Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 236
لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً١ۖۚ وَّ مَتِّعُوْهُنَّ١ۚ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ١ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ
لَاجُنَاحَ
: نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِنْ
: اگر
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
مَالَمْ
: جو نہ
تَمَسُّوْھُنَّ
: تم نے انہیں ہاتھ لگایا
اَوْ
: یا
تَفْرِضُوْا
: مقرر کیا
لَھُنَّ
: ان کے لیے
فَرِيْضَةً
: مہر
وَّمَتِّعُوْھُنَّ
: اور انہیں خرچ دو
عَلَي
: پر
الْمُوْسِعِ
: خوش حال
قَدَرُهٗ
: اس کی حیثیت
وَعَلَي
: اور پر
الْمُقْتِرِ
: تنگدست
قَدَرُهٗ
: اس کی حیثیت
مَتَاعًۢا
: خرچ
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
حَقًّا
: لازم
عَلَي
: پر
الْمُحْسِنِيْنَ
: نیکو کار
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگ دسست اپنی حیثیت کے مطابق، نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے
مطلقہ کے متعہ کا بیان قول باری ہے (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء ما لم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ و متعوھن، تم پر کچھ گناہ نہیں اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو اس صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے) مفہوم کے لحاظ سے عبارت اس طرح ہے۔ ” مالم تمسوھن ولم تفرضوا لھن فریضۃ “ (جب تک ہم نے انہیں ہاتھ نہ لگایا ہو اور ان کے لئے کوئی مہر مقرر نہ کی ہو) ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس آیت پر اس قول باری کا لطف ہے (و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم، اور اگر تم نے انہیں طلاق دے دی جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کی ہو تو مقرر شدہ رقم کا نصف ادا کرو) ۔ اگر پہلی آیت کا مفہوم یہ ہوتا کہ ” مالم تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ اولم تفرضوا۔ “ (جب تک کہ تم نے انہیں ہاتھ نہ لگایا ہو جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کردی ہو یا نہ مقرر کی ہو) تو اس پر اس مطلقہ کا عطف نہ ہوتا جس کے لئے مہر کی رقم مقرر کردی گئی ہو۔ یہ تشریح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آیت زیربحث میں حرف ” او “ بمعنی ” وائو “ ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ قول باری ہے (ولا تطع منھم اثما او کفورا، آپ ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کی بات نہ مانیں) اس کا معنی ہے۔ ” نہ کسی گنہگار کی اور نہ ہی کسی ناشکرے کی۔ “ اسی طرح قول باری ہے (و ان کنتم مرضی او علی سفر او جاء احدمنکم من الغائط، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو…) اس کا معنی یہ ہے۔ ” تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو درآنحالیکہ تم مریض اور مسافر ہو۔ اسی طرح قول باری (و ارسلناہ الی مائۃ الف او یزیدون) اور ہم نے اسے یعنی یونس (علیہ السلام) کو، ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا) اس کا معنی ہے۔ ” ایک لاکھ اور اس سے زائد۔ “ ان مثالوں سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ لغت میں حرف او کا حرف وائو کے معنی میں استعمال موجود ہے۔ جب حرف ” او “ منفی فقرے میں موجود ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کا حرف ” وائو “ کے معنی میں استعمال زیادہ واضح ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ قول باری ہے (ولا تطع منھم آثما او کفورا) چونکہ اس حرف کا نفی پر دخول ہوا ہے اس لئے یہاں (او کفورا) کا معنی ” ولا کفورا “ ہے۔ ایک اور مثال یہ قول باری ہے (و حرمنا علیھم شحومھما الا ما حملت ظہورھما اوالحوایا او مااختلط بعظم) اور گائے اور بکری کی چربی بھی ہم نے ان پر حرام کردی تھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہڈی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے) ۔ ان تمام مواقع میں حروف ’ او ‘ بمعنی وائو ہے اس لئے ضروری ہے کہ قول باری (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ) میں بھی حرف ’ او ‘ کو حرف وائو کے معنی میں لیا جائے کیونکہ نفی پر اس کا خول ہوا ہے اس بنا پر متعہ یعنی مطلقہ کو طلاق کے بعد ساز و سامان دینے کے وجوب کی دو شرطیں ہیں اول عدم مسیس یعنی ہاتھ نہ لگانا ہو اور مہر مقرر نہ کیا ہو۔ یعنی ان دونوں باتوں کا بیک وقت موجودگی پر وجوب متعہ لازم آتا ہے۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ہمبستری سے قبل حالض حیض میں بھی طلاق دے سکتا ہے۔ کیونکہ آیت میں طلاق کی مطلقاً اباحت ہے اور یہ تفصیل نہیں ہے کہ طلاق حالت طہر میں دی جائے حیض میں نہ دی جائے۔ وجوب متعہ کے متعلق سلف اور فقاء امصار کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ مطلقہ کو متعہ دیا جائے گا۔ زہری کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ ہر مطلقہ کو متعہ دی جائے گا البتہ اسے نہیں دیا جائے گا جس کے لئے مہر کی رقم مقرر کردی گئی ہو اور شوہر نے اسے ہاتھ نہ لگایا ہو۔ ایسی مطلقہ کے لئے مقررہ مہر کی نصف رقم کافی ہے۔ قاسم بن محمد سے بھی یہی مروی ہے۔ قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور حسن بصری کا قول ہے کہ جس مطلقہ کے لئے مہر نہ مقرر کیا گیا ہو اور اسے ہمبستری سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو اسے متعہ لینے یا نہ لینے کا اختیار دیا جائے گا۔ قاضی شریح سے لوگوں نے قول باری (متاعا بالمعروف حقا علی المتقین، معروف طریقے سے متاع دو یہ متقین پر حق ہے) کے سلسلے میں متاع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ” ہم متقین میں شامل ہونے سے انکار نہیں کرتے “۔ سائل نے کہا کہ ” میں محتاج ہوں یعنی میں متاع نہیں دے سکتا۔ “ اس پر قاضی شریح نے جواب میں پھر مذکورہ بالا فقرہ کہا۔ حسن بصری اور ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ ہر مطلقہ کو متاع یعنی متعہ ملے گا۔ سعید بن جبیر سے متعہ کے متعلق پوچھا گیا کہ آیا یہ تمام لوگوں پر واجب ہے، انہوں نے جواب میں کہا : ” نہیں، متقین پر واجب ہے “۔ ابن ابی الزناد نے کتاب البیعۃ میں اپنے والد سے روایت کی ہے کہ لوگ مطلقہ کو متاع دینا واجب نہیں سجھتے تھے۔ لیکن اللہ یک طرف سے یہ خصوصیت اور فضیلت جسے حاصل ہوجائے۔ عطاء نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے لئے مہر مقرر کر دے اور ہاتھ لگانے سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اب اسے متعہ یا متاع کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ محمد بن علی کا قول ہے کہ متعہ اس مطلقہ کو ملے گا جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور جس کے لئے مہر مقرر کردیا ہو اسے متاع نہیں ملے گا۔ محمد بن اسحاق نے نافع سے روایت کی کہ حضرت ابن عمر ؓ مطلقہ کے لئے متعہ واجب نہیں سمجھتے تھے، البتہ اس مطلقہ کو متعہ دینا واجب خیال کرتے تھے جس کے ساتھ کسی معاوضے پر نکاح کیا گیا ہو اور ہمبستری سے پہلے یہ اسے طلاق مل گئی ہو۔ معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ متعہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک متعہ وہ ہے جس کا فیصلہ سلطان کرتا ہے اور دوسرا وہ جو متقین پر لازم ہوتا ہے جس شخص نے اپنی بیوی کو مہر مقرر کرنے اور ہمبستری کرنے سے قبل طلاق دے دی اس سے متعہ وصول کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کے ذمے مہر کی رقم واجب نہیں ہوتی اور جس نے ہمبستری کرنے یا مہر مقرر کرنے کے بعد طلاق دے دی ہو تو اس پر متعہ حق یعنی لازم ہے۔ مجاہد سے بھی یہی منقول ہے۔ متعہ کے متعلق سلف کے یہ اقوام منقول ہیں۔ فقائے امصار میں سے امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، اور زفر کا قول یہ ہے کہ جس مطلقہ کو ہاتھ لگانے اور ہمبستری کرنے سے پہلے طلاق مل گئی ہو اسے متعہ دینا واجب ہے اگر ہمبستری ہوگئی ہو تو اسے بھی متعہ ملے گا لیکن مرد کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ یہی سفیان ثوری، حسن بن صالح اور اوزاعی کا قول ہے تاہم امام اوزاعی کا قول ہے کہ اگر زوجین میں سے ایک مملوک ہو تو متعہ واجب نہیں ہوگا خواہ شوہر نے ہمبستری سے قبل طلاق دے دی ہو اور اس کے لئے مہر بھی مقرر نہ کیا ہو۔ ابن ابی لیلیٰ اور ابوالزناد کا قول ہے کہ متعہ واجب نہیں ہے۔ مرد اگر چاہے تو متعہ دے دے اگر نہ چاہے تو نہ دے اسے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ان دونوں فقاء نے اس مسئلے میں مدخول بہا اور غیرمدخول بہا کے درمیان اور اسی طرح مہر کی رقم مقرر ہونے کی صورت اور نہ ہون کی صورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ کسی کو متعہ دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا خواہ اس نے مہر کی رقم مقرر کی ہو یا نہ کی ہو اور خواہ اس نے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو۔ متعہ دینا ایک ایسا فعل ہے جسے کرلینا چاہیے۔ اس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ لعان کی صورت میں عورت کو کسی حال میں بھی متعہ نہیں دیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر مطلقہ کے لئے متعہ واجب ہے۔ اسی طرح ہر بیوی کے لئے بھی علیحدگی جب شوہر کی جانب سے ہوئی ہو یا اس نے علیحدگی کے عمل کو اختتام تک پہنچایا ہو۔ البتہ اگر شوہر نے اس کے لئے مہر مقرر کیا ہو لیکن دخول سے پہلے طلاق دے دی ہو اس کے لئے متعہ واجب نہیں ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے ایجاب متعہ پر گفتگو کریں گے اور پھر ان لوگوں کے دلائل کا جائزہ لیں گے جو ہر مطلقہ کے لئے وجوب متعہ کے قائل ہیں۔ متعہ کے وجوب کی دلیل یہ قول باری ہے (لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ حقا علی المحسنین، تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے یا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو ، البتہ انہیں متعہ دو ، خوش حال پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، نیکو کاروں پر ایک حق ہے۔ ایک دوسری آیت میں فرمایا (یایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن و سرحوھن سواحا جمیلا، اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں جو وہ گزاریں گی، انہیں متعہ دو اور بھلے طریقے سے انہیں رخصت کر دو ) ۔ ایک اور آیت میں فرمایا (وللمطلقات متاع بالمعروف حقا علی متقین) طلاق پانے والی عورتوں کے لئے معروف طریقے سے متعہ ہے، اور یہ متقین پر ایک حق ہے۔ یہ آیات وجوب متعہ پر مشتمل ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول قول باری (فمتعوھن) میں متعہ کا امر ہے اور امر وجوب کا مقتضی ہوتا ہے۔ البتہ اگر استحباب پر دلالت قائم ہوجائے تو پھر وجوب مراد نہیں ہوتا۔ دوم قول باری (متاعاً بالمعروف حقا علی محسنین) ایجاب کے لئے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان میں ’ حقا ‘ سے بڑھ کر کوئی اور لفظ تاکید کا معنی نہیں دیتا۔ سوم قول باری (حقا علی محسنین) اس کے ایجاب کی تاکید کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کو احسان کی شرط قرار دیا اور ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ نیکو کاروں میں شامل ہو۔ ای طرح (حقا علی المحسنین) کی دلالت وجوب پر ہو رہی ہے اور (حقاً علی متقین) اس کے ایجاب کی تاکید ہے۔ اسی طرح قول باری (فمتعوھن و سرحوھن) چونکہ امر کے صیغے پر مشتمل ہے۔ اس لئے وجوب پر دلالت کر رہا ہے۔ نیز قول باری (وللمطلقات متاع بالمعروف) وجوب کا مقتضی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ مطلقہ عورتوں کے لئے مقرر کیا ہے اور جو چیز کسی کے لئے مقرر کردی جائے وہ اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اسے اس کے مطالبہ کا حق ہوتا ہے مثلاً آپ کہتے ہیں ” ھذہ الدار لزید “ (یہ گھر زید کے لئے ہے) یعنی یہ زید کی ملکیت اور بوقت ضرورت اسے اس کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے متعہ کے ایجاب کے سلسلے میں محسنین اور متقین کا خصوصیت سے ذکر کیا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ متعہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس لئے کہ واجبات کے لزوم میں محسن یا غیرمحسن اور متقی یا غیرمتقی میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ محسنین اور متقین کا ذکر متعہ کے وجوب کی تاکید کے لئے ہے اور خصوصیت سے ان کے ذکر سے دوسروں پر اس کے وجوب کی نفی لازم نہیں آتی۔ اس کی مثال قول باری (ھدی للمتقین، یہ کتاب پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے) ہے۔ جبکہ قرآن مجید تمام انسانوں کے لئے ذریعہ ہدایت ہے۔ چناچہ قول باری ہے (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس، رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے) ۔ اس لئے قول باری (ھدی للمتقین) سے یہ بات واجب نہں ہوتی کہ قرآن مجید متقین کے علاوہ دوسروں کے لئے باعث دایت نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح قول باری (حقا علی المحسنین) اور (حقا علی المتقین) سے ان کے علاوہ دوسروں پر اس کے حق ہونے کی نفی ہو ری ہے۔ نیز ہم محسنین اور متقین پر متعہ اس آیت کے ذریعے واجب کرتے ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں پر قول باری (فمتعوھن و سیدحوھن سراحا جمیلا) سے واجب کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ آیت بالاتفاق سب کے لئے عام ہے۔ کیونکہ فقائے امصار میں سے جن لوگوں نے محسنین اور متقین پر متعہ واجب کیا ہے انہوں نے دوسروں پر بھی اسے واجب کیا ہے۔ معترض کے استدلال سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ متعہ کو ندب یعنی مستحب قرار نہ دے اس لئے کہ جو چیز مستحب ہوتی ہے اس میں متقی اور غیرمتقی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اب جبکہ متعہ کے استحباب کے سلسلے میں متقین اور محسنین کا خصوصیت سے ذکر جائز ہے حالانکہ اس معاملے میں وہ اور ان کے سوا دوسرے لوگ یکساں ہوتے ہیں تو پھر متعہ کے ایجاب کے سلسلے میں خصوصیت سے ان کا ذکر جائز ہے اور وہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ اس معاملے میں یکساں ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب مہر کی وجہ سے عائد ہونے والی رقموں نیز ادھار اور قرض کے تحت لین دین کی تمام صورتوں میں متعلقہ لوگوں پر رقوم واجب کرتے وقت متقین اور محسنسن کا خصوصیت کے ساتھ ذکر نہیں کیا لیکن متعہ کے سلسلے میں ان کا ذکر کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ واجب نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب لفظ ایجاب تمام صورتوں میں موجود ہے تو ہمارے لئے لفظ کے مقتضیٰ کے بموجب حکم لگانا ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے متعہ کے سلسلے میں جن لوگوں پر لفظ حق کے ساتھ وجوب کا اطلاق کیا تو اس کی تاکید کی خاطر تقویٰ اور احسان کے ذکر کے ساتھ ایسے لوگوں کی تخصیص کردی۔ اب تاکید کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ تقویٰ اور احسان کی شرطوں کے ساتھ مقید ذکر کے ساتھ تاکید کا معنی پیدا کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں لفظ ادا کی تخصیص کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے مثلاً قول باری ہے (و اتوا النساء صدقاتھن نحلۃ) اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو) نیز قول باری ہے (فلیود الذی ائو تمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ، جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کر دے اور اللہ اپنے رب سے ڈرتا رہے) کسی صورت میں گواہ مقرر کرنے اور رن رکھنے کا حکم دے کر یہ معنی پیدا کیا جاتا ہے۔ اس لئے تاکید کے لفظ سے ایجاب کی نفی پر کس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھئے ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ عقد نکاح میں بدل واجب کرنا ضروری ہوتا ہے بشرطیکہ وہ بدل مقررہ مہر کی صورت میں ہو اور اگر یہ نہ ہو تو پھر مہر مثل ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں جبکہ مہر کی رقم مقرر ہو۔ ہمبستری سے پہلے ہی اگر طلاق وارد ہوجائے تو بضع (یعنی تلذذ جنسی کے حصول کے لئے اعضائے نسوانی پر قدرت) بدل کا ضرور مستحق ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نکاح دوسرے تمام عقود سے جدا ہے۔ اس لئے کہ فروخت شدہ چیز کا فروخت کنندہ کی ملکیت میں واپس آ جانا پورے ثمن یعنی قیمت کے سقوط کو واجب کردیتا ہے۔ دوسری طرف ہمبستری سے قبل طلاق کی وجہ سے عورت کے بضع سے شوہر کے حق کا سقوط اسے کسی نہ کسی بدل کے استحقاق سے خارج نہیں کرتا اور یہ بدل مقررہ مہر کا نصف ہوتا ہے۔ اس لئے اگر عقد نکاح میں مہر مقرر نہ ہو تو اس صورت میں بھی بضع کو بدل کا مستحق ٹھہرا کر اسے کچھ نہ کچھ دیا جائے گا۔ ان دونوں صورتوں میں جو مشترک بات ہے وہ یہ کہ دونوں میں ہمبستری سے قبل ہی طلاق ہوگئی ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے کہ مہر مثل کا استحقاق عقد نکاح کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے اور متعہ مہر مثل کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا وجوب اسی طرح ضروری ہے جس طرح مقرر شدہ مہر کا نصف کا وجوب لازمی ہوتا ہے جب اسے دخول سے پہلے طلاق ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مہر تو نقدی یعنی دراہم و دنانیر اور روپوں پیسوں کی صورت میں ہوتا ہے جبکہ متعہ جنس یعنی کپڑوں وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ متعہ بھی ہمارے نزدیک درہم و دینار کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر شوہر اسے نقدی کی شکل میں متعہ دے دیتا ہے تو اسے کسی اور شکل میں متعہ دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے یہ جو کہا ہے کہ متعہ مہر مثل کا بعض حصہ ہوتا ہے۔ یہ امام محمد کے مسلک کے مطابق درست ہے۔ اس لئے کہ ان کا قول یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو مہر مثل کیب دلے رہن رکھ دیا اور اسے ہمبستری سے قبل طلاق دے دی تو اب رہن متعہ کے بدلے ہوگا اور رہن کا حبس اسی متعہ کے بدلے میں سمجھا جائے گا۔ اگر رن ہلاک ہوجائے تو اس کے ساتھ متعہ بھی جاتا رہے گا۔ لیکن امام ابو یوسف کے نزدیک یہ رہن متعہ کے بدلے نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اگر رہن ہلاک ہوجائے تو اس کے ساتھ کوئی چیز ہلاک نہیں ہوگی اور شوہر پر متعہ واجب رہے گا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابو یوسف متعہ کو مہر مثل کا ایک حصہ نہیں سمجھتے لیکن انہوں نے ظاہر قرآن کے مقتضیٰ کے بموجب اور اس استدلال کے مطابق شوہر پر متعہ واجب کیا ہے کہ ہمبستری سے قبل طلاق مل جانے پر بضع کو کوئی نہ کوئی بدل ملنا چاہیے اور یہ کہ خواہ عقد نکاح میں مہر کی مقدار مقرر کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو اس سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ملک بضع کا حصول کسی بدل کے بغیر جائز نہیں ہے۔ اس لئے عقد نکاح کے وقت مہر کی رقم مقرر نہ کرنے کی صورت میں مہر مثل کا اسی طرح وجوب ہوجاتا ہے جس طرح مقرر شدہ مہر کا ہوجاتا ہے۔ اس لئے دخول سے پہلے طلاق مل جانے پر بضع کے بدل کے طور پر ان دونوں صورتوں کے حکم کا یکساں ہونا ضروری ہے اور یہ کہ متعہ مہر مثل ک ایک حصے کا قائم مقام بن جائے گا اگرچہ متعہ مہر مثل کا ایک حصہ نہیں ہوتا۔ متعہ کا مہر مثل کے ایک حصے کے قائم مقام ہونے کی صورت بعینہ وہی ہے جس طرح کہ قیمتیں صرف شدہ چیزوں کی قائم مقام بن جاتی ہیں جس عورت کے لئے مہر مقرر کردیا گیا ہو اور اسے ہمبستری سے قبل طلاق مل گئی ہو۔ اس کے متعلق ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اسے نصف مہر کی جو رقم ملے گی وہی اس ک متعہ بن جائے گی اس بنا پر متعہ ہر اس چیز کا نام ہوگا جس کا ہمبستری سے قبل طلاق ملنے کی صورت میں استحقاق ہوگا اور یہ بضع کا بدل بن جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب متعہ مہر مثل کے بعض حصے کا قائم مقام ہوتا ہے تو یہ مر کا عوض ہوگا اور مہر کا عوض طلاق سے پہلے واجب نہیں ہوتا تو یہ طلاق کے بعد بھی واجب نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ متعہ مہر مثل کا بدلہ ہے اگرچہ وہ اس کا قائم مقام مانا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ قیمتیں صرف شدہ چیزوں کا بدل بن جاتی ہیں بلکہ جب یہ قیمتیں ان چیزوں کی قائم مقام بن جاتی ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا قیمتیں ہی چیزیں ہیں۔ دیکجھئے جب مشتری کوئی چیز خرید لیتا ہے تو اس چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کے لئے جائز نہیں ہوتا کہ وہ بیع یا اور کسی وجہ سے اس چیز کا بدل لے لے۔ اس چیز کو اگر کسی صارف نے صرف کرلیا ہو تو مشتری اس صارف سے اس چیز کی قیمت وصول کرے گا۔ کیونکہ قیمت ہی اب اس چیز کی قائم مقام بن جائے گی۔ گویا قیمت ہی اب وہ چیز ہے اس میں عوض کا مفہوم شامل نہیں ہوتا۔ اس لئے متعہ کی صورت میں بھی عوض کا مفہوم شامل نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ بضع کے بدل کے طور پر لازم ہونے والے مہر مثل کے بعض حصے کا قائم مقام بن جائے گا جس طرح کہ مقررہ مہر کا نصف طلاق کی صورت میں بضع کا بدل بن جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ متعہ اگر بضع کے بدل کے طور پر لازم ہونے والے مہر مثل کیب عض حصے کے قائم مقام ہوتا تو عورت کی حیثیت کے لحاظ سے اس کا اعتبار کرنا ضروری ہوتا جس طرح کہ مہر مثل میں ہوتا ہے اس میں شوہر کی حیثیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول (و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) سے مرد کی حیثیت کے اعتبار کو واجب قرار دے دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ متعہ بضع کا بدل نہیں ہوتا تو یہ طلاق کا بدل بھی نہیں بنس کتا کیونکہ بضع کو متعہ کا حصول طلاق کی بناء پر ہوتا ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ متعہ کا استحقاق اس چیز کے بدل کے طور پر ہو جو اسے یعنی بضع کو حاصل کرنے والا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ متعہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا اور جب بدل نہیں ہوتا تو یہ واجب بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں کا جائے گا کہ معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ متعہ میں مرد کی حیثیت کا اعتبار کیا جاتا ہے عورت کی حیثیت کا نہیں کیونکہ ہمارے متاخرین فقاء کا اس کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے شیخ ابوالحسن (رح) کہا کرتے تھے کہ اس میں عورت کی حیثیت کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس صورت میں آیت کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ ہ اس کے ساتھ مرد کی حیثیت کا اعتبار کر کے آیت کے حکم پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے بعض فقہاء کا قول ہے کہ اس میں مرد کی حیثیت کا اعتبار کیا جائے گا عورت کی حیثیت کا نہیں لیکن اس قول پر بھی معترض کا اعتراض لاحق ہوتا ہے کیونکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ مہر مثل کے سلسلے میں عورت کی حیثیت کا اس حالت میں اعتبار واجب ہوتا ہے جب شوہر کو ملک بضع حاصل ہوتا ہے یعنی ہمبستری کے ذریعے یا موت کے ذریعے جو اس لحاظ سے ہمبستری کی قائم مقام ہوتی ہے کہ اس سے پورے مہر کا استحقاق ثابت ہوجاتا ہے۔ اس لئے مہر مثل بمنزلہ تلف کردہ چیزوں کی قیمتوں کے ہوجائے گا جن کا اعتبار ان چیزوں کی اپنی ذات کے لحاظ سے کیا جاتا ہے جبکہ متعہ ہمارے نزدیک اسی وقت واجب ہوتا ہے جب مرد کی طروف سے کسی سبب کی بناء پر بضع سے اس کا حق ساقط ہوجاتا ہے اور ابھی ہمبستری یا ہمبستری کے قائم مقام کوئی بات پیش نہیں آئی ہوتی۔ اس لئے متعہ کے سلسلے میں عورت کی حیثیت کا اعتبار واجب نہیں ہوتا۔ کیونکہ بضع زوج کو حاصل نہیں ہوا بلکہ شوہر کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر عورت کو ہی حاصل رہا اور ہمبستری کا حکم بھی ثابت نہیں ہوا۔ اس لئے متعہ میں مرد کی حالت کا اعتبار کیا جائے گا عورت کا نہیں نیز اگر ہم معترض کا یہ قول تسلیم کرلیں کہ متعہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا تو یہ بات اس کے وجوب سے مانع نہیں ہے۔ کیونکہ نان و نفقہ کی مثال میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہی ہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بضع کا بدل مہر ہے اور مرد عقد نکاح کے ساتھ ہی اس کا مالک ہوجاتا ہے۔ اب رہ گئی ہمبستری اور تلذد جنسی تو وہ صرف اپنے ملک میں تصرف کی ایک صورت ہوتی ہے اور کسی کا اپنے ملک میں تصرف اس پر کسی بدل کو واجب نہیں کرتا لیکن یہ بات نان و نفقہ کے وجوب کے لئے بھی مانع نہیں ہے۔ اسی بنا پر نص کتاب اور اتفاق امت کی رو سے ایک شخص پر اس کے باپ اور اس کے نابالغ بچے کا نفقہ واجب ہوتا ہے حالانکہ یہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا اور بدل نہ ہونا اس کے وجوب کے لئے مانع بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح زکوٰۃ اور کفارہ کی تمام صورتیں کسی چیز کا بدل نہیں ہوتیں حالانکہ یہ واجب ہوتی ہیں۔ اس بناء پر متعہ کے بدل نہ ہونے کو اس کے ایجاب کی نفی کے لئے دلیل بنانا غفلت کی نشانی ہے نیز یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ متعہ کے سلسلے میں مرد اور عورت کی حیثیتوں کا اعتبار دراصل متعہ کی مقدار سے تعلق رکھنے والی بحث ہے اور ظاہر ہے کہ اس بحث کا متعہ کے ایجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی نفی سے نیز اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ اگر متعہ واجب نہ ہوتا تو اس کی مقدار کا تعین قول باری (علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) کی بنا پر مرد کی حیثیت کے مطابق نہ ہوتا کیونکہ جو چیز واجب نہیں ہوتی اس کا اعتبار مرد کی حیثیت کے لحاظ سے نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اسے اختیار ہوتا ہے کہ خوشحالی اور تنگ دستی میں وہ اس چیز کے متعلق جو رویہ اپنانا چاہے اپنا سکتا ہے۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے مرد کی حیثیت کی روشنی میں اس کی مقدار کے تعین کا حکم دیا اور اسے مطلق نہیں رکھا کہ مرد جو چاہے کرے تو یہ چیز متعہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اس استدلال میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ اس زیر بحث مسئلہ میں ابتدائی دلیل کا کام دے۔ اس قائل کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ (علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ متعہ اس تنگ دست پر واجب ہی نہ ہو جو کسی چیز کا مالک نہیں ہے اور جب اسے لازم نہیں ہوگا تو خوش حال پر بھی واجب نہیں ہوگا۔ اور جو شخص تنگ دست پر متعہ واجب کرے گا وہ ظاہر کتاب کے دائرے سے خارج قول کا قائل ہوگا کیونکہ جس شخص کے پاس کوئی مال نہیں ہوگا آیت اس پر متعہ کے وجوب کا تقاضا نہیں کرے گی اس لیے کہ اس کے پاس مال ہی نہیں ہے کہ اس کی مقدار کا تعین کیا جاسکے۔ اس لیے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ ہم متعہ کو اس کے ذمے دین قرار دیں اور نہ ہی وہ اس متعہ کے لزوم کا مکاطب ہی ہے۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا قائل کا یہ قول آیت کے معنی سے اس کے غفلے کی نشانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ خوشحال پر اس کے مال کی مقدار متعہ ہے اور تنگدس پر اس کے مال کی مقدار بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ۔ اس لیے تنگ دست کی جو حیثیت ہوگی اس کے مطابق متعہ کا اعتبار کیا جائے گا اور وہ حیثیت یہ ہے کہ اس کے ذمہ متعہ کا ثبوت ہوجائے گا یہاں تک کہ مال اس کے ہاتھ ٓجائے گا تو وہ اسے ادا کردے گا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری ہے۔ و علی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف۔ اللہ تعالیٰ نے معروف طریقے سے بچے کے باپ پر دودھ پلانے والی کا کھانا اور کپڑا واجب کردیا اور اگر وہ تنگ دست ہوتا کہ اس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہوتی پھر بھی وہ آیت کے حکم سے خارج نہ ہوتا کیونکہ اس کے اوپر ایک ذمہ داری ہے جس کے تحت نفقہ واجب ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اسے جب یہ حاسل ہوجائے گا وہ اس کی ادائیگی کردے گا۔ متعہ اور تمام دوسرے حقوق کے سلسلے میں جو انسان کے ذمے واجب ہوتے ہیں اور یہی ذمہ اعیان کی طرح ہوتا ہے۔ تنگ دست کا بھی یہی حکم ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تنگ دست کو اس مال کے بدلے خرید لینا جائز ہے جو اس کے ذمے ہو یہاں عین کے بدل کے سلسلے میں ذمہ عین کے قائم مقام بن گیا۔ اسی طرح تنگ دست مفلوک الحال شوہر کا ذمہ شرعی لحاظ سے درست اور صحیح ذمہ ہے جس میں متعہ کا اثبات اسی طرح درست ہے جس طرح تمام نفقات اور دیون کا اثبات درست ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں مہر مقرر کئے بغیر نکاح کے جواز پر دلالت موجود ہے اس لئے کہ اببہ تعالیٰ نے طلاق کی صحت کا حکم لگا دیا ہے خواہ مہر مقرر نہ بھی ہو اور طلاق تو صرف نکاح صحیح پر ہی واقع ہوتی ہے۔ آیت میں یہ مفہوم بھی موجود ہے کہ اگر شوہر نے نکاح میں مہر نہ ہونے کی شرط لگا دی ہو تو اس سے نکاح فاسد نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں جب مہر سے سکوت اور مہر مقرر نہ کرنے کی شرط کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے تو آیت کے حکم کا اطلاق دونوں صورتوں پر ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر مرد نے نکاح میں مہر نہ ہونے کی شرط لگا دی تو اس کا نکاح فاسد ہوگا۔ اگر دخول ہوجائے تو نکاح کی صحت کا حکم لگا دیا جائے گا اور عورت کو مہر مثل مل جائے گا زیر بحث آیت نے جو از نکاح کا فیصلہ دے دیا ہے اور اگر اس نے مہر نہ ہونے کی شرط لگا بھی دی تو یہ بات مہر نہ مقرر کرنے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اب اگر مہر مقرر نہ کرنا عقد نکاح کے لئے قادح نہیں ہے تو عدم مہر کی شرط بھی اس کے لئے قادح نہیں ہوسکتی۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ متعہ مدخول بہا کے لئے واجب نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ متعہ ملک بضع کا بدل ہوتا ہے اور یہ بات درست نہیں ہے کہ عورت دو بدل کے مستحق قرار دی جائے جب دخول یا ہمبستری کے بعد عورت مقررہ مہر یا مہر مثل کی مستحق ہوجاتی ہے تو اب یہ جائز نہیں کہ اس کے ساتھ متعہ کی بھی مستحق ٹھہرائی جائے۔ نیز فقہائے امصار کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دخول سے پہلے طلاق یافتہ عورت وجوب کے طور پر متعہ کی مستحق نہیں ہوتی بشرطیکہ اس کے لئے نصف مہر کا وجوب ہوچکا ہو۔ یہ بات دو طرح سے ہمارے دعویٰ یک صحت پر دلالت کر رہی ہے اول یہ کہ جب عورت مہر کے بعض حصے کے وجوب کے ساتھ متعہ کی مستحق نہیں ہوتی تو پورے مہر کے وجوب کی صورت میں اس کا مستحق نہ ہونا اولیٰ ہوگا۔ دوم یہ کہ اس میں یہ مفہوم موجود ہے کہ وہ مہر کے کچھ حصے کی مستحق ہوچکی ہے اور یہی مفہوم مدخول بہا میں بھی موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مہر کے کسی حصے کے عدم وجوب کی صورت میں جب متعہ واجب ہوگیا تو مہر کے استحقاق کی صورت میں متعہ کا وجوب اولیٰ ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پھر یہ چاہیے کہ نصف مہر کے وجوب کی صورت میں بھی وہ متعہ کی مستحق قرار پائے۔ کیونکہ اس صورت میں بھی مہر کے ایک حصے کے عدم وجوب کی بناء پر متعہ واجب ہوگا۔ نیز اس میں یہ پہلو ہے کہ عورت مہر کے فقدان کی صورت میں متعہ کی مستحق ہوئی ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ ملک بضع طلاق سے پہلے اور طلاق کے بعد بدل سے خالی نہیں ہوتا۔ اب جب مہر واجب نہیں ہوا تو متعہ واجب ہوگیا اور جب وہ ایک اور بدل کے مستحق ہوگئی تو متعہ کے استحقاق کا جواز باقی نہیں رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (واللمطلقات متاع بالمعروف حقا علی المتقین) اور یہ حکم ہر قسم کی مطلقہ کے لئے عام ہے۔ صرف وہی مطلقہ عور تاس حکم سے خارج ہوگی جس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ بات اس طرح ہے البتہ یہ پہلو ضرور موجود ہے کہ لفظ متاع ہر ایسی چیز کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ قول باری ہے (وفاکھۃ و ابا متاعاً لکم ولانعامکم، اور میوے اور چارے تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لئے) نیز یہ قول باری (متاع قلیل ثم ماواھم جھنم، یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے) اسی طرح ارشاد ہے (انما ھذہ الحیوۃ الدنیا متاع، دنیا کی یہ زندگی تو محض چند روز کا تھوڑا سا لطف ہے) مشہور شاعر افوہ اودی کا شعر ہے انما نعمۃ قوم متعۃ و حیاۃ المرء ثوب مستعار کسی قوم کی نعمت یعنی آرام و راحت گھڑی بھر کے لئے فائدہ اٹھانے کی صورت ہے اور انسان کی زندگی عاریۃً لئے ہوئے لباس کی طرح ہے۔ لفظ متعہ اور متاع ایسا اسم ہے جس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اب جب ہم نے مطلقہ عورتوں کے لئے مہر یا نفقہ کی کوئی ایسی شکل واجب کردی جس سے وہ فائدہ اٹھا سکے تو گویا آیت کے حکم سے عہدہ برا ہوگئے۔ اب ایسی مطلقہ جس کے ساتھ ہمبستری نہیں ہوئی اس کا متعہ مقررہ مہر کا نصف ہے اور جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اس کا متعہ مرد اور عورت کی حیثیتوں کے مطابق ہوگا۔ ایسی مطلقہ جو مدخول بہا ہو اس کا متعہ کبھی تو مقرر مہر ہوگا اور کبھی مہر مثل ہوگا جبکہ مہر مقرر نہ کیا گیا ہو۔ یہ سب متعہ کی صورتیں ہیں لیکن واجب نہیں ہیں اگر ہم متعہ کی ایک صورت کو واجب کریں گے تو پھر تمام صورتوں کو واجب کرنا ضروری ہوگا کیونکہ قول باری (وللمطلقات متاع بالمعروف) کا اقتضاء یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ادنیٰ صورت ہے جس پر لفظ متعہ یا متاع کا اطلاق ہو سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (وللمطلقات متاع) طلاق کے بعد ایجاب متاع کا مقتضی ہے اور طلاق سے پہلے عورت جس مہر کی مستحق ٹھہرتی ہے اس پر اس لفظ اطلاق نہیں ہوسکتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ایسی نہیں ہے اس لئے آپ اگر یہ کہیں کہ ” مطلقہ عورتوں کے لئے مہر کی وہ رقمیں ہیں جو طلاق سے پہلے ان کے لئے واجب ہوچکی تھیں “ تو آپ کا یہ کہنا درست ہوگا۔ طلاق کے بعد مہر کے وجوب کے ذکر میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو طلاق سے پہلے اس کے وجوب کی نفی کرتی ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو طلاق کے ذکر کے ساتھ دونوں حالتوں میں اس کے وجوب کا ذکر جائز نہ ہوتا۔ اب طلاق کے بعد اس کے وجوب کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں بتادیا گیا کہ طلاق کے ساتھ متعہ واجب ہوجاتا ہے کیونکہ اس بات کی گنجائش تھی کہ کوئی شخص یہ سوچ لے کہ طلاق واجب وہنے والی چیز کو ساقط کردیتی ہے اس لئے طلاق کے بعد اسے واجب کر ک یہ بتادیا کہ طلاق سے قبل اس کا وجوب بھی اسی طرح ہے۔ نیز اگر اس سے مراد وہ متعہ ہے جو طلاق کی وجہ سے واجب ہوا تو اس کی تین قسمیں ہوں گی یا تو یہ مدخول بہاء کے لئے عدت کا نفقہ ہوگا یا متعہ ہوگا یا غیرمدخول بہاء کے لئے مقرر شدہ مہر کا نصف ہوگا۔ ان سب کا اطلاق کے ساتھ ہے ہم جس طرح بیان کر آئے ہیں نفقہ پر متاع کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ قول باری ہے (فالذین یتوڑون منکم و یذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول غیراخراج) اس آیت میں روٹی کپڑا اور مکان کو جو مطلقہ کے لئے واجب ہوتے ہیں متاع کہا گیا ہے۔ مہر کے ساتھ متعہ واجب نہیں ہے اس پر سب کا یہ اتفاق دلالت کرتا ہے کہ عورت طلاق سے قبل اس کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ اب اگر طلاق کے بعد مہر کے ساتھ متعہ واجب ہوتا تو طلاق سے قبل بھی واجب ہوتا کیونکہ متعہ ملک بضع کا بدل ہے طلاق کا بدل نہیں۔ اس لئے اس کا حکم وہی ہوگا جو مہر کا حکم ہے اس بات میں متعہ اور مر کے وجوب کے امتناع کی دلیل موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ لوگ طلاق کے بد اس مطلقہ کے لئے متعہ واجب کرتے ہیں جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور نہ ہی اس سے ہمبستری کی گئی ہو اور اسے طلاق سے پہلے واجب نہیں کرتے۔ اب طلاق سے قبل اس کے وجوب کا انتفاء طلاق کے بعد اس کے وجوب کے انتفاء کی دلیل نہیں بن سکتا۔ مدخول بہاء کے متعلق بھی ہمارا یہی قول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے کہ متعہ مہر مثل کا بعض حصہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اس بعض حصے کے قائم مقام ہوتا ہے اور عورت کے لئے طلاق سے پہلے مہر کا مطالبہ واجب ہے اس بناء پر طلاق کے بعد بھی مہر کے بعض حصے کا مطالبہ درست ہے اور معترض چونکہ متعہ کو مہر کا بعض حصہ قرار نہیں دیتا اس لئے اس کا ایجاب یا تو ملک بضع کا بدل ہوگا یا اطلاق کا۔ اگر مہر مثل کے ساتھ ساتھ یہ ملک بضع کا بدل ٹھہرا دیا جائے تو پھر ضروری ہوگا کہ طلاق س پہلے بھی عورت اس کی مستحق بنے۔ اگر یہ ملک بضع کا بدل نہیں ہوگا تو پھر اسے طلاق کا بدل ٹھہرانا محال ہوگا جبکہ طلاق کی وجہ سے بضع کی ملکیت عورت کو حاصل ہوچکی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ واجب ہونے والے متعہ کی مقدار کا بیان قول باری ہے (و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدر متاعا بالمعروف، اور انہیں متعہ دو ، خوش حال پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق معروف طریقے سے متاع یعنی متعہ دو ) ۔ اب خوشحالی اور تنگ دستی میں مرد کی حیثیت کے مطابق اس متعہ کی مقدار کا اثبات اجتہاد اور غالب گمان کی بنا پر ہوگا اور مختلف زمانوں میں یہ مختلف ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مقدار میں دو چیزوں کی شرط لگائی ہے اول یہ کہ مرد کی خوشحالی اور تنگ دستی کی روشنی میں اس کا اعتبار کیا جائے اور دوم یہ کہ اس کے ساتھ معروف طریقے کا بھی لحاظ رکھا جائے اس لئے اس میں ان دونوں باتوں کا اعتبار واجب ہے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی اور دوسری طرف ان دونوں حالتوں میں معروف طریقہ لوگوں کی عادات پر موقوف ہے اور عادات مختلف ہوتی ہیں اور بدلتی رہتی ہیں تو اب مختلف زمانوں میں لوگوں کی عادات کی رعایت واجب ہوگئی۔ نئے پیدا شدہ امور میں اجتہاد کی گنجائش کی یہ ایک بنیاد ہے کیونکہ درج بالا حکم ایسا ہے جس کا انطباق ہماری رائے کو کام میں لا کر یعنی اجتہاد کر کے ہی ہوگا۔ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ہمارے شیخ ابوالحسن (رح) کہا کرتے تھے کہ متعہ میں مرد کی حیثیت کے ساتھ عورت کی حیثیت کا بھی اعتبار کرنا واجب ہے۔ علی بن موسیٰ قمی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کی مقدار کے تعین کے حکم کو دو باتوں کے ساتھ متعلق کردیا ہے : خوشحالی ا اور تنگ دستی کے لحاظ سے مرد کی حیثیت کے ساتھ اور معروف طریقے کے ساتھ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم صرف مرد کی حیثیت کا اعتبار کرلیں اور عورت کی حیثیت کو نظرانداز کردیں تو اگر کسی کی زوجیت میں دو بیویاں ہوں ایک شریف اور دوسری گھٹیا طبقے سے تعلق رکھنے والی لونڈی۔ پھر وہ انہیں دخول سے پہلے طلاق دے دے اور ان کے لئے مہر بھی مقرر نہ کیا ہو۔ اس صورت میں یہ واجب ہوگا کہ دونوں کے لئے متعہ میں یکسانیت ہو یعنی جو متعہ شریف زادی کو ملے وہی دوسری کو بھی ملے جبکہ یہ بات لوگوں کی عادات و اخلاق کی روشنی میں نہ صرف انتہائی ناپسندیدہ ہے بلکہ غیر معروف بھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متعہ کے سلسلے میں جو شخص صرف مرد کی حیثیت کا اعتبار کرتا ہے اس کا یہ قول ایک اور اعتبار سے بھی فاسد ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخصی انتہائی خوشحال اور شان و شوکت والا ہو اور وہ ایسی گھٹیا عورت سے شادی کرلے جس کا مہر مثل ایک دینار ہو۔ اب اگر اس نے ہمبستری کرلی تو اس کے لئے مہر مثل واجب ہوگا کیونکہ اس نے اس کے لئے مہر کی رقم مقرر نہیں کی تھی اور یہ مہر مثل ایک دینار ہوگا اور اگر اس نے دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو مرد کی حیثیتی ک مطابق اس کے لئے متعہ واجب ہوگا اور یہ اس کے مہر مثل سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ اس طرح ایک عجیب دل چسپ کیفیت پیدا ہوجائے گی وہ یہ کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں اسے جو رقم ملے گی وہ اس رقم سے کہیں ز یادہ ہوگی جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گی۔ اس سے تخلف فی القول لازم آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دخول سے پہلے طلاق یافتہ عورت کے لئے اس مقدار کا نصف مقرر کیا ہے جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گا جبکہ درج بالا مثال میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اسے دلیل خلف یا تخلف فی القول کہا جاتا ہے۔ اب جبکہ متعہ کے سلسلے میں صرف مرد کی حیثیت کے اعتبار کا قول کتاب کے معنی اور اس کی دلالت کی مخالفت کی موجب ہے نیز معروف عادات کے بھی خلاف ہے تو یہ ساقط ہوجائے اور اس کے ساتھ عورت کی حیثیت کا اعتبار بھی واجب ہوجائے گا۔ یہ قول ایک اور وجہ سے بھی فاسد ہے وہ اس طرح کہ اگر دو مالدار آدمی دو بہنوں سے نکاح کرلیں اور ان میں سے ایک اپنی بیوی سے ہمبستری بھی کرلے اور پھر طلاق دے دے تو مرد کی حیثیت کے مطابق اس کے لئے متعہ واجب ہوگا اور یہ اس کے مہر مثل س کئی گنا زیادہ ہوگا۔ اس طرح ایک عجیب دل چسپ کیفیت پیدا ہوجائے گی وہ یہ کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں اسے جو رقم ملے گی وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہوگی جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گی۔ اس سے تخلف فی القول لازم آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دخول سے پہلے طلاق یافتہ عورت کے لئے اس مقدار کا نصف مقرر کیا ہے جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گا جبکہ درج بالا مثال میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اسے دلیل خلف یا تخلف فی القول کہا جاتا ہے۔ اب جبکہ متعہ کے سلسلے میں صرف مرد کی حیثیت کے اعتبار کا قول کتاب کے معنی اور اس کی دلالت کی مخالفت کی موجب ہے نیز معروف عادات کے بھی خلاف ہے تو یہ ساقط ہوجائے گا اور اس کے ساتھ عورت کی حیثیت کا اعتبار بھی واجب ہوجائے گا۔ یہ قول ایک اور وجہ سے بھی فاسد ہے وہ اس طرح کہ اگر دو مالدار آدمی دو بہنوں سے نکاح کرلیں اور ان میں سے ایک اپنی بیوی سے ہمبستری بھی کرلے اور پھر طلاق دے دے تو مہر مقرر نہ ہونے کی وجہ سے اسے مہر مثل ایک ہزار درہم ملا۔ دوسرے نے دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی اور مہر بھی مقرر نہیں تھا۔ اس صورت میں اسے متعہ ملے گا جو مرد کی حیثیت کے مطابق ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ متعہ اس کی بہن کے مہر مثل سے مقدار میں کئی گناہ زیادہ ہوگا اور اس طرح مدخول بہا کو جو رقم ملے گی وہ مطلقہ کو ملنے والے متعہ سے کہیں کم ہوگی حالانکہ ملک بضع کی قیمت ایک جیسی ہوتی ہے اور مہر کے لحاظ سے یہ دونوں یکساں تھیں۔ اس طرح ہمبستری اس کے لئے ضرر رساں ثابت ہوئی اور اس سے اس کے بدل میں کمی آ گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ قول انتہائی ناپسندیدہ ہے اور لوگوں کے لئے نامانوس اور غیر معروف ہے یہ تمام وجوہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ متعہ میں مرد کی حیثیت کے ساتھ ساتھ عورت کی حیثیت کا بھی اعتبار کیا جائے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب شوہر دخول سے پہلے طلاق دے دے اور مہر بھی مقرر نہ ہو اب اگر اس کے متعہ کا نصف اس کے مہر مثل کے نصف سے زائد ہو تو اس صورت میں اسے جو متعہ دیا جائے وہ اس کے مہر مثل کے نصف سے تجاوز نہ کرے۔ اس طرح مہر مثل کے نصف اور متعہ میں سے جو کم ہوگا وہ اسے مل جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں مطلقہ کے لئے مقرر شدہ مہر کی نصف رقم سے زائد رقم مقرر نہیں کی اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں اسے مہر مثل کے نصف سے زائد رقم دے دی جائے اور جب مہر مقرر ہو اور اسے دخول سے پہلے طلاق مل جائے اس صورت میں اگر وہ مقرر مہر کے نصف سے زائد کی مستحق نہ ہوئی تو مر مثل کی صورت میں یہی بات بطریق اولیٰ ثابت ہوگی۔ ہمارے اصحاب نے متعہ کی کوئی ایسی مقدار مقرر نہیں کی ہے کہ اس میں کمی بیشی نہ کی جاسکے بلکہ ان کا قول ہے کہ اس کا انحصار وقت کے لحاظ سے متعارف اور معتاد مقدار پر ہے۔ البتہ ہمارے اصحاب سے تین کپڑوں یعنی قمیض، دوپٹہ اور ازار کا قول منقول ہے۔ ازار سے مراد وہ چادر ہے جس کے ذریعے باہر جانے کی صورت میں اپنا بدن ڈھانپ سکے۔ سلف سے اس کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں۔ ہر قائل نے اپنی رائے اور غالب ظن سے کام لے کر بات کہی ہے۔ اسماعیل بن امیہ نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے وایت کی ہے کہ بہترین متعہ ایک خدمت گار کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ اس سے کم نفقہ اور اس سے کم کپڑے دینا ہے۔ ایاس بن معاویہ نے ابو مجلز سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے متعہ کے متعلق دریافت کیا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں مالدار ہوں اپنی حیثیت کے مطابق فلاں فلاں لباس دیتا ہوں۔ ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے حساب لگایا تو اس کی قیمت تیس درہم بنی۔ عمرو نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ متعہ میں کوئی مقررہ چیز نہیں ہے۔ اس کی مالی حیثیت کے مطابق اس کا اندازہ لگایا جائے گا۔ حماد کا قول ہے کہ مرد عورت کے مہر مثل کے نصف کے مساوی متعہ دے گا۔ عطا بن ابی رباح کا قول ہے کہ سب سے زیادہ گنجائش والا متعہ ایک قمیض، دوپٹہ اور چادر ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ عورت گھر میں جو لباس پہنتی ہو وہی اسے متعہ میں دیا جائے یعنی ایک قمیص، دوپٹہ، چادر اور ایک جلباب یعنی لمبی چادر، یونس نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ تو متعہ میں ایک خدمت گار اور نفقہ دیتے تھے اور کچھ لوگ نفقہ اور لباس دیتے تھے۔ کچھ لوگ اس سے کم یعنی تین کپڑے دیتے تھے۔ ایک قمیص، ایک دوپٹہ اور ایک چادر اور چھ اس سے بھی کم یعنی ایک کپڑا دیتے تھے۔ عمرو بن شعیب نے سعید بن المسیت سے روایت کی ہے کہ بڑھیا متعہ ایک دوپٹہ ہے اور گھٹیا متعہ صرف ایک کپڑا ہے حجاج نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا کہ عورت کو متعہ مرد کے مال کے لحاظ سے دیا جائے گا۔ ان حضرات نے یہ مقداریں اپنی اجتہادی آراء کے مطابق بیان کی ہیں اور کسی نے بھی کسی کی مخالفت اس بنا پر نہیں کی کہ اس کی رائے اس سے مختلف ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے اجتہاد اور ائے کے نتیجے میں متعہ کی درج بالا مقداریں مقرر کیں اور اس کی حیثیت بعینہ وہی ہے جو تلف شدہ اشیاء کی قیمتوں اور جسمانی طور پر نقصان پہنچانے والے جرائم کے جرمانوں کی ہے۔ ان کے لئے نصوص میں متعین مقداریں موجود نہیں ہیں۔
Top