Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ : اور مائیں يُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں اَوْلَادَھُنَّ : اپنی اولاد حَوْلَيْنِ : دو سال كَامِلَيْنِ : پورے لِمَنْ : جو کوئی اَرَادَ : چاہے اَنْ يُّتِمَّ : کہ وہ پوری کرے الرَّضَاعَةَ : دودھ پلانے کی مدت وَعَلَي : اور پر الْمَوْلُوْدِ لَهٗ : جس کا بچہ (باپ) رِزْقُهُنَّ : ان کا کھانا وَكِسْوَتُهُنَّ : اور ان کا لباس بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق لَا تُكَلَّفُ : نہیں تکلیف دی جاتی نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت لَا تُضَآرَّ : نہ نقصان پہنچایا جائے وَالِدَةٌ : ماں بِوَلَدِھَا : اس کے بچہ کے سبب وَلَا : اور نہ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ : جس کا بچہ (باپ) بِوَلَدِهٖ : اس کے بچہ کے سبب وَعَلَي : اور پر الْوَارِثِ : وارث مِثْلُ : ایسا ذٰلِكَ : یہ۔ اس فَاِنْ : پھر اگر اَرَادَا : دونوں چاہیں فِصَالًا : دودھ چھڑانا عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی رضامندی سے مِّنْهُمَا : دونوں سے وَتَشَاوُرٍ : اور باہم مشورہ فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمْ : تم چاہو اَنْ : کہ تَسْتَرْضِعُوْٓا : تم دودھ پلاؤ اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد فَلَا جُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اِذَا : جب سَلَّمْتُمْ : تم حوالہ کرو مَّآ : جو اٰتَيْتُمْ : تم نے دیا تھا بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِمَا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
رضاعت کا بیان قول باری ہے (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی) تاآخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت تو خبر یک صورت میں ہے لیکن مفہوم خطاب سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اس سے خبر کا ارادہ نہیں کیا گیا کیونکہ اگر یہ خبر ہوتی تو اس کا مخبر (جس کے متعلق خبر دی جا رہی ہے) بھی موجود ہوتا جبکہ مائوں میں ایسی بھی ہیں جو سروے سے بچے کو دودھ پلاتی ہی نہیں ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت کے الفاظ میں خبرمراد نہیں ہے۔ اب جبکہ حقیقت الفاظ مراد نہیں جو خبر ہے تو پھر یا تو یہ مراد ہے کہ ماں پر بچے کو دودھ پلانا واجب کردیا گیا ہے اور اس آیت کے ذریعے اسے اس کا حکم دے دیا گیا ہے کیونکہ صیغہ خبر کے ذریعے کبھی امر مراد ہوتا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) یا یہ مراد ہے کہ اس سے مال کے لئے رضاعت کا حق ثابت کیا گیا ہے خواہ باپ اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرے۔ یا رضاعت کی بنا پر باپ پر عائد ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں یہ فرمایا (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن اگر یہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کا معاوضہ ادا کر دو ) ۔ نیز یہ فرمایا (و ان تعامرتم فسترضع لہ اخریٰ اور اگر تم باہم کشمکش کرو گے تو رضاعت کوئی دوسری کرے گی) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں زیر بحث آیت میں رضاعت مراد نہیں ہے۔ خواہ ماں یہ چاہے نہ چاہے بلکہ اسے اختیار ہے کہ اپنے بچے کو دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ اس لئے اب دو آخری صورتیں باقی رہ گئیں۔ وہ یہ کہ باپ اگر بچے کی ماں سے دودھ پلوانے سے انکار کر دے تو اسے اس پر مجبور کیا جائے گا اور اس پر زیادہ سے زیادہ جتنے عرصے کی رضاعت کے اخراجات لازم ہوں گے وہ دو سال ہے۔ اگر وہ اس سے زائد عرصے کی رضاعت کا خرچ دینے سے انکار کر دے تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکے گا۔ پھر قول باری (والوالدات یوضعن اولادھن) یا تو تمام مائوں کیلئے عام ہے خواہ طلاق یافتہ ہوں یا غیرطلاق یافتہ یا یہ کہ اس کا عطف ان طلاق یافتہ عورتوں پر ہوگا جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور آیت کے حکم کا اقتصار ان پر ہی ہوگا۔ اگر اس سے مراد تمام طلاق یافتہ اور شوہروں والیاں مراد ہوں گی تو ان میں سے خاوندوں والیوں کے لئے واجب شدہ خرچ سے مراد زوجیت کا نان و نفقہ ہوگا۔ رضاعت کا نفقہ مراد نہیں ہوگا کیونکہ ایسی عورت زوجیت کی بقا کے ساتھ رضاعت کے نفقہ کی مستحق نہیں ہوگی کہ اس طرح اسے دوہرا خرچ دینا پڑے، ایک زوجیت کا اور دوسرا رضاعت کا۔ اگر دودھ پلانے والی طلاق یافتہ ہو تو اس صورت میں بھی وہ رضاعت ک نفقہ کی مستحق ہوگی۔ ظاہر آیت کا یہی مقتضی ہے کیونکہ ظاہر آیت نے رضاعت کی وجہ سے اس کا نفقہ واجب کیا ہے اور اس حالت میں نہ تو و بیوی ہے اور نہ ہی عدت گزار رہی ہے کیونکہ اس صورت میں آیت زیر بحث کا عطف قول باری (واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن) پر ہوگا اس صورت میں عورت کی عدت وضع حمل کی بناء پر گزر چکی ہوگی اور وہ رضاعت کی بنا پر نفقہ کی مستحق ہوگی اس میں یہ بھی امکان ہے کہ شوہر نے وضع حمل کے بعد اسے طلاق دے دی ہو اس صورت میں وہ حیض کے حساب سے عدت گزارے گی۔ رضاعت اور عدت دونوں کے نفقہ کے اکٹھے وجوب کے متعلق ہمارے اصحاب کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ایک روایت میں تو ہے کہ وہ دونوں نفقہ کی ایک ساتھ مستحق ہوگی اور دوسری روایت میں ہے کہ عدت کے نفقہ کیساتھ رضاعت کے نفقہ میں سے کوئی چیز اسے نہیں ملے گی۔ آیت کی دلالت دو معنوں پر ہو رہی ہے ایک یہ کہ ماں اپنے بچے کو دو سال کے عرصے میں دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ دودھ پلانے پر رضامند ہو تو باپ کسی اور عورت سے دودھ نہیں پلوا سکتا۔ دوم یہ کہ جس مدت کی رضاعت کا خرچ باپ پر لازم ہے وہ دو سال ہے۔ آیت میں اس پر بھی دلالت موجود ہے کہ رضاعت کے اخراجات میں باپ کے ساتھ اور کوئی شریک نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر یہ لازم کردیا ہے کہ وہ یہ خرچ بچے کی ماں کو دے جبکہ ماں باپ دونوں بچے کے وارث ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ماں سے بڑھ کر باپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا حالانکہ میراث میں باپ اور ماں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح نفقہ کی ذمہ داری بنیادی طور پر باپ پر ڈال دی گئی کسی اور پر نہیں۔ اسی طرح باپ ہی اپنی نابالغ اولاد اور بالغ لیکن اپاہج اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار ہے اس چیز میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہوگا۔ آیت کی دلالت اسی مفہوم پر ہو رہی ہے اور قول باری (رزقھن و کسوتھن بالمعروف ان کا کھانا اور کپڑا معروف طریقے سے) حالت زوجیت میں بھی دودھ پلانے والی کے لئے کھانے اور کپڑے کے وجوب کا متقاضی ہے کیونکہ ایٓت تمام والدات کو شامل ہے خواہ وہ زوجات ہوں یا طلاق یافتہ۔ قول باری (بالمعروف) اس پر دلالت کر رہا ہے کہ کھانے اور کپڑے کا وجوب باپ کی خوشحالی اور تنگدستی کے لحاظ سے ہوگا کیونکہ یہ بات معروف میں داخل نہیں کہ تنگ دست پر اس سے زائد لازم کردیا جائے جس کی وہ قدرت رکھتا ہو اور اس کا دینا اس کے لئے ممکن ہو اور خوشحال پر معمولی مقدار واجب کردی جائے۔ کیونکہ اس حکم کے فواً بعد یہ قول باری (لا تکلف نفس الا و سعھا۔ کسی انسان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر مکلف نہیں بھنایا جاتا) اس حقیقت کو پوری طرح بیان کر رہا ہے اگر عورت اکڑ جائے اور اس سے زائد کا مطالبہ کرے جو عرفاً اور عادۃً اس جیسی عورت کو معاوضہ کے طور پر دیا جاتا ہے تو اس کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا اسی طرح اگر مرد اس سے کم دینے پر بضد و جائے تو یہ اس کے لئے حلال نہیں ہوگا بلکہ اسے پوری مقدار ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ آیت میں اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ غیر عورت کو کھانے اور کپڑے کے بدلے دودھ پلانے کے لئے رکھا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورت کے لئے جو چیز واجب کردی ہے وہ رضاعت کی اجرت ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن) میں اس کی وضاحت کردی ہے۔ آیت میں نئے پیش آمدہ واقعات کے احکامات معلوم کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش پر بھی دلالت ہو رہی ہے کیونکہ معروف طریقے سے نفقہ کا اندازہ لگانا غالب ظن اور کثرت رائے سے ممکن ہے اس لئے کہ اس کا اعتبار عادت کی بناء پر ہوتا ہے اور ہر ایسی چیز جس کی بنیاد عادت ہو اس کے معلوم کرنے کا طریقہ اجتہاد اور غالب ظن ہے۔ کیونکہ عادت ایک ہی مقدار پر ٹھہری نہیں ہوتی کہ اس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ایک اور جہت سے بھی اس معاملے میں اجتہاد سے کام لینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے مرد کی خوشحالی اور تنگدستی نیز کفایت کرنے والی مقدار کا اندزہ لگانا جو اس قول باری (لا تکلف نفس الا وسعھا) کے تحت ضروری ہے کیونکہ وسعت کا اعتبار عادت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سے فرقہ جبریہ کے اس عقیدے کا بھی بطلان ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی باتوں کا مکلف بناتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اس بات کی نسبت کرنے میں وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ آیت میں ان کے اس جھوٹ کا پول کھول دیا گیا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ ان کی ان بےوقوفانہ باتوں اور ان کی ان جھوٹی باتوں سے بہت بلند ہے۔ قول باری ہے (لا تضارو والدۃ بولدھا ولا مولود لہ بولدہ۔ کسی ماں کو اس کے بچے اور کسی باپ کو اس ک بچے کی وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے) حسن بصری، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد رضاعت کے معاملے میں تکلیف میں ڈالنا ہے۔ سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ اگر رضاعت کا کوئی انتظام کیا جائے تو اس میں ماں کو اختیار دیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ کسی ماں کو اس وجہ سے تکلیف نہ دی جائے کہ بچہ اس کا ہے وہ اس طرح کہ اگر وہ اتنے پیسوں پر دودھ پلانے کے لئے راضی ہوجائے جتنے پر ایک اجنبی عورت ہوتی ہے تو اسے اس کا موقع نہ دیا جائے یا اتنے پیسے ادا نہ کئے جائیں۔ بلکہ آیت کی ابتداء میں قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ و علی مولود لہ رزقھن و وکسوتھن بالمعروف) کی رو سے ماں ہی اس کام اور اس اجرت کی زیادہ مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ماں کو اس مدت میں اپنے بچے کو دودھ پلانے کا حقدار قرار دیا ہے۔ پھر اس کی تاکید اپنے اس قول سے فرمائی (لا تضار والدۃ بولدھا) اس سے مراد… واللہ اعلم… یہ ہے کہ جب ماں اتنے ہی معاوضہ پر دودھ پلانے کے لئے راضی وہ جائے جتنے پر ایک اجنبی عورت، تو پھر باپ کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اسے نقصان پہنچائے اور کسی اور عورت کو دودھ پلانے کی ذمہ داری سونپ دے۔ یہی بات دوسری آیت میں بیان فرمائی (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن) اس میں ماں کو سب سے بڑھ کر رضاعت کا حقدار قرار دیا۔ پھر فرمایا (و ان تعاسرتم نسرضع لہ اخری) اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے ماں کا حق اسی وقت ساقط کیا جب دودھ پلانے کے معاملے میں کشمکش ہوجائے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو اگر ماں دودھ پلانے پر رضامند نہ ہو تو اسے اس طرح نقصان نہ پہنچایا جائے کہ ماں سے اس کے بچے کو چھین لیا جائے اس صورت میں باپ سے کہا جائے گا کہ وہ دودھ پلانے والی دایہ سے کہے کہ وہ ماں کے گھر میں آ کر بچے کو ماں کے پاس بیٹھ کر دودھ پلائے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے آیت میں نقصان پہنچانے اور تکلیف دینے کی دو صورتوں کا احتمال ہے یعنی ماں سے بچے کو چھین لینا اور کسی اور عورت کو دودھ پلانے کے لئے مقرر کرنا تو یہ ضروری ہے کہ اسے ان دونوں معنوں پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں شوہر کو اس سے روک دیا جائے کہ جب ماں بچے کو اتنی ہی اجرت یعنی معروف طریقے پر کھانے اور کپڑے پر دودھ پلانے کے لئے رضامند ہو تو وہ کسی اور عورت کے دودھ پلانے کی ذمہ داری سونپ دے اور اگر ماں دودھ پلانے پر رضامند نہ ہو تو شوہر کو مجبور کردیا جائے کہ وہ دودھ پلانے والی دایہ کو بچے کی ماں کے گھر میں آ کر دودھ پلانے کے لئے کہے اور اس طرح شوہر بیوی کو بچے کی بنا پر تکلیف میں نہ ڈال سکے۔ ا میں اس پر بھی دلالت ہے کہ ماں بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھنے کی زیادہ حقدار ہے جب تک وہ صغیر ہوگا گرچہ اسے ماں کا دودھ پینے کی ضرورت باقی نہ رہے لیکن ماں کی گود میں پرورش پانے کی ضرورت ابھی باقی رہتی ہو کیونکہ اس صورت میں اس بچے کو رضاعت کے بعد بھی ماں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی رضاعت ختم ہونے سے قبل تھی۔ اب جب ماں رضاعت کی حالت میں بچے کو اپنے پاس رکھنے کی حقدار تھی خواہ دودھ پلانے والی عورت کوئی اور ہو تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ بچے کا ماں کے پاس ہونا دراصل ماں کا حق ہے، نیز اس میں بچے کا بھی حق ہے اور وہ یہ کہ بچے کے ساتھ ماں کی شفقت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور اس کی مامتا دوسروں کے مقابلے زیادہ محبت اور پیار دیتی ہے۔ ہمارے نزدیک لڑکے کی صورت میں اس کی حد یہ ہے کہ لڑکا خود کھا پی سکے اور وضو کرسکے اور لڑکی کی صورت میں اسے حیض آ جائے۔ اس لئے کہ لڑکا اگر عمر کی اس حد کو پہنچ جائے۔ جس میں اسے ادب تمیز سکھانے اور تربیت دینے کی ضرورت پیدا ہوجائے تو اس عمر میں اس کا ماں کے پاس رہنا اس کے لئے نقصان دہ ہے اس لئے کہ باپ یہ کام ماں کے مقابلے میں بطریق احسن سرانجام دے سکتا ہے۔ عمر کی یہی وہ حد ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے (مردھم بالصلوۃ بسبع واضربوھم علیھا العشر و فرقوا بینھم فی المضاجع سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز پڑھنے کے لئے کہو اور دس سال کی عمر میں اگر نہ پڑھیں تو ان کی پٹائی کرو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو ) اس لئے کہ جس لڑکے کی عمر سات برس کی ہوجائے اسے تعلیم کے طور پر نماز پڑھنے کا حکم ہے کیونکہ وہ اس عمر میں نماز کا مفہوم سمجھتا ہے۔ اسی طرح ادب آداب کے تمام پہلو جنہیں سیکھنا اس کے لئے ضروری ہے، اس حالت میں اس کا ماں کے پاس ہونا اس کے لئے نقصان دہ ہے اور بچے پر نقصان دہ باتوں میں کسی کی ولایت نہیں ہوتی۔ اس لئے اس عمر میں بچہ ماں کے پاس نہیں رہ سکتا۔ رہ گئی بچی تو اگر حیض آنے تک وہ ماں کے پاس رہے تو اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ اس کے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اسے عورتوں کے طور طریقے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ماں کے پاس رہ کر بہتر طریقے سے سیکھ سکتی ہے۔ بچی پر ماں کی یہ سرپرستی یا ولایت بالغ ہوجانے پر ہی جا کر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ولادت کی وجہ سے اس سرپرستی کی مستحق ہوئی تھی اور ماں کے پاس رہنے میں اسے کسی نقصان کا اندیشہ بھی نہ تھا اس لئے ماں بچی کے بالغ ہونے تک اس کی زیادہ حقدار تھی۔ جب بچی بالغ ہوجائے تو اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ کام ماں کے مقابلے میں باپ اچھی طرح کرسکتا ہے اس لئے بلوغت کے بعد باپ اس بچی کا زیادہ حقدار قرار پائے گا۔ جو باتیں ہم نے بیان کی ہیں ان پر قرآنی آیات کی دلالت کے ساتھ ساتھ آثار و احادیث کی بھی دلالت ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت علی ؓ ، حضرت زید بن حارثہ ؓ اور حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کا حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی کے متعلق جھگڑا پڑگیا۔ لڑکی کی خالہ حضرت جعفر ؓ کے عقد میں تھیں۔ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ لڑکی کو اس کی خالہ کے حوالے کیا جائے کیونکہ خالہ بھی ماں ہی ہے۔ اس حدیث میں خالہ کو تمام عصبات کے مقابلے میں زیادہ حق دار قرار دیا گیا جس طرح کہ آیت میں یہ حکم دیا گیا کہ بچے کو اپنے پاس رکھنے میں ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے۔ یہ بات اس مسئلے کی بنیاد ہے کہ مرد رشتہ دار کے مقابل میں ایسی عورت بچے کو اپنے پاس رکھنے اور اس کی پرورش کرنے کی زیادہ حقدار ہے جو اس بچے کی محرم رشتہ دار ہو، پھر اس لحاظ سے جو زیادہ قریب ہوگی وہ زیادہ حقدار ہوگی۔ اس حدیث میں کئی اور مسائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ خالہ کو پرورش کا حق پہنچتا ہے اور وہ عصبات سے بڑھ کر اس کی حقدار ہے۔ حضور ﷺ نے خالہ کو ماں کا نام دیا۔ حدیث کی اس پر بھی دلالت ہو ری ہے کہ بچے کے ہر محرم رشتے دار عورت کو یہ حق حاصل ہے اس لحاظ سے جو زیادہ قریب ہوگی وہ زیادہ حقدار ہوگی کیونکہ اس حق کو صرف ولادت تک محدود نہیں کیا گیا۔ بڑے ہو کر بیٹے کو اختیار ہے چاہے ماں کے ساتھ رہے یا باپ کے ساتھ عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک عورت اپنا ایک بیٹا حضور ﷺ کے پاس لے کر آئی اور کہنے لگی حضور ﷺ ! میرا پیٹ جب کہ اس کے لئے برتن، میرے پستان اس کے لئے پانی کی گھاٹ اور میری گود اس کے لئے پناہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ اس کا باپ اسے چھین لینا چاہتا ہے۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا : ” تو اس بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک شادی نہیں کرلیتی۔ “ اسی طرح کی روایت صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ہے جس میں حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ شامل ہیں نیز دوسرے صحابہ اور تابعین بھی ان میں شامل ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ لڑکا جب خود کھانے پینے لگے تو اسے اختیار دیا جائے گا اگر وہ باپ کے پاس رہنا پسند کرے تو باپ اسے رکھنے کا زیادہ حقدار ہوگا اور اگر ماں کو پسند کرے تو ماں کے پاس رہے گا۔ اس کے متعلق حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ایک لڑکے کو اختیار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ماں ا اور باپ میں سے جسے چاہو پسند کرلو۔ عبدالرحمن بن غنم ؓ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک لڑکے کو اختیار دیا تھا کہ وہ ماں باپ میں سے جسے چاہے پسند کرلے۔ حضور ﷺ سے جو روایت ہے اس میں یہ مکن ہے کہ وہ لڑکا بالغ ہو کیونکہ یہ جائز ہے کہ بالغ ہونے کے بعد بھی ایک لڑکے کو غلام یعنی لڑکے کے نام سے پکارا جائے۔ حضرت علی ؓ سے ایک روایت ہے کہ آپ نے ایک لڑکے کو اختیار دیا اور فرمایا کہ اگر یہ بالغ ہوچکا ہوتا… یعنی میرا خیال ہے کہ یہ ابھی نابالغ ہے… تو میں اسے اختیار دے دیتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں لڑکا بڑا اور بالغ تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت مں منقول ہے کہ ایک عورت شوہر کے ساتھ اپنا جھگڑا حضور ﷺ کے پاس لے آئی اور کہنے لگی کہ شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب وہ مجھ سے میرا بیٹا چھین لینا چاہتا ہے۔ میرے بیٹے نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے اور ابو عنبہ کے کنویں سے مجھے پانی بھی پلاتا رہا ہے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ دونوں قرعہ اندازی کرلو، یہ سن کر مرد نے کہا۔ ” میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے کون ھگڑ سکتا ہے ؟ “ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : لڑکے ! یہ تمہاری ماں اور یہ تمہارا باپ ہے، ان میں سے جسے چاہو منتخب کرلو۔ “ یہ سن کر لڑکے نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس روایت میں ماں کا یہ کہنا کہ یہ مجھے ابو عنببہ کے کنویں سے پانی پلاتا رہا ہے، اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ لڑکا بڑا تھا۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نابالغ کو اس کے تمام حقوق میں کوئی اختیار نہیں ہوتا اسی طرح ماں باپ کے متعلق بھی اسے اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ امام محمد بن المحسن کا قول ہے کہ لڑکے کو اختیار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اس صورت میں وہ بدترین چیز کا انتخاب کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ صورت حال بھی یہی ہے اس لئے کہ لڑکا کھیل کود اور ادب و علم سیکھنے سے روگردانی اختیار کرے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (قولو انفسکم و اھلیکم نارا، اپنے آپ کو اور اپنے اہل خاندان کو جہنم کی آگ سے بچائو) اور یہ بات تو واضح ہے کہ باپ لڑکے کی تادیب اور تعلیم کا کام بہتر طریقے پر سرانجام دے سکتا ہے۔ ماں کے پاس اس کا رہنا اس کے لئے نقصان کا باعث ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس کے اندر عورتوں والے اخلاق و عادات پیدا ہوں گے۔ قول باری (ولا مولود لہ بولدہ اور باپ کو اس وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے کہ اس کا بیٹا ہے) کا مرجع بھی مضارۃ یعنی ایک دوسرے کو تکلیف میں ڈالنا اور نقصان پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو نہی کردی کہ وہ عورت کو اس کے بیٹے کی وجہ سے تکلیف میں ڈالے اور عورت کو بھی نہی کردی کہ وہ مرد کو اس کے بیٹے کی وجہ سے تکلیف میں ڈال دے۔ عورت کی طرف سے تکلیف میں ڈالنے کی ایک صورت نفقہ یا غیر نفقہ کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ نفقہ کے سلسلے میں تو یہ ہے کہ وہ زیادتی پر اتر آئے اور اپنے حق سے زیادہ نفقہ کا مطالبہ کرے۔ غیرنفقہ کی صورت یہ ہے کہ باپ کو بیٹے سے ملنے نہ دے یا یہ بھی احتمال ہے کہ وہ اسے لے کر شوہر کے شہر سے باہر چلی جائے اور مسافرت اختیار کرلے۔ اس طرح وہ مرد کو اس کے بیٹے کے سلسلے میں پریشانی اور تکلیف میں ڈال دے۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ بچے کے باپ کی بات نہ مانے اور اسے باپ کے پاس چھوڑنے سے انکار کر دے، یہ تمام صورتیں آیت (ولا مولود لہ بولدہ) میں محتمل ہیں۔ اس لئے آیت کو ان تمام صورتوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ قول باری ہے (وعلی الوارث مثل ذلک اور وارث پر بھی باپ کی طرح دودھ پلانے والی کا حق ہے) اس کا عطف ماقبل میں ذکر کردہ تمام امور پر ہے جن کی ابتدا قول باری (وعلی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف) سے ہوئی ہے۔ اس لئے کہ سارا کلام اس طرح ہے کہ اس کے بعض حصوں کا بعض پر عطف ہے، عطف کے لئے حرف دائو لایا گیا ہے اور یہ حرف جمع ہے اس لئے مفہوم یہ ہوگا کہ یہ تمام باتیں ایک حال کے اندر مذکور ہیں یعنی روٹی اور کپڑا اور ایک دوسرے کو تکلیف میں ڈالنے اور پہنچانے کی ممانعت جیسا کہ ہم پہلے یہ باتیں ذکر کر آئے ہیں۔ پھر اس کے بعد فرمایا (وعلی الوارث مثل ذلک) یعنی کھانا کپڑا اور اس چیز کی ممانعت کہ وارث نہ تو بچے کی ماں کو نقصان پہنچائے اور نہ ہی بچے کی ماں وارث کو تکلیف میں ڈالے کیونکہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کچا عمل کبھی نفقہ کے اندر ہوتا ہے اور کبھی غیرنفقہ میں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس پر عطف کرتے ہوئے فرمایا (و علی الوارث مثل ذلک) تو یہ قول وارث پر ان تمام باتوں کو واجب کر گیا جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ ، حسن بصری، قبیصہ بن دئویب، عطاء اور قتادہ سے قول باری (وعلی الوارث مثل ذلک) کے متعلق مروی ہے کہ اس سے مراد نفقہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور شعبی سے مروی ہے کہ وارث پر یہ لازم ہے کہ وہ تکلیف میں نہ ڈالے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ اور شعبی کا یہ قول کہ وارث پر لازم ہے کہ وہ تکلیف میں نہ ڈالے اس پر دلالت نہیں کرتا کہ ان دووں کے نزدیک واثر پر نفقہ واجب نہیں ہوتا اس لئے کہ مضارت کا عمل کبھی نفقہ میں ہوتا ہے اور کبھی غیر نفقہ میں ہوسکتا ہے۔ اس لئے آیت کا مضارت کی طرف راجع ہونا وارث پر نفقہ کے لزوم کی نفی نہیں کرتا۔ اگر وارث پر نفقہ لازم نہ ہوتا تو خصوصیت کے ساتھ اسے مضارت سے روکنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس کی حیثیت اجنبی کی سی ہوتی۔ اس بات پر کہ اس سے مراد نفقہ اور غیرنفقہ میں مضارت ہے یہ آیت دلالت کرتی ہے جس کا ذکر اس کے بعد کیا گیا ہے (و ان اردتم ان تشترضعوا اولادکم فلا جناح علیکم اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں) آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا رضاعت اور نفقہ دونوں میں ہوسکتا ہے۔ سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ نابالغ کا نفقہ کس پر لازم ہوتا ہے۔ حضرت عمر ؓ کا قول ہے ک اگر باپ نہ ہو تو اس کا نفقہ عصبات یعنی مرد رشتہ داروں پر لازم ہوتا ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر نفقہ واجب کیا ماں پر نہیں کیا کیونکہ وہ عصبہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نفقہ کی ذمہ داری عصبات پر ہو جیسا کہ دیت وغیرہ کی ادائیگی مجرم کے عاقلہ یعنی مرد رشتہ داروں پر ہوتی ہے۔ حضرت زید بن ثابت کا قول ہے کہ نابالغ کا نفقہ مردوں اور عورتوں دونوں پر میراث میں ان کے حصول کے مطابق لازم ہوگا۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ حضتر ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وارث کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دودھ پلانے والی کو نقصان نہ پہنچائے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک وارث پر نفقہ لازم ہے کیونکہ ایک دوسرے کو ضرر پہنچانا نفقہ کے اندر ہی ہوسکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے نفقہ صرف باپ پر لازم ہے۔ دادا پر لازم نہیں ہوتا اور نہ ہی پوتے پردادا کا نفقہ واجب ہوتا ہے البتہ باپ کا نفقہ بیٹے پر لازم ہوتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نابالغ کا نفقہ اس کے کسی قرابت دار پر واجب نہیں ہوتا صرف باپ پر، باپ کے ولد پر، دادا پر اور ولدالولد پر لازم ہوتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت (و علی الوارث مثل ذلک) اور ایجاب نفقہ پر سلف کا اتفاق، جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، امام مالک اور امام شافعی کے قول کے غلط وہنے پر دلالت کرتے ہیں، اس لئے کہ قول باری (وعلی الوارث مثل ذلک) ان تمام کی طرف راجع ہے جن کا نفقہ اور مضارت کے سلسلے میں پہلے ذکر ہوچکا ہے اور یہ بات کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ دلالت کے بغیر اس میں تخصیص کر دے۔ ہم نے اس کے متعلق سلف کے اختلاف کا ذکر کردیا کہ نابالغ کا نفقہ کس پر واجب ہے لیکن سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ بھائی اور چچا پر نفقہ واجب نہیں ہوتا اس بنا پر امام مالک اور امام شافعی کا قول سلف کے تمام اقوال کے دائرے سے خارج ہے۔ اب جبکہ نفقہ باپ پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس کا محرم رشتہ دار ہے تو یہ ہر اس رشتہ دار پر بھی وجب ہوگا جس کے اندر یہ صفت پائی جائے گی۔ البتہ الاقرب فالاقرب کے قاعدے کا لحاظ رکھا جائے گا۔ وجوب کے حکم کی جو علت باپ کے اندر تھی اسی علت کی بنا پر دوسرے رشتہ داروں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا۔ اس پر قول باری (ولا علی انفسکم ان تاکلو من بیوتکم) تا قول باری (اوما ملکتم مفاتحہ او صدیقکم اور نہ تمہارے اوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھر سے یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے یا اپنی خالائوں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے) دلالت کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے محرم رشتہ داروں کا ذکر کیا اور ان کے گھروں سے کھانے کی اجازت دے دی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ رشتہ داری کی بناء پر اس کے مستحق ٹھہرے ہیں اگر رشتہ داری نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ چیز مباح نہ کرتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت میں (او ما ملکتم مفاتحہ او صدیقکم) کا بھی ذکر ہے جبکہ یہ نفقہ کے مستحق نہیں ہیں اس کے جواب میں کا جائے گا کہ یہ حکم ان سے بالاتفاق منسوخ ہے لیکن محرم رشتہ داروں سے اس حکم کی منسوخی ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پھر چچا کے بیٹے پر بھی نفقہ واجب کیا جانا چاہیے جبکہ وہ وارث ہو رہا ہو اس کے جواب میں کہا جائے گا ک ظاہر آیت تو اسی کا تقاضا کرتا ہے لیکن ہم نے دلالت کی بنا پر اس کی تخصیص کردی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (وعلی الوارث مثل ذلک) ہر وارث پر نفقہ واجب کردیتا ہے اس لئے ماں اور باپ دونوں پر ان کی میراث ک ینسبت سے نفقہ واجب ہونا ضروری ہے۔ جبکہ باپ کی موجودگی میں صرف باپ پر ہی نفقہ کا وجوب ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہاں وارث سے مراد باپ کے سوا دوسرے ورثاء ہیں۔ یہ اس لئے کہ اول خطاب میں باپ کا ذکر اس ضمن میں آچکا ہے کہ سارا نفقہ اس پر واجب ہے ماں پر نہیں پھر اس پر صو علی الوارث مثل ذلک) کو عطف کیا گیا۔ اب یہ بات درست نہیں ہے کہ اس میں دوسرے ورثاء کے ساتھ باپ بھی مراد ہو اس لئے کہ اس سے ما قبل کے حکم کا نسخ لازم آتا ہے اور جائز یہ نہیں کہ ایک ہی خطاب کے ضمن میں ایک چیز ک متعلق ناسخ اور منسوخ دونوں حکم موجد ہوں اس لئے کسی حکم کا نسخ اس وقت درست ہوتا ہے جب اس حکم کا استقرار عمل میں آ جائے اور اس پر عمل کا موقع اور قدرت حاصل ہوجائے۔ اسماعیل بن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو اور باپ پیدائش سے پہلے فوت ہوچکا ہو تو ماں پر اس کی رضاعت ضروری ہوجاتی ہے کیونکہ قول باری ہے (والوالدات یوضعن اولادھن) اس لئے باپ پر عائد ہونے والی ذمہ داری کے سقوط کی بنا پر ماں سے وہ ذمہ داری ساقط نہیں ہوگی۔ البتہ اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں کا دودھ نہ اترے تو اس پر رضاعت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اگر اس کے لئے دودھ پلانے کی غرض سے کوئی دایہ رکھنا ممکن ہو لیکن وہ نہ رکھے اور بچے کی موت کا خطرہ پیدا ہوجائے تو اس پر ایسی صورت میں دایہ رکھنا واجب ہوجائے گا۔ اس وجہ سے نہیں کہ باپ پر جچو ذمہ داری تھی وہی اس پر بھی ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ عمومی قاعدہ ہے کہ جس کی جان کا خطرہ ہو اس کی جان بچانا ممکن حد تک ہر شخص پر لازم ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل بن اسحاق کا یہ طویل کلام جھول اور اختلال سے پر ہے۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے (والوالدات یرضعن اولادھن) کی بنا پر ماں پر رضاعت واجب کردی لیکن اس کے متصل قول باری سے چشم پوشی کرلی جس میں فرمایا گیا ہے (و علی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ماں پر نفقہ اور کسوہ یعنی کھانے اور کپڑے کے مقابلے میں رضاعت واجب کی ہے۔ اب بدل کے بغیر ماں پر رضاعت کس طرح لازم کی جاسکتی ہے اور یہ بات تو واضح ہے کہ باپ پر رضاعت کے بدلے میں نفقہ کا لزوم اس بات کو واجب کردیتا ہے کہ اس حکم میں مذکورہ منافع رضاعت یعنی روٹی کپڑا بدل کے استحقاق کی بنا پر ملکیت کے طور پر باپ کو حاصل ہوں اس لئے ماں پر ان کا ایجاب محال ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر انہیں اس لئے واجب کردیا کہ ماں پر ان کا بدل یعنی دودھ پلانا لازم کردیا۔ دوسری وجہ یہ کہ قول باری (یرضعن اولادھن) میں ماں پر رضاعت کے ایجاب کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس قول باری سے صرف یہ ہوا ہے کہ رضاعت ماں کا حق قرار پایا ہے اس لئے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ماں رضاعت سے انکار کر دے اور باپ زندہ ہو تو اسے رضاعت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات نصاً اپنے قول (وان تعاسرتم فسترضع لہ اخریٰ ) میں بیان کردی ہے۔ اس بنا پر اس آیت سے ماں پر باپ کی وفات کی صورت میں رضاعت کے ایجاب کے سلسلے میں ابتدلال صحیح نہیں ہے جبکہ آیت باپ کی زندگی میں رضاعت کی ایجاب کا اقتضا نہیں کرتی اور یہی بات منصوص طریقے سے آیت میں بیان بھی کردی گئی۔ پھر اسماعیل بن اسحاق نے یہ کہا ہے کہ اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں کا دودھ نہ اترے تو اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے خواہ اس کے لئے دودھ پلانے والی دایہ رکھنا ممکن ہو۔ لیکن اس کا یہ قول بھی قائم نہیں رہتا ہے۔ اس لئے کہ اگر باپ نہ ہونے کی صورت میں بچے کو دودھ پلانے کے منافع یعنی روٹی کپڑے کی ذمہ داری ماں پر ہوگی تو یہ ضروری ہوگا کہ خود دودھ نہ پلا سکنے کی صورت میں ان منافع کا تعلق اس کے مال سے ہوجائے یعنی یہ چیزیں ماں کے مال سے ادا کی جائیں۔ جس طرح کہ باپ پر بچے کو دودھ پلوانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر رضاعت کے منافع کا وجوب اس کے مال سے نہ ہو تو پھر اس پر رضاعت کی ذمہ داری لازم کردینا جائز نہیں ہے حالانکہ رضاعت کے منافع کا خود ماں کو لازم ہونا یا دودھ نہ پلا سکنے کی صورت میں اس کے مال میں لازم ہونا ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لئے اس قول کا تناقض ظاہر ہوگیا۔ ایک اور وجہ سے بھی اس میں تنقاض ہے۔ وہ یہ کہ رضاعت کے اختتام پر بچے کا نفقہ ماں پر لازم نہیں ہے یعنی وہ رضاعت اور رضاعت کے بعد نفقہ کے درمیان فرق کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں چیزیں نابالغ کے نفقہ میں داخل ہیں۔ اب انہوں نے کس دلیل کی بنیاد پر اس فرق کو لازم کردیا۔ اگر اس طرح یہ فرق درست ہوتا تو یہی بات باپ کے حق میں بھی لازم ہوتی اور یوں کہا جاتا کہ باپ پر صرف رضاعت کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور جب رضاعت کی مدت ختم ہوجائے تو اس پر نابالغ کا کوئی نفقہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باپ پر دودھ پلانے والی کا روٹی کپڑا صرف رضاعت کی وجہ سے لازم کیا ہے (اور ظاہر ہے کہ اس قول کا یہ نتیجہ اس کے تناقض کو ظاہر کرتا ہے) ۔ پھر اسماعیل بن اسحاق نے یہ کہا ہے کہ اگر ماں کے لئے کسی اور عورت سے دودھ پلوانا ممکن ہو اور اسے بچے کی موت کا خطرہ ہو تو اس پر اس وجہ سے اسے دودھ پلوانا لازم ہوگا کہ موت کے خوف کی صورت میں اس پر ایسا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اگر بات یہی ہے تو پھر دودھ پلانے کا لزوم ماں کے ساتھ کیوں خاص ہو پڑوسیوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ یہ پورا استدلال ایک بات کو دوسرے کے ساتھ خلط ملط کرنے نیز سند اور دلیل کے بغیر ایک چیز کو دوسرے کے مشابہ قرار دینے کا شاہکار ہے۔ امام مالک سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے کہ وہ بیٹے کا نفقہ صرف باپ پر اور باپ کا نفقہ صرف بیٹے پر لازم کرتے ہیں اور داد کا نفقہ پوتے پر واجب نہیں کرتے۔ یہ قول سلف اور خلف دونوں کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے اور ہمیں اس قول کے کسی موافقت کرنے والے کے متعلق علم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ ظاہر کتاب اس قول کو رد کر رہا ہے۔ قول باری ہے (ووصینا الانسان بوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں وصیت کی۔ ماں نے کمزوری در کمزوری کی حالت میں اس کا بوجھ اٹھائے رکھا) تا قول باری (و ان جاھداک عقلی ان تشوک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا) اور اگر ماں باپ تمہیں اس پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرا جس کا تجھے خود علم نہیں تو تو ان کی بات ہرگز نہ مان اور دنیا میں ان کے ساتھ معروف طریقے سے گزارا کر) اس میں داد بھی داخل ہے کیونکہ وہ باپ ہے قول باری ہے (ملۃ ابیکم ابراہیم تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ) اب اسے یہ حکم دیا گیا ہے کہ معروف طریقے سے اس کے ساتھ گزارہ کرو۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اب معروف طریقے سے گزارہ کرنے میں یہ بات ہرگز داخل نہیں ہے کہ اس کی بھوک دور کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اسے فاقے کاٹنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم او بیوت اباء کم اللہ تعالیٰ نے ان اقرباء کے گھروں کا ذکر فرمایا اور بیٹے یا پوتے کے گھر کا ذکر نہیں کیا اس لئے قول باری (من بیوتکم) خود اس کا متقاضی ہے۔ جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (انت و مالک لا بیک تو اور تیرا سارا مال تیرے باپ کا ہے) آپ نے باپ کی طرف بیٹے کی ملکیت کی نسبت کی جس طرح اس کی طرف بیٹے کے گھر کی نسبت کی۔ اسی طرح آیت میں بیوت کی نسبت باپ کی طرف کرنے پر اقتصار کیا۔ اس بات کی دلیل کہ آیت میں بیٹے اور پوتے کے بیوت بھی مراد ہیں یہ ہے کہ آیت کے نزول سے پہلے یہ بات سب کو معلوم تھی کہ انسان پر اس کے اپنے مال میں تصرف کی ممانعت نہیں ہے تو اس صورت میں یہ فقرہ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ تمہیں اپنا مال کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے “۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہق ول باری (ان تاکلوا من بیوتکم) سے بیٹوں اور پوتوں کے بیوت مراد ہیں کیونکہ ان کے بیوت کا ذکر نہیں ہوا جس طرح دوسرے اقربا کے بیوت کا ذکر ہوا۔ وارثوں پر ان کی میراث کی نسبت سے نفقہ واجب کرنے والوں کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بچے کی میراث کے وارثوں میں سے ہر ایک پر میراث کی نسبت سے بچے کا نفقہ واجب وہ گا بشرطیکہ یہ وارث بچے کا محترم رشتہ دار ہو۔ اگر وارث بچے کا محرم رشتہ دار نہ ہوگا تو اس پر بچے کا نفقہ واجب نہیں ہوگا۔ اسی لئے ہمارے اصحاب نے بچے کے ماموں پر نفقہ واجب کردیا اور میراث چچا کے بیٹے کے لئے واجب کردی اس لئے کہ چچا کا بیٹا بچے کا محرم رشتہ دار نہیں ہے اور ماموں اگرچہ چچا کے بیٹے کی موجودگی میں واثر نہیں ہوتا لیکن وہ بچے کا محرم وارث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ بچے کی زندگی میں کوئی وارث مراد نہیں ہوتا کیونکہ زندگی کی حالت میں میراث کا کوئی سوال نہیں ہوتا اور موت کے بعد کون اس کا وارث ہوگا اس کا پتہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ممکن ہوتا ہے اس وقت جس وارث پر بچے کا نفقہ واجب ہے اس کی موت کی وجہ سے بچہ خود اس کا وارث ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس وارث پر ہم نے نفقہ واجب کردیا ہے کسی اور وارث کی وجہ سے وہ بچے کی وراثت سے محجوب یعنی محروم ہوجائے۔ ان باتوں کی رشنی میں ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ مراد حصول میراث نہیں ہے بلکہ مراد وہ محرم رشتہ دار ہے جو بچے کی میراث میں وارث ہونے کا حق دار ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ بچے کا نفقہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اس کا وارث ہو خواہ وہ اس کا محرم رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ اس بناء پر ان کے نزدیک ماموں پر نفقہ واجب نہیں ہوگا بلکہ چچا کے بیٹے پر واجب ہوگا۔ جو بات ہم نے کہی ہے اس یک صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مولی العتاقہ (اپنے غلام کو ازاد کردینے والا) پر نفقہ واجب نہیں ہے اگرچہ وہ وارث ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت پر اپنے نابالغ شوہر کا نفقہ واجب نہیں ہوتا جبکہ عورت اپنے شوہر کی وارث ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نفقہ کے وجوب کے لئے ایسے وارث کی شرط ہے جو محرم بھی ہو۔ مدت رضاعت قول باری ہے (حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ پورے دو سال اس کے لئے جو رضاعت کی مدت پوری کرنے کا ارادہ کرے) یہاں دو سالوں کی توقیت دو میں سے ایک معنی پر محمول ہے یا تو یہ اس رضاعت کی مدت کی مقدار ہے جو موجب تحریم ہے یا اس مدت کا بیان ہے جس کی رضاعت کا نفقہ باپ پر لازم ہوتا ہے۔ لیکن جب اسی سیاق میں یہ بیان فرما دیا کہ (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور فلاجناح علیھما۔ اگر دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے) تو اس سے اس حقیقت پر دلالت ہوگئی کہ دو سال کا عرصہ اس رضاعت کی مدت کی مقدار نہیں جو موجب تحریم ہے کیونکہ حرف فاء تعقیب کے لئے ہوتا ہے۔ اس لئے یہ واجب ہے کہ فصال یعنی دودھ چھڑانا جسے ان دونوں کے ارادے کیس تھ معلق کردیا گیا ہے وہ دو سالوں کے بعد ہو اور جب یہ فصال دو سالوں کے بعد ان کی باہمی رضامندی اور مشورے کیس اتھ معلق کردیا گیا ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ حولین کا ذکر اس رضاعت کی انتہا کے لئے توقیت کے طور پر نہیں ہوا جو نکاح کی تحریم کی موجب ہے بلکہ یہ جائز ہے کہ رضاعت دو سالوں کے بعد بھی ہو۔ معاویہ بن صالح نے ابن ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) اور اس کے بعد آیت (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور فلا جناح علیھما) کے متعلق فرمایا کہ ان دونوں پر کوئی حرج نہیں اگر وہ دو سال سے قبل یا دو سال کے بعد بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں۔ اس طرح حضرت ابن عباس ؓ نے اپنے قول میں بتادیا کہ آیت (فان ارادا فصالا) دو سال قبل سے قبل اور بعد دونوں پر محمول ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (وان اردتم ان تسرضعوا و اولادکم فلا جناح علیکم اور اگر تم اپنی اولاد کو کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں) اب ظاہراً تو اس سے مراد دو سالوں کے بعد دودھ پلوانا ہے اس لئے کہ یہ اس فصال کے ذکر پر معطوف ہے جو ان دونوں کی باہمی رضامندی کے ساتھ متعلق ہے۔ پھر اللہ نے دونوں کے لئے فصال کو مباح کردیا اور اس کے بعد باپ کے لئے استرضاع یعنی کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کو مباح کردیا جس طرح کہ دونوں کے لئے فصال کو مباح کردیا تھا بشرطیکہ اس میں بچے کی بھلائی مقصود ہو۔ ہمارے اس بیان سے یہ ظاہر ہوگی کہ حولین کا ذکر دراصل اس مدت کی توقیت کے لئے ہے جس کے اندر باپ پر رضاعت کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور نفقہ نہ دینے کی صورت میں حاکم اسے اس پر مجبور کرسکتا ہے۔ واللہ اعلم ! رضاعت کے وقت کے متعلق فقہاء کے اختلاف کا ذکر ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ بالغ کی رضاعت کے متعلق سلف میں اختلاف رہا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے ہ آپ کے نزدیک نابالغ کی رضاعت کی طرح بالغ کی رضاعت بھی موجب تحریم ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اس سلسلے میں حضرت ابوحذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سالم کی بیان کردہ روایت کا ذکر کرتی تھیں کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو حذیفہ ؓ کی بیوی سہلو ؓ بنت سہیل سے فرمایا تھا کہ (ارضعیۃ خمس رضعات ثم یدخل علیک، اسے یعنی سالم کو پانچ مرتبہ دودھ پلائو پھر یہ تمہارے پاس آ جاسکے گا۔ حضرت عائشہ ؓ جب کسی مرد کو اپنے گھر آنے جانے کی اجازت دینا چاہتیں تو اپنی بہن ام کلثوم ؓ سے کہتیں کہ اسے پانچ دفعہ دودھ پلا دیں۔ پھر وہ شخص حضرت عائشہ ؓ کے گھر آتا جاتا لیکن باقی ماندہ تمام ازواج مطہرات نے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حضور ﷺ نے شاید خصوصی طور سے یہ رخصت سالم کو عطا کی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ سہلہ ؓ بنت سہیل نے حضور ﷺ سے عرض کیا تھا کہ سالم کے آنے جانیسے میں ابوحذیفہ ؓ کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات دیکھتی ہوں۔ اس پر حضور ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ (ارضعیہ یذہب ما فی وجہ ابی حذیفہ) اسے اپنا دودھ پلا دو ابو حذیفہ کے چہرے پر پیدا ہونے والا غصہ دور ہوجائے گا) اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ رخصت صرف سالم کے کے لئے خاص تھی جیسا کہ ازواج مطہرات نے اس سے یہی مفہوم لیا تھا جس طرح کہ حضور ﷺ نے ابوزیاد بن دینار ؓ کو چھوٹی عمر کے جانور کی قربانی کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ابوزیاد کے بعد کسی کے لئے اس کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ سے ایک روایت کی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ بانع کو اپنا دودھ پلا دینا موجب تحریم نہیں ہے۔ ہمیں اس کی روایت محم دبن بکر نے کی ہے۔ انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں سفیان نے اشعث بن سلیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے مسروق سے اور انوہں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضور ﷺ ان کیپ سا تشریف لائے تو اس وقت وہاں ایک شخص بھی موجود تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا (انظون من اخوانکن فانما الرضاعۃ من المجاعۃ دیکھ لیا کرو کہ کون سے لوگ تمہارے رضاعی بھائی بن سکتے ہیں اس لئے کہ رضاعت اس وقت ہوتی ہے جب دودھ کی بھوک ہوتی ہے) آپ کا یہ قول اس بات کو واجب کردیتا ہے کہ رضاعت کا حکم بچپن کی حالت تک محدوعد ہے کیونکہ اس حالت میں دودھ ہی بچے کی بھوک کو دور کرتا ہے اور اس کی غذائیت کے لئے کافی ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ آپ بانع کی رضاعت کے قائل تھے۔ لیکن آپ سے ایسی روایت بھی ہے جو اس قول سے رجوع پر دلالت کرتی ہے۔ ابو حصین نے ابو طعیہ سے روایت کی ہے ہ مدینہ منورہ سے ایک شخص اپنی بیوی کو لے کر آیا۔ اس نے ایک بچے کو جنم دیا اس کے بعد دودھ جمع ہوجانے کی وجہ سے اس کے پستان متورم ہوگئے۔ وہ شخص اس کے پستان سے دودھ چوس کر کلی کردیتا لیکن اسی دوران دودھ کا ایک گھونٹ ان کے پیٹ میں چلا گیا۔ اس نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مسئلہ پوچھا تو انوہں نے جواب دیا کہ یہ عورت تم پر حرام ہوگئی۔ وہ شخص حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس آیا اور تفصیل سے ساری بات بتائی۔ حضرت ابن مسعود ؓ اسے لے کر حضرت ابوموسیٰ ؓ کے پاس گئے اور فرمایا : ” کیا تمہارے خیال میں یہ کھچڑی بالوں والا شخص رضیع یعنی رضاعت کا دودھپینے والا بن سکتا ہے ! ! تحریم کی موجب وہ رضاعت ہے جو گوشت اور ہڈی بنائے۔ “ یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ ؓ نے فرمایا : ” جب تک یہ جبر یعنی عالم (حضرت ابن مسعود ؓ ) تمہارے درمیان مجود ہے اس وقت تک مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھو “۔ یہ قوت اس پر دلالت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نے پہلے قول سے رجوع کر کے حضرت ابن مسعود ؓ کا قول اختیار کرلیا تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت ابن مسعود ؓ کے متعلق یہ فقرہ نہ کہتے۔ بلکہ ان سے اس مسئلے کے متعلق اپنا اختلاف برقرار رکھتے اور اپنے فتوے کو برحق سمجھتے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت عبداللہ، حضرت ام سلمہ ؓ ، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ بالغ کو اپنا دودھ پلا دینا موجب تحریم نہیں ہے۔ فقہاء میں سے کسی کے متعلق ہمیں علم نہیں ہے کہ وہ بالغ کی رضاعت کے قائل ہوں البتہ لیث بن سعد سے ابو صالح نے روایت کی ہے کہ بالغ کو اپنا دودھ پلانا موجب تحریم ہے لیکن یہ قول شاد ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت موجود ہے جو عدم تحریم پر دلالت کرتی ہے۔ یہ روایت حجاج نے حکم سے، انہوں نے ابوالشعثاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کی ہے آپ نے فرمایا کہ وہی رضاعت موجب تحریم ہے جو گوشت اور خون پیدا کرے۔ حرام بن عثمان نے حضرت جابر ؓ کے دو بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا یتم بعد حلم ولا رضاع بعد فصال، بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں اور دودھ چھوٹ جانے کے بعد کوئی رضاعت نہیں) ۔ حضرت عائشہ ؓ کی جس روایت کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے اس میں حضور ﷺ کے الفاظ یہ ہیں (انما الرضاعۃ من المجاعۃ) دوسری روایت میں ہے (ما انبت اللحم وانشزالعظم، جس سے گوشت بنے اور ہڈی ابھرے) یہ روایتیں بالغ کی رضاعت کی نفی کرتی ہیں۔ بالغ کی رضاعت کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کی بیان کردہ روایت ایک اور طرح سے بھی مروی ہے۔ اسے عبدالرحمن بن القاسم نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ کی بیٹی سے کہتیں کہ وہ بچوں کو اپنا دودھ پلا دیا کریں تاکہ بڑے ہو کر وہ ان کے پاس اس رضاعت کی بنا پر آ جاسکیں۔ جب بالغ کی رضاعت کے قائلین کے قول کا شاذ ہونا ثابت ہوگیا تو گویا متفقہ طور پر معلوم ہوگیا کہ بالغ جکو اپنا دودھ پلانا موجب تحریم نہیں ہے۔ فقاء امصار کا رضاعت کی مدت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ دو سال اور اس کے بعد چھ مہینوں کے دوران جو رضاعت ہوگی وہ موجب تحریم ہے خواہ بچے نے دودھ پینا چھوڑ دیا ہو یا نہ چھوڑا ہو۔ اس کے بعد کی رضاعت موجب تحریم نہیں ہے خواہ بچہ دوعدھ پیتا وہ یا نہ پیتا ہو۔ امام زفر بن الہذیل کا قول ہے کہ جب بچہ دودھ پر گزارہ کرے اور دودھ پینا نہ چھوڑے اس وقت تک رضاحت کی مدت ہوتی ہے خواہ یہ سلسلہ تین سال تک کیوں نہ جاری رہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، سفیان ثوری، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ دو سال کے دوران رضاعت موجب تحریم ہے اس کے بعد کی نہیں، نیز دودھ چھوڑنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ وقت کا اعتبار کیا جائے گا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ دو سال کے اندر تھوڑی اور زیادہ رضاعت موجب تحریم ہے اور اس کے بعد کی تھوڑی یا زیادہ رضاعت موجب تحریم نہیں۔ ابن القاسم نے امام مالک سے یہ روایت کی ہے کہ رضاعت دو سالوں یا اس کے ایک ماہ یا دو ماہ تک ہوتی ہے اس سللے میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہے بلکہ دو سال اور ایک یا دو ماہ کی مدت کو دیکھا جائے گا۔ امام مالک نے فرمایا : کہ اگر ماں نے دو سال سے پہلے ہی دودھ چھڑا دیا اور پھر دو سال گزرنے سے قبل اسے دودھ پلایا تو وہ بچہ فطیم یعنی دودھ چھوڑ دینے والا قرار دیا جائے گا۔ دو سال سے قبل اگر بچہ ماں کے دودھ سے مستغنی ہوجائے تو اس کے بعد اگر ماں اسے دودھ پلا بھی دے تو یہ رضاعت شمار نہیں ہوگی۔ امام اوزاعی کچا قول ہے کہ جب بچہ ایک سال کے بعد دودھ چھوڑ دے اور اس کی یہ حالت اسی طرح جاری رہے تو اس کے بعد دودھ پلانا رضاعت میں شمار نہیں ہوگا۔ اگر بچہ تین سال تک ماں کا دودھھ پیتا رہے اور دودھ نہ چھوڑے تو دوس ال کے بعد کا عرصہ رضاعت میں شمار نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ دودھ چھڑانے کے بعد کوئی رضاعت نہیں ہوتی۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ رضاعت وہی ہوتی ہے جو صغر یعنی چھوٹی عمر میں ہو۔ یہ دونوں اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان حضرات نے دو سال کی مدت کا اعتبار نہیں کیا کیونکہ حضرت علی ؓ نے رضاعت کے حکم کو دودھ چھوڑنے کے ساتھ متعلق کردیا اور حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نے صغریغی کم سنی کے ساتھ اور اس کے لئے کسی توقیت یعنی وقت کی مقدار کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے منقول ہے کہ وہی دودھ موجب تحریم ہے جو دودھ چھوڑنے سے قبل پستان میں موجود ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رضاعت کا وہی دودھ تحریم کو واجب کردیتا ہے جو بچے کی آنتوں کو پھاڑے یعنی آنتوں میں پہنچ جائے اور فطام سے پہلے پستان میں موجود ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے رضاعت کے حکم کو اس دودھ کے ساتھ متعلق کردیا جو فطام سے قبل ہو اور بچے کی آنتوں اور معدے میں پہنچ جائے۔ یہ قول حضرت عائشہ ؓ سے مروی قول سے ملتا جلتا ہے کہ وہ رضاعت موجب تحریم ہوتی ہے جو گوشت پوست اور خون بنا سکتی ہو۔ یہ اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ان حضرات کا مسلک یہ ہے کہ دو سال کی مدت کا اعتبار نہ کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت عبداللہ عباس ؓ سے مروی ہے کہ دو سال کے بعد کوئی رضاعت نہیں۔ حضور ﷺ سے جو یہ الفاظ منقول ہیں کہ (الرضاعۃ من المجاعہ) یہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کا تعلق دو سال کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ اگر دو سال کا عرصہ رضاعت کی مدت کی مقدار ہوتا تو یہ ہرگز یہ نہ فرماتے کہ (الرضاعۃ من المجاعۃ) بلکہ یہ فرماتے کہ رضاعت دو سالوں میں ہوتی ہے۔ جب آپ نے حولین کا ذکر نہیں کیا بلکہ ” مجاعت “ کا ذکر کیا جس کے معنی ہیں کہ دودھ جب بچے کی بھوک کو رفع کر دے اور اس کے جسم کو قوت بخشے تو یہ رضاعت ہے۔ یہ صورت حال دو سال کے بعد بھی باقی رہ سکتی ہے۔ اس لئے اس کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ دو سال کے بعد بھی پائی جانے والی رضاعت تحریم کو واجب کرنے والی ہوتی ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا رضاع بعد فصال) یہ اس بات کو ضروری قرار دیتی ہے کہ جب دو سال کے بعد دودھ چھڑا دیا جائے تو اس کے بعد رضاعت کا حکم منقطع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے صالرضاعۃ ما انبت اللحم وانشزالعظام۔ رضاعت وہ ہے جو گوشت پیدا کر دے اور ہڈیاں ابھار دے) یہ بھی مدت رضاعت کی توقیت کی نفی پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ مذکورہ بالا روایات کی بھی اسی معنی پر دلالت ہو رہی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا ایک قول منقول ہے جس کی روایت کی صحت پر مجھے یقین نہیں ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابن عباس ؓ رضاعت کا اعتبار اس قول باری (و حملہ و فصالہ ثلثون شھوا اور اس کے حمل یک تکمیل اور اس کا ودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوتا ہے) سے کرتے ہیں۔ اگر ایک عورت چھ ماہ میں بچے کو جنم دے تو اس کی رضاعت پورے دو سالوں میں ہوگی۔ اگر نو ماہ کے بعد بچہ پیدا ہوا تو رضاعت کی مدت اکیس ماہ ہوگی۔ اسی طرح اگر بچہ سات ماہ میں پیدا ہوا تو رضاعت کی مدت تئیس مناہ ہوگی۔ حضرت ابن عباس ؓ حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ یک تکمیل کا اعتبار کرتے ہیں لیکن ہمیں سلف اور ان کے بعد آنے والے فقاء میں سے کسی کا علم نہیں جنہوں نے تیس ماہ کا اعتبار کیا ہو۔ چونکہ رضاعت کے لحاظ سے بچوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں۔ بعض بچے تو دو سال سے پہلے ہی اس سے مستغنی ہوجاتے ہیں اور بعض دو سال گزرنے کے بعد بھی ماں کا دودھ پیتے رہتے ہیں، پھر جیسا کہ ہم نے سلف سے روایات کا ذکر کیا ہے اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بالغ کی رضاعت نہیں ہوتی اور نابالغ یعنی صغیر کی رضاعت ہوتی ہے اور صغیر کے لئے دو سال کی کوئی حد نہیں ہے۔ کیونکہ ایک بچے پر دو سال گزر جانے کے بعد بھی اسے بچہ کہنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی اس لئے ان تمام باتوں کی روشنی میں ہمیں دو سال کی مدت، رضاعت کی مدت کی توقیت نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے جب یہ فرمایا تھا کہ (الرضاعۃ من ملجاعۃ) نیز (الرضاعۃ ما انبت اللحم و انشزالعظم) تو آپ نے ایسے معنی کا اعتبار کیا تھا جس کے لحاظ سے بچوں کے احوال مختلف ہوتے ہیں اگرچہ اغلباً بچے دو سال گزرنے پر اس سے مستغنی ہو ہی جاتے ہیں اس لئے اس سلسلے میں حولین کا اعتبار ساقط ہوگیا۔ پھر اس سے زائد مقدار کے اندازے کا طریقہ اجتہاد اور رائے کا اعتبار ہے۔ اس لئے کہ یہ اس حالت کے درمیان جس میں بچے کو غذا کے لئے صرف دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا گوشت پوست بنتا ہے اور اس حالت کی طرف انتقال کے درمیان حد بندی ہوتی ہے جس میں وہ دودھ سے مستغنی ہو کر ٹھوس غذا پر اکتفا کرلیتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی مدت دو سالوں کے بعد چھ ماہ ہوتی ہے۔ یہ بات مقدار کے تعین میں اجتہاد سے تعلق رکھتی ہے اور ایسے مقادیر جن میں اجتہاد کیا جاتا ہے ان کے متعلق قائل پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً استعمال میں آنے والی ایسی چیزوں کی قیمتوں کا تعین اور ایسے جرائم میں جرمانوں کی تحدید کا عمل جن کے متعلق شریعت کی طرف سے توقیف یعنی رہنمائی موجود نہ ہو اسی طرح طلاق کے بعد مطلقہ کو سامان وغیرہ دینے کی بات اور اسی طرح اور دوسری چیزیں۔ ان میں اگر کسی نے غالب ظن کی بناء پر کسی مقدار کا تعین کردیا، ہو تو اس سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس تعین کے لئے دلیل بھی پیش کرے۔ اس باب میں یہ ایک صحیح اصول ہے جس کی بنیاد پر اس سے متعلقہ مسائل ایک ہی طریقے س حل کئے جاتے ہیں۔ اس کی نظیر حد بلوغت کے متعلق امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ اٹھارہ سال ہے نیز یہ قول کہ جس شخص کے اندر بلوغت کے بعد سمجھ بوجھ پیدا نہیں ہوئی ہو اسے اس کا مال پچیس سال کے بعد ہی حوالے کیا جائے گا اور اسی طرح کے مسائل جن میں مقادیر کا تعین اجتہاد کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب مقادیر کا اجتہاد کے ذریعے کیا جاتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے جس کی بنا پر ایک خاص مقدار کے تعین کے لئے ظن غالب پیدا ہوجائے اور کسی دوسری مقدار کے اعتبار کی گنجائش نہ رہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے دو سال گزرنے کے بعد ازروئے اجتہاد مزید چھ ماہ کا اعتبار کیا، اس سال کا اعتبار کیوں نہیں کیا جیسا کہ امام زفر نے کیا ہے۔ اس کے جواب میں کا جائے گا کہ اس سلسلے میں ایک بات ہے جو کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا کہ (وحملہ و فصالہ یلثون شھرا) پھر فرمایا (وفصالہ فی عامین اور اس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں ہوگا) تو ان دونوں آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ حمل کی مدت چھ ماہ ہے پھر اس میں دو سال تک زیادتی کی گنجائش پیدا ہوئی کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حم بع دفعہ دو سال تک رہتا ہے اور ہمارے نزدیک اس کی مدت دو سال سے زائد نہیں ہوتی اس بناء پر اس آیت میں مذکورہ حمل بھی دو سال کی ممکنہ مدت سے فارج نہیں اسی طرح دودھ چھڑانے کی مدت بھی تیس ماہ کی مدت سے باہر نہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں ایک ہی جملہ کیت حت اس قول باری میں مذکور ہوئی ہیں (و حملہ و فصالہ ثلاثون شھرا) ۔ ابو الحسن اس کے متعلق کہا کرتے تھے کہ جب دو سال کی مدت دودھ چھوڑنے معتاد مدت ہے اور اس مدت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ دو سال کے بعد دودھ سے ٹھوس غذا کی طرف انتقال کی مدت چھ ماہ جس طرح کہ ماں کے پیٹ میں قدرتی غذا سے بچے کو پیدائش کے بعد دودھ کی غذا کی طرف منتقل ہونے میں چھ ماہ لگتے ہیں جو حمل کی کم سے کم موت ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ قول باری (والوالدات یوضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) اس پر نص ہے کہ دو سال کی مدت رضاعت کی پوری مدت ہے اس لئے اس کے بعد رضاعت کا ہونا جائز نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں لفظ اتمام (انیتم الرضاعۃ) کا اطلاق اس پر اضافے سے مانع نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے حمل کی مدت چھ ماہ رکھی چناچہ ارشاد ہے (وحملہ و فصالہ ثلاثون شھرا) نیز ارشاد ہے (و فصالہ فی عامین) ان دونوں آیتوں میں مجمویع طور پر حمل کی مدت چھ ماہ رکھی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس مدت میں اضافے کے اندر کوئی امتناع نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح رضاعت کے لئے دو سال کا ذکر اس پر اضافے کے لئے مانع نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال حضور ﷺ کا یہ ارش ہے کہ (من ادرک عرفۃ فقدتم حجہ جس شخص نے وقوف عرفات کو پا لیا اس کا حج مکمل ہوگیا) اس ارشاد کی وجہ سے وقوف عرفات پر اور فرائض مثلاً طواف زیارت کا اضافہ ناجائز نہیں ہوا۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دو سال کا ذکر ان اخراجات کی مدت کے تعین کے لئے ہے جو رضاعت کے سلسلے میں باپ پر لازم ہوتے ہیں اور باپ اس مدت کے بعد اخراجات کی کفالت پر مجبور نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد رضاعت کا اثبات میاں بیوی کی باہمی رضامندی اور مشورے سے ہوتا ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشش اور فلا جناح علیھما) اس یطرح قول باری ہے (و ان اردتم ان تسترضعوا اولادم فلا جناح علیکم) جب دو سالوں کے بعد بھی رضاعت کا ثبوت ہوگیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ رضاعت کی وجہ سے ہونے والی تحریم بھی ان دو سالوں تک محدود نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے دو سالوں کے دوران ٹھوس غذا کھانے کی وجہ سے بچے کے دودھ سے مستغنی ہونے کو قطام (بچے کا دودھ چھوڑ دینا) کیوں شمار نہیں کیا جیسا کہ امام مالک نے اس صورت کو فطام شمار کیا ہے۔ ان کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (لا رضاع بعد فصال) اسی طرح صحابہ کرام سے منقول روایات جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے جو سلب کی سب فطام کے اعتبار پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر فطام ہی کا اعتبار واجب ہے تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ دو سال گزرنے کے بعد یہ دیکھا جائے کہ اب بچے کو دودھ کی ضرورت باقی ہے یا نہیں اور پھر اس کا اعتبار کرلیا جائے کیونکہ بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دو سال کے بعد بھی رضاعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ دو سال کے بعد رضاعت کا اعتبار نہیں کیا جاتا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ دو سال کے دوران بھی رضاعت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اور اس سے یہ واجب ہوگیا کہ تحریم کا حکم وقت کے ساتھ متعلق ہے کسی اور چیز کے ساتھ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت جابر ؓ کی حدیث میں یہ منقول ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا رضاع بعد الحولین) تو اس کی کیا تاویل ہوگی ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کے مشہور الفاظ یہ ہیں (لا رضاع بعد فصال) اس لئے یہ ممکن ہے کہ حدیث کے اصل الفاظ تو یہی ہوں اور جس رای نے حولین کا ذکر کیا ہے اس نے حدیث کو اس معنی پر محمول کیا ہے۔ نیز اگر حولین کا ذکر ثابت ہوجائے تو اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ ” لا رضاع علی الاب بعد الحولین “ (دو سال کے بعد باپ پر رضاعت کی ذمہ داری نہیں) جس طرح کہ قول باری (حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) کی تاویل کی گئی ہے۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے نیز اگر حولین رضاعت کی مدت ہوتی اور اس کے گزرنے پر فصال یعنی دودھ چھڑانا واقع ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ (فان اراد فصالا) اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دو طرح سے اس پر دلالت کرتا ہے کہ حولین فصال کے لئے توقیت نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ فصال کا ذکر اسم نکرہ کی شکل میں ہوا ہے۔ اگر حولین ہی فصال ہوتا تو پھر فصال اسم معرفہ کی شکل میں مذکور ہوتا تاکہ اس کا ذکر حولین کی طرف راع ہوتا کیونکہ اس صورت میں فصال معہود ہوتا اور اس سے حولین یک طرف اشارہ ہوتا ۔ لیکن جب اس کا ذکر نکرہ کی صورت میں کر کے اسے مطلق رکھا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ فصال سے دو سال مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فصال کو ماں باپ کے ارادے پر معلق کردیا جبکہ ہر ایسا حکم جو کسی محدود وقت کے اندر منحصر ہوتا ہے اس کی تعلیق ارادے اور باہمی رضا مندی اور مشورت پر نہیں ہوتی۔ اس تشریح میں ہماری ذکر کردہ بات کی دلیل موجود ہے۔ قول باری (فان ارادا فصالا عن تراض منھما و تشاور) نئے پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے لئے اجتہاد کے جواز پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صغیر کی فلاح و بہبود کے معاملے میں والدین کے لئے باہمی مشاورت کو مباح کردیا ہے اور یہ بات والدین کے غالب ظن پر موقوف ہے یقین اور حقیقت کی جہت پر موقوف نہیں ہے اس آیت میں اس پر بھی دلالت ہے کہ رضاعت کی مدت میں فطام کا معاملہ والدین کی باہمی رضامندی پر موقوف ہے اور یہ کہ دونوں میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے سے مشورہ کئے بغیر اور اس کی رضامندی حاصل کئے بغیر بچے کا دودھ چھڑا دے کیونکہ قول باری ہے (فان اراد فصالا عن تراض منھما و تشاور) اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت ان دونوں کی باہمی رضامندی اور مشاورت کی بنا پر دی ہے۔ مجاہد سے اسی طرح کی روایت منقول ہے۔ سلف میں سے بعض حضرات سے اس آیت میں نسخ بھی منقول ہے۔ شیبان نے قطادہ سے قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین) کے متعلق روایت کی ہے کہ پہلے یہ حکم تھا پھر اس کے بعد تخفیف نازل ہوئی اور فرمایا (لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ گویا قتادہ کے نزدیک دو سال کی رضاعت واجب تھی پھر تخفیف ہوگئی اور مدت رضاعت سے کم کی اباحت کردی گئی۔ ابو جعفر رازی نے ربیع بن انس سے قتادہ جیسے قول کی روایت کی ہے۔ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے قول باری (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ) نیز قول باری (فان ارادا فصال عن تراض منھما و تشاور فلا جناح علیھما) کی تاویل میں روایت کی ہے کہ اگر دونوں دو سال کے اندر یا دو سال کے بعد دودھ چھڑانے پر رضامند ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم !۔
Top