Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 234
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا١ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَالَّذِيْنَ
: اور جو لوگ
يُتَوَفَّوْنَ
: وفات پاجائیں
مِنْكُمْ
: تم سے
وَيَذَرُوْنَ
: اور چھوڑ جائیں
اَزْوَاجًا
: بیویاں
يَّتَرَبَّصْنَ
: وہ انتظار میں رکھیں
بِاَنْفُسِهِنَّ
: اپنے آپ کو
اَرْبَعَةَ
: چار
اَشْهُرٍ
: مہینے
وَّعَشْرًا
: اور دس دن
فَاِذَا
: پھر جب
بَلَغْنَ
: وہ پہنچ جائیں
اَجَلَهُنَّ
: اپنی مدت (عدت)
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فِيْمَا
: میں۔ جو
فَعَلْنَ
: وہ کریں
فِيْٓ
: میں
اَنْفُسِهِنَّ
: اپنی جانیں (اپنے حق)
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
بِمَا تَعْمَلُوْنَ
: جو تم کرتے ہو اس سے
خَبِيْرٌ
: باخبر
اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور خدا تمہارے سارے کاموں سے واقف ہے
جس عورت کا شوہر وفات پا جائے اس کی عدت کا بیان قول باری ہے (والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھرو عشرا، تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دنوں تک روکے رکھیں) ۔ کسی چیز کے انتظار کو تربص کہتے ہیں۔ قول باری ہے (فتربصوا حتیٰ حین، ایک مدت تک اس کے انتظار میں رہو) اسی طرح قول باری ہے (ومن الاعراب من یتخذ ما ینفق مغرما و یتربص بکم الدوائر، ان بدوی عربوں میں ایسے بھی ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانے کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں) یعنی انتظار میں ہیں۔ نیز قول باری ہے (ام یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون، ہاں کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں اور ہم ان کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں) اللہ تعالیٰ نے ان بیوائوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو اس مدت تک شادیاں کرنے سے انتظار میں رکھیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آیت کے فوراً بعد یہ ارشاد باری ہے (فاذا بلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن، پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیار ہے اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں کریں) ۔ شوہر مرجانے پر بیوہ کی عدت ایک سال تھی۔ قول باری ہے (والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا و میۃ لا زواجھم متاعا الی الحول غیر اختراج، تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں ک حق میں یہ وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں) ۔ یہ آیت کئی احکامات پر مشتمل تھی۔ ایک تو عدت کی مدت ایک سال تھی دوسری یہ کہ بیوہ کا نان و نفقہ مرحوم شوہر کے ترکے سے دیا جائے گا جب تک وہ عدت میں رہے گی قول باری ہے (وصیۃ لازواجھم) تیسری یہ کہ اسے عدت کی مدت کے دوران وہاں سے نکل جانے سے روک دیا گیا تھا۔ پھر چار ماہ دس دن سے زائد مدت منسوخ کردی گئی اور بیوی کو شوہر کے ترکہ میں واثر بنا کر نان و نفقہ منسوخ کردیا گیا۔ قول باری ہے (ادبعۃ اشھر و عشرا) اس میں نان و نفقہ واجب نہیں کیا گیا لیکن بیوہ کو گھر سے نکال دینے کے حکم کی منسوخی ثابت نہیں ہوئی۔ اس بنا پر عدت کے دوران بیوہ کو اس مکان سے نہ نکالنے کا حکم بحالہ باقی ہے کیونکہ اس کی منسوخیت ثابت نہیں ہوئی۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریح سے اور عثمان بن عطاء نے عطاء خراسانی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت یعنی قول باری (وصیۃ لازواجھم متاعاً الی الحول غیر اخراج) کے متعلق یہ روایت کی کہ شوہر مرجانے پر بیوہ کے لئے ایک سال تک نان و نفقہ ہوتا تھا پھر اسے آیت میراث نے منسوخ کردیا۔ اللہ نے ان کے لئے شوہر کے ترکے میں چوتھا حصہ (شوہر کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں) یا آٹھواں حصہ (شوہر کی اولاد ہونے کی مقرر کردیا۔ نیز حضور ﷺ نے یہ بھی فرما دیا (لاوصیۃ لوارث الا ان یرضی الورثۃ، وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں الا یہ کہ دوسرے تمام ورثاء راضی ہوجائیں) ۔ جعفر نے کہا کہ ہمیں ابو عبید نے، انہیں یزید نے یحییٰ بن سعید، انہوں نے حمید سے، انہوں نے نافع سے روایت کی کہ انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ کو حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ ایک عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر وفات پا گیا، اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے وہ سرمہ لگانا چاہتی ہے کیا وہ ایسا کرسکتی ہے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا (قد کانت احداکن ترمی باعبرۃ عند راس الحول و اتماھی اربعۃ اشھر و عشرا، زمانہ جاہلیت میں تمہاری حالت یہ تھی کہ بیوہ پر ایک سال گزرنے کے بعد مینگنی بکھیرا کرتی تھی۔ اب تو اسلام کی برکت سے صرف چار مہینے دس دنوں کی بات ہے) ۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے مینگنی پھینکنے کا مطلب زینب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب شوہر مرجاتا تو اپنی بدترین کوٹھڑی میں چلی جاتی اور وہیں سال بھر تک پڑی رہتی۔ سال گزرنے پر وہاں سے نکلتی تو اپنے پیچھے ایک مینگنی پھینک دیتی۔ مالک نے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو سے، انہوں نے حمید سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ سے اس حدیث کی روایت کی۔ زینب نے اس روایت میں کہا کہ زمانہ جاہلیت میں جب شوہر مرجاتا تو بیوہ ایک چھونپڑی میں داخل ہوجاتی۔ بدترین کپڑے پہن لیتی اور خوشبو وغیرہ کو ہاتھ بھی نہ لگاتی۔ یہاں تک کہ سال گزر جاتا پھر ایک چوپایہ گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ لایا جاتا اس پر وہ آہستہ آہستہ پانی گراتی۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ اس عمل کے بعد جانور بچ جائے پھر باہر آتی ایک مینگنی دے دی جاتی اور وہ اس مینگنی کو اپنے پیچھے پھینک دیتی اس کے بعد پھر اسے خوشبو وغیرہ لگانے کی اجازت ہوتی۔ حضور ﷺ نے بتادیا کہ ایک سال کی مدت منسوخ ہوگئی ہے اور اب اس کی بجائے چار ماہ دس دنوں کی عدت ہے۔ آپ نے اس عورت کو یہ بھی بتادیا کہ عدت کے دوران خوشبو وغیر لگانے کی ممانعت بحالہ باقی ہے۔ ایک سال کی عدت پر مشتمل آیت اگرچہ تلاوت میں متاخر ہے لیکن نزول میں متقدم ہے اور چار ماہ دس دنوں پر مشتمل عدت والی آیت نزول میں اس سے متاخر ہے۔ اور اسے منسوخ کرتی ہے کیونکہ تلاوت کی ترتیب نزول کی ترتیب اور نظام کے مطابق نہیں ہے۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ ایک سال کی عدت چار ماہ دس دنوں کی عدت کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ اسی طرح بیوہ کے روٹی کپڑا اور مکان کی وصیت بھی منسوخ ہوچکی ہے بشرطیکہ بیوہ حاملہ نہ ہو۔ حاملہ بیوہ کے نفقہ کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے ہم اس کا ذکر انشاء اللہ اس کے مقام پر کریں گے۔ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس آیت کا تعلق غیرحاملہ بیوہ سے ہے۔ حاملہ بیوہ کی عدت کے متعلق جو اختلاف ہے اس کے تین پہلو ہیں۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے ایک روایت کے مطابق فرمایا کہ دونوں مدتوں (چار ماہ دس دن اور وضع حمل) میں سے جو طویل تر مدت ہوگی وہ اس کی عدت کی مدت ہوگی۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت زین بن ثابت ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نیز حضرت ابوہریرہ ؓ اور کئی دوسرے صحابہ کا قول ہے کہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ اس کی عدت وضع حمل ہے لیکن نفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ نفاس کے دوران اس کے لئے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔ حضرت علی ؓ اس قول باری (اربعۃ اشھر و عشرا) کی طرف گئے ہیں جو واجب کرتا ہے۔ ر گیا قول باری (و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن، اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے) تو وہ وضع حمل کے ساتھ عدت کی مدت کے اختتام کو واجب کرتا ہے۔ آپ نے بیوہ کے حق میں دونوں آیتوں کے حکم کو ثابت کرنے کے لئے دونوں آیتیں اکٹھی کرلیں اور اس طرح طویل تر مدت والی صورت کو اس کی عدت کا اختتام قرار دیا۔ یعنی وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت طویل تر ہو وہی اس کی عدت کی مدت ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے ک جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ اس مسئلے پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ قول باری (و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) اس قول باری (اربعۃ اشھرو عشرا) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ ان تمام روایات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ قول باری (و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) مطلقہ اور بیوہ دونوں کو عام ہے اگرچہ یہ طلاق کے ذکر کے بعد مذکور ہے کیونکہ تمام نے وضع حمل کو عدت کا اختتام شمار کیا ہے سب کا قول ہے کہ حاملہ عورت کی صورت میں چار ماہ دس دن گزر جانیپر عدت کا اختتام نہیں ہوتا بلکہ وضع حمل کے ذریعے عدت کی مدت ختم ہوتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ قول باری (و اولات الاحمال) کو اس کے مقتضی اور موجب کے مطابق عمل میں لایا جائے اور ساتھ مہینوں کا اعتبار نہ کیا جائے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ مہینوں کے حساب سے عدت اس عورت کے ساتھ خاص ہے جس کا شوہر وفات نہ پا چکا ہو۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ قول باری (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) پر عمل ان عورتوں کے لحاظ سے ہوتا ہے جو طلاق یافتہ اور غیرحاملہ ہوں اور حاملہ میں حمل کے ساتھ اقراء یعنی تین حیض یا طہر کی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ طلاق یافتہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے اور اس کے ساتھ اقراء کو ضم نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ یہ بات ممکن تھی کہ حمل اور اقراء دونوں کا مجموعہ اس کی عدت کی مدت ہوتی کہ وضع حمل کے ساتھ اس کی عدت ختم نہ ہوتی بلکہ اس کیلئے اسے تین حیض بھی گزارنے پڑتے۔ اب جبکہ مطلقہ حاملہ کے لئے وضع حمل عدت کی مدت قرار پائی تو بیوہ حاملہ کے لئے بھی یہی حکم ہونا چاہیے یعنی اس کی عدت بھی وضع حمل ہونی چاہیے اور چار ماہ دس دن کو اس کے ساتھ شامل نہ کیا جانا چاہیے۔ عمرو بن شعیب سے مروی ہے کہ ان کے والد نے دادا سے روایت کی کہ میں نے حضور ﷺ سے، جب یہ آیت (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) نززل ہوئی تو عرض کیا کہ کیا یہ طلاق یافتہ اور بیوہ دونوں کے لئے ہے، آپ نے جواب میں فرمایا ! ہاں دونوں کے لئے ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے رویات کی ہے کہ سبیعہ بنت الحارث نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس پچیس دنوں کے بعد بچے کو جنم دیا۔ حضور ﷺ نے اسے نکاح کرلینے کی اجازت دے دی۔ یہ حدیث صحیح اسناد سے مروی ہے۔ اس سے ہٹنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ظاہر کتاب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ یہ آیت حرائر یعنی آزاد عورتوں کے متعلق ہے۔ لونڈیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے کہ سلف کے درمیان نیز فقہاء امصار کے مابین ہماری معلومات کی حد تک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ بیوہ لونڈی کی عدت دو ماہ پانچ دن ہے جو آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ الاصم سے یہ منقول ہے کہ درج بالا آیت حرہ اور لونڈی دونوں کو عام ہے۔ طلاق یافتہ لونڈی کی عدت کے متعلق بھی الاصم کا یہ قول ہے کہ یہ تین حیض ہے۔ لیکن یہ قول شاذ ہے اور اقوال سلف و خلف کے دائرے سے نہ صرف خارج ہے بلکہ سنت کے مخالف بھی ہے۔ اس لئے سلف کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حیض مہینوں اور دنوں کے لحاظ سے لونڈی کی عدت آزاد عورت کی عدت کا نصف ہے۔ حضور ﷺ کا بھی ارشاد ہے (طلاق الامۃ تطلقتان وعدتھا حیضتان، کی طلاق کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے) اس روایت کو فقاء نے قبول کیا ہے اور لونڈی کی عدت کی تنصیف کے حکم کے سلسلے میں اس پر عمل بھی کیا ہے اس بناء پر ہمیں نزدیک اس روایت کی حیثیت تواتر کی حد تک پہنچنے والی روایت جیسی ہے جس سے علم یقینی حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر بیوہ کو پہلے اپنے شوہر کی موت کا علم نہ ہو اور پھر اسے موت کی خبر پہنچ جائے تو وہ عدت کس حساب سے گزارے گی ؟ اس میں سلف کے مابین اختلاف ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، عطاء اور جابر بن زید کا قول ہے کہ اس کی عدت اس دن سے شروع ہوگی جس دن اس کا شوہر فوت ہوا تھا۔ اسی طرح جس دن اسے طلاق ہوئی تھی اس دن سے اس کی عدت شروع ہوگی۔ یہی اسود بن زید اور دوسرے بہت سے تابعین نیز فقاء امصار کا قول ہے۔ حضرت علی ؓ ، حسن بصری اور خلاس بن عمرو کا قول ہے کہ جس دن اسے شوہر کی موت کی خبر ملے گی اس دن سے اس کی عدت شروع ہوگی۔ لیکن طلاق میں طلاق ملنے کے دن سے عدت شروع ہوگی یہی ربیعہ کا بھی قول ہے۔ شعبی اور سعید بن المسیب کا قول ہے کہ اگر بینہ قائم ہوجائے یعنی ثبوت مل جائے تو اس کی عدت شوہر کی موت کے دن سے شروع ہوگی اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر عدت کی ابتدا خبر ملنے والے دن سے ہوگی۔ یہ ممکن ہے کہ حضرت علی ؓ کا مسلک بھی اسی مفہوم کا ہو وہ اس طرح کہ شوہر کی موت کا وقت پوشیدہ رہ جائے اس لئے آپ نے احتیاطاً یہ حکم دیا کہ جس دن موت کی خبر آ جائے۔ اس دن سے عدت کی ابتدا کرے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور طلاق دونوں صورتوں میں عدت واجب کردی ہے۔ قول باری ہے (والذین یتوفون منکم و یذرون ازوجاً یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھرو ع عشوا) نیز فرمایا (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے موت اور طلاق پر عدت واجب کردی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان دونوں صورتوں میں موت اور طلاق کے دن سے ہی عدت کی ابتداء ہو اور جبکہ سب کا اس پر تفاق ہے کہ طلاق یافتہ کی عدت کی ابتداء طلاق ملنے کے دن سے ہوجائے گی اور اس میں خبر ملنے کے وقت کا اعتبار نہیں کیا گیا تو وفات کی عدت کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ کیونکہ موت اور طلاق دونوں ہی وجوب عدت کے اسباب ہیں۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عدت عورت کا اپنا فعل نہیں ہوتا کہ اس میں اس کے علم کا اعتبار یکا جائے بلکہ عدت اوقات کے گزر جانے کا نام ہے۔ اس لئے اس کے متعلق اس کا جان لینا یا نہ جاننا دونوں برابر ہیں۔ نیز جب عدت موت کی وجہ سے واجب ہوتی ہے جس طرح کہ میراث اور میراث میں وفات کے وقت کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ خبر پہنچنے کے وقت کا۔ اس لئے ضروری ہے کہ عدت کا بھی یہی حکم ہو اور اس میں علم اور لاعلمی کی بناء پر حکم کا اختلاف نہ ہو جس طرح کہ میراث کے حکم میں اس کی وجہ سے اختلاف نہیں ہوتا۔ نیز اگر شوہر کی وفات کا علم ہوجائے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا ہے کہ بیوہ عدت کی بنا پر زیب و زینت کرنے اور باہر نکلنے سے پرہیز کرتی ہے۔ اگر لاعلمی کی بناء پر وہ ان چیزوں سے اجتناب نہ کرسکی تو اس کا یہ عمل عدت کی مدت گزرنے سے منع نہیں ہوسکتا جس طرح شوہر کی موت کا علم رکھتے ہوئے اگر وہ ان چیزوں سے پرہیز نہ کرے تو پھر بھی اس کی عدت کی مدت گزرنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ اس لئے لاعلمی کی صورت میں بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ قول باری ہے (اربعۃ اشھرو عشرا) سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو یوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے بیوہ اور طلاق یافتہ عدت گزارنے والی عورتوں کے متعلق جو مہینوں کے حساب سے عدت گزارتی ہیں یہ فرمایا ہے۔ کہ اگر عدت کا وجوب رئویت ہلال کے ساتھ ہوجائے تو وہ چاند کے حساب سے عدت گزاریں گی خواہ مہینہ انتیس دنوں کا ہو یا تیس دنوں کا اور اگر عدت کا وجوب مہینے کے دوران ہو تو پھر چاند کا حساب نہیں ہوگا بلکہ طلاق کی صورت میں نو سے دنوں کی گنتی ہوگی او وفات کی عدت کی صورت میں ایک سو تیس دنوں کا حساب ہوگا۔ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے محمد سے، انہوں نے ابو یوسف سے، اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے جو پہلی روایت سے مختلف ہے۔ وہ یہ کہ اگر عدت مہینے کے دوران واجب ہوجائے تو وہ اس مہینے کے بقیہ دنوں کی عدت گزار کر آئندہ مہینوں کی عدت چاند کے حساب سے گزارے گی پھر پہلے دنوں کی تکمیل تیس دنوں کے حساب سے کرے گی اور اگر عدت چاند کی پہلی تاریخ کو واجب ہوجائے تو وہ چاند کے حساب سے عدت گزارے گی۔ یہی امام شافعی، ابو یوسف، محمد اور اجارہ کے متعلق امام مالک کا قول ہے۔ ابن القاسم نے کہا ہے کہ طلاق اور ایمان یعنی قسموں کے متعلق بھی امام مالک کا یہی قول ہے۔ ہمارے اصحاب کا اجارہ کے سلسلے میں بھی یہی قول ہے۔ عمرو بن خالد نے امام ظفر سے ایلاء کے سلسلے میں روایت کی ہے کہ عورت ہر گزرنے والے مہینے کے حساب سے عدت گزارے گی خواہ یہ مہینہ ناقص ہو یا تام۔ عمرو بن خالد کا کہنا ہے کہ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ وہ دنوں کے حساب سے عدت گزارے گی حتیٰ کہ ایک سو بیس دن مکمل ہوجائیں۔ مہینے کے ناقص یا تام ہونے کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مہینوں کے حساب سے عدت گزارنے کے متعلق یہ وہ روایت ہے جسے سلیمان بن شعیب نے اپنے والد شعیب سے، انہوں نے امام ابو یوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے نقل کی ہے۔ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عدت کی مدت، ایلاء کی مدت، اجارہ اور قسموں کی مدت کا اعتبار چاند کے حساب سے ہوگا اگر ان چیزوں کا انعقاد چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا ہو اوار ان میں رکھی ہوئی مدت مہینوں کی صورت میں ہو۔ خواہ قمری مہینے ناقص ہوں یا تام یعنی انتیس دنوں کے ہوں یا تیس دنوں کے لیکن اگر ان عقود کی ابتدا مہینے کے دوران ہو تو پھر مدتوں کے تعین میں وہ اختلاف ہوگا جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ جن لوگوں نے پہلے مہینے کے بقیہ دنوں کا حساب تیس دنوں کی گنتی سے کیا ہے اور باقی تمام مہینوں کا حساب چاند کے لحاظ سے کیا ہے اور پھر آخری مہینے کی تکمیل دنوں کے حساب پہلے ماہ کے باقی ماندہ دنوں کو ملا کر کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں حضور ﷺ کے قول (صوموالرویتہ وافطروالرویتہ فان غم علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین) کے مفہوم کو لیا ہے۔ اس مفہوم کی دلالت دو باتوں پر ہو رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ ہر مہینے کی ابتداء اور انتہاء چاند کے ذریعے ہوتی ہے اور اس کے اعتبار کی ہمیں ضرورت بھی ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں چاند کا اعتبار ہی واجب ہے جیسا کہ رمضان کے روزوں اور شعبان کے سلسلے میں حضور ﷺ نے چاند ہی کے اعتبار کا حکم دیا ہے اور ہر ایسا مہینہ جس کی ابتداء اور انتہاء رویت ہلال پر نہیں ہوگی وہ تیس دنوں کا ہوگا۔ تیس دنوں میں کمی صرف چاند کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب جب مذکورہ بال چیزوں (اجارہ، ایمان وغیرہ) کے سلسلوں میں پہلے ماہ کی ابتدا چاند کے ساتھ نہ ہو تو اس کے ساتھ مدت کے آخر سے دن ملا کر تیس دن پورا کرنا واجب ہوگا۔ باقیماندہ مہینوں میں چونکہ چاند کے حساب سے مدت پوری کرنا ممکن ہوگا تو ان مہینوں میں چاند کے حساب کا اعتبار واجب ہوگا۔ جو لوگ تمام مہینوں کا اعتبار دنوں کے حساب سے کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ جب مدت کی ابتداء چاند کے ذریعے نہیں ہوئی تو اس مہینے کی تکمیل تیس دنوں کے حساب سے واجب ہوگئی۔ اس طرح پہلے مہینے کا اختتام اگلے مہینے کے بعد حصے میں ہوگا۔ پھر اسی طرح باقیماندہ مہینوں کا بھی حکم ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ پہلے مہینے کے دنوں کے نقصان کو کسی اور مہینے کے دنوں سے پورا کیا جائے اور ان دونوں کے درمیان آنے والے مہینوں کا حساب چاند کے ذریعے کیا جائے کیونکہ مہینے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے ایام ایسے ہوں جو ایک دوسرے سے پیوستہ اور یکے بعد دیگرے آنے والے ہوں۔ اس لئے شروع مدت ہی سے مہینوں کی تکمیل ایسے ایام کے ذریعے ہونی چاہیے جو مسلسل اور پیوستہ آئیں۔ اس طرح دوسرے مہینے کی ابتداء دوسرے مہینے کے بعد حصے میں ہوگی اور اس طرح تمام مہینے اور ان کے ایام متصل اور متوالی ہوجائیں گے۔ جچو لوگ پہلے مہینے کے بقیہ دنوں کے بعد آنے والے مہینوں کا حساب چاند کے ذریعے کرتے ہیں ان کا استدلال، جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں، یہ ہے کہ پہلے مہینے کے بعد آنے والا مہینہ ہلال کے حساب سے شروع ہوا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی انتہاء بھی چاند کے حساب سے ہو۔ قول باری ہے (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر مشرکین سے کہو کہ چار ماہ تک زمین میں چلو پھرو) علم روایت کے ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مدت ذی الحجہ کے بیس دنوں محرم، صفر، ربیع الاول اور ربیع الثانی کے دس دنوں پر مشتمل تھی۔ اس میں پہلے مہینے یعنی ذی الحجہ کے بعد آنے والے مہینوں میں چاند کا اعتبار کیا گیا۔ دنوں کی گنتی کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ اس لئے مدت سے متعلق اس کے تمام نظائر میں چاند کا ہی اعتبار واجب ہے۔ قول باری ہے (وعشوا) اس کا ظاہر تو یہی ہے۔ اس میں دن اور را تدونوں مراد ہیں لیکن جب تاریخ وغیرہ میں دن اور رات دونوں کا اجماع ہو تو رات کو دن پر غلبہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مہینے کے ہلال کی ابتدا رات سے ہوتی ہے جب کہ چاند طلوع ہوجائے چونکہ ابتداء رات کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس لئے دنوں پر راتوں کو غالب کر کے تغلیب کے قاعدے کے مطابق راتوں کا ذکر کیا جاتا ہے دنوں کا ذکر نہیں کیا جاتا اگرچہ مراد وہ دن بھی ہوتےیں جو راتوں کے مقابلے میں آتے ہیں۔ اگر ایام کے مجموعے کا ذکر ہوتا ہے تو پھر ان دونوں کے مقابلے میں آنے والی راتیں بھی مراد ہوتی ہیں۔ اس کی دلیل یہ قول باری ہے (ثلثۃ ایام الا رمزا، نشانی یہ ہے کہ تم یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) تین دنوں تک لوگوں سے اشارے کے سوا کوئی بات چیت نہیں کرو گے) دوسری جگہ فرمایا (ثلث لیال سویا، پوری تین راتیں) ان دونوں آیتوں میں ایک ہی واقعہ کا ذکر ہے۔ ایک جگہ صرف ایام کے ذکر پر اکتفا کیا گیا اور دوسری جگہ لیالی کے ذکر پر جبکہ دونوں جگہوں میں دن اور رات دونوں مراد ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الشھر تسع و عشرون) ایک دوسری روایت میں ہے (الشھر تسعۃ و عشرون) (ظاہر ہے کہ تسع اور تسعۃ کے فرق سے ایک جگہ لیلۃ اور دوسری جگہ یوم مذکور ہے) اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ایام اور لیالی میں سے جس کا بھی اطلاق ہوگا اس کے مقابلے میں آنے والی دوسری چیز بھی مراد ہوگی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جہاں کہیں ایام اور لیالی کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ وہاں الفاظ کے ذریعے ان دونوں میں فصل کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (سبح لیال و ثمانیۃ ایام حسوما، سات راتوں اور آٹھ دنوں تک لگاتار) ۔ فراء نے ذکر کیا ہے کہ عرب کہتے ہیں۔ ” صمتا عشرا من شھر رمضان “ (ہم نے رمضان کے دس روزے رکھے) یہاں انہوں نے دنوں کی تعبیر راتوں کے لفظ سے کی کیونکہ عشرا رات ہی ہوسکتی ہیں۔ دن نہیں ہوسکتے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ”؟ عشرۃ ایام “ کہتے تو اس میں تذکیر یعنی ایام کے سوا اور کچھ کہنا جائز نہ ہوتا۔ فراء اس موقع پر یہ شعر پڑھا تھا۔ اقامت ثلاثا بین یوم و لیلۃ وکان النکیران تضیف و تجارا وہ تین دن مقیم رہی رات اور دن کے درمیان۔ اور ناپسندیدہ بات یہ تھی کہ وہ ڈرتی رہی اور بلبلاتی رہی۔ شاعر نے لفظ ’ ثلاثا ‘ کہا جو تین راتیں ہیں اور دن اور رات کا ذکر کیا کہ دونوں مراد ہیں۔ جب ہماری یہ بات ثابت ہوگئی تو قول باری (اربعۃ اشھر و عشرا) اس مفہوم کا فائدہ دے گا کہ مدت چار مہینے ہوگی جیسا کہ ہم نے ہلال کے اعتبار کے سلسلے میں پہلے بیان کیا ہے اور اس پر دس دن زائد ہوں گے۔ اگرچہ عدد کا لفظ تانیث کے لفظ میں ذکر کیا ہے۔ (یعنی عشر کا لفظ لیالی کے لئے آتا ہے جو مونث ہے۔ ایام کے لئے عشرۃ کا لفظ آتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ! عدت گزارنے والی عورت کا اپنے گھر سے نکلنے کے متعلق اختلاف کا بیان ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق بائن پانے والی اور بیوہ عدت کے دوران اپنے اس گھر سے کسی اور جگہ منتقل نہیں ہوں گی جہاں وہ رہتی تھیں۔ بیوہ دن کے وقت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے لیکن رات کہیں اور نہیں گزار سکتی۔ طلاق یافتہ عورت عدت کے دوران نہ تو دن کے وقت باہر جاسکتی ہے اور نہ رات کے وقت۔ البتہ عذر کی بناء پر ایسا کرسکتی ہے۔ یہی حسن کا قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ طلاق بائن اور طلاق رجعی کی وجہ سے عدت گزارنے والی، اسی طرح بیوہ دڈوسری جگہ منتقل نہیں ہوسکتیں۔ دن کے وقت باہر نہیں نکل سکتیں اور رات کہیں اور گزار نہیں سکتیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ کسی گھر میں رہائش کے ذریعے احداد یعنی سوگ کا عمل نہیں ہوتا۔ اس لئے بیوہ اس گھر میں رہے گی جس میں مرحوم شوہر رہتا تھا خواہ وہ گھر اچھا ہو یا برا۔ احداد ترک زینت کے ذریعے ہوتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ طلاق یافتہ عورت عدت کے دوران گھر سے اس لئے نہیں نکلے گی کہ فرمان الٰہی ہے (لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ، ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ یہ خود یہ نکلیں الا یہ کہ کھلم کھلا بےحیائی کا ارتکاب کرلیں) ۔ اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران اس کے نکلنے اور اسے نکالنے دونوں کی ممانعت کردی الا یہ کہ کھلم کھلا بےحیائی کا ارتکاب کرلیں۔ یہ بھی ایک طرح کا عذر ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے باہر نکلنے کو مباح کردیا۔ آیت میں فاحشۃ کا ذکر آیا ہے اس کی تشریح میں علماء کا اختلاف ہے۔ اس کا ذکر ہم اس کے اپنے مقام پر انشاء اللہ کریں گے۔ بیوہ کے نکلنے پر پابندی تو اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں واجب ہونے والی عدت کے ساتھ کیا ہے۔ ارشاد ہے (متاعا الی الحول غیر اخراج، نکالے بغیر ایک سال تک نان و نفقہ کی سہولت) پھر چار ماہ دس دن سے زائد مدت منسوخ ہوگئی لیکن عدت کے اس دوسرے حکم میں ترک خروج کا حکم بحالہ باقی رہا کیونکہ اس کے نسخ کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ صرف چار ماہ دس دن سے زائد مدت کے نسخ کا ارادہ کیا گیا۔ سنت میں بھی کتاب اللہ کے معنی پر دلالت کرنے والی روایات موجود ہیں۔ ہمیں محمد بن بکر نے، انہیں ابودائود نے، انہیں عبداللہ بن مسلمہ القعنبی نے مالک سے انہوں نیس عد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ ؓ سے، انہوں نے اپنی پھوپھی زینب بنت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ یریعہ بنت مالک بن سنان نے جو کہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی بہن تھیں یہ بتایا کہ وہ حضور ﷺ کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا کہ وہ اپنے خاندان بنو خدرہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہیں۔ ان کے شوہر کو شوہر کے ایک غلام نے قتل کردیا تھا، انہوں نے یہ بھی عرض کیا کہ ان کے شوہر نے ان کے لئے نہ کوئی اپنا مکان چھوڑا ہے اور نہ کوئی نفقہ، آپ نے یہ سن کر جانے کی اجازت دے دی۔ جس وقت وہ نکل کر حجرے یا مسجد میں پہنچی تو آپ نے پھر انہیں بلایا اور ان سے فرمایا کہ تم نے کیا کہا تھا، انہوں نے ساری بات پھر دہرا دی۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا، ” اپنے گھر میں رہو یہاں تک کہ عدت ختم ہوجائے۔ “ چنانچہ انہوں نے چار مہینے دس دن وہیں گزارے۔ جب حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا زمانہ آیا تو آپ نے ان سے ساری بات سنی اور پھر اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے اس کے خلاف ایک روایت ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن محمد المروزی نے، انہیں موسیٰ بن مسعود نے، انہیں شبل نے ابن ابی نجیع سے روایت کی کہ عطاء نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس آیت نے عورت کی اپنے گھر میں عدت گزارنے کو منسوخ کردیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ وہ قول باری یہ ہے (غیراخراج) عطاء نے کہا ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے گھر میں عدت گزار لے اور وہیں قیام پذیر رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے چلی جائے۔ کیونکہ قول باری (فان اخرج فلا جناح علیکم) عطاء نے مزید کہا ہے کہ پھر آیت میراث نازل ہوئی جس سے سکنیٰ یعنی شوہر کے قیام بھی منسوخ ہوگیا۔ اب جہاں چاہے عدت گزارے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ میراث کے ایجاب میں ایسی کوئی بات نہیں جو شوہر کے گھر میں قیام کی منسوخی کو واجب کر دے۔ یہ دونوں باتیں جمع ہوسکتی ہیں اور ایک کے ثبوت سے دوسرے کی نفی نہیں ہوتی۔ یہ بات سال کی عدت کی منسوخی اور میراث کے وجوب کے ساتھ سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے۔ اس لئے کہ فریعہ کی عدت چار مہینے دس دن تھی اور حضور ﷺ نے انہیں شوہر کے گھر سے منتقل ہونے سے منع کردیا تھا۔ ہم نے فریعہ کا جو واقعہ نقل کیا ہے یہ دو باتوں پر دلالت کر رہا ہے۔ ایک تو اس مکان میں قیام کا لزوم جس میں وہ شوہر کی وفات کے وقت رہتی تھی اور وہاں سے منتقل ہونے پر پابندی۔ دوسرا باہر نکلنے کا جواز کیا حضور ﷺ نے باہر نکلنے پر نکیر نہیں کی تھی۔ اگر باہر نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ﷺ انہیں ضرور اس سے روک دیتے۔ یہی بات سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے جس میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت ام سلمہ ؓ ، حضرت عثمان شامل ہیں۔ سب کا یہ قول ہے کہ بیوہ عدت کے دوران دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے البتہ کسی اور جگہ رات نہیں گزار سکتی۔ عبدالرزاق نے ابن کثیر سے، انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ غزوہ احد میں کئی افراد شہید ہوگئے اور ان کی بیویاں بیوہ ہوگئیں۔ یہ ایک دوسرے کے پڑوس میں ایک ہی احاطے میں رہتی تھیں۔ یہ سب حضور ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ ہم میں سے کوئی اگر کسی دوسری کے پاس رات گزار لے تو کیا یہ درست ہوگا۔ آپ نے فرمایا دن کے وقت ایک دوسری کے گھر چلی جائو لیکن رات اپنے گھر گزارو۔ سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ بیوہ جس جگہ چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اس میں حضرت علی ؓ ، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ، حضرت عائشہ وغیرہا شامل ہیں۔ کتاب و سنت کے جو دلائل بیان کئے گئے ہیں وہ پہلے قول کی صحت کو واجب کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (متاعا الی الحول غیر اخراج، فن خرجن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن من معروف) یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہوسکتی ہے۔ جواب میں کہا جائے گا کہ خروج سے مراد عدت گزر جانے کے بعد چلے جانا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا (فاذا ابلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسمن) ہم نے جو معنی بیان کئے ہیں وہی مراد ہیں۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ عدت گزرنے سے قبل چلی جائے تو وہ نکاح نہیں کرسکتی۔ اس پر سب کا اتفاق ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ (فان خرجن) سے مراد عدت ختم ہونے کے بعد چلے جانا ہے اگر یہ بات اسی طرح ہے جو ہم نے بیان کی تو پھر بیوہ پر دوسری جگہ منتقل ہونے کی ممانعت برقرار رہے گی۔ فقہاء کا جو یہ قول ہے کہ طلاق یافتہ عورت عدت کے دوران نہ دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور نہ رات ک وقت تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ولاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن) اس آیت میں سب کے لئے حکم کا عموم ہے اور تمام اوقات میں باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ بیوہ کو اس حکم سے اس لئے مستثنیٰ قرار دیا گیا کہ اس کا نان و نفقہ خود اس کے ذمے ہوتا ہے جبکہ طلاق یافتہ کا نان و نفقہ طلاق دینے والے شوہر پر ہوتا ہے اس لئے اسے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں۔ واللہ اعلم ! بیوہ کا احداد یعنی سوگ صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ بیوہ کو زیب و زینت اور خوشبو لگانے سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ اس میں حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ام سلمہ ؓ ، حضرت عمر ؓ وغیرہم شامل ہیں۔ تابعین میں سے سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار اور ان کی روایت کے مطابق فقاء مدینہ کا یہی مسلک ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے۔ نیز تمام فقائے امصار اسی مسلک کے قائل ہیں۔ اس کے متعلق ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضور ﷺ سے بھی یہی مروی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے، انہیں ابودائود نے، انہیں القعنبی نے مالک سے، انہوں نے عبداللہ بن ابی بکر سے، انہوں نے حمید سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ ؓ سے ان احادیث کی روایت کی۔ زینب کہتی ہیں کہ جب حضرت ابو سفیان ؓ کا انتقال ہوا تو ان کی بیٹی ام المومنین حضرت ام حبیبہ کے پاس گئی۔ انہوں نے خوشبو منگائی جو زردرنگ کی تھی جس میں شاید خلوق (زعفران ملی ہوئی ایک خوشبو) کی آمیزش کی تھی انہوں نے یہ خوشبو ایک بچی کو لگائی اور اسے اپنے رخساروں پر بھی مل لیا۔ پھر فرمانے لگیں : ” بخدا مجھے خوشبو وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے (لا یحل لامراۃ تومن باللہ والیوم الاخدان تحد علی میت فوق ثلاث لیال الاعلیٰ زوج اربعۃ اشھر و عشرا) کسی عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رھتی ہو کسی مرنے والے پر تین دن سے زائد سوگ منانا حلال نہیں ہے، البتہ اپنے شوہر کی موت کا سوگ وہ چار ماہ دس دنوں تک کرے گی) “۔ زینب کہتی ہیں کہ میں ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ؓ کے پاس ان کے بھائی کی وفات کے وقت گئی تھی، انہوں نے خوشبو منگوا کر اسے اپنے جسم پر لگاتے ہوئے کہا : ” بخدا، مجھے خوشبو وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ میں نے حضور ﷺ سے منبر پر خطبے کے دوران سنا ہے کہ آپ نے فرمایا (لا یحل لا امراۃ تومن باللہ والیوم الاخر ان تحد علی میت فوق ثلاث لیال الاعلی روح اربعۃ اشھر و عشرا۔ زینب کہتی ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ام المومنین حضرت سلمہ ؓ سے یہ بات سنی تھی کہ ایک عورت حضور ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگی کہ میری بیٹی کا خاوند فوت ہوگیا ہے اسے آنکھوں کی تکلیف ہوگئی ہے کہ کیا ہم اس کی آنکھوں میں سرمہ ڈال سکتے ہیں۔ حضور ﷺ نے دو یا تین مرتبہ نفی میں جواب دیا پھر فرمایا (انماھی اربعۃ اشھر و عشرا وقد کانت احداکن تومی بالبقرۃ علی راس الحول، صرف چار مہینے دس دنوں کی بات ہے۔ زمانہ جاہیت میں تم میں سے خاوند کا سوگ کرنے کے لئے ایک سال گزرنے پر مینگنی پھینکتی تھی) “۔ ایک راوی حمید کہتے ہیں کہ میں نے زینب سے مینگنی پھینکنے کا مفہوم دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجاتا تو وہ ایک جھونپڑی میں چلی جاتی، بدترین لباس پہن لیتی پھر نہ خوشبو لگاتی اور نہ کوئی اور چیز یہاں تک کہ سال گزر جاتا پھر اس کے پاس ایک چار پایہ جانور، گدھا یا بکری یا پرندہ لایا جاتا اس پر وہ پانی بہاتی اور بہت ہی کم ایسا ہوتا کہ کسی جانور پر وہ پانی بہاتی جائے اور پھر وہ زندہ بچ رہے۔ اس کے بعد وہ اپنی جھونپڑی سے نکلتی اسے ایک مینگنی دے دی جاتی جسے وہ اپنی پشت کی طرف پھینک دیتی پھر کہیں جا کر وہ خوشبو وغیرہ استعمال کرتی۔ درج بالا روایت میں حضور ﷺ نے عدت کے دوران سرمہ لگانے کی ممانعت کردی اور زمانہ جاہلیت کی عدت کے طریقے اور اس میں زیب و زینت سے اجتناب کی کیفیت بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ عدت صرف چار ماہ دس دن کی ہے۔ اس حدیث سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہی وہ عدت ہے جس میں سوگ کرنے کے لئے زیب و زینت ترک کرنے اور خوشبو وغیرہ نہ لگانے کا طریقہ جاری کیا گیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے، انہیں ابو دائود، انہیں زہیر نے، انہیں یحییٰ بن ابی بکیر نے، انہیں ابراہیم بن طہمان نے، انہیں بدیل نے حسن بن مسلم سے، انہوں نے صفیہ بنت شیبہ سے، انہوں نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (المتوفی عنھا زوجھا لا تلبس المعصفر من الثیاب ولا الممشقۃ ولا الحلیۃ ولا تختصب ولا تکتحل، جس عورت کا شوہر مرجائے تو وہ عدت کے دوران سوگ کے اظہار کے طور پر نہ زرد رنگ میں رنگا ہوا کپڑا، نہ گیرو سے رنگا ہوا کپڑا، نہ ہی زیور پہنے گی، نہ مہندی لگائے گی اور نہ ہی سرمہ ڈالے گی۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے ک آپ نے فرمایا (المتوفی عنھا زوجھا لا لبس المعصفر من الثیاب وللممشقۃ ولا الحلی ولا تحتضب ولا تکتعلم حضرت ام سلمہ ؓ نے حضور ﷺ سے یہ بھی روایت کی ہے کہ جب ان کے پہلے شوہر ابو سلمہ انتقال کر گئے اور وہ عدت کے دن گزار رہی تھیں تو آپ نے ان سے فرمایا تھا کہ (لا تمتشطی بالطیب ولا بالخنا فانہ خضاب، بالوں میں خوشبو یا مہندی لگا کر انہیں کنگھی نہ کرنا، یعنی ان کے ذریعے اپنے بال نہ سنوارنا کیونکہ یہ بھی خضاب ہے) ۔ قول باری ہے (والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعاً الی الحول غیر اخراج فن خرجن فلا جناح علیکم فی ما فعلن فی انفسھن من معروف، اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ ان بیویوں کے واسطے ایک سال فائدہ اٹھانے کی وصیت کر جایا کریں۔ اس طور پر کہ انہیں گھر سے نکالا جائے۔ اگر وہ خود نکل جائیں تو اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لئے معروف طریقے سے کریں) ۔ یہ آیت چار احکام پر مشتمل ہے۔ اول عدت کی مدت یعنی ایک سال کا حکم لیکن عدت کے متعلق دوسری آیت کے ذریعے چار ماہ دس دن سے زائد مدت کو منسوخ کردیا گیا۔ دوم مرحوم شوہر کے مال میں بیوہ کے لئے نان و نفقہ یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کا حق، یہ حکم بھی آیت نے بیوہ کے لئے نان و نفقہ یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کا حق، یہ حکم بھی آیت میراث سے منسوخ ہوگیا جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیوہ کے لئے نان و نفقہ وصیت کے طورپ ر مروم شوہر پر واجب کردیا تھا جس طرح والدین اور رشتہ داروں کے لئے وصیت واجب تھی جو آیت میراث تے منسوخ ہوگئی۔ نیز حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لا وصیۃ لوارث، وراثت میں حصہ پانے والے کے لئے کوئی وصیت نہیں) توم۔ بیوہ کا سوگ کرنا جس پر آیت سے دلالت ہو رہی ہے۔ سوگ کرنے کا حکم حضور ﷺ کی سنت سے بحالہ باقی ہے، منسوخ نہیں ہوا، چہارم بیوہ کا اپنے شوہر کے گھر سے عدت کے دوران کسی اور جگہ منتقل ہوجانا اس کی ممانعت کا حکم بھی حضور ﷺ کی سنت سے بحالہ باقی ہے، منسوخ نہیں ہوا۔ اس طرح آیت کے چار احکام میں سے دو منسوخ ہوگئے اور دو باقی رہ گئے۔ اس آیت کے سوا قرآن مجید کی کسی اور آیت کا ہمیں علم نہیں ہے جو چار احکام پر متمل ہو جن میں سے دو منسوخ ہوگئے ہوں اور دو بحالہ باقی رہ گئے ہوں۔ ایک احتمال یہ ہے کہ قول باری (غیر اخراج) بھی منسوخ ہوچکا ہو کیونکہ اس سے مراد مرحوم شوہر کے مال میں بیوہ کے لئے واجب ہونے والی رہئاش یعنی مکان ہے۔ لیکن مرحوم شوہر کے مال میں اس کا واجب وہنا منسوخ ہوگیا۔ اس طرح بیوہ کو اس کے شوہر کے گھر سے نکال دینے کی ممانعت منسوخ ہو گئیے لیکن قول باری (غیراخراج) دو معنوں پر مشتمل ہے۔ اول زوج کے مال میں سے رہائش کا وجوب۔ دوم شوہر کے گھر سے نکل جانے اور نکال دینے کی ممانعت اس لئے کہ جب بیوہ کو شوہر کے گھر سے نکال دینے کی ممانعت کردی گئی تو اس سے لامحالہ بیوہ کو شوہر کے گھر میں ہی ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا۔ پھر جب شوہر کے مال میں رہائش کا وجوب منسوخ ہوگیا تو دوسراحکم یعنی شوہر کے گھر میں مقیم رہنے کا لزوم باقی رہا۔ بیوہ کے نان و نفقہ کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ حضرت عباس ؓ اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ بیوہ خواہ حاملہ ہو یا غیرحاملہ اس کا نان و نفقہ اس کے اپنے ذمے ہے۔ حسن بصری، سعید بن المسیب، عطاء بن ابی رباح اور قبیصہ بن ذویب کا یہی قول ہے۔ شعبی نے حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے کہ حاملہ عورت اگر بیوہ ہوجائے تو اس کا نان و نفقہ مرحوم شوہر کے پورے مال سے واجب ہوگا۔ حکم نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ حضرت عبدالہ بن مسعود ؓ کے اصحاب کے فیصلے یہ ہوتے تھے کہ اگر حاملہ عورت کے مرحوم شوہر کا چھوڑا ہوا مال زیادہ ہو تو اس کا نان و نفقہ اس کے پیدا ہونے والے بچے کے حصے میں واجب ہوگا اور اگر مال تھوڑا ہو تو پھر مرحو شوہر کے پورے مال میں سے واجب وہ گا۔ زہری نے سالم سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ بیوہ کا نان و نفقہ پورے مال میں سے دیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ بیوہ خواہ حاملہ ہو یا غیرحاملہ مرحوم شوہر کے مال میں سے نہ اسے نفقہ ملے گا اور نہ ہی رہائشی سہولت۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ نان و نفقہ مرحوم شوہر کے مال سے مہیا کیا جائے گا اور حیثیت اس کی وہی ہوگی جو میت پر قرض ہوتی ہے بشرطیکہ بیوہ حاملہ ہو۔ امام مالک بن انس کا قول ہے کہ بیوہ خواہ حاملہ ہو اس کا نفقہ خود اس کے ذمے ہوگا۔ اگر گھر مرحوم شوہر کی ملکیت ہو تو بیوہ کو اس میں رہائش کا حق ہے۔ اگر میت پر قرض ہو تو بیوہ عدت گزرنے تک شوہر کے مکان میں رہائش پذیر رہنے کی زیادہ حقدار ہوگی۔ اگر مکان کرائے کا ہو اور مالک مکان اسے وہاں سے نکال دے تو پھر مرحوم شوہر کے مال میں رہائشی سہولت حاصل کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہوگا۔ امام مالک سے ابن وہب نے یہ روایت کی ہے۔ ابن قاسم کی روایت کے مطابق مرحوم شوہر کے مال سے اسے کوئی نفقہ نہیں ملے گا۔ البتہ اگر مکان شوہر کی ملکیت ہو تو بیوہ کو اس میں رہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر شوہر پر قرض ہو تو بیوہ قرض خواہوں کے مقابلے میں اس گھر میں رہائش کی زیادہ حقدار ہے۔ گھر کو قرض خواہوں کی رقوم ادا کرنے کے لئے فروخت کردیا جائے گا اور خریدار کے لئے اس میں بیوہ کی رہائش کی شرط عائد کردی ائے گی۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر بیوہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک مرحوم شوہر کے پورے مال سے اس کا نان و نفقہ ادا کیا جائے گا جب حمل وضع ہوجائے گا تو بچے پر اسے ملنے والے حصے میں سے خرچ کیا جائے گا۔ سفیان ثوری سے الا شجعی نے یہ روایت کی ہے۔ المعافی نے ان سے یہ روایت کی ہے کہ بیوہ کا نان و نفقہ میراث میں اسے ملنے والے حصے سے دیا جائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ حاملہ عورت کا شوہر اگر مرجائے تو اسے کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور اکرام ولد ہو تو وضع حمل تک اسے پورے مال میں سے نفقہ دیا جائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ام ولد حاملہ ہو تو آقا کے مال میں سے اسے نفقہ ملے گا۔ اگر بچہ پیدا ہوجائے تو نفقہ بچے کو ملنے والے حصے سے ادا کیا ائے گا اور اگر بچہ نہ پیدا ہو تو نفقہ قرض ہوگا جس کی وصولی کی پیروی کی جائے گی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ بیوہ کو مرحوم شوہر کے پورے مال سے نفقہ دیا جائے گا۔ بیوہ کے نفقہ کے متعلق امام شافعی سے قول منقول ہیں۔ ایک قول کے مطابق اسے نفقہ اور سکنیٰ (رہائش) دونوں ملے گا اور دوسرے قول کے مطابق نہ اسے نفقہ ملے گا اور نہ ہی سکنیٰ ۔ ابوبکر حصاص کہتے ہیں کہ بیوہ اگر حاملہ ہو تو اس کے نفقہ کی تین میں سے ایک صوتر ہوگی۔ اول یہ کہ یہ شروع ہی سے واجب وہنے کی بناء پر جبکہ عدت کی مدت ایک سال تھی اس کا وجوب ہے جیسا کہ قول باری ہے (وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول غیر اخراج) یا یہ کہ طلاق بائن پانے والی مطلقہ کے لئے وجوب کی بناء پر اس کے لئے بھی واجب ہے یا یہ کہ یہ صرف حاملہ کے لئے حمل کی بناء پر واجب ہے۔ ضہلی صورت تو باطل ہے کیونکہ یہ بطور وصیت واجب تھا اور وارث کے لئے وصیت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس لئے اس صورت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ دوسری صورت بھی اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ شوہر کی زندگی میں نفقہ واجب تھا بلکہ اس کا وجوب مختلف احوال میں اوقات کے گزرنے اور شوہر کے گھر میں بیوی کی ذات کی سپردگی کے لحاظ سے ہوتا تھا۔ اب شوہر کی وفات کے بعد دو وجوہ سے نفقہ کا ایجاب نہیں ہوگا۔ اول یہ کہ نفقہ کے ایجاب کا ذریعہ یہ ہے کہ حاکم شوہر پر اس کا حکم عائد کر کے اس کے ذمہ لازم کر دے اور اس کے مال میں سے یہ لے لیا جائے۔ اب موت کے بعد شوہر کی کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہی کہ اس کے تحت نفقہ کا بھی وجوب ہوجائے۔ اس لئے جب اس کے ذمے یہ واجب نہیں ہوا تو کسی کو اس کے مال میں سے نفقہ حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہیے۔ دوم یہ کہ موت کے بعد اگر میت پر قرض نہ ہو تو اس کا سارا مال وارثوں کو منتقل ہوجاتا ہے اس لئے وارثوں کے مال میں نفقہ کا ایجاب درست نہیں اور نہ ہی زوج کے مال میں نفقہ کا ایجا بدرست نہیں یا تو اس کا ایجاب اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ عورت عدت میں ہے یا حاملہ ہے۔ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ عدت کی بناء پر اس کا ایجاب جائز نہیں ہے۔ حمل کی بناء پر بھی اس کا ایجاب درست نہیں ہے اس لئے کہ حمل کو وارثوں پر نفقہ کا کوئی استحقاق نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ خود وراثت کی بناء پر دوسرے وارثوں کی طرح ہو سر یعنی صاحب مال ہوتا ہے۔ اگر حاملہ اسے جنم دے دیتی تو اس وقت وارثوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہوتا تو اب حمل کی صورت میں ان پر اس کا نفقہ کیسے واجب ہوسکتا ہے۔ اس لئے کوئی ایسی وجہ باقی نہ رہی جس کی بناء پر وہ نفقہ کا مستحق قرار دیا جائے۔ واللہ اعلم !
Top