بند ہوچکا ہو اور وہ آئیسات میں سے ہو اس کی عدت آئیسہ کی عدت ہوگی خواہ وہ جوان ہی کیوں نہ ہو یہی امام مالک کا مسلک ہے۔ اگر قتادہ کا آئیسہ کے معنی کے متعلق یہ مسلک ہو تو یہ جائز ہے کہ اقراء کے حساب سے عدت کے حکم میں یہ بھی مراد ہو اس لئے کہ اس میں اقراء کے وجود کی امید کی جاسکتی ہے۔ قتادہ کا یہ قول کہ تین قروء کے حکم سے حاملہ عورت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے تو بات بھی جائز اور قابل قبول ہے کیونکہ عبارت سے یہ معنی لینا ممتنع نہیں ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل کے بعد تین حیض ہوتی اور اگر وہ حاملہ ہوتی اور اسے حیض نہیں آرہا ہوتا تو وضع حمل کے بعد اس کی عدت تین قروء ہوتی لیکن حمل کی وجہ سے یہ حکم عدت منسوخ ہوگیا۔ تاہم حضرت ابی بن کعب ؓ نے یہ بتادیا کہ حاملہ عورت اقراء کی صورت میں عدت کے حکم میں مراد ہی نہیں تھی صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے اس کے متعل ق دریافت کیا کہ حاملہ آئیسہ او صغیرہ کے متعلق ابھی تک حکم نازل نہیں ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ دوسری طرف یہ جائز نہیں ہے کہ لفظ نسخ کا اطلاق کر کے اس کے حقیقی معنی مراد لئے جائیں۔ یہ بات صرف وہاں ہوسکتی ہے جہاں ایک چیز کے حکم کے ثبوت کا علم ہوچکا ہو اور اسے منسوخ کرنے والا حکم اس کے بعد آیا ہو (ہم نے اوپر جو وضاحت کی ہے اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس مقام پر لفظ نسخ کا اپنے حقیقی معنوں میں اطلاق درست نہیں ہے) ۔ البتہ اس کی گنجائش ہے کہ لفظ نسخ کا اطلاق کر کے مجازاً اس سے تخصیص مراد لی جائے۔ اس صورت میں کوئی دقت پیش نہیں آئیگی۔ ہمارے لئے تو بہتر صورت یہی ہے کہ قتادہ کے قول میں لفظ نسخ کو تخصیص پر محمول کریں اس صورت میں قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن) کا ورود صرف ایسی مطلقہ عورتوں تک مخصوص رہے گا جنہیں حیض آتا ہو اور جن کے ساتھ ہمبستری بھی ہوچکی ہو۔ اور آیت میں آئیسہ صغیرہ اور حاملہ مراد ہی نہ ہوں اس لئے کہ ہمارے پاس ان احکام کے درود کی تاریخ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا علم ہے کہ اس حکم کو استقرار حاصل ہوگیا پھر اس پر نسخ کا حکم وارد ہوا۔ اس لئے اب یوں سمجھ لیا جائے گا کہ یہ تمام آیات ایک ساتھ نازل ہوئیں اور ان کے ضمن میں نازل ہونے والے احکام اسی طرح ترتیب دیئے گئے جس طرح ان پر عمل کرنے کی ضرورت پڑی اور خاص طورپر عام کی بنائی گئی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت میں نسخ کی ایک اور وجہ مروی ہے اس کی روایت حسین بن حسن نے عطیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) تا قول باری وبعولتھن احق بردھن فی ذلک) کے متعلق فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلق دے دیتا تو وہ اسے واپس اپنی بیوی بنا لینے کا سب سے بڑھ کر حق رکھتا خواہ اس نے تین طلاق ہی کیوں نہ دی ہوں۔ اس چیز کو قول باری یایھا الذین امنو اذا انکحتم المومنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن وسرحوھن سراحاً جمیلاً ۔ اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو تو تمہارے لئے اس کے بارے میں کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو۔ انہیں کچھ مال دے دو اور انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کر دو ) ۔ ضحاک بن مزاحم سے مروی ہے کہ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) کے نزول سے قبل مطلقات کی عدت تین ماہ تھی پھر اس آیت سے یہ منسوخ ہوگئی اور تین قروء مقرر ہوئی پھر اس حکم سے غیر مدخول بہا کا حکم مستثنیٰ ہوگیا۔ استثناء کی آیت یہ ہے اذانکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدوانھا) اس سلسلے میں ایک روایت اور بھی ہے اس کی روایت امام مالک نے ہشام بن عروہ سے اور انہوں نے اپنے والد عروہ سے کہ ایک شخص جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا پھر عدت گزرنے سے پہلے وہ رجوع کرلیتا تو اسے رجوع کرنے کی اجازت ہوتی خواہ اس نے اسے ہزار بار طلاق کیوں نہ دی ہو۔ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جب اس کی عدت کی مدت کا اختتام قریب ہوگیا تو اس نے رجوع کرلیا اور اس کے بعد پھر طلاق دے دی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ ” بخدا میں تجھے کبھی اپنے پاس نہیں بلائوں گا اور نہ ہی کبھی تیرے ساتھ تخلیہ کروں گا “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : اس دن سے لوگوں نے نئے سرے سے طلاق کا حساب شروع کیا خواہ اس سے پہلے انہوں نے طلاق دی تھی یا نہیں دی تھی۔ شیبان نے قتادہ سے قول باری ولبعولتھن احق بردھن فی ذلک) کے متعلق مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے تین قروء کے متعلق فرمایا پھر یہ فرمایا کہ طلاق دو مرتبہ ہوتی ہے ہر دفعہ کے لئے ایک قروء ہے۔ اس آیت نے ماقبل کی تمام آیات کو منسوخ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کی حد تین مقرر کردی اور شوہر کو اسے رجوع کے ذریعے دوبارہ بیوی بنا لینے کا سب سے بڑھ کر حق دار قرار دیا بشرطیکہ اس نے تین طلاقیں نہ دی ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ سابقہ آیت کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔ آیت 229 کی تفسیر : طلاق کی تعداد قول باری ہے الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان، طلاق دو بار ہے یا تو پھر معروف طریقے سے اسے روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اسے رخصت کردیا جائے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں اس آیت کے معنی میں کئی وجوہ بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ آیت میں اس طلاق کا بیا ن ہے جس میں رجوع کرنے کی گنجائش رہتی ہے۔ یہ بات عروہ بن الزبیر اور قتادہ سے منقول ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں طلاق سنت کو بیان کیا گیا ہے جس کی لوگوں کو ترغیب دی گئی ہے۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے منقول ہے۔ تیسری یہ کہ اس میں یہ حکم ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینا چاہے تو اسے چاہیے کہ یہ طلاقیں الگ الگ کر کے دے اس آیت میں دو کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے بعد آگے تین طلاقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ یہ اس طلاق کا ذکر ہے جس کے ساتھ رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے تو اگرچہ طلاق کے ذکر کے فوراً بعد رجوع کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں مباح طلاق کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے سوا جو ہے وہ ممنوع ہے اس کے ساتھ ہی اس کا حکم بھی جب شوہر اسے مسنون طریقے سے بیوی کو دے۔ اس کے فوراً بعد رجوع کا ذکر کر کے بیان کردیا گیا ہے۔ اس بات کی دلیل کہ قول باری کا مقصد طلاق کی تفریق کا حکم دینا اور تین سے کم طلاقوں کی صورت میں رجوع کا حکم بیان کرنا ہے۔ یہ قول باری ہے الطلاق مرتان۔ یہ لامحالہ طلاقوں کی تفریق کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اگر وہ اسے دو طلاقیں ایک ساتھ دے دیتا تو یہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ اس نے دو دفعہ طلاق دی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو دو درہم دے دے تو یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے دودفعہ اسے درہم دیئے ہیں یہ قول اسی وقت درست ہوگا جب وہ دومرتبہ درہم دینے کا عمل کرے۔ اس بیان کی روشنی میں اگر لفظ سے مقصود حکم کا تعلق بیک وقت دو طلاق دینے کے بعد رجوع کی گنجائش باقی رہنے کے ساتھ ہوتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ قول باری میں لفظ (مرتان) کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ یہ حکم بھی اس وقت ثابت ہوجاتا جب وہ ایک ہی دفعہ دو طلاق دے دیتا اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مرتان کا ذکر کر کے یہ حکم دیا گیا کہ وہ دو مرتبہ طلاق دے اور اسے دو طلاق ایک مرتبہ دینے سے روک دیا گیا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھئے، اگر لفظ میں تفریق اور عدم تفریق دونوں صورتوں کا احتمال ہوتا تو پھر بھی یہ ضروری ہوتا کہ اسے دو فائدوں کے ایجاب کے حکم کے اثبات پر محمول کیا جائے۔ ایک فائدہ شوہر کو طلاقوں کی تفریق کا حکم جب وہ دو طلاق دینے کا کرے اور دوسرا رجوع کی گنجائش کا حکم جب وہ دونوں طلاقیں الگ الگ دے۔ اس طرح یہ لفظ دونوں فائدوں کا احاطہ کرے گا۔ قول باری الطلاق مرتان، کا ظاہر اگرچہ خبر ہے لیکن یہ معنی میں امر ہے جس طرح یہ قول باری ہے : اور مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں گی) ۔ اسی طرح کی اور مثالیں جن میں صیغہ تو خبر کا ہے لیکن معنی امر کا دے رہا ہے اس بات کی دلیل کہ الطلاق مرتان امر ہے خبر نہیں، یہ ہے کہ اگر یہ خبر ہوتا تو اس کا مخبر (جس کو خبر دی جا رہی ہے) اس حال میں پایاجاتا جس کی خبر دی جا رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبریں اپنے مخبرات کے وجود سے جدا نہیں ہوتیں۔ اب جب ہم نے یہ دیکھا کہ لوگ ایک طلاق بھی دیتے ہیں اور ایک ساتھ تین طلاقیں بھی تو اس صورت میں اگر الطلاق مرتان، خبر کا اسم ہوتا تو وہ ان تمام صورتوں پر مشتمل ہوتا جو اس کے تحت آسکتی تھیں۔ پھر ہم نے یہ دیکھا کہ لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اس طریقے سے طلاق نہیں دیتے جس کا ذکر آیت میں ہے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ الطلاق مرتان۔ سے خبر کا ارادہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ دو میں ایک بات پر مشتمل ہے یا تو اس میں طلاق کی تفریق کا حکم ہے جب ہم طلاق دینا چاہیں یا اس میں اس مسنون طلاق کے متعلق اطلاع ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احتمالات میں بہترین صورت یہی ہے کہ اسے امر پر محمول کیا جائے۔ اس لئے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آیت میں حقیقت خبر مراد نہیں ہے۔ امر پر محمول کرنے کی صورت میں فقرے کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” جب تم طلاق دینے کا ارادہ کرو تو دو مرتبہ طلاق دو “۔ یہ مفہوم اگرچہ ایجاب کا تقاضا کرتا ہے لیکن اسے دلالت کی بنا پر ندب پر محمول کیا جائے گا۔ اور یہ حضور ﷺ کے اس قول کی طرح ہوگا جس میں آپ نے فرمایا الصلوۃ مثنیٰ مثنیٰ والتشھد فی کل رکعتین وتمسکن وخشوع، نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے اور ہر دو رکعت میں تشہد ہو، عاجزی ہو اور خشوع و خضوع ہو) یہ اگرچہ خبر کا صیغہ ہے لیکن مراد اس سے یہ حکم دینا ہ کہ نماز اس طریقے سے پڑھی جائے۔ اگر آیت کو خبر کے پیرائے میں اس پر محمول کیا جائے کہ اس سے مراد مسنون طلاق کا بیان ہے پھر بھی ایک جملے کے ذریعے دو یا تین طلاق دینے کی ممانعت پر اس کی دلالت قائم رہے گی۔ اس لئے کہ قول باری الطلاق مرتان طلاق مسنون کی تمام صورتوں پر مشتمل ہے اور اس کی کوئی صورت ایسی نہیں ہے جو اس لفظ کے تحت آنے سے رہ گئی ہو جو صورت اس سے باہر رہ جائے گی وہ خلاف سنت ہوگی۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص ایک فقرے کے ذریعے دو یا تین طلاق دے گا وہ خلاف سنت طلاق دینے والا قرار پائے گا۔ یہ آیت کئی اور معانی کی دلالت پر بھی مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ جب کوئی شخص تین طلاق دینا چاہے تو اس کے لئے مسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ تینوں طلاق الگ الگ دے دوسری یہ کہ وہ دو طلاقیں الگ الگ دو بار دے تیسری یہ کہ تین سے کم طلاقوں کی صورت میں رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے چوتھی یہ کہ اگر وہ حیض کے اندر دو طلاق دے دے تو یہ دونوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے واقع ہوجانے کا حکم دیا ہے۔ پانچویں یہ کہ اس آیت نے تین سے زائد طلاقوں کو منسوخ کردیا ہے جس طرح کہ حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے حضرات سے منقول ہے کہ لوگ جس قدر تعداد میں چاہتے طلاق دے دیتے تھے اور پھر رجوع کرلیتے تھے، اس آیت کے ذریعے انہیں تین کے اندر محدود کر کے زائد کو منسوخ کردیا گیا۔ اس آیت میں مسنون طلاق کی تعداد کے حکم پر دلالت موجود ہے لیکن اس میں طلاق دینے کے مسنون وقت کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فطلقوھن لعدتھن) میں بیان کی ہے نیز حضور ﷺ نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے جب اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو آپ نے ان سے فرمایا ماھکذا امرواللہ انما طلاق العدۃ ان تطلقھا طاھواً من غیر جماع اوحاملاً وقداستبان حملھا فتلک العدۃ التی امر اللہ ان یطلق لھا النساء اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس طرح طلاق دینے کا حکم نہیں دیا ہے۔ عدت پر طلاق دینے کا معنی تو یہ ہے کہ تم حالت طہر میں طلاق دو جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دو جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے) اس وضاحت کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ طلاق سنت دو باتوں کے ساتھ مشروط ہے اول تعداد دوم وقت۔ جہاں تک تعداد کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ایک طہر میں ایک سے زائد طلاق نہ ہو۔ اور جہاں تک وقت کا تعلق ہے تو وہ حالت طہر ہو جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت ہو اور حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ اقراء یعنی حیض والی عورتوں کو طلاق سنت دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق کی بہترین صورت یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو ہمبستری سے قبل اسے طلاق دے دے پھر اس سے الگ رہے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے اور اگر اسے تین طلاق دینا چاہے تو ہر طہر پر جماع سے پہلے ایک طلاق دے دے یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ابراہیم نخعی کے واسطے سے حضور ﷺ کے صحابہ کی امر سے بات پہنچی ہے کہ وہ حضرات ایک سے زائد طلاق نہ دینے کو پسند کرتے تھے حتی کہ اس کی عدت گزر جاتی۔ اور یہ صورت ان کے نزدیک ہر طہر میں ایک طلاق کے حساب سے تین طلاق دینے سے افضل تھی۔ امام مالک، عبدالعزیز بن سلمہ الماحبشون، لیث بن سعد، حسن بن صالح اور اوزاعی کا قول ہے کہ طلاق سنت یہ ہے کہ حالت طہر میں جماع سے پہلے ایک طلاق دے دے۔ یہ حضرات تین طہر میں تین طلاق دینے کو ناپسند کرتے ہیں۔ ایک طلاق دینے کے بعد اگر شوہر رجوع کرنا نہ چاہے تو اس سے علیحدہ رہے حتی کہ ایک طلاق کی عدت گزر جائے۔ مزنی کی روایت کے مطابق امام شافعی کا قول ہے کہ شوہر پر تین طلاق دینا حرام نہیں ہے۔ اگر شوہر حالت طہر میں جماع کئے بغیر بیوی سے کہے کہ تجھے تین طلاق سنت ہے تو اس پر تین طلاق سنت واقع ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم امام شافعی کے قول کے جائزے سے بات شروع کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے جس آیت کی تلاوت کی ہے اس کی دلالت اس قول کے بطلان پر ظاہر ہے۔ اس لئے کہ آیت اس حکم پر مشتمل ہے کہ دو طلاقیں دو بار الگ الگ دی جائیں۔ اب جو شخص ایک ہی دفعہ میں دو طلاقیں دے دے گا وہ آیت کے حکم مخالف عمل کرے گا۔ اس پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ قول باری ہے ولاتحرمواطیبات مااحل اللہ لکم، اور تم ان پاکیزہ چیزوں کو اپنے لئے حرام نہ کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کردی ہیں) ۔ ظاہر آیت تین طلاقوں کی تحریم کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جو طیبات حلال کردی ہیں ان کی تحریم لازم آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیت میں وارد لفظ طیبات کا عموم بیویوں کو بھی شامل ہے تو جواب یہ ہے کہ شامل ہے اور اس کی دلیل یہ قول باری ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں ان میں سے نکاح کرلو) اس عموم کے پیش نظر طلاق کی ممانعت ہوگئی جو ان عورتوں کی تحریم کا موجب ہے۔ اگر وقت سنت یعنی طہر میں تین طلاقوں اور غیر مدخول بہا (وہ بیوی جس کے ساتھ شوہر کی ہمبستری نہ ہوئی ہو) پر ایک طلاق واقع کرنے کی اباحت پر دلالت نہ ہوتی تو آیت سرے سے ہی طلاق کی ممانعت کا تقاضا کرتی۔ ایک اور جہت سے دیکھئے۔ اس بات پر کتاب اللہ کی دلیل کہ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے لئے جس پر عدت واجب ہوتی ہے ابتدائے طلاق کی اباحت کو رجوع کے ذکر کے ساتھ مقرون کردیا ہے یہ قول باری ہے الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریج بلسان) نیز یہ قول باری والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) ۔ نیز یہ قول باری واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فاسمکوھن بمعروف اوفادقوھن بمعروف) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عدت گزارنے والی عورتوں کے لئے شروع کی جانے والی طلاق کی اباحت کو رجعت کے ذکر کے ساتھ مقرون کردیا۔ ان آیات سے طلاق کا حکم اخذ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ آیتیں نہ ہوتیں تو طلاق احکام شرع میں سے نہ ہوتی۔ اس بنا پر ہمارے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ سنت طلاق کا اثبات اس شرط یعنی شرط جواز رجعت اور اس وصف کے بغیر کسی اور صورت میں کریں حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من ادخل فی امرنا مالیس منہ فھورد) جو شخص ہماری شریعت میں کوئی ایسی چیز داخل کرے جو اس میں سے نہ ہو اسے ٹھکرا دیا جائے گا) اس ارشاد میں کم سے کم جو بات کہی گئی ہے وہ ان آیات میں دیئے گئے حکم کی خلاف ورزی کی ممانعت ہے۔ وہ حکم یہ ہے کہ ابتدائی طور پر دی جانے والی طلاق ایسی صورت کے ساتھ مقرون ہو جو رجعت کو واجب کر دے۔ سنت کی جہت سے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں القعنبی نے مالک سے انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں حضرت ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق استفسار کیا آپ نے ارشاد فرمایا : اس سے کہو کو رجوع کرلے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آجائے پھر پاک ہوجائے پھر اس کے بعد اگر چاہے اپنے عقد میں رکھے اور اگر چاہے تو جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یہی وہ عدت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلااق دینے کا حکم دیا ہے) ۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں احمدبن صالح نے، انہیں غنبہ نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بتایا کہ انہوں نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس بات کا تذکرہ حضور ﷺ سے کیا جسے سن کر آپ کو غصہ آگیا پھر آپ نے فرمایا : سالم نے زہری کی روایت میں اور نافع مالک کی روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے نقل کیا کہ حضور ﷺ نے انہیں یہ حکم دیا کہ رجوع کرلیں، پھر اسے چھوڑے رکھیں یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر اسے حیض آجائے پھر وہ پاک ہوجائے پھر چاہے تو اسے عقد زوجیت میں رکھیں یا چاہیں تو طلاق دے دیں۔ عطاء خراسانی نے حسن کے واسطے سے حضرت ابن عمر ؓ سے اس طرح کی روایت کی ہے۔ یونس : انس بن سرین، سعیدبن جبیر اور زید بن اسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے انہیں رجوع کرلینے کا حکم دیا یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے پھر فرمایا کہ وہ چاہیں تو طلاق دے دیں اور چاہیں توعقد زوجیت میں رکھیں پہلی روایتیں اولیٰ ہیں کیونکہ ان میں زیادہ تفصیل ہے۔ اب تو یہ واضح ہے کہ یہ تمام روایتیں ایک ہی واقعہ کے سلسلے میں مروی ہیں۔ البتہ بعض راویوں نے انہیں ہو بہو حضور ﷺ کے الفاظ میں بیان کیا ہے اور بعض نے تفصیل کو غفلت یا نسیان کی بنا پر حذف کردیا ہے۔ اس لئے تفصیل والی روایت پر عمل کرنا واجب ہے جس میں حیض کا ذکر بھی ہے کیونکہ یہ بات تو ثابت نہیں ہوئی کہ حضور ﷺ نے یہ اس طرح بیان کیا ہو کہ اس میں تفصیل و اضافہ کا ذکر نہ ہو اور ایک دفعہ اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ مقرون کر کے کیا ہو۔ اگر ہم اس روایت کو اس طرح لیں گے تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ آپ نے مفصل اور مختصر ارشاد دو الگ الگ موقعوں پر کیا ہے لیکن چونکہ ہمیں اس کا علم نہیں ہے اس لئے اس کا اثبات بھی جائز نہیں اور اگر یہ مان بھی لیں کہ شارع علیہ الصواۃ والسلام نے یہ ارشاد دوالگ الگ حالتوں کے متعلق کیا ہے تو اب یا تو ان دونوں میں مقدم وہ ارشاد ہے جس میں اضافہ اور تفصیل ہے اور اضافہ و تفصیل کے بغیر جو ارشاد ہے وہ بعد کا ہے۔ اس صورت میں بعد والی روایت تفصیل والی روایت کے لئے ناسخ بن جائے گی۔ یا یہ کہ تفصیل والی روایت بعد کی ہے اس صورت میں وہ مختصر روایت کے لئے ناسخ بن کر تفصیل اور اضافہ کو ثابت کر دے گی۔ اب ہمارے لئے ان دونوں کے تقدم و تاخر کو جاننے کے لئے ان دونوں کے درود کی تاریخ کے علم کا کوئی ذریعہ نہیں ہے خاص طور پر جبکہ تمام راویوں نے ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے جب تقدم و تاخر کی تاریخ کا علم نہ ہو تو اضافے اور تفصیل کو دو وجوہ سے ثابت کرنا واجب ہوگا۔ اول یہ کہ ہر ایسی دو باتیں جن کے تقدم و تاخر کی تاریخ کا علم نہ ہو تو اس صورت میں ان دونوں کا حکم لگانا واجب ہوگا اور ایک پر دوسرے کے تقدم کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ اس کی مثال ایک ساتھ ڈوب جانے والوں اور ایک ساتھ کسی عمارت کے نیچے دب کر مرجانے والوں کی ہے یا جس طرح ہم ایک شخص کی طرف کئے جانے والے دو سودوں کے متعلق کہتے ہیں جب دونوں کا ثبوت مل جائے اور ان کی تاریخوں کا علم نہ ہو تو اس صورت میں یہی حکم لگایا جائے گا کہ یہ دونوں سودے اکٹھے ہی ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان دونوں روایتوں کی کیفیت ہے کہ ان دونوں کا ایک ساتھ حکم لگانا واجب ہے کیونکہ تقدم و تاخر کی تاریخوں کا علم نہ ہوسکا اس لئے حکم کا ثبوت اس اضافے اور تفصیل کے ساتھ مقرون ہوگا جو اس میں مذکور ہیں۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ یہ چیز ثابت ہوگئی ہے کہ شارع (علیہ السلام) نے اس اضافے اور زائد بات کا ذکر کیا ہے اسے ثابت رکھا ہے اور اس کے اعتبار کا اپنے اس قول مرہ فلیراجعھاعھد حتی تطھر ثم تحیض ثم تطھرثم طلقھا ان شاء) سے حکم دیا ہے۔ کیونکہ اضافے کی روایتیں صحیح اسناد سے مروی ہیں اگر یہ اضافہ ایک وقت میں ثابت ہو اور اس میں یہ احتمال ہو کہ یہ اس روایت کی وجہ سے منسوخ ہوگیا ہو جس میں یہ اضافہ محذوف ہے اور یہ بھی احتمال ہو کہ منسوخ نہ ہوا ہو تو ہمارے لئے احتمال کی بنا پر نسخ ثابت کرنا جائز نہیں ہوگا اور اضافے کے حکم کا باقی رہنا واجب ہوگا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی اور دوسری طرف شارع (علیہ السلام) نے حیض کے اندر دی جانے والی طلاق اور اس دوسری طلاق کے درمیان فرق کیا جسے حیض کے ساتھ دینے کا حکم دیا تھا اور اسے اس طہر میں دینے کی اجازت نہی دی جو حیض کے بعد آیا تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہر دو طلاقوں کے درمیان ایک حیض کے ذریعے فصل کرنا واجب ہے اور دو طلاقوں کو ایک طہر میں اکٹھا کردینا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے جس طرح طہر میں طلاق دینے کا حکم دیا تھا اور حیض میں طلاق دینے سے روکا تھا اسی طرح آپ ﷺ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ اس طہر میں طلاق نہ دیں جو اس حیض کے بعد آیا تھا جس میں انہوں نے طلاق دی تھی ان دونوں حکموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ سے مروی ہے اگر کوئی شخص حالت طہر میں طلاق دے دے اور پھر اس میں رجوع بھی کرلے تو اس کے لئے جائز ہے کہ اسی طہر میں ایک اور طلاق بھی دے دے۔ اس طرح امام ابوحنیفہ نے اس اضافے اور تفصیل والی روایت کی خلاف ورزی کی جس کی تاکید کی تم کوشش کر رہے ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے اس مسئلے کا ذکر اپنی اصول فقہ کی کتاب میں کیا ہے اور ہم نے وہاں بتایا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اس طہر میں اس وقت تک دوطری طلاق دینے سے روک دیا تھا خواہ شوہر نے رجوع ہی کیوں نہ کرلیا ہو جب تک ان دونوں طلاقوں میں ایک حیض کے ذریعے فصل نہ ہوجائے۔ یہی صحیح روایت ہے رہ گئی دوسری روایت جس کا ذکر سوال کے اندر کیا گیا ہے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ سے اکٹھے تین طلاق دینے کی نہی ایسے واضح الفاظ میں منقول ہے کہ تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے ہمیں یہ روایت ابن قانع نے بیان کی، انہیں محمد بن شاذان الجوہری نے، انہیں معلی بن منصور نے، انہیں سعید بن زریق نے، انہیں عطاء الخراسانی نے حسن سے، انہیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی تھی پھر میں نے اس کے بعد باقی دو قروء میں دو اور طلاقیں دینے کا ارادہ کرلیا۔ یہ خبر حضور ﷺ کو بھی پہنچی اس پر آپ نے فرمایا : اے عمر کے بیٹے ! اللہ نے تمہیں اس طرح کرنے کا حکم تو نہیں دیا تھا تم نے سنت کا طریقہ چھوڑ دیا ہے۔ سنت کا طریقہ یہ ہے کہ تم طہر کی حالت کا انتظار کرتے اور پھر ہر قرء یعنی طہر پر ایک طلاق دیتے) پھر حضور ﷺ نے مجھے رجوع کرلینے کا حکم دیا چناچہ میں نے رجوع کرلیا پھر فرمایا کہ جب وہ حالت طہر میں آجائے تو اس وقت طلاق دے دو یا عقد زوجیت میں باقی رکھو۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ آپ کا کیا ارشاد ہے ؟ اگر میں اسے تین طلاق دے دوں تو مجھے رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہے گی یہ سن کر آپ نے نفی میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ” وہ بائن ہوجائے گی اور اس طرح طلاق دینا معصیت کی بات ہوگی “۔ اس حدیث میں حضور ﷺ نے واضح طور سے فرمایا کہ تین طلاق معصیت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے واقعہ کی تمام روایتوں میں حضور ﷺ نے جب طہر کا ذکر فرمایا جو کہ طلاق سنت واقع کرنے کا وقت ہے تو یہ بھی فرمایا ثم لیطلقھا ان شاء، پھر اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے) حضور ﷺ نے تین یا اس سے کم کی تخصیص نہیں کی تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ کا یہ حکم ایک ساتھ دو یاتین طلاق دینے کے اطلاق پر محمول ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے سابقہ بیان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ دو طلاقوں کے درمیان ایک حیض کے ذریعے فصل کرنا واجب ہے پھر حضور ﷺ نے ایجاب کے اس حکم پر اپنے قول ثم لیطلقھا ان شاء) کو عطف کیا، تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ آپ نے اپنے اس قول سے ایک طلاق کا ارادہ کیا ہے۔ ایک سیزائد کا نہیں کیونکہ یہ بات محال ہے کہ ابتداء میں جس صورت کو آپ نے دو طلاقوں کے درمیان حیض کے ذریعے فصل کر کے واجب کردیا تھا اور جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ دو طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت ہوگئی تھی۔ اسی کو منسوخ کرنے کا آپ پھر ارادہ کرلیں کیونکہ یہ جائز ہی نہیں ہے کہ ایک ہی خطاب میں ایک حکم کا ناسخ اور منسوخ یعنی وہ حکم دونوں ایک ساتھ مذکور ہوں۔ اس لئے کہ نسخ اسی وقت درست ہوتا ہے جبکہ حکم کو استقرار حاصل ہوجائے۔ اور اس پر عمل کی قدرت پیدا ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک ہی خطاب میں یہ کہنا درست نہیں کہ ” میں نے تمہارے لئے درندے جائز کردیئے ہیں اور میں نے ان کی ممانعت بھی کردی ہے “۔ اس لئے کہ خطاب کی یہ صورت ایک بےکار مشغلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بےکار مشغلے سے مبرا اور منزہ ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو یہ معلوم ہوگیا کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد ثم لیطلقھا ان شاء) اس حکم پر مبنی ہے جو ابتدائے خطاب میں گزر چکا ہے اور وہ حکم یہ ہے کہ ایک طہر میں دو طلاقیں جمع نہ کی جائیں……نیز اگر یہ لفظ ایک طہر میں دو طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی دلالت سے خالی ہوتا تو پھر بھی یہ اس کی اباحت پر دلالت نہ کرسکتا کیونکہ اس لفظ کا ورود علی الاطلاق ہوا ہے اور ماقبل میں ذکر کردہ امور کے تذکرے سے خالی ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ کے قول (ثم لیطلقھا ان شاء) کے الفاظ ایک سے زائد طلاق کا تقاضا نہیں کرتے۔ یہی بات ہم ان تمام اوامر کے متعلق کہتے ہیں جو اس امر کی نظائر ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ اس قسم کا امراسم کے تحت آنے والے تمام مدلولات میں کم سے کم کا تقاضا کرتا ہے اور کسی دلالت کی بنا پر اس کا رخ اکثر کی طرف موڑا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی سے کہے کہ ” میری بیوی کو طلاق دے دو “۔ اب اس شخص کے لئے اس امر کے تحت جو طلاق دینا جائز ہوگیا ہے اس کی تعداد ایک ہے۔ ایک سے زائد نہیں۔ اسی لئے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام سے کہے کہ ” نکاح کرلو “۔ تو اس امر کے تحت وہ صرف ایک عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ اگر اس نے دو سے نکاح کر لیاتو کسی ایک سے بھی نکاح درست نہیں ہوگا۔ اِلا یہ کہ آقا کہے کہ میں نے دو کی نیت کی تھی، اسی طرح حضور ﷺ کا یہ قول ( فلیطلقھا ان شاء) صرف ایک طلاق کا مقتضی ہے اور ایک سے جو زائد ہوگی کا ثبوت کسی دلالت کی بنا پر ہی ہوگا۔ ہم نے کتاب و سنت سے یہ دلالت مہیا کردی ہے کہ جو ایک ہی فقرے میں دو یا تین طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی وضاحت کرتی ہے۔ اس مسئلے پر سلف کا اتفاق بھی منقول ہے۔ ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو اعمش نے ابو اسحق سے، انہوں نے ابو الاحرص سے، انہوں نے عبداللہ ؓ سے کی ہے کہ ” طلاق سنت یہ ہے کہ حالت ظہر میں جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو ایک طلاق دے پھر جب حیض آ جائے اور حیض سے فارغ ہو کر پاک ہوجائے تو دوسری طلاق دیدے۔ ابراہمی نخعی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ زہیر نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے ابوالاحوص سے اور انہوں نے حضرت ابوعبداللہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حقیقت میں جو طلاق ہے وہ یہ ہے کہ ہر طہر ایک طلاق دے دے اور جماع نہ کرے۔ اگر رجوع کرنے کا ارادہ ہوجاتے تو رجوع کرلے اور دو آدمیوں کو اس کا گواہ بنا لے اور اگر دوسری مرتبہ دوسری طلاق دے تو بھی اسی طرح کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( الطلاق مرقان) ۔ ابن سیرین نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ اگر لوگ طلاق کے درست طریقے کو اختیار کرلیتے تو کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو طلاق دے کر نادم نہ ہوتا۔ وہ درست طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں جماع کیے بغیر ایک طلاق دے دے۔ اگر رجوع کرنے کا ارادہ ہوجائے تو رجوع کرلے اور اگر اس کے راستے سے ہٹ جانے کا ارادہ ہو تو ہٹ جائے۔ ہمیں محمد بن بکر نے، انہیں ابوائود نے ، انہیں حمید بن مسعدہ نے ، انہیں اسماعیل نے، انہیں ایوب نے عبداللہ بن کیثر نے مجاہد سے روایت کی کہ میں عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس تھا ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ یہ سن کر خاموش رہے۔ میں نے یہ سمجھا کہ شاید آپ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے۔ پھر آپ یوں گویا ہوئے ” تم میں سے کوئی حماقت کر بیٹھتا ہے پھر آوازیں دیتا ہے، ابن عباس ؓ ! ذرا میری مدد کرنا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے (ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا فرما دے گا) “۔ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمای : ” تو نے تقویٰ اختیار نہیں کیا اب تیرے لیے مجھے کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کے نتیجے میں تیری بیوی تیرے ہاتھ سے نکل گئی، وہ اب بائن ہوچکی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقو ھن بعدتھن ، اے نبی ! ان سے کہہ دو کہ تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت پر طلاق دو ) یعنی عدت سے قبل۔ حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے آ کر کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، یہ سب کر حضرت عمران ؓ نے فرمایا : ” تو اپنے رب کا گنہگار ہوا اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی “۔ ابوقلابہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو ہمبستری سے قبل تین طلاق دے دی تھی، حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” جس شخص نے ایسا کیا میرا خیال ہے کہ وہ گنہگار ہوا “۔ ابن عون نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ لوگ ایسے شخص کو سخت سزا دیتے تھے جو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیتا “ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص آپ کے پاس لایا جاتا جس نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہو تو آپ اس کی خوب پٹائی کرتے اور پھر میاں بیوی کو علیحدہ کردیتے، ان تمام صحابہ کرام سے ایک ساتھ تین طلاقوں کی ممانعت ثابت ہوگئی اور اس کے خلاف کسی صحابی سے کوئی روایت منقول نہیں۔ اس طرح یہ اجماع ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بیماری میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی اور کسی نے اس پر نکتہ چینی نہیں کی تھی۔ اگر ایک ساتھ تین طلاق دینا ممنوع ہوتا حضرت عبدالرحمن ؓ کبھی ایسا نہ کرتے، اور دوسرے صحابہ کرام کی طرف سے ان پر نکتہ چینی نہ ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بات ان کے لیے درست تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ حضرت عبدالرحمن ؓ نے ایک فقرے میں تین طلاقیں دی تھیں بلکہ اس واقعہ کا روای کا یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت عبدالرحمن ؓ نے تین طلاق اس طریقے سے دی تھی جو ان کے لیے جائز تھا۔ یہ بات ان روایات میں بیان کی گئی ہے جنہیں راویوں کی ایک جماعت نے زہری سے نقل کیا ہے، زہری نے طلحہ بن عبداللہ بن عوف سے روایت کی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنی بیوی تماضر کو دو طلاقیں دیں پھر اپنی بیماری کے دوران بیوی سے کہا کہ جب تم مجھے حیض سے پاک ہونے کی اطلاع دو گی تو میں تمہیں طلاق دے دونگا۔ اس روایت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں نہیں دیں۔ فاطمہ بن قیس کی روایت میں بھی اس سے ملتی جلتی بات کہی گئی ہے۔ ہمیں اس کی روایت محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائونے، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے ، انہیں ابان بن یزیر عطاء نے ، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ، انہیں ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہ فاطمہ بن قیس نے ان سے بیان کیا کہ ابو حفص بن المغیرہ نے انہیں طلاق دے دی۔ حضرت خالد بن الولید اور بنو مخزوم کے چند دوسرے افراد حضور ﷺ کی خدمت میں آئے اور آ کر سارا ماجرا سنایا کہ ابو حفص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں اور اس کے لیے تھوڑا سا خرچ چھوڑ گیاے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ” اسے کوئی خرچ نہیں ملے گا “ ۔ راوی نے اس کے بعد بقیہ حدیث بھی بیان کردی۔ اب ایک ساتھ تین طلاق کا قائل یہ استدلال کرتا ہے کہ جب بنو مخزوم کے افراد نے حضور ﷺ سے یہ عرض کیا کہ ابو حفص نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو آپ نے نکیر نہیں کی۔ لیکن یہ روایت ایسی ہے کہ اس میں جو بات اجمالاً بیان کی گئی ہے دوسری روایت میں اس کی تفصیل آ گئی ہے۔ محمد بن ب کرنے ہمیں یہ روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں یزید بن خالد رملی نے انہیں لیث نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں نے بوسلمہ سے، انہوں نے فاطمہ بنت قیس سے کہ وہ ابو حفص بن المغیرہ کے عقد میں تھیں، انہوں نے اسے تین میں آخری طلاق دے دی تھی ، پھر فاطمہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں بھی گئی تھی، پھر راوی نے باقی ماندہ حدیث کی روایت کی۔ ابودائود نے کہا ہے کہ صاحل بن کیسان، ابن جریج اور شعیب بن حمزہ سب نے زہری سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ اس روایت میں اس بات کی تفصیل آ گئی ہے جسے پچھلی روایت میں اجمالاً بیان کیا گیا تھا کہ انہوں نے فاطمہ کو تین میں سے آخری طلقا دے دی تھی، یہ روایت پہلی روایت سے اولیٰ ہے کیونکہ معاملے کی اصل حقییقت ک متعلق اطلاق دی گئی ہے جبکہ پہلی روایت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے فاطمہ کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی تھی۔ اس روایت کو اس روایت پر محمول کیا جائے گا جس میں ذکر ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں متفرق طور پر دی تھیں۔ ہم نے کتاب و سنت اور اتفاق سلف کے جو دلائل بیان کیے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا ممنوع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ سطور میں ہم نے ( الطلاق مرتان) سے یہ ثابت کیا تھا کہ آیت ایک کلمہ میں دو طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت پر دلالت کر رہی ہے۔ اس دلالت کے ساتھ ساتھ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مرد کو ایک طہر میں دو طلاقیں دینے کی اجازت ہے کیونکہ آیت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ دو طلاقوں کو دو طہر میں متفرق کردیا جائے آیت میں تو صرف یہ ذکر ہے کہ دو طلاقیں دو مرتبہ دی جائیں اور یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک طہر میں دو مرتبہ دو طلاقیں دینا مباح ہوجائے۔ جب ایک طہر میں دو طلاقیں دو لفظوں کے ذریعے دینا جائز ہوگیا تو دو طلاقیں ایک لفظ کے ذریعے دینا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ کسی نے ان دونوں صورتوں میں فرق نہیں کیا ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ بات اس وجہ سے غلط ہے کہ اگر اس کا اعتبار کرلیا جائے تو اس سے کتاب اللہ کے لفظ کو ساقط کرنا اسے سرے سے نظر انداز کرنا اور اس کے فائدے کو زائل کردینا لازم آئے گا۔ ہر ایسا قول جو لفظ کے حکم کو ختم کر رہا ہو اسے ساقط سمجھا جائے گا۔ یہ قول لفظ کے فائدے کو ساقط کرنے اور اس کے حکم کو زائل کرنے کا سبب اس طرح بنتا ہے کہ قول باری ( الطلاق مرتان) کا تقاضا تو یہ ہے کہ دو طلاقیں متفرق طور پر دی جائیں اور انہیں ایک لفظ میں اکٹھا نہ کیا جائے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ لیکن اگر معترض کا یہ قول تسلیم کرلیا جائے کہ یہ دو طلاقیں ایک طہر میں متفرق طور پر دی جاسکتی ہیں تو اس کے نتیجے میں ان دونوں کو ایک فقرے میں اکھٹا کردینے کی اباحت لازم آئے گی اور اس اباحت کی صورت میں لفظ کے حکم کو ختم کردینا لازم آئے گا اور جب ایک طہر میں ان دو طلاقوں کو متفرق طور پر یا ایک ساتھ دینے پر پابندی لگا دیں گے اور دو طہر میں اس کی اباحت کردیں گے تو اس لفظ ک حکم کا رفع لازم نہیں آئے گا بلکہ اس طریقے سے بعض مواقع پر اس پر عمل کی صورت نکل آئے گی اگرچہ بعض مواقع پر نہیں نکلے گی۔ اس طرح ہمارے قول کے نتیجے میں ان دونوں طلاقوں کو دو طہر میں متفرق کردیا جائے تو لفظ کا حکم مرتفع نہیں ہوتا بلکہ اس سے لفظ کی تخصیص لازم آتی ہے۔ کیونکہ لفظ تفریق کو واجب کر رہا تھا اور سب کا اس پر اتفاق تھا کہ جب یہ تفریق لفظ کے ذریعے واجب ہوگئی تو یہ تفریق دو طہر میں ہوگی۔ اس لیے ہم نے سب کے اتفاق کی دلالت اور لفظ پر عمل کی بنا پر ایک طہر میں ان دونوں کی تفریق کی تخصیص کردی اور اس صورت کو لفظ کے حکم سے خارج کردیا۔ کیونکہ ہم جس وقت بھی ایک طہر میں اس تفریق کی اباحت کردیں گے اس کیی وجہ سے لفظ کو سرے سے ہی نظر انداز کرنا لازم آئے گا اور اس طرح طلاق کے لیے ( مرتان) کے لفظ کا ذکر اور عدم ذکر دونوں برابر ہوجائیں گے۔ اس بنا پر یہ قول قابل قبول نہیں اور اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ جو لوگ ایک ساتھ تین طلاق کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے عویمر عجلانی کے واقعے سے بھی استدلال کیا ہے، حضور ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرایا تھا جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا اس لعان کے بعد اگر ” میں اسے اپنی زوجیت میں رکھوں گا تو جھوٹا ثابت ہو جائوں گا اس لیے اسے میں تین طلاق دیتا ہوں “ ۔ اور قبل اس کے کہ حضور ﷺ دونوں کی علیحدگی کا اعلان کریں کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس واقعے سے استدلال کرنے والے کا کہنا یہ ہے کہ عویمر نے جب اپنی بیوی کو ایک لفظ میں تین طلاقیں دے دیں تو حضور ﷺ نے اس پر اس کی نکیر نہیں کی جس سے اس کی اباحت کی دلیل حاصل ہوگئی۔ امام شافعی کے لیے جو اس قول کے قائل ہیں۔ اس واقعے سے استدلال کرنا درست نہیں ہوگا اس لیے کہ ان کے مسلک کے مطابق لعان کی صورت میں جب مرد لعان سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ علیحدگی واقع ہوجاتی ہے یعنی عورت کے لعان سے قبل، اس لیے اگر شوہر طلاق دے بھی دے تو یہ طلاق عورت کو لاحق نہیں ہوتی۔ اس لیے محولہ بالا صورت میں حضور ﷺ ایسی طلاق پر عویمر کی نکیر کیوں کرتے جو سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی اور جس کا حکم ثابت ہی نہیں ہوا۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ پھر تمہارے مسلک کے مطابق عویمر کے اس فعل کی کیا توجہیہ ہوگی تو اس کا جواب دیا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ عدت پر طلاق دینے کے نفاذ اور ایک طہر میں دو طلاقوں کو یکجا کردینے کی ممانعت سے پہلے کا ہو۔ اس بنا پر حضور ﷺ نے عویمر کی نکیر نہیں کی۔ اس میں اس تاویل کی بھی گنجائش ہے کہ چونکہ لعان کی بنا پر طلاق کے بغیر ہی علیحدگی ہو کر رہنی تھی اس بنا پر طلاق کے ذریعے اس علیحدی کو لازم کرنے کے فعل کی حضور ﷺ نے نکیر نہیں کی۔ ہم نے امام مالک، لیث بن سعد، اوزاعی اور الحسن بن حی کا یہ قول نقل کیا ہے ک ان حضرات کے نزدیک طلاق سنت یہ کہ شوہر بیوی کو صرف ایک طلاق دے وہ اپنی جگہ ہے لیکن متفرق طہر میں تین طلاق کی اباحت پر قول بارب ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف اور تسریح باحسان) دلالت کر رہا ہے، اس قول باری می دو طلاقوں کی اباحت مذکور ہے۔ جب ہمارا اس پر اتفاق ہوگیا کہ ایک طہر میں دو طلاقوں کو یکجا نہ کرے تو ضروری ہوگیا کہ ان دو طلاقوں کے حکم کو دو طہر میں استعمال کیا جائے۔ دوسری طرف یہ مروی ہے کہ قول باری ( او تسریح باحسان) تیرس یطلاق کے لیے ہے اس میں گویا شوہر کو اختیار دیا گیا ہے کہ رجوع کرنے سے پہلے تیسری طلاق دے دے۔ اس پر قول باری ( یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ عدت پر تیری طلاق کے حکم کو متضمن ہے، اس لیے کہ شارع (علیہ السلام) کے بیان کے مطابق اسے عدت کے واقات پر طلاق دی جائے۔ چناچہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ ( یطلقھا طاھرا من غیر جماع او حاملاقہ استبان حملھا فتلک العدۃ لاتی امر اللہ ان تطلق لھا النساء اب جبکہ اس سے مراد اوقات طہر ہے تو یہ حکم تین طلاق کو شامل ہوگیا جیسا کہ قول باری ہے ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تمام ایام میں غروب آفتاب کے وقت نماز کے فعل کی تکرار کی جائے۔ اسی طرح قول باری ( فطلقوھن لعدتھن) ہے چونکہ یہ فقرہ اوقات طہر سے عبارت ہے تو یہ تمام اوقات میں طلاق کی تکرار کا مقتضی ہے نیز یہ بات ہے کہ جب شوہر کے لیے پہلے طہر میں طلاق واقع کرنا جائز ہوگیا کہ وہ پاک تھی اور ہمبستری بھی نہیں ہوئی تھی اور طہر کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس میں کوئی اور طلاق واقع نہیں ہوئی تھی تو اسی علت کی بنا پر دوسرے طہر میں بھی اس لیے طلاق دینا جائز ہے۔ نیز یہ بات بھی ہے کہ جب سب کا اتفاق ہے کہ اگر اس نے رجوع کرلیا ہو تو پھر بھی دوسرے طہر میں اسے طلاق دینا جائز ہوگا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اگر اس نے رجوع نہ کیا ہو تو اس معنی کے وجود کی بنا پر جس کی وجہ سے پہلے طہر میں طلاق واقع کرنا جائز ہوگیا تھا اب بھی طلاق دینا جائز ہوجائے ۔ کیونکہ طلاق کی اباحت اور اس کی ممانعت کے سلسلے میں رجوع کے فعل کا کوئی کردار نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر نے بیوی سے رجوع کرلیا اور پھر اسی طہر میں اس سے ہمبستری بھی کرلی تو اب طہر میں طلاق دینا اس کے لیے جائز نہیں ہوگا اور طلاق کی اباحت میں رجوع کے فعل کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ دوسرے طہر میں رجوع سے قبل کے لیے طلاق دینے کا جواز ہو جس طرح کہ رجوع نہ کرنے کی صورت میں اس کا جواز تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ دوسری اور تیسری طلاق کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر اس نے اس سے جدائی کا ارادہ ہی کرلیا تو یہ کام ایک طلاق سے بھی چل سکتا ہے وہ اس طرح کہ ایک طلاق کی عدت گزر جانے تک اسے چھوڑے رکھے، عدت گزرنے کے ساتھ ہی تعلق ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( ولا تتخذوا ایات اللہ ھزوا، اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنائو ) دوسری طلاق کی اباحت میں خواہ رجوع کرچکا ہو یا نہ کیا ہو اور رجوع کرنے کی صورت میں طلاق کی اباحت میں اور رجوع نہ کرنے کی صورت میں ان دونوں کی مخالفت میں یہی فرق ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دوسری اور تیسری طلاق واقع کرن کے بہت سے فوائد ہیں جو شہر کو فوری طور پر حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر وہ یہ طلاقیں نہ دے تو اسے یہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے ۔ ایک تو یہ عدت گزرنے سے پہلے تیسری طلاق کے ساتھ ہی شوہر سے اس کا تعلق منقطع ہوجائے گا اور وہ اس سے علیحدہ ہوجائے گی۔ اس دوران اگر شوہر مرگیا تو وہ میراث کی حقدار نہیں ہوگی۔ پھر اس دوران شوہر بیوی کی بہت سے نکاح کرسکتا ہے اور اس ک سوار چار بیویوں کی تعداد پوری کرسکتا ہے۔ یہ مسئلے ان حضرات کے قول کی روشنی میں بتائے جا رہے ہیں جن کے نزدیک بیوی کی عدت میں شوہر کے لیے ایسا رنا جائز ہوتا ہے۔ اس لیے دوسری اور تیسری طلاق فوائد و حقوق سے خالی نہیں ہے جو شوہر کو حاصل ہوجائیں گے۔ اس لیے یہ لغو ور ٹھکرا دئیے جانے کے قابل نہیں ہے دوسری اور تیسری طلاق کی وجہ سے شوہر کے لیے پہلی طلاق کے بعد باقی دو طلاقیں اوقات سنت میں دینا جائز ہوگیا جس طرح رجوع کرنے کی صورت میں ایسا کرنا جائز تھا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔ طلاق کی تعداد میں کمی پیشی مرد یعنی شوہر کے لحاظ سے ہونے کے متعلق اختلاف کا ذکر ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہا امصار میں اس پر اتفاق ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں مملوک ہوں تو وہ اس قول باری ( الطلاق مرتان) کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔ اس کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ غلامی طلاق کی تعداد میں کمی کو واجب کردیتی ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ عورتوں کے لحاظ سے ہے۔ یعنی جب عورت آزاد ہوگی تو اس کی طلاقوں کی تعداد تین ہوگی خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام، اور اگر بیوی لونڈی ہوگی تو اس کی طلاقوں کی تعداد دو ہوگی خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام۔ امام ابو حنیفہ، ابو یوسف ، زفیر، محمد ، سفیان ثوری ، حسن بن صالح کا یہی قول ہے۔ حضرت عثمان ؓ حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ طلاق مردوں کے لحاظ سے ہے یعنی شوہر اگر غلام ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دینے کا حق ہے خواہ اس کی بیوی آزاد ہو یا لونڈی، اور شوہر اگر آزاد ہو تو تین طلاقیں دے سکتا ہے خواہ بیوی آزاد ہو یا لونڈی۔ امام مالک اور ا ام شافعی کا ہی قول ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ میاں بیوی میں سے غلامی جس کے ساتھ ہوگی اس کے لحاظ سے طلاق کی تعداد میں کمی بیشی ہوگی۔ عثمان البتی کا یہی قول ہے ۔ ہشیم نے منصور سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ طلاق کے معاملے میں آقا کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ خواہ غلام نے اس اجازت دی ہو یا نہ دی ہو۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ یہ آیت پڑھتے ( ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لا یقدر علی شی۔ اللہ نے ایک مثال بیان کی۔ ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے اور وہ کوئی کام کرنے کی قدرت نہیں رکھتا) ۔ ہشام ابوالزبیر سے، انہوں نے ابو سعید سے جو حضرت ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ عنہ کے پاس ایک غلام تھا جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دی تھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس سے کہا، تیری ماں مرے، بیوی سے رجوع کرلے کیونکہ اس معاملے کا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے “ غلام نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے اس سے فرمایا : یہ تیری ہی بیوی ہے اسے جا کر بسا “۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی رائے میں طلاق واقع ہوجاتی اگر آپ اس سے رجوع کرنے کے لیے نہ کہتے۔ آپ کا یہ قول کہ ” ھی لک “ ( یہ تمہاری ہے) اس پر دلالت کرتا ہے کہ بیوی لونڈی تھی اور یہ جائز ہے کہ شوہر آزادہو۔ اگر دونوں مملوک ہوتے تو اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا کہ ان دونوں کی غلام سے طلاق کی تعداد گھٹ گئی۔ ایک اور روایت بھی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک غلام کی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اس بات کی روایت حضور ﷺ سے کرتے ہیں۔ اس حدیث کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں زہیر بن حرب نے، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں علی بن المبارک نے ، نہیں یحییٰ بن کثیر نے، انہیں عمر بن معتب نے بتایا کہ انہیں ابو حسن نے جو بنی نوفل کا آزادہ کردہ غلام تھا کہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک غلام کے متعلق پوچھا تھا جس کی زوجیت میں ایک لونڈی تھی اور اس نے اسے دو طلاقیں دے دی تیھں پھر دونوں آزاد ہوگئے۔ آیا اب وہ اپنی سابقہ بیوی کو پیغام نکاح دے سکتا ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ حضور ﷺ نے بھی یہی فیصلہ دیا تھا۔ ابودائود کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے سنا کر عبدالرزاق نے بتایا کہ ابن المبارک نے عمر میں بن معتب سے پوچھا کہ یہ ابوحسن کوفی ہے ( جس سے تم نے یہ روایت کی ہے) اس نے تو یہ روایت کر کے ایک بھاری پتھر اپنے اوپر لاد لیا ہے۔ ابودائود کہتے ہیں کہ اس ابو حسن سے زہری نے روایت کی ہے۔ یہ فقہاء میں سے تھے۔ ابوبر جصاص کہتے ہیں کہ اجماع سے اس روایت کی تردی ہوجاتی ہے اس لیے کہ صدر اول یعنی صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد آنے والے فقہاء میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کہ میاں بیوی اگر مملوک ہوں تو شہر کی دو طلاقوں سے بیوی اس کے اوپر حرام ہوجاتی ہے اور جب تک کسی اور سے نکاح کر کے اس سے طلق نہ لے لے اس وقت تک سابق شوہر کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ طلاق کی تعداد میں بیوی کی شرعی حیثیت کا لحاظ کیا جاتا ہے اس پر حضرت عمر ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے حضور ﷺ سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا ( طلاق الامت تطلیقتان وعدتھا حیضتان۔ لونڈی کی طلاق کی تعداد دو ہے اور اس کی عدت کی مدت بھی دو حیض ہے اس روایت کی سند کے متعلق گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ عدت کی مدت کی کمی کے سلسلے میں امت نے ان دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے۔ اگرچہ یہ دونوں حدیثیں خبر واحد کی شکل میں مروی ہیں لیکن امت کے اس عمل کی وجہ سے ان کی حیثیت تواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے۔ کیونکہ ایی سے اخبار آحاد جنھیں قبولیت عامہ حاصل ہوجائے وہ ہمارے نزدیک تواتر کے درجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس ک ثبوت میں دلائل ہم نے کئی مقامات پر بیان کر دئیے ہیں۔ شارع علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب یہ فرمایا کہ ( وعدتھا حیضتان) تو یہ فرق نہیں کیا کہ اس کا شوہر آزاد ہے یا غلام ، اس سے یہ بات معلم ہوئی کہ طلاق کی تعداد میں بیوی کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ شوہر کا۔ ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلامی تعداد طلاق کو کم کردینے کا سبب ہے جس طر ح کہ یہ حدود، یعنی مقررہ شرعی سزائوں میں کمی کردیتی ہے۔ اب اگر کسی کو حد لک رہی ہو تو اس میں اس شخص کی غلامی کا اعتبار کیا جائے گا جسے حد لگ رہی ہو نہ کہ اس کا جو حد لگا رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح طلاق کی تعداد میں کمی کے اندر اس کی غلامی کا اعتبار کیا جائے گا جس پر طلاق آرہی ہو نہ کہ اس کا جو طلاق دے رہا ہو اور یہ عورت ہوتی ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ شوہر خواہ آزاد ہی ہو لیکن بیوی لونڈی ہونے کی صورت میں وہ مسنون طریقے پر تین طلاقوں کی تفریق کا مالک نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ تین طلاقیں تین طہر میں دینا چاہے تو ایسا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ دو طلاقوں کے ساتھ ہی وہ عورت اس سے بائن ہوجائے گی۔ اگر شوہر تینوں طلاقوں کا مالک ہوتا تو مسنون طریقے پر انہیں متفرق طور پر دینے کا بھی مالک ہوتا جس طرح کہ بیوی کے حرہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیوی اگر لونڈی ہو تو شوہر تین طلاقوں کا مالک ہی نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم ! تین طلاقوں کے واقع ہونے کی دلیل کا ذکر جبکہ وہ اکٹھی دی جائیں ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے اگرچہ روکا گیا ہے لیکن قول باری ( الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔ ان کے واقع ہوجانے پر دلالت کرنا ہے۔ وہ اس طرح کہ قول باری ( الطلاق مرتان) نے دو طلاقوں کی صورت میں حکم باری بیان کردیا ہے جب شوہر ان الفاظ میں طلاق دے ” انت طالق انت طالق فی طھر واحد “ ایک ہی طہر میں تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے) ہم نے پہلے یہ بیان کردیا ہے کہ اس طرح طلاق دینا خلاف سنت ہے۔ اب جبکہ آیت میں اس طریقہ پر دو طلاق کے واقع ہوجانے کے جواز کا حکم موجود ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر لفظ میں دو طلاقیں دی جاتیں توہ وہ بھی واقع ہوجائیں گی اس لیے کہ کسی نے ان دونوں صورتوں میں فرق نہیں کیا ہے۔ ایک اور وجہ سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ قول باری ہے ( فلا تحل لہ من بعد حتین تنلح زوجا عیرہ، وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کسی اور شخص نے سے نکاح نہ کرلے) اس میں اللہ تعالیٰ نے دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق پر شوہر کے لیے اس کے حرام ہوجانے کا حکم لگا دیا اور یہ فرق نہیں رکھا کہ اس نے یہ دو طلاقیں ایک طہر میں دی ہیں یا متفرق طہروں میں۔ اس لیے یہ ضرورت ہوا کہ تینوں طلاقوں کے واقع ہونے کا حکم لگا دیا جائے خواہ اس نے یہ تینوں طلاقیں مسنون طریقے سے دی ہوں یا غیر مسنون طریقے سے، مباح طور پر دی ہوں یا غیر مباح طور پر۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابتداء میں آپ نے بتایا تھا کہ اس سے مراد وہ طلاق ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے اور جس کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب ایک ساتھ تین طلاقیں دینا آپ کے نزذدیک غیر مسنون ہے تو آپ غیر مباح طریقے سے طلاق دینے کے حق میں اس آیت سے کیسے استدلال کرسکتے ہیں جبکہ آیت اس غیر مباح طریقے ک متضمن ہی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت ان تمام صورتوں پر دلالت کر رہی ہے جن میں شوہر نے دونوں یا تینوں طلاقیں ایک ساتھ خلاف سنت طریقے پر دی ہوں اور اس پر بھی کہ مسنون اور پسندیدہ طریقہ متفرق طور پر مختلف طہروں میں انہیں واقع کرنا ہے۔ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ یہ تمام صوریں آیت میں مراد ہوں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر یہ کہا جاتا کہ تین طلاقں متفرق طہروں میں دے دو اور اگر تینوں ایک ساتھ دے دو گے تو واقع ہوجائیں گی “۔ تو ایسا کہنا جائز ہوتا۔ جب یہ دونوں ایک دوسری کی منافی نہیں ہیں اور آیت میں بھی ان دونوں احتمال ہے تو آیت کو ان دونوں باتوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسی آیت کا جوب معنی ہے اسے قول باری ( فطلقوھن بعدتھن) کے معنی پر محمول کیا جانا چاہیے ۔ جس کی تشریح شارع (علیہ الصلوۃ والسلام) نے ان الفاظ میں کردی ہے کہ عدت پر طلاق دینے کا یہ مطلب ہے کہ اگر شوہر تین طلاقیں دینا چاہے تو تین طہروں میں دے۔ شوہر جب اس طریقے کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کی طلاق واقع ہی نہیں ہوگی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم ان تمام احکام پر عمل پیرا ہوتے ہیں جن کی یہ دونوں آیتیں متقاضی ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ مسنون اور پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ عدت پر طلاق دی جائے جس طرح کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن اگر اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ساتھ تین طلاق دے دیتا ہے تو ان کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ دوسری آیت ( الطلاق مرتان) کا یہی مقتضی ہے۔ نیز قول باری ( فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجا غیرہ) بھی اسی کا متقاضی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ( فطلقوھن) میں اس دوسری آیت کے مقتضیٰ کی نفی نہیں ہے بلکہ جس آیت میں عدت پر طلاق دینے کا ذکر اس کاحوالے کلام، غیر عدت پر طلاق کی صورت میں، اس کے واقع ہوجائے پر دلالت کر رہا ہے۔ چناچہ قول باری ہے ( فطلقوھن بعدتھن) تا قول باری ( وتلک حدود اللہ ومن یتعبد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو شخص حدود اللہ کو پھلانگنے کی کوشش کرے گا وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرے گا) اگر غیر عدت پر دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوتی تو شوہر یہ طلاقیں دے کر اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ قرار دیا جاتا اور نہ ہی طلاق کی وجہ سے وہ ظالم ٹھہرتا اسی آیت میں غیر عدت پر دی ہوئی طلاق کے واقع ہوجانے کی دلالت موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خطاب کے سیاق میں فرمایا ( ومن یتق اللہ یعجل لہ مخرجا) یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ جب شوہر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق دے گا تو اس کے لیے ندامت سے نکلنے کا راستہ موجود ہوگا اور وہ ہے رجوع کرلینا۔ اس معنی پر حضرت ابن عباس ؓ نے اس آفت کی تاویل کرتے ہوئے مسئلہ پوچھنے والے سے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں کہا تھا کہ تو نے چونکہ تقویٰ اختیار نہیں کیا اس لیے مجھے تیرے لیے کوئی راہ نظر نہیں آرہی ہے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔ اس لیے حضرت علی ؓ نے بھی فرمایا تھا کہ اگر لوگ طلاق کا صحیح طریقہ بھی اپنا لیتے تو کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد نادم نہ ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس نے چونکہ ایک ساتھ تین طلاق دے کر گناہ کا کام کیا ہے اس بنا پر یہ طلاقیں واقع نہیں ہوئیں کیونکہ یہ طلاقیں وہ نہیں ہیں جن کا اسے حکم دیا گیا ہے جس طرح کہ اگ کوئی شخص کسی کو تین طلاقیں تین طہروں میں دینے کے لیے اپنا وکیل بناتا ہے۔ اگر وکیل تینوں طلاقیں ایک ساتھ ایک طہر میں دے دے گا تو یہ طلاقیں واقع نہیں ہوگی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کی وجہ سے ان کا گنہگار ہونا ان طلاقوں کے واقع ہونے کی صحت میں مانع نہیں ہے جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم نے مدلل طریقے سے اسے لکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو ناپسندیدہ بات، اور جھوٹ قرار دینے کے باوجود اس کے واقع ہوجانے کی صحت کا حکم لگا دیا ہے۔ بندے کا گنہگار ہونا طلاق کے حکم کے لزوم سے مانع نہیں ہوتا۔ ایک شخص مرتد ہو کر خدا کی نافرمانی اور گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے لیکن یہ بات طلاق ک لزوم اور اس سے اس کی بیوی کی علیحدگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے طلاق رجعی دینے والے شوہر کو اس بات سے روک دیا ہے کہ وہ بیوی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع نہ کرے۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( ولا تمسکوھن ضرارا لتعتدوا) لیکن اگر شوہر نے اسی نیت سے اس سے رجوع کرلیا تو اس کا رجوع درست ہوگا اور اس کا حکم ثابت ہوجائے گا۔ ایک شخص اور اس کے وکیل کے درمیان فرق ہوتا ہے وہ یہ کہ وکیل کسی غیر کی طرف سے طلاق دیتا ہے اور غیر ہی کی طرف سے ان سک تعبیر کرتا ہے وہ اپنے لیے طلاق نہیں دیتا اور جو طلاق وہ دے رہا ہے اس کا وہ خود مالک نہیں ہوتا۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ طلاق کے احکام اور حقوق میں سے کوئی چیز اس سے متعلق نہیں ہوتی۔ اب چونکہ جو طلاق وہ واقع کر رہا ہے اس کا وہ خود مالک نہیں ہوتا اور اس کا واقع کرنا دوسرے شخص کی طرف سے دیے گئے حکم کے تحت درست ہو رہا ہے کیونکہ اس کے احکام کا تعلق اس دیے گئے حکم کے ساتھ ہے نہ کہ اس شخص کے ساتھ اس لیے طلاق واقع کرنے والا شخص یعنی وکیل جس وقت اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس شوہر طلاق کا خود مالک ہوتا ہے۔ اور اس کے تماماحکام کا تعلق اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ نیز وہ کسی اور کی طرف سے طلاق نہیں دیتا ہے اس لیے تین طلاقوں کا مالک ہونے کی حیثیت سے یہ واجب ہے کہ اس کی دی ہوئی تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں۔ رہ گیا سنت کے خلاف طلاق دے کر گناہ کا مرتکب ہونا تو یہ چیز طلاق کے واقع ہونے سے مانع نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی ہم نے ظہار، ارتداد اور رجوع وغیرہ نیز دوسرے تمام معاصی کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اس نے شبہ میں اپنی بیوی کی ماں کے ساتھ ہمبستری کرلی اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ گزشتہ سطور میں ہم نے وہ وجوہ بیان کیے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ شوہر تین طلاقوں کا مالک ہے۔ یہی چیز اس پر بھی دال ہے کہ اگر شوہر ایک ساتھ واقع کر دے تو یہ واقع ہوجائیں گی کیونکہ وہ ایسی چیز واقع کر رہا ہے جس کا وہ مالک ہے۔ سنت کی جہت سے بھی اس کی تائید ہو رہی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کی وہ حدیث جس کی سندھ ہم بیان کرچکے ہیں۔ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ اگر میں اسے تین طلاق دے دوں تو کیا میرے لیے رجوع کرنے کی گنجائش باقی رہ جائے گی۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا تھا ( لا، کانت تبین ویکون معصیۃ نیں وہ بائن ہوجائے گی اور ایسا کرنا معصیت قرار پائے گا) ہمیں محمد بن بکر نے حدیث بیان کی۔ انہیں ابودائود نے، انہیں سلیمان بن دائود نے، انہیں جریر بن جازم نے زبیر بن سعید سے، انہوں نے عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ سے ، انہوں نے اپنے والے اور انہوں نے دادا سے روایت بیان کی کہ انہوں نے اپنیی بیوی کو طلاق دے تدی اور طلاق کے لیے لفظ ” البتہ “ استعمال کیا تھا ( یہ لفظ یقیناً کا معنی دیتا ہے اور اصطلاح فقہا میں طلاق ئن کیلئے استعمال ہوتا ہے ) وہ شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے ” البتہ “ کہہ کر کس چیز کا ارادہ کیا ہے ان نے کہا ” ایک طلاق کا “ حضور نے فرمایا : ” اللہ “ ( یعنی تہ یہ بات خدا کو حاضر و نظر جان کر کہہ رہے ہو) اس نے جواب میں کہا : ” اللہ “ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : کہ جو تم نے ارادہ کیا وہی واقع ہوگیا۔ (اس آیت کی بقیہ تفسیر اگلی آیت میں ملاحظہ فرمائیں)
Top